چارٹر آف کراچی کی بازگشت

تحریر : طلحہ ہاشمی


جشنِ آزادی کی تیاریاں عروج پر ہیں، جگہ جگہ سٹالز سج گئے ہیں جن پر جھنڈوں اور آرائشی اشیا کے ساتھ باجے بھی فروخت ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے باجوں پر عرصے سے پابندی عائد کی گئی ہے مگر بھلا ہو دکانداروں اور خریداروں کا جو پابندی کو دھڑلے سے نظر انداز کرتے ہیں۔

گزشتہ برس بھی ان باجوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا تھا اس بار بھی لگتا ہے کہ پابندی پر عمل کرانے کی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہورہی۔صوبائی حکومت ہو یا شہر ی انتظامیہ آلودگی پر سب بات کرتے ہیں لیکن عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔فضائی آلودگی جس طرح انسانوں کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے اسی طرح صوتی آلودگی بھی کم نقصان دہ نہیں۔ کچھ لوگ ہوائی فائرنگ سے بھی باز نہیں آتے۔ صرف باجے ہی نہیں نوجوان موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر دوڑاتے پھرتے ہیں۔ جہاں دل چاہتا ہے سڑک پر بلاک کردیتے ہیں۔ نوجوانوں کو ہنستا کھیلتا دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے لیکن یہ دکھ بھی ہوتا ہے کہ جشنِ آزادی کا مطلب دوسروں کو تکلیف دینا نہیں ہونا چاہیے۔ انتظامیہ کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جشن ضرور منائیں لیکن دوسروں کا بھی خیال رکھیں اور قانون کی پاسداری کریں۔ وزیر بلدیات سعید غنی نے 13اگست کو آزادی کنسرٹ کا اعلان کیا ہے، اس کا عنوان’’ جشن آزادی اور معرکہ حق‘‘ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ نیشنل سٹیڈیم میں ہونے والا کنسرٹ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کنسرٹ ہوگا۔ 

سندھ حکومت صوبے اور عوام کی ترقی پر کمربستہ نظر آتی ہے۔ سیلاب متاثرین کو مکانات دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری نے ایسی ہی ایک تقریب میں شرکت کی اور متاثرین میں مکانات کے کاغذات تقسیم کیے۔ دوسری جانب سینئر وزیر شرجیل میمن نے روزگار اور معاشی خودمختاری کے لیے معاشی منصوبے کا اعلان کیا۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے گزشتہ دنوں کیماڑی میں فش فوڈ سٹریٹ کا افتتاح کیا اور مزید کئی فوڈ سٹریٹس کے جلد افتتاح کا عندیہ دیا۔ انہوں نے شہر کی ترقی کے لیے سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنے کی دعوت دی۔میئر کراچی کا کہنا تھا کہ تقسیم کی سیاست نے شہر کو صرف نقصان ہی پہنچایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نفرت اور کدورت کا وقت چلا گیا ہے، اب ایک ساتھ بیٹھنے کا وقت ہے‘سب کو مل بیٹھ کر چارٹر آف کراچی پر بات کرتے ہیں۔

سندھ حکومت نے ایک اور بڑا فیصلہ کیا ہے اور وہ ہے عوام کو مہنگی بجلی سے نجات دلانا۔ حکومت کی جانب سے 100یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت سولر سسٹم فراہم کیا جائے گا۔ اس کے لیے درخواستیں 20اگست تک طلب کرلی گئی ہیں۔یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن منصوبے پر بھی کام جاری ہے البتہ کام کی رفتار اتنی سست ہے کہ منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ آس پاس کی سڑکوں کی حالت دگرگوں ہے، گاڑیاں چلنے کے لیے بہت کم جگہ رہ گئی ہے۔ نیو ایم اے جناح روڈ پر گاڑیوں کے شو رومز فٹ پاتھ اور اس کے آگے سڑک پر بھی گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں یوں عوام کے لیے بمشکل ایک ٹریک ہی بچتا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک اکثر جام رہتا ہے۔تھوڑا سا آگے بڑھیں تو پرانی سبزی منڈی اور اس سے آگے حسن سکوائر پر کھانے پینے کی دکانوں کی تجاوزات مزید مسائل کا سبب ہیں اور اس صورتحال سے عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ تجاوزات کا خاتمہ کس کی ذمہ داری ہے؟ حکومت صوبائی ہو یا شہری اتنا تو کرسکتی ہے کہ تجاوزات کا خاتمہ کردے۔ شرجیل میمن کی زیرصدارت اجلاس میں ٹھیکیداروں کو درپیش مسائل پر تو گفتگو ہوئی، عوام کو درپیش مشکلات پر بھی بات ہونی چاہیے۔ سڑک کی حالت بہتر کرائی جانی چاہیے تاکہ عوام کیلئے کچھ تو آسانی ہو۔

کراچی کے عوام کو ایک اور مشکل کا بھی سامنا ہے، میئر مرتضیٰ وہاب کی جانب سے مخصوص علاقوں میں پارکنگ فیس کے خاتمے کا اعلان ہونے کے باوجود ان علاقوں میں پارکنگ فیس اسی طرح وصول کی جارہی ہے مگر کوئی پرچی نہیں دی جاتی۔ پہلے 20یا30روپے کی پرچی تھی لیکن اب موٹرسائیکل کے لیے 50روپے اور گاڑی کے لیے 100روپے مانگے جاتے ہیں۔ کوئی دینے سے انکار کرے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے سے گاڑیاں بہت چوری ہوتی ہیں ہم تو آپ کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں۔ پہلے یہ تھا کہ کم از کم آپ کسی انتظامی عہدیدار یا پارکنگ ٹھیکے دار تک تو پہنچ سکتے تھے اب تو جو افراد پارکنگ فیس وصول کرتے ہیں ان کا تو کوئی اتا ہوتا بھی نہیں۔ شہریوں کو نئی مشکل نے آگھیرا ہے کہ پیسے نہ دیں تو گاڑی چوری ہونے کا خدشہ، گاڑی چوری نہ بھی ہو تو کوئی ہوا نکال دے، لائٹ توڑ دے یا کوئی اور نقصان کردے تو لوگ کیا کریں۔ مجبوراًپیسے دینے پڑتے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ پارکنگ فیس وصولی کی اطلاع انتظامیہ کو دی جائے۔ کیا انتظامیہ شہر کی صورتحال سے بالکل نابلد ہیں؟

سماجی مسائل پر نظر ڈالیں تو سکھر کے تاجر آکاش کمار کی موت نے افسردہ کردیا۔انہوں نے دریائے سندھ میں کود کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔لواحقین کے مطابق کاروباری قرض کی وجہ سے پریشان تھے۔ کاروبار میں نقصان کے باعث اگر کوئی اپنی جان لیتا ہے تووہ یہ قدم تب ہی اٹھاتا ہے جب ہر راستہ مسدود ہوجاتا ہے۔ حکومت کو منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ کاروبار میں نقصان اٹھانے والوں کو تحفظ کا احساس ہو۔ اسی طرح ایک ایسے ادارے کی بھی اشد ضرورت ہے جو کاروباری حضرات کو کاروبار میں نقصان سے بچنے یا کاروبار کو منافع بخش بنانے کے طریقے بتائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔