کراچی،مسائل اور شکوے

تحریر : طلحہ ہاشمی


ملک بھر میں تقریباً ہر سال چینی برآمد اور درآمد سکینڈل سامنے آتا ہے۔ چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ہر سال اربوں روپے امیروں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق موجودہ بحران میں 300 ارب روپے عوام کی جیب سے نکالے گئے ہیں‘ اوریہ کھیل ابھی جاری ہے۔ ملک بھر میں چینی کی قیمت 200روپے فی کلو سے تجاوز کر چکی ہے۔جہاں حکومتی کارروائی کا خطرہ ہے وہاں تو چینی دستیاب ہی نہیں۔  عوام دکان دکان چینی کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ حکومت ایک بار پھر شوگر ملز مالکان کے آگے گھٹنے ٹیک دے گی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر کا کہنا ہے کہ چینی مالکان کی خاطر عوام کوتنگ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے شوگر ملز مالکان کی فہرست فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔اطلا عات کے مطابق جس وقت چینی برآمد کی گئی تھی اُس وقت ایکس مل قیمت 143روپے تھی ‘ اب 173روپے ہے۔ عوام کو بھی اچھی طرح پتا ہے کہ انہیں ہر سال بے وقوف بنایا جاتا ہے، لوٹ مار کی جاتی ہے‘ لیکن وہ بے بس ہیں کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ روتے دھوتے اور شور شرابا کرتے ہیں مگر چینی کے بغیر چائے پینے کو تیار نہیں۔  عوام اگر فیصلہ کرلیں کہ مناسب قیمت پر چینی خریدیں گے اور قیمت بڑھی تو نہیں خریدیں گے تو اس فیصلے کا مثبت اثر ضرورہو گا۔ رہی یہ بات کہ سیاسی جماعتیں کوئی احتجاج کریں گی تو اس پر عوامی رائے یہ ہے کہ اسے بھول جائیں کیونکہ جنہیں احتجاج کرنا ہے مبینہ طور پر شوگر ملیں بھی انہیں کی ہیں۔ وہ مال بٹوریں یا عوام کے لیے احتجاج کریں؟ 

کراچی کے عوام بھی جہاں مہنگی چینی سے متاثر ہیں وہیں ان کے لیے ایک اور برُی خبر بھی ہے کہ نیپرا نے شہر سے 50ارب روپے وصولی کا منصوبہ بنایا ہے اور یہ منصوبہ پورا کیا جائے گا بجلی کمپنی کے ذریعے، یعنی رقم بجلی کے بل میں لگ کر آئے گی۔ نیپرا کے اس فیصلے کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے اور اراکین اسمبلی نے رقم کی وصولی کو بھتہ قرار دیا ہے۔ اجلاس سے خطاب کے دوران سینئر وزیر شرجیل میمن کا کہنا تھاکہ کوئی شخص بل ادا نہ کرے تو اس کی سزا باقی لوگوں کو نہیں دی جاسکتی، پاور کمپنیوں کو اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے کہاکہ کے الیکٹرک تو کراچی کے عوام سے بھتہ وصول کر رہی ہے ،اسمبلی کا مطالبہ ہے کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ دیگر ارکان نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک پری پیڈ میٹر لگائے اور 200 یونٹ سے زیادہ پر فی یونٹ قیمت بڑھانے کا نظام ختم کیا جائے۔

صوبے میں جرائم کی بات کریں تو نوشہروفیروز کے ایک وقوعے نے دل دہلا دیا ہے۔ وقوعہ کچھ یوں ہے کہ ایک لڑکی سے زیادتی کی گئی، پھر مقامی وڈیرے کی سربراہی میں جرگہ ہوا جس میں ملزم سے ہی لڑکی کی شادی کا فیصلہ کیا گیا۔ جرمانہ اور متبادل رشتے بھی فیصلے کا حصہ تھے۔ لڑکی کو وڈیرے کی پناہ میں دے دیا گیا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ملزم نے لڑکی کو اغوا کیا اور پھر قتل کرکے لاش اس کے گھر کے سامنے پھینک دی۔ پولیس کے مطابق ملزم لڑکی کا پھوپھی زاد ہے۔ کیایہ انسانیت ہے کہ جو شخص ظلم کرے اسے ملکی قانون کے مطابق سزا کے بجائے قبائلی یا علاقائی روایت کے نام پر انعام سے نوازا جارہا ہے؟ یہ کیسا نظام ہے کہ مظلوم کو ہی سزا بھگتنی ہے اور وہ بھی زندگی بھر کی۔ حکومت کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسمبلی میں وڈیروں کی بھرمار ہے لیکن تعلیم ہمیں جو شعور دیتی ہے اس کا کچھ تو مظاہرہ اراکین اسمبلی کو کرنا چاہیے۔ کوئی تو اُٹھے جو پہلا پتھر مارے اور تاریخ میں اپنا نام لکھوا لے۔

ادھرکراچی میں ڈکیتی مزاحمت پر قتل کی وارداتوں میں پھر اضافہ ہوچکا ہے۔ ہفتہ بھر میں کئی افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ رواں برس دوران ڈکیتی قتل ہونے والوں کی تعداد 60کے قریب پہنچ چکی ہے۔ شہر کی متعدد سڑکوں پر رات کو بتیاں بند ہوتی ہیں جو ڈکیتوں کے لیے کیموفلاج کا کام کرتی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ لائٹیں جلوانا کس کی ذمہ داری ہے، جو بھی ذمہ دار ادارہ ہے چاہے شہری یا صوبائی، شہر کی سڑکوں پر روشنی کا مناسب انتظام کیا جائے تاکہ عوام کو کچھ تو تحفظ کا احساس ہو۔ سابق میئر اور ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار شہر کی صورتحال پر خاصے برہم نظر آتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ ڈکیتیاں عام ہوچکی ہیں، بسوں کی لائنوں کے نام پر سڑکوں کو کھود ڈالا گیا ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ حکومت کراچی کو صوبے کا حصہ نہیں سمجھتی، کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ بھی یہ کہنا شروع کردیں۔ فاروق ستار کی بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ شہر کا ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے، حکومت کو نئے سرے سے منصوبہ بندی پر توجہ دینی ہوگی۔بلند و بالا عمارتیں بن رہی ہیں، ملک بھر سے عوام کی مسلسل آمد بھی جاری ہے، ایسے میں شہری ڈھانچے کی مرمت نہیں بلکہ نیا ڈھانچہ بنانا ہوگا۔

سیاسی میدان سے یہ خبر ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے جونیئر ذوالفقار علی بھٹو نے لاڑکانہ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے تنہا ہی پرواز کا فیصلہ کیا ہے۔ ذوالفقار جونیئر کا کہنا تھا کہ وہ امیروں کی طرح سیاست نہیں کریں گے بلکہ نئی سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ساتھ ہی صوبے کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ برداشت نہ کرنے کا بھی اعلان کردیا۔ دیکھتے ہیں ان کی سیاست کس حد تک کامیاب رہتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭