پی ٹی آئی حکومت اپنی ترجیحات پر غور کرے!
خیبرپختونخوا اس وقت اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف صوبائی حکومت ہے جو بظاہر مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن عملی طور پر اسی جماعت کی سابقہ دونوں حکومتوں سے کمزورہے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت ہے جس کی اپنی سیاسی سوچ اور حرکیات ہیں۔ بیچ میں عوام ہیں جو برُی طرح پس رہے ہیں۔ وادی تیراہ کا واقعہ ہو یا اورکزئی اورباجوڑ میں دہشت گردوں کے حملے، صوبائی حکومت کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ سکیورٹی فورسز اور پولیس کے جوان شہید ہورہے ہیں اور ایک طرف مقتدرہ کے صبر کاپیمانہ لبریز ہورہا ہے تو دوسری جانب عوام میں غم وغصے کا لاواپک رہا ہے۔ وادی تیراہ میں پانچ معصوموں کی لاشیں گرگئیں مگریوں لگ رہا تھا کہ حکمران جماعت ہو یا اپوزیشن پارٹیاں وہ شاید اسی موقع کے انتظار میں تھیں۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو سیاست شروع کردی جاتی ہے۔ تیراہ کے واقعے سے قبل وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی جس کا اپوزیشن کی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔وہی سیاسی جماعتیں جو سینیٹ الیکشن میں اپنے مفادات کیلئے اکٹھی بیٹھی تھیں ،مل جل کر اپنے امیدواروں کو کامیاب بھی کروایا، لیکن جب بات عوام کے جان ومال کی حفاظت کی آئی تو انہوں نے بائیکاٹ کردیا۔یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ خیبرپختونخوا دہشت گردی کے نشانے پر ہے لیکن سیاسی بزرجمہر اس موقع پر بھی اتفاق کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔ وزیراعلیٰ کی تقریر نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس کے بعد تیراہ کے عوام ہسپتال اور چھاؤنی پر چڑھ دوڑے ،فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا اور پانچ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ واقعے کے بعد ان علاقوں سے منتخب ارکان اسمبلی نے جس طرح بڑھ چڑھ کر بیانات دیئے وہ بھی افسوسناک ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عوامی نمائندے عوام کے جذبات کو ٹھنڈاکرنے کی کوشش کرتے لیکن ایسا نہیں کیاگیااورواقعے کے بعد سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے بیانات داغے گئے۔ لیکن امن وامان کی ذمہ داری وفاق اور فوج پر ڈال کر صوبائی حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی ،یہ ممکن نہیں کہ عوامی حمایت کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکے۔اس لیے عوامی نمائندوں کو آگے آنا ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں جن کی مدد کے بغیر دہشت گرد کارروائیوں کے بعد فرار نہیں ہوسکتے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر یہ دہشت گرد یہاں آتے کیسے ہیں؟اس کے جواب بہت سے ہیں لیکن سردست صوبائی حکومت کو الزام تراشی کے بجائے وفاق کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔سیاسی مفادات کو پسِ پشت ڈالے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ خیبرپختونخوا میں صورتحال دگر گوں ہے ،قبائلی اضلاع میں شاہراہوں پر دہشت گردوں کا گشت بڑھ گیاہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو کارکردگی بہتر بنانے کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیاگیاتھا جس کے بعد انہوں نے پشاور میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کی اور اچھے اور برُے طالبان کا بیانیہ دیاجس کے بعد بجٹ کی منظوری اور سینیٹ انتخابات میں ہونے والی تنقید کارخ ان سے ہٹ گیا۔وزیراعلیٰ پر پریشر بھی کم ہوگیا مگر ایک بارپھر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے مقتدرہ کو نشانے پر لے لیاہے۔ سونے پر سہاگہ کہ پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا نے وفاق سے قبائلی اضلاع میں آرٹیکل 245ختم کرنے اور فوج کو نکالنے کامطالبہ بھی کیا ہے۔اس مطالبے کے حوالے سے بھی چند دلچسپ نکات سامنے آتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آرٹیکل 245کے تحت صوبائی حکومت کسی بھی علاقے میں فوج بھیجنے کامطالبہ کرسکتی ہے اور صوبائی حکومت کے مطالبے یادرخواست پر ہی اس علاقے سے فوج کو نکالاجاسکتا ہے۔ جب یہ اختیار صوبائی حکومت کو حاصل ہے اور ان علاقوں میں خیبرپختونخوا حکومت امن وامان برقرار رکھ سکتی ہے تو پھر وزیر اعلیٰ خود اس حوالے سے کیوں فیصلہ نہیں کرتے ؟ وفاق کو درخواست کیوں نہیں دیتے کہ فوج یہاں سے نکالی جائے اور امن وامان کے قیام کی ذمہ داری پولیس کو سونپی جائے؟دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے یہ مطالبہ کیوں سامنے آتا ہے؟کیا اس کامقصد مقتدرہ بلکہ صوبائی حکومت پر بھی دباؤ بڑھاناہے؟اسے سوائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے اور کیا کہاجاسکتا ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کی پولیس فورس جس کے پاس جذبہ تو ہے لیکن وسائل کی کمی ہے، کیا وہ جدید غیرملکی اسلحے سے لیس دہشت گردوں کا راستہ روک سکتی ہے؟قبائلی علاقوں میں جب تھرمل آلات کے ذریعے پولیس کو نشانہ بنایاجارہا تھا تو پولیس کو پاک فوج کی جانب سے جدید اسلحہ دیاگیا تاکہ ان واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔ قبائلی اضلاع میں امن وامان کی ذمہ داری کا نعرہ بلند کرنا محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔موجودہ حالات میں جب ہر طرف سے ان علاقوں پر دہشت گردوں کی یلغار ہورہی ہے ایسے میں بھلا فوج کو وہاں سے کیسے نکالاجاسکتا ہے؟سیاسی جماعتیں جن کا کام ان علاقوں کے عوام کو اعتماد میں لینا ہے، ان کی ذہن سازی کرنا ہے اورصوبائی حکومت جس نے یہاں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے ہیں اور لوگوں کوروزگار دینا ہے وہ جب لوگوں کی ذہن سازی کے بجائے فوج کے نکالنے کے مطالبات کرے تو حالات ایسے ہی ہوں گے جیسے وادی تیراہ اور باجوڑ میں ہیں۔اس وقت خیبرپختونخوا میں عملًا کوئی حکومت نہیں جو حکومت ہے وہ بھی اپنے سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ اسے شاید عوام کی تکالیف کا احساس نہیں۔ وفاقی حکومت بھی خاموش ہے، شاید اس لئے کہ یہاں کے عوام نے جن کو ووٹ دیا ہے وہ جانیں اور ان کے منتخب عوامی نمائندے۔
ایسے وقت میں جب باجوڑ،اورکزئی اورتیراہ سمیت تمام قبائلی علاقے دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہے ہیں اورآگ کی یہ لپٹیں پشاور تک پہنچ رہی ہیں تحریک انصاف کی حکومت نے پانچ اگست کو ایک بار پھر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ کہاجارہاہے کہ احتجاج پرُامن ہوگا، لیکن ماضی کے واقعات کو دیکھاجائے تو کیاواقعی ایسا ہی ہوگا؟اپوزیشن کی جانب سے بھی حکومت گرانے کی باتیں ہورہی ہیں،دعویٰ کیا جارہاہے کہ پی ٹی آئی کے25 سے 30 اراکین ان کا ساتھ دے سکتے ہیں، لیکن یہ دعویٰ مبالغہ آرائی لگتا ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے پارٹی کے اندر مخالفین ہیں جو اُن کے خلاف جاسکتے ہیں لیکن پارٹی پوزیشن کے خلاف جانا ان کیلئے انتہائی مشکل ہوگا۔ماضی میں جو اراکین اسمبلی پارٹی پوزیشن کے خلاف گئے انہیں شدید عوامی غیض وغضب کا سامنا کرناپڑا۔ اس کی ہلکی سی جھلک رواں مالی سال کے بجٹ کی منظوری کے دوران ہم دیکھ چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے کابینہ میں اضافہ بھی کرچکے ہیں لیکن یہ سب کافی نہیں۔پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کواپنی ترجیحات پر غور کرنا ہوگابصورت دیگر یہ بازی کسی بھی وقت پلٹ سکتی ہے۔ وقت مٹھی سے ریت کی مانند پھسل رہا ہے، صوبے کے حالات کے مطابق تیسری بار منتخب ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو یکسوئی کے ساتھ فیصلے کرنا ہوگے۔