برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ !

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


’’جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کر اور جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کرو‘‘(حدیث ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے، اگر اس میں برائی دیکھے تو اس سے دَفع کر دے‘‘

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔ یقینا وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے ظلم کرنے والے کو معاف کرتے اور برائی کو بھلائی سے ٹالتے ہیں۔ برائی کو بھلائی سے ٹالنے کی ترغیب دیتے ہوئے خدائے رحمن عزوجل کا فرمان عالیشان ہے: ’’اے سننے والے! برائی کو بھلائی سے ٹال، جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دُشمنی تھی، ایسا ہو جائے گا جیسا کہ گہرا دوست‘‘(سورہ حم سجدہ:34)

حضرت نبی کریم، نورِ مجسم ﷺ نے حضرت سیدنا عقبہ بن عامر ؓسے ارشاد فرمایا: ’’اے عقبہ بن عامر! جو تم سے ناتا توڑے تم اس سے جوڑو، جو تمہیں محروم کرے تم اُسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کرو‘‘۔ یاد رکھئے! برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان ہے، یہ کوئی کمال نہیں، کمال تو یہ ہے کہ انسان برائی کا بدلہ اچھائی سے دے جیسا کہ حضرت سیدنا شیخ سعدی ؒکہتے ہیں: ’’بدی کا بدلہ بدی سے دینا تو آسان ہے، اگر تو مرد ہے تو برائی کرنے والے کے ساتھ بھی بھلائی کر‘‘۔ 

نجاست کو نجاست سے نہیں بلکہ پانی سے پاک کیا جاتا ہے لہٰذا آپ کے ساتھ کوئی کیسا ہی برا سلوک کرے، آپ اُس سے اچھا سلوک کریں اور اپنا یوں ذہن بنائیے کہ ہم اس دُنیا میں جدائی ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ ملانے کیلئے آئے ہیں۔ 

ہر مسلمان کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرے، خواہ کوئی کتنا ہی ستائے، دِل دُکھائے! ظلم ڈھائے، عفوودرگزر سے کام لیتے ہوئے اس کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرنا چاہئے کہ یہی ہمارے آقا ﷺکی سنت ہے۔اُم المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺنہ تو عادۃً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفاً اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپﷺ معاف کرتے اور دَرگزر فرمایا کرتے تھے۔کاش! ہمارے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم بھی اپنی ذات اور اپنے نفس کی خاطر غصہ کرنا چھوڑ دیں اور برائی کا بدلہ برائی کے ساتھ دینے کی بجائے اچھائی کے ساتھ دینے والے بن جائیں۔

 جس طرح کسی مسلمان میں پائی جانے والی برائیوں یا عیوب کا پیٹھ پیچھے زبان سے بیان کرنا غیبت اور برائی یا عیب نہ ہونے کی صورت میں پیٹھ پیچھے یا اس کے روبرو بیان کرنا بہتان کہلاتا ہے، ایسے ہی لکھ کر چھاپنے کا بھی معاملہ ہے۔ بلااجازت شرعی مسلمان کی کردارکشی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ جو احکام زبان سے کہنے کے ہیں وہی قلم سے لکھنے کے بھی ہیں۔ قلم بھی ایک زبان ہے۔اگر ہم کسی مسلمان میں کوئی عیب یا برائی پائیں تو لوگوں میں اس کا چرچا کر کے اسے ذلیل و رُسوا کرنے کی بجائے حکمت عملی اور نرمی کے ساتھ اس کے عیب یا برائی پر مطلع کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر لے، اگر پھر بھی اس کی اصلاح نہ ہو تو اس کیلئے دُعائے خیر کریں۔ 

حدیث پاکﷺ میں ہے : ’’تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے، اگر اس میں برائی دیکھے تو اس سے دَفع کر دے‘‘۔ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ اللہ عزوجل اس پر رحم کرے جو مجھے میرے عیوب پر مطلع کرے۔ آئینہ اس لئے دیکھتے ہیں کہ اپنے چہرے کے چھوٹے بڑے داغ دھبے نظر آ جائیں۔ طبیب کے پاس اسی لئے جاتے ہیں کہ وہاں علاج ہو جائے، ایسے مومنوں کی صحبت اِکسیر ہے اس لئے صوفیائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کے پاس نہ بیٹھو، جو ہر وقت تمہاری تعریفیں ہی کرتے رہیں بلکہ کبھی کبھی اپنے مرشدوں، اپنے اُستادوں اور اپنے بزرگوں کے پاس بھی بیٹھو جہاں تمہیں اپنی کمتری نظر آئے۔ ہمیشہ حضور نبی کریم ﷺ کی عظمتوں پر غور کیا کرو تاکہ اپنی گنہگاری اور کمتری محسوس ہوتی رہے۔ محققین صوفیاء اس حدیث پاک ﷺکے یہ معنی کرتے ہیں کہ ’’مومن جب کسی مسلمان میں عیب دیکھے تو سمجھے کہ یہ عیب مجھ میں ہے جو اس کے اندر مجھے نظر آ رہا ہے، جیسے آئینے میں جو داغ دھبے نظر آتے ہیں وہ اپنے چہرے کے ہوتے ہیں نہ کہ آئینے کے، یہ معنی نہایت عارفانہ ہیں‘‘، اس صورت میں حدیث پاک میں وارِد الفاظ ’’فَلْیُمِطْ عَنْہُ‘‘ کے معنی یہ ہوں گے کہ مومن کے ذریعے اپنے عیوب معلوم کر کے انہیں دَفع کرو۔ ہاں! اگر کسی کی برائی سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ لوگوں کو اس کے نقصان سے بچانے کیلئے بقدرِ ضرورت صرف اسی برائی کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ 

مسلمان کی جان و مال اور عزت وآبرو کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا کسی مسلمان کے پوشیدہ عیوب کو بلامصلحت شرعی لوگوں کے سامنے بیان کر کے اسے ذلیل و رسوا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے وہ دوسروں کی نظر میں گر جاتا ہے اور شریعت مطہرہ کو یہ بات قطعاً ناپسند ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو لہٰذا مسلمان کی عزت بچانے کیلئے اس کی پردہ پوشی کی جائے۔ مسلمانوں کے عیوب چھپانے اور انہیں ذلیل و رسوا ہونے سے بچانے کی بڑی فضیلت ہے۔  رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ’’ جو شخص اپنے بھائی کا کوئی عیب دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کر دے تو وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا‘‘۔

 ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا:’’ جو اپنے مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرے، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب ظاہر کرے اللہ عزوجل اس کا عیب ظاہر فرمائے گا، یہاں تک کہ اسے اس کے گھر میں رُسوا کر دے گا‘‘۔ 

انسان میں جہاں بیشمار خوبیاں ہوتی ہیں وہاں کچھ نہ کچھ برائیاں بھی ہوتی ہیں لہٰذا اگر کسی مسلمان میں کوئی عیب یا برائی پائیں تو جب تک کوئی مصلحت شرعی نہ ہو تو اس کے عیب یا یرائی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کی طرف نظر کیجئے کہ مومن ہمیشہ اپنے بھائی کی خوبیوں کو سامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں اس کا احترام، عزت اور محبت باقی رہے۔ اللہ عزوجل ہمیں ایک دوسرے کی عزت و آبرو کا محافظ بنائے اور عیب پوشی کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔