پانچ اگست کو تحریک انصاف کا احتجاجی پلان کیا؟

تحریر : عدیل وڑائچ


پاکستان تحریک انصاف اب تک کی کمزور ترین حالت میں پہنچنے کے بعد بھی سیاسی نظام میں کسی نہ کسی طرح اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔گزشتہ دو ہفتے تو اسی بحث میں گزر گئے کہ بانی پی ٹی آئی کے دونوں صاحبزادے قاسم اور سلیمان پاکستان آئیں گے تو کیا ہوگا؟

پاکستان تحریک انصاف پانچ اگست کو احتجاج کی کال دے چکی ہے دوسری جانب حکومت نے بھی اس احتجاج سے نمٹنے کے لئے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ 26 نومبر 2024 ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر نکلنے کی کال دے چکی ہے۔ اگرچہ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ احتجاجی مارچ کا رخ اسلام آباد کی جانب ہو گا یا یہ صرف صوبوں کی حد تک ہو گا۔ ایوانوں میں بیٹھی پاکستان تحریک انصاف کی بڑی لیڈر شپ کے خلاف سخت قانونی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔پہلے 9 مئی کے دو مقدمات میں تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو دس دس سال کی سزائیں سنائی گئیں اس کے فوری بعد ہی الیکشن کمیشن نے ان سزاؤں کی بنیاد پر اراکین کو نا اہل قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن نے سینیٹر اعجاز چوہدری ، پنجاب میں اپوزیشن لیڈر احمد بھچر ، رکن قومی اسمبلی احمد چٹھہ اور عبداللطیف چترالی کو 9 مئی کے کیسز میں سزا یافتہ ہونے پر نا اہل قرار دیا ہے۔ احمد چٹھہ کی نشست این اے 66، احمد خان بھچر کی نشست پی پی 87 میانوالی اور میاں اظہر کی وفات کے بعد خالی ہونے و الی نشست این اے 129 پر انتخابات کا شیڈول بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں 9 مئی سے متعلق درجنوں کیسز کے فیصلے آنے ابھی باقی ہیں جس کے نتیجے میں ایوانوں میں پی ٹی آئی کو  مزید دھچکے لگ سکتے ہیں۔ریاست کی 9 مئی سے متعلق مقدمات میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کیسز میں ملوث افراد کے لئے مشکلات بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسے میں جب پاکستان تحریک انصاف اندرونی طور پر اختلافات اور سازشوں میں گھری ہوئی ہے اس کی لیڈرشپ یا تو جیلوں میں ہے یا روپوش ہے۔ جو ایوانوں میں ہیں وہ بھی اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کا اپنا ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے مگر اس سب کے باوجود سیاست کا میدان خالی نہیں۔  ٹاک شوز ہوں، پریس کانفرنسز یا سوشل میڈیا تحریک انصاف زخمی حالت میں بھی کسی نہ کسی طرح حکومت کو انگیج رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے خلاف کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے صاحبزادوں کو ہی دیکھ لیں، گزشتہ کئی روز سے پاکستان کی سیاسی میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنااللہ ہوں، وزیر دفاع خواجہ آصف یا پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری بانی پی ٹی آئی کے دونوں بیٹوں کی پاکستان آمد سے متعلق خبروں پر ایک کے بعد ایک رد عمل دے رہے ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے تحریک انصاف یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ قاسم اور سلیمان پاکستان آکر اپنے والد کی رہائی کیلئے احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ جب وہ برطانیہ سے امریکا گئے اور وہاں ملاقاتوں میں انہوں نے اپنے والد کی رہائی اور ان کے حقوق سے متعلق بات چیت کی تو وہ پاکستانی سیاست میں موضوع بحث رہے۔ بانی پی ٹی آئی نے گزشتہ روز جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے دونوں بیٹے پاکستان نہیں آرہے ، انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کسی احتجاجی تحریک میں شریک نہیں ہوں گے ، احتجاجی تحریک پارٹی نے چلانی ہے جس کے لئے ہدایات دے دی گئی ہیں۔ اس کے بعد وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بیٹوں کا پاکستان آنا ایک ڈرامہ تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس صورتحال میں ردعمل دینا پڑا۔ پاکستان تحریک انصاف نے ان خبروں کی تردید جاری کی کہ عمران خان نے اپنے بیٹوں کو پاکستان آنے یا کسی سرگرمی میں حصہ لینے سے روکا ہے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ عمران خان کے بچوں کے بار ے میں میڈیا پر چلنے والی خبر یں غلط ہیں اور انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ 

ایسے میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف 5 اگست کو واقعی کچھ بڑا شو کر سکے گی ؟ بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ پی ٹی آئی کی اپنی حکمت عملی بھی ایسی نہیں ہے کہ پانچ اگست کو وہ احتجاج کے ذریعے حکومت کے ناک میں دم کر دے ۔ پی ٹی آئی اپنے احتجاج سے متعلق تمام فیصلہ سازی تحریک تحفظ آئین کے پلیٹ فارم پر لے جا چکی ہے ، محمود خان اچکزئی ، علامہ راجہ ناصر عباس، صاحبزادہ حامد رضا، سلمان اکرم راجہ ، عمرایوب اور علی امین گنڈا پور تحریک انصاف کی  احتجاجی تحریک کی فیصلہ سازی میں شامل ہیں۔ اس فورم کا اپنا خیال یہ ہے کہ موجودہ تحریک میں کارکن باہر نکلنے کی پوزیشن  میں نہیں ہیں کیونکہ بانی پی ٹی آئی کے جیل جانے کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے رویے نے کارکنوں کو بہت مایوس کیا ہے ۔ کارکن اس وقت تک باہر نہیں نکلیں گے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو کہ لیڈر شپ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں ہے یا ان کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے۔ ایسے میں پہلے پاکستان تحریک انصاف کو اپنی ساکھ بحال کرنی ہے اور اس کے لئے چھوٹے موٹے ایونٹس کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی ہے۔ امکان یہی ہے کہ پانچ اگست سے متعلق اسلام آباد کا رخ کرنے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف شہروں کی سطح پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کرے گی اور اس کے بعد پبلک رسپانس دیکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل بنایا جائے گا۔ 26 نومبر 2024ء کی طرز پر لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے جیسا پلان مستقبل قریب میں نظر نہیں آرہا۔ بانی پی ٹی آئی کے صاحبزادے قاسم اور سلیمان بھی ابھی پاکستان نہیں آرہے۔ وہ صرف اسی صورت پاکستان آئیں گے جب انہیں یقین ہو جائے گا کہ پاکستان تحریک انصاف ایسا مومینٹم پکڑ چکی ہے کہ کوئی  تحریک چلائی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کی خالی ہونے و الی نشستوں پر آنے والے ہفتوں میں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں ، ان حلقوں کی سطح پر سیاسی مقابلے میں دلچسپ صورتحال پیدا ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔