دل کے مریضوں کیلئے حکومت پنجاب کے اقدامات:شوگر ملز مافیا کا توڑ کیوں ممکن نہیں؟

تحریر : سلمان غنی


لاہورسے کراچی کیلئے بزنس ٹرین کا آغاز وزارت ریلوے کی ایک اہم کاوش ہے جس کا کریڈٹ وزیر ریلوے حنیف عباسی کو جاتا ہے۔ اس حوالہ سے افتتاحی تقریب سے وزیراعظم شہباز شریف کا خطاب وزارت ریلوے کی کارکردگی کے حوالہ سے اہم تھا تو دوسری جانب انہوں نے اپنی حکومت کے اندرونی اور بیرونی محاذ پر کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کیا اور خصوصی طور پر بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چار روزہ پاک بھارت جنگ خطرناک تھی مگرہم نے جیتی اور دنیا نے ہمارے نا قابل تسخیرہونے کا اعتراف کیا۔ ہماری فوج اور فضائیہ کی تحسین ہوئی اورجو لوگ سمجھتے تھے کہ پاکستان بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس جنگ کے بعد یہ سوچ ختم ہو گئی۔ بلا شبہ حکومت اور فوجی قیادت کے جرأت مندانہ فیصلوں کے نتیجہ میں پاکستان سرخروہوا مگر حکومت کیلئے اس وقت بڑا چیلنج معاشی ہے ۔ معاشی اشاریے بہترہونے کے باوجود ان کے ثمرات جب تک مسائل زدہ عوام تک نہیں پہنچیں گے حکومت سیاسی محاذ پر سرخرونہیں ہو سکتی ۔وزیر اعظم اپنی تقاریر میں عام آ دمی کی بات کرتے اور ان پر معاشی دباؤ کم کرے کی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں مگر عملًا صورتحال کیا ہے اس پر انہیں ضرور توجہ دیناہو گی ۔جہاں تک ریلوے کی کارکردگی کا سوال ہے تو بلا شبہ یہاں حالات بہترہوئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ریلوے شدید خسارہ کا شکار تھی اور اس کی نجکاری کی باتیں ہو رہی تھیں مگرریلوے کو چلانے اور خسارے سے نکالنے میں پہلے سابق وزیر خواجہ سعد رفیق نے زور لگایا، ریلوے کی زمینیں واگزار کرائیں، ریلوے سٹیشنوں کی حالت کو بہتر کیا ،اور اب حنیف عباسی اس محاذ پر خود کو منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے افتتاحی تقریب میں خوشی کا اظہارکیا اور کہا کہ ہم اداروں کی ترقی اور بہتری کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کا پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالہ سے کلیدی کردار ہے لہٰذا ریلوے کے حالات میں بہتری خوشی کی بات ہے۔

 ابھی تک وزیراعظم کا بڑا کریڈٹ معیشت کی بحالی اور ترقی ہے۔اس میں اصلاحات کا سلسلہ جاری نظر آتا ہے مگر اس ترقی کے سفر کا دارومدار عوام کے اطمینان پر ہے۔ وزیر اعظم مہنگائی کے خاتمہ کی بات کرتے نظر آتے ہیں اور اچھے دنوں کی نوید دے رہے ہیں مگر عملًا مہنگائی کے حوالہ سے انہیں زمینی حقائق کا ادراک ضرورہونا چاہیے۔ اس لیے کہ حکومتی دعوے اپنی جگہ مگرمنافع خور اور ذخیرہ اندوز اپنا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آ رہے۔ چینی کی قیمتوں کا بحران حکومت کے لیے بڑا امتحان ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں شوگر ملز مالکان کی جانب سے 300 ارب روپے کمانے کے بیان نے بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ شوگر کی برآمد کے مذموم کھیل نے حکومت کی شہرت کو متاثر کیا ہے اور اس کھیل میں شوگر مافیا کو حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ قومی سیاست میں بھی شوگر مافیا کا کردار ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ طاقتور مافیا حکومتوں کے توڑ جوڑ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طاقتور لابی کا اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپانہیں۔ یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر اپنے اربوں کے سالانہ منافع میں کمی برداشت نہیں کر سکتے ۔کئی کمیشن اور کمیٹیاں بنیں، ان کی رپورٹیں سامنے آئیں مگر اس طاقتور لابی کے سامنے کچھ نہ ٹھہر سکا ۔یہ صورتحال وزیراعظم شہبا ز شریف کی حکومت کے لیے بھی چیلنج بن چکی ہے۔ اس سے صرفِ نظرممکن نہیں ۔ چینی کی مٹھاس غریب کی زندگی میں کڑواہٹ پیدا کئے ہوئے ہے، مگر حکومت شوگر مافیا سے ڈری ڈری لگ رہی ہے۔مگر عوام کے اندرموجود ردعمل کا بھی اسے ادراک ہونا چاہیے۔

 پی ٹی آئی کی جانب سے پانچ اگست کے احتجاج کیلئے ابھی کیفیت طاری نہیں ہو پائی ۔ اس کی بڑی وجہ جماعت کے اندر کی کنفیوژن ہے۔ پہلے یہ کنفیوژن احتجاج اور ڈائیلاگ کے حوالہ سے تھی کہ کیسے آگے بڑھا جائے مگر اب نئی کنفیوژن بانی پی ٹی آئی کے صاحبزادوں کی پاکستان آمد کے حوالہ سے ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور بچوں کی والدہ جمائمہ گولڈ سمتھ اس حوالہ سے کوئی رسک لینے کوتیارنہیں مگر جماعت چاہتی ہے کہ وہ آئیں اور آکر احتجاج کا رنگ جمائیں۔ لیکن زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے  تو بانی پی ٹی آئی خود بھی احتجاجی کیفیت طاری نہ ہونے پر نالاں ہیں ۔وہ پارٹی میں اختلافات کے خاتمہ کی بات کرتے اور احتجاج پر توجہ مبذول کرنے پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ مگر اب جب پانچ اگست میں چند روز باقی ہیں تو نہ احتجاج نظر آ رہا ہے نہ احتجاجی کیفیت طاری ہے اور انسدادِ دہشت گردی عدالتوں سے نو مئی کے مقدمات کے فیصلوں کے بعد نا اہلیوں نے تحریک انصاف کی سرگرمیوں پر جو اثرات پیدا کیے ہیں وہ بھی اچھے نہیں ۔ مایوسی ہے جو ختم ہونے کانام نہیں لے رہی۔ بلا شبہ ایک مشکل اور کٹھن صورتحال ہے ۔کوئی سیاسی راستہ بنتا نظرنہیں ا ٓرہا ۔اس کی وجہ حکومت سے زیادہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ ہے، جس میں خود اپنی حکمت عملی کے حوالہ سے یکسوئی اور سنجیدگی کا فقدان ہے۔ جو خود پارٹی کارکنوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اب بڑا چیلنج احتجاج کا ہے ۔اگر پارٹی کے اندر اس حوالہ سے تحریک نہ ہو گی تو عام آدمی اس کا حصہ کیونکر بنے گا ؟ پاکستان میں پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اپوزیشن جس احتجاج کی بات کر رہی ہے اس میں عام آدمی کو درپیش مسائل کا ذکرنہیں۔ کوئی عوام کی آواز بننے کو تیارنہیں۔ یہ صورتحال صرف پی ٹی آئی کیلئے نہیں سیاست اور سبھی اہل سیاست کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ مہنگائی زدہ عوام کو سیاسی جماعتوں سے اور سیاسی جماعتوں کو مسائل زدہ عوام سے کوئی توقع نہیں۔ یہ رجحان پاکستان میں جمہو ریت اور سیاست کیلئے خطرناک ہے ۔اس لیے کہ جس سیاست میں عوام کا کوئی کردار نہیں اس کا مستقبل کیا ہو گا؟

ادھر پنجاب حکومت کی جانب سے صحت عامہ کے حوالہ سے اقدامات کاسلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے  ضلع کی سطح پر بڑے ہسپتالوں میں انجیو پلاسٹی کے انتظامات کے احکامات جاری کیے ہیں۔ یقینا یہ ایک احسن اقدام ہے۔ کہا گیا ہے کہ ہر ضلع میں کارڈیالوجسٹ موجودہوں گے۔ ضروری سہولیات اور جدید لیبارٹریوں کا بندوبست بھی ہو گا تاکہ دل کے مریضوں کو اپنے اضلاع میں ہی سہولتیں مل سکیں۔ دل کے امراض بہت بڑھ گئے ہیں اور چھوٹے شہروں میں سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو لاہور یا دیگر بڑے شہروں میں لایا جاتا ہے۔ اگر مقامی سطح پر ضروری سہولیات ہوں تو یہ بڑی عوامی خدمت ہو گی۔ اس کیلئے مؤثر مانیٹرنگ درکارہو گی تا کہ اچھے کارڈیالوجسٹ سرکاری ہسپتالوں میں ہوں اور ضروری سامان بھی میسرہو۔ وزیراعلیٰ مریم نواز جس جذبہ سے یہ کر رہی ہیں اسی جذبہ سے محکمہ صحت اور اس کے حکام کو بھی اپنا کردار ادا کرناہو گا۔ بلا شبہ دونوں وزرائے صحت ،خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران کے دلوں میں خدا کا خوف ہے اور وہ خلوص اور جذبہ کے ساتھ بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں ،مگر بنیادی ذمہ داری جن کی ہے ان کے اندر تحریک پیدا کیے بغیر نتائج یقینی بننا مشکل ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔