عالمی طاقتوں کی بے حسی
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی تاریخ 77سال پرانی ہے ، گزشتہ 7دہاِئیوں سے عالمی برادری کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و جبر دیکھ رہی ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی دست ظالم کو روکنے کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل،یورپی یونین، آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن، شنگھائی تعاون تنطیم(ایس سی او)، اقتصادی تعاون تنطیم (ای سی او)، خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی ) اور سارک سمیت بڑے بڑے ناموں والے تمام ادارے ، جو اپنے تئیں دنیا کے ٹھیکیدار بنتے ہیں ، مسئلہ کشمیر پر خاموش نظر آتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے ہر دور میں اقدامات کیے گئے ، عالمی فورمز پر بھارتی مظالم و درندگی کے ثبوت پیش کیے گئے مگر عالمی ادارے بت بنے تماشہ دیکھتے رہے۔ خاص طور پر 5اگست 2019ء کو جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر شب خون مارا تو پاکستان نے فوری طور پر ردعمل دیتے ہوئے بھارتی اقدام کو مسترد کردیا اور اس غیر قانونی اقدام کے خلاف تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا۔ اس ضمن میں پاکستان نے دنیا کو باور کروایا کہ مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر متنازع علاقہ ہے اور کوئی یک طرفہ اقدام اس حیثیت کو بدل نہیں سکتا۔ پاکستان کی کاوش سے 16 اگست کو او آئی سی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں کشمیر تنازعے پر پاکستان کے مؤقف کی ایک بار پھر تائید کی گئی۔
مسئلہ کشمیر پر خاموش رہنے والی عالمی برادری اپنے مفادات کے تابع کئی بین الاقوامی تنازعات کے حوالے سے اس تیزی سے حرکت میں آئی کہ دنیا کو حیران کردیا۔ سوڈان، الجزائر،مشرقی تیمور جیسے مسائل کو چند دنوں میں حل کرنے کا سہرا اپنے سر باندھنے والے ان اداروں کو مقبوضہ کشمیر کا نام آتے ہی جانے کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے۔مشرقی تیمور کا مسئلہ سامنے آیا تو اقوام متحدہ نے 1999ء میں ریفرنڈم کا انعقاد کر کے مشرقی تیمور کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔اقوام متحدہ کے مشن ان سوڈان(UNMIS) نے 2005ء کے جامع امن معاہدے کے نفاذ کی مکمل طور پر حمایت کی جس میں سوڈان امن عمل میں موجود فریقین کو سیاسی مدد کی فراہمی اور ان کے حفاطتی انتظامات کی نگرانی کی۔ ان فریقین کیلئے متعدد شعبوں میں تکنیکی اور لاجسٹک معاونت فراہم کی۔ جنوری 2011 ء میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں جنوبی سوڈان کی حیثیت کے تعین کیلئے ریفرنڈم ہوا۔جس کے نتیجے میں جولائی 2011ء کو جمہوریہ جنوبی سوڈان کو اقوام متحدہ کے 193ویں ممبر کی حیثیت سے قبول کیا گیا۔ اس سے پہلے الجزائر کے مسئلے پرفروری 1957ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی بار بحث کی گئی۔صرف دو سال بعد 1959ء تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 4 دفعہ الجزائر کے مسئلے پر بحث کی گئی،جس سے اس تنازع میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ الجزائر کا مسئلہ فرانس اور الجزائر کے شہریوں کے درمیان کشمکش کا نتیجہ تھا ، جس کی وجہ الجزائر کے لوگوں کا خود مختاری کا مطالبہ تھا۔ صرف پانچ سال بعد، یکم جولائی 1962 ء کو فرانسیسی الجزائر میں ریفرنڈم ہوا،جس کے نتیجے میں فرانس نے 3جولائی کو الجزائر کی آزادی کا اعلان کیا۔ 8اکتوبر 1962 ء کو الجزئر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا 109واں ممبر بن گیا۔
مقبوضہ کشمیر کا معاملہ الگ ہے ،سرزمین جموں و کشمیر پر بہتے لہو کا رنگ بھی دنیا کے دیگر خطوں میں بسنے والے لوگوں کی طرح سرخ ہی ہے، بھارتی گولیوں کا نشانہ بنتے بچے بھی یورپی بچوں کی طرح معصوم ہیں، بھارتی فوجیوں کی ہوس کا نشانہ بنتی کشمیری خواتین بھی امریکہ و برطانوی خواتین کی طرح جینے کا حق رکھتی ہیں۔ پھر یہ ادارے بھارت کو بین الاقوامی جرائم کا مرتکب ہونے کے باوجود گرفت میں کیوں نہیں لیتے، خواب خرگوش سے کیوں نہیں جاگتے، خواب غفلت سے بیدار کیوں نہیں ہوتے۔ کیا کشمیری انسان نہیں ہیں یا ان کے حقوق نہیں ہیں۔
ویسے تو بھارت نے گزشتہ سات دہائیوں میں ظلم کا کوئی ہتھکنڈہ ایسا نہیں چھوڑا جو کشمیریوں پر نہ آزمایا نہ گیا ہو مگر بین الاقوامی ادارے صرف زبانی جمع تفریق اور ڈھکی چھپی لفظی مذمت سے آگے نہ بڑھے۔ بین الاقوامی اداروں کی اسی بے حسی نے بھارت کی ہندتوا سوچ کو شہہ دی اور اس نے 5اگست 2019ء کو آرٹیکل 370ختم کرکے وہ قدم اٹھایا جو اقوام متحدہ جیسے ادارے کو کھلا چیلنج تھا۔مگر شاید اقوام متحدہ کا حرکت میں آنا بھی اس کے ’’بااثر اراکین‘‘ کے مفادات کے تابع ہے اس لیے کشمیر کے معاملے پر اس بین الاقوامی ادارے پر ایسا جمود طاری رہا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
دنیا میں ترکی، ملائشیا اور چین وہ ممالک تھے جنھوں نے ہر فورم پر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھارت کی گرفت کی مگر عالمی اداروں میں تحرک پیدا نہ ہوا۔ اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کے چار مستقل ارکان ،امریکہ،روس،برطانیہ اور فرانس نے چین کی اس تجویز کو مسترد کر دیا، جس میں اقوام متحدہ کو کشمیر تنازعہ کو ازخود اٹھانے کا کہا گیا تھا۔اگرچہ انفرادی طور پر امریکہ نے کشمیر تنازعہ پر ثالثی کا قردار ادا کرنے کی پیشکش کی، جس کو پاکستان نے سراہا البتہ بھارت نے اس تنازعہ کو اندرونی مسئلہ قرار دے کر امریکہ کی پیشکش کو مسترد کردیا۔
اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کا کردار
ہر امن پسند ملک جو اقوام ِ متحدہ کے چار ٹر کی شرائط تسلیم کرے، ان شرائط کو پورا کرسکے اور اقوام ِ متحدہ کی ذمے داریوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہو ، برابری کی بنیاد پر اقوام ِ متحدہ کا رکن بن سکتا ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد 193 ہے۔ اس ادارے کی فعالیت کے چھ مرکزی و اہم ادارے ہیں۔
(1) بین الاقوامی عدالت انصاف: تمام رکن ریاستوں کے درمیان تنازعات پر اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ اس کے ججز کی تعداد 15پر مشتمل ہے۔
(2) اقوام متحدہ سیکریٹریٹ : یہ ادارے کے انتظامی و مالی اْمور کی تیاری اور فعالیت کی ذمے داریاں سرانجام دیتا ہے۔
(3) اقوام متحدہ جنرل اسمبلی: تمام اراکین کی مشترکہ اسمبلی ہے ، اس کا کام امن و امان کی خاطر بین الاقوامی اصولوں پر غور کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرنا ہے۔
(4) ٹرسٹی شپ کونسل: یہ ادارہ علاقہ جات کیلئے نو آباد کاری کے انتظامات کیلئے قائم ہوا تھا لیکن 1994ء میں اسے غیر فعال کردیا گیا۔
(5) اقوام ِ متحدہ اقتصادی اور سماجی کونسل : اس کا کام عالمی اقتصادی اور سماجی اْمورپر تعاون پیدا کرنا ہے۔
(6) سلامتی کونسل یا سکیورٹی کونسل : اس کا کام دنیا بھر میں امن اور سلامتی قائم رکھنا ہے۔
گزشتہ چھ ماہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دو مرتبہ اپنے فورم پر مسئلہ کشمیر پر غور کیا ہے تاہم یہ سب ایک رسمی کام کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ان اجلاسوں کا نتیجہ بے سود رہا۔
عالمی اقتصادی تنظیم کا کردار
9 نومبر 2019ء کو پاکستان نے عالمی اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں ہندوستان کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بالخصوص خواتین اور بچوں پر ظلم و بربریت کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی۔پاکستان کی جانب سے عالمی اقتصادی تنظیم کو احساس دلایا گیا کہ وہ انصاف کیلئے کھڑے ہوں اور اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق اس دیرینہ تنازعہ کے پرامن حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔
سارک کا کردار
15 مئی 2020ء کو سارک ویڈیو کانفرنس میں پاکستان نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ہیلتھ ایمرجنسی کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر سے غیر قانونی فوجی محاصرہ ختم کرے اور مواصلاتی نظام کو بحال کرے۔