آزادی کا رنگ

تحریر : دانیال حسن چغتائی


گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کو تھیں اور موسم بھی پھر شدید گرم ہو چکا تھا۔ ایسے میں صحن کے درمیان کھڑا نیم کا پرانا درخت اپنی چھاؤں پھیلائے کھڑا تھا اور نیچے حمزہ اور اذان آموں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

اذان، تمہیں پتا ہے آزادی کیا ہوتی ہے؟ کھانے کے دوران حمزہ نے اچانک سوال داغا اور ساتھ ہی چارپائی سے چھلانگ مار کر نیچے اتر آیا۔

اذان نے چونک کر اسے دیکھا، ہم ہر سال جھنڈیاں لگا کر جشن مناتے ہیں، یہی تو ہوتی ہے آزادی؟ اور کیا ہوتی ہے ؟

حمزہ نے شرارت سے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور بولا، چلو میں بتاتا ہوں کہ آزادی کیا ہوتی ہے؟۔

وہ تیز قدموں سے برآمدے کے کونے میں رکھے پنجرے کی طرف بڑھا، جہاں اذان کی ضد پر لائے گئے رنگ برنگے پرندے قید تھے۔ اذان نے ضد کر کے ابا سے یہ منگوائے تھے۔ جب اس نے اپنے دوست عمر کے پرندوں کو دیکھا، تبھی سے اس کا دل مچل گیا کہ اس کے پاس بھی پالتو پرندے ہونے چاہئیں۔ 

ابا  نے اسے بہت سمجھایا تھا: بیٹا، پرندے کھلی فضا میں خوش رہتے ہیں، ان کا مزاج قفس میں بجھ سا جاتا ہے، انہیں کھلی فضا میں جینا چاہیے۔

لیکن اذان نہیں مانا تو ابا کو ہار ماننی پڑی اور یوں پنجرے میں قید پرندے گھر لے آئے۔ 

اذان انہیں خوب سنوار کر رکھتا، اس کا سارا وقت پنجرے کے ساتھ بسر ہوتا۔ وہ ان سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا لیکن اسے ایک بات اکثر کھٹکتی کہ پرندے بہت کم بولتے تھے، وہ خاموش نظروں سے کھلی فضا کو گھورتے اور فضا میں محو پرواز پرندوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے۔ 

حمزہ نے پنجرے کا دروازہ کھولا تو اذان کا دل دھک سے رہ گیا۔

کیا کر رہے ہو! یہ تو اڑ جائیں گے! اذان نے گھبرا کر آگے بڑھنا چاہا مگر حمزہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

دوست، آزادی یہ ہوتی ہے۔ حمزہ کی آواز میں غیر معمولی درد تھا۔ پرندے جھجکتے ہوئے باہر نکلے اور پر پھڑپھڑاتے آسمان کی طرف اڑ گئے۔

 کچھ ہی دیر میں قریبی درخت پر دیگر پرندے بھی جمع ہو گئے،پرندے چہچہاہٹ کے ساتھ آزادی کا جشن منا رہے تھے۔ 

اذان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی، مجھے شرمندگی ہو رہی ہے کہ میں نے ان کو قید کر رکھا تھا۔ 

حمزہ نے کندھے پر ہاتھ رکھا، اب وہ آزاد اور خوش ہیں، یہی اصل آزادی ہے۔ 

اذان نے آسمان کی طرف دیکھا، سورج اب غروب کی راہ پر گامزن تھا اور پرندے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف پر تول رہے تھے۔

اس نے گہری سانس لی اور بولا، حمزہ! اگلے سال ہم آزادی کا دن جھنڈیاں لگا کر نہیں بلکہ پرندے آزاد کر کے منائیں گے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭