منافقانہ عادات سے بچیے

تحریر : مولاناحافظ فضل الرحیم اشرفی


’’بیشک منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے‘‘(النساء: 145) خیانت ، جھوٹ، عہد شکنی اور بد زبانی منافق کی پہچان ہیں

حدیث نبویﷺ ہے : حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیﷺ نے فرمایا کہ ’’چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔ وہ چاروں عادتیں یہ ہیں کہ جب اس کو کسی امانت کا امین بنایا جائے تو اس میں خیانت کرے، جب باتیں کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد معاہدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب کسی سے جھگڑا اور اختلاف ہو تو بدزبانی کرے‘‘۔

حقیقی اور اصلی نفاق، انسان کی جس بدترین حالت کا نام ہے وہ تو یہ ہے کہ آدمی نے دل سے تو اسلام قبول نہ کیا ہو (بلکہ دل سے اس کا منکر اور مخالف ہو) لیکن کسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مومن مسلم ظاہر کرتا ہو جیسا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں عبداللہ بن ابی وغیرہ مشہور منافقین کا حال تھا، یہ نفاق دراصل بدترین اور ذلیل ترین قسم کا کفر ہے اور ان ہی منافقین کے بارہ میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ ’’المنافقین فی الدرک الا سفل من النار‘‘ ضرور بالضرور یہ منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ڈالے جائیں گے (سورۃ النساء: 145)۔ لیکن بعض بری عادتیں اور بد خصلتیں بھی ایسی ہیں جن کو ان منافقین سے خاص نسبت اور مناسبت ہے اور وہ دراصل ان ہی کی عادتیں اور خصلتیں ہیں اور کسی صاحب ایمان میں ان کی پرچھائیں بھی نہیں ہونی چاہیے۔

اگر بدقسمتی سے کسی مسلمان میں ان میں سے کوئی عادت ہو تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس میں یہ منافقانہ عادت ہے اور اگر کسی میں بدبختی سے منافقوں والی وہ ساری عادتیں جمع ہو جائیں تو سمجھا جائے گا کہ وہ شخص اپنے کردار میں پورا منافق ہے۔ الغرض ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا نفاق ہے، جو کفر کی بدترین قسم ہے، لیکن اس کے علاوہ کسی شخص کے کردار کا منافقوں والا کردار ہونا بھی ایک قسم کا نفاق ہے، مگر وہ عقیدے کا نہیں بلکہ سیرت اور کردار کا نفاق ہے، اور ایک مسلمان کیلئے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ کفر و شرک اور اعتقادی نفاق کی نجاست سے بچے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ منافقانہ کردار اور منافقانہ اعمال و اخلاق کی گندگی سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے خصائل نفاق میں سے چار کا ذکر فرمایا ہے۔ (1) خیانت، (2) جھوٹ، (3) عہد شکنی، (4) بدزبانی اور ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو اس کو سمجھنا چاہیے کہ اس میں منافقانہ خصلت ہے اور جس میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہوں وہ اپنے کردار میں خالص منافق ہے۔

ان عادات کے علاوہ اور بھی منافقانہ عادات کا تذکرہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے کبھی جہاد کیا اور نہ اپنے جی میں اس کی تجویزیں سوچیں اور نہ تمنا کی، تو وہ نفاق کی ایک صفت پر مرا‘‘۔ یعنی ایسی زندگی جس میں دعوائے ایمان کے باوجود نہ کبھی راہِ خدا میں جہاد کی نوبت آئے اور نہ دل میں اس کا شوق اور اس کی تمنا ہو، یہ منافقوں کی زندگی ہے اور جو اسی حال میں اس دنیا سے جائے گا وہ نفاق کی ایک صفت کے ساتھ جائے گا۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ یہ تو منافق والی نماز ہے کہ بے پروائی سے بیٹھا آفتاب کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ زرد ہو گیا اور اس کے غروب ہونے کا وقت قریب آگیا تو نماز کو کھڑا ہوا اور چڑیا کی طرح چار چونچیں مار کے ختم کر دی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی اس میں بہت تھوڑا کیا‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ مومن کی شان تو یہ ہے کہ شوق کی بے چینی سے نماز کے وقت کا منتظر رہے، اور جب وقت آئے تو خوشی اور مستعدی سے نماز کیلئے کھڑا ہو اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس وقت مجھے مالک الملک کے دربارعالیٰ کی حضوری نصیب ہے، پورے اطمینان اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے، اور قیام و قعود اور رکوع و سجود میں خوب اللہ تعالیٰ کو یاد کرے، اور اس سے اپنے دل کو شاد کرے، لیکن منافقوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نماز ان کیلئے ایک بوجھ ہوتی ہے، وقت جانے پر بھی اس کو ٹالتے رہتے ہیں، مثلاً عصر کی نماز کیلئے اس وقت اٹھتے ہیں، جب سورج بالکل ڈوبنے کے قریب ہو جاتا ہے، اور بس چڑیا کی سی چار چونچیں مار کر نماز پوری کر دیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا نام بھی بس برائے نام ہی لیتے ہیں، پس یہ نماز منافق کی نماز اور جو کوئی ایسی نماز پڑھتا ہے وہ مخلص مومنوں والی نہیں بلکہ منافقوں والی نماز پڑھتا ہے۔

حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مسجد میں ہو، اور اذان ہو جائے اور وہ اس کے بعد بھی بلا کسی خاص ضرورت کے مسجد سے باہر چلا جائے اور نماز میں شرکت کیلئے واپسی کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو، تو وہ منافق ہے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جو شخص مسجد میں ہو اور اذان ہو جائے اور وہ اس کے بعد بھی بلا کسی خاص ضرورت کے مسجد سے باہر چلا جائے اور نماز میں شرکت کیلئے واپسی کا ارادہ بھی رکھتا ہو، تو وہ منافق ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ یہ منافقانہ طرز عمل ہے، پس ایسا کرنے والا اگر عقیدے کا منافق نہیں ہے تو وہ منافق عمل ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو ایمان کاملہ اور اعمال صالحہ کی دولت سے نوازے اور ہر طرح کی منافقانہ عادات سے حفاظت فرمائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔