تحریک نہ چل سکی !
پی ٹی آئی کے بارے میں پہلے ہی یہ کہا جارہا تھا کہ وہ اپنے تنظیمی بحران اور داخلی انتشار کے باعث پانچ اگست کو کوئی بڑی تحریک پیدا نہیں کرسکے گی۔
حکومت بھی پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دینے کے لیے تیار نہیں تاہم پی ٹی آئی والوں کو جہاں موقع ملا انہوں نے اپنا سیاسی شو کیا۔ مگر پنجاب میں ہمیں پی ٹی آئی کی کوئی بھی بڑی تحریک یا احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا۔ مجموعی طور پر پی ٹی آئی کا پانچ اگست کا سیاسی شوکوئی بڑا سیاسی دباؤ پیدا نہیں کرسکا اور نہ ہی حکومت کے لیے یہ احتجاج بڑا خطرہ بن سکا ہے۔پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی نے تاثر دیا تھا کہ ان کی تحریک پانچ اگست سے شروع ہوگی لیکن پی ٹی آئی کی قیادت نے اس تحریک کو محض ایک روزہ یعنی پانچ اگست تک محدود رکھا اور یہ تحریک چند گھنٹوں تک محدود رہی۔
اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن 14اگست کی تحریک کے لیے تیار ی کریں۔یعنی پانچ اگست کی تحریک 14اگست تک چلی گئی ہے اور وہاں بھی کیا ہوگا اس کا پارٹی میں کسی کو بھی انداز ہ نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت تحریک چلانے کے حوالے سے سیاسی ابہام کا شکار ہے اور اس کو کچھ معلوم نہیں کہ ہمیں تحریک کے حوالے سے کیا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سیاسی کارکن پارٹی کی موجودہ قیادت کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں، جن میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی شامل ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی سے زیادہ مقتدرہ کی سیاست کررہے ہیں۔
اصل میں بانی پی ٹی آئی اپنی موجودہ سیاسی قیادت سے ایک بڑی سیاسی تحریک چلانے کی توقع رکھتی ہے لیکن پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کسی بھی بڑی تحریک چلانے کے حق میں نہیں اور اس معاملے پر پارٹی دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ایک گروپ حکومت اور مقتدرہ سے ٹکراؤ کی سیاست چاہتا ہے جبکہ دوسرا مفاہمت کی سیاست کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اب 14اگست کو جس تحریک کی بات کی جارہی ہے اس میں بھی بڑی سیاسی طاقت کے اظہار کا امکان نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی موجودہ حالات میں کسی بھی سطح پر حکومت کے خلاف کچھ بڑا نہیں کرسکے گی۔پی ٹی آئی کے جن ارکان قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو نومئی کے مقدمات میں عدالتوں سے سزا ہوئی انہیں پارلیمانی رکنیت سے بھی نااہل کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا شیڈول بھی جاری کردیا ہے۔
پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ مزید دو درجن سے زائدارکان اسمبلی کی نااہلی کا امکان ہے۔یہ صورتحال پارٹی کے لیے مایوس کن ہے۔ دوسری جانب بانی پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ ان خالی نشستوں پر پارٹی ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ اس فیصلہ پر بھی پارٹی میں دورائے ہے۔ ایک گروپ تمام تر حالات کے باوجود ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا حامی ہے جبکہ دوسری طرف اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ کے اجلاسوں کا سیاسی طور پر بائیکاٹ کرسکتی ہے اور خود کو موجودہ پارلیمانی سیاست سے دور رکھنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ اس لیے اس بات کا سیاسی خطرہ بڑھ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان سیاسی انتشار اور ٹکراؤ یا محاذ آرئی کی سیاست کے امکانات بڑھ رہے ہیں جس سے قومی سیاست مزیدانتشار کی طرف بڑھے گی۔بدقسمتی سے حکومت، مقتدرہ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کی سیاست کو کئی خطرات لاحق ہیں۔ جو کچھ مفاہمت کے امکانات موجود تھے وہ بھی ختم ہورہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ سیاست آنے والے دنوں میں بند دروازوں کی طرف بڑھ رہی ہے اور سیاسی اختلافات سیاسی دشمنی کا روپ دھارنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اگرچہ حکومت مطمئن ہے کہ پی ٹی آئی اس کے لیے بڑا خطرہ پیدا نہیں کرسکے گی مگر حکومت اور پی ٹی آئی میں سیاسی لڑائی بڑھتی ہے تو اس سے جہاں محاذ آرائی بڑھے گی وہیں اس کا نتیجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آئے گا جس کی وجہ سے معاشی عدم استحکام بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی ملک کے سیاسی، معاشی اور سیکورٹی کے حالات بہتر نہیں اور ان سے نمٹنے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، لیکن حالات جس سیاسی محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہے ہیں یہ خود حکومت کے مفاد میں نہیں۔یہ جو پی ٹی آئی کے خلاف سیاست سے طاقت کی بنیاد پر نمٹا جارہا ہے اور جس طرح سے منتخب اراکین کو سیاسی طور پر نااہل کیا جارہا ہے اس سے پارٹی میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ان کو مفاہمت کی سیاست سے کچھ نہیں ملے گا اور آخری حربہ کیلئے کسی بڑی تحریک کی طرف ہی جانا ہوگا۔خود بانی پی ٹی آئی کا سیاسی رویہ بھی جارحانہ نظر آرہا ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں حکومت سے مفاہمت کے حامی نہیں۔ ان کے بیانات حکومت اور مقتدرہ کے خلاف کافی جارحانہ نظر آتے ہیں اور وہ کسی بھی طرح سے سیاسی کمزوری دکھانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ان حالات میں مفاہمت کی سیاست کیسے آگے بڑھ سکے گی، یہ ایک بڑا سوال ہے۔مفاہمت کی سیاست میں نہ تو حکومت لچک دکھارہی ہے اور نہ ہی بانی پی ٹی، یوں سیاست میں مفاہمت کے امکانات کم ہورہے ہیں جو قومی سیاست کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔اس ماحول میں مفاہمت کی سیاست کو کیسے آگے بڑھایا جائے، یہ خود ایک بڑا سیاسی چیلنج ہے کہ سب اس سے کیسے نمٹ سکیں گے۔
ادھر 12 کروڑ سے زائد آبادی والے صوبہ پنجاب میں بے گھر افراد کے لیے ملکی تاریخ کا منفرد منصوبہ’ اپنی چھت، اپنا گھر‘ مقبولیت پکڑ رہا ہے۔ چند ماہ میں 62 ہزار خاندانوں کو 15 لاکھ مالیت کے بلاسود قرضوں کی فراہمی حکومت کا ایک مثالی اقدام ہے۔مالی، مزدور، دیہاڑی دار، ریڑھی بان، معذور اور بے سہارا افراد کی طویل فہرست اس منصوبے سے فیض یاب ہورہی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اس فلاحی منصوبے سے لوگوں کے دہائیوں پر مبنی خواب کو تین ماہ کی قلیل مدت میں پورا کروارہی ہیں۔ شنید ہے کہ ہر سال ایک لاکھ خاندان جبکہ پانچ سالوں میں پانچ لاکھ خاندانوں کو اپنی چھت جیسی نعمت سے نوازا جائے گا۔ اعدادوشمار کے مطابق 14 لاکھ سے زائد افراد اس سکیم کے لیے درخواستیں جمع کروا چکے ہیں۔