رئیس فروغ نرالے اور کھرے شاعر
رئیس غزلوں کے اشعار میں پورا پورا منظر یوں بیان کرتے کہ جیسے کوئی کہانی چل رہی ہو،وہ کاغذ پر مناظر کو اس طرح عکس بند کرتے کہ منظر جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں
رئیس فروغ میں تمام شاعرانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔خوش فکر اورتعلیم یافتہ ہونے کی
وجہ سے بہت اچھے غزل گو تھے۔ وہ اپنی پرواز فکر میں گوناگوں صلاحیتِ اظہار کی قدرت رکھتے تھے۔
بقول وزیر پانی پتی ان کی غزلوں میں غالب، جگر اور حسرت موہانی کی شعری دھڑکن شامل تھی اور اسے واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ان کی شاعری اس قدر منفرد اور معیاری ہے کہ ادب کے قارئین اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کا نیا پن ہی ان کی شاعری کا اصل حسن ہے۔وہ کہتے ہیں۔’’ ویسے رئیس اس دنیا کے آدمی تھے بھی نہیں، ان کی کوئی پبلک ریلشننگ نہیں تھی۔ ان کے پاس ڈھنڈورچیوں کا کوئی گروپ نہیں تھا۔ وہ مشاعرے باز نہیں تھے۔ وہ مسلسل چھپتے نہیں تھے، وہ ایک شاعر تھے! نرالے اور کھرے شاعر، حالانکہ وہ ریڈیو سے وابستہ تھے۔ ریڈیو کی وابستگی کے ناتے وہ اپنی شہرت اور اپنی ذات کے لئے بہت کچھ کر سکتے تھے مگر انہوں نے صرف ایک کام کیا … مسلسل شعر کہنا‘‘۔
رئیس فروغ کے انفرادی ڈکشن کی بنا پر بیسیوں زندہ اشعار کھڑے ہیں جن میں ایک خاص طرح کا طلسماتی اور داستانوی فضا کا غلبہ ہے اور اس فضا میں علامت جیسے شاعری کے فن نے چار چاند لگا دیئے ہیں۔ یہ پراسراریت اور مبہم طرزِ اظہار اس خوبصورتی کو دوآتشہ کرتا ہے۔ رئیس فروغ کی غزلوں کے مصرعے اتنے رواں اور چست نظر آتے ہیں کہ آمد کا بہترین نمونہ معلوم ہوتے ہیں۔ گمان تک نہیں گزرتا کہ یہ کن مشکلات سے تخلیق کیا گیا ہے۔ رئیس فروغ کے شعروں میں ندرت پائی جاتی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ شعر میں ندرت اور تازگی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔
غزل کے ساتھ رئیس فروغ نظم کہنے کے فن سے بھی واقف تھے۔ انہیں علم تھا کہ نظم کیسے کہتے ہیں۔ ایک ایک مصرعے کی کرافٹ کے بعد زنجیر کی کڑیوں کو جوڑتے ہوئے وہ ایک مکمل نظم کہتے ہیں۔ رئیس فروغ کی نظمیں تمثال کاری کی عمدہ مثال ہیں اس کی نظموں میں ہمیں مجسم کردار ملتے ہیں جو کہ روز مرہ سے اخذ کردہ ہیں۔ اس کے تمثالی کردار ایک مجسم پیکر کی صورت میں انسانی سرگرمیاں ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کمال نظمیں تخلیق کرکے نظم کی تحریک کو جلا بخشی۔داستان کو رئیس فروغ نے علامتی نظم کی صورت میں بیان کیا۔ انہوں نے ’’ وہ ایک شہر ہے جلا ہوا ‘‘اور’’ غیر آباد‘‘ نظم میں فلسطین سے ویتنام تک کے حالات بیان کئے ہیں۔ وہ اپنے گردو پیش سے باخبر تھے اور عصری حالات سے آگہی رکھتے تھے۔
رئیس غزلوں کے اشعار میں پورا پورا منظر یوں بیان کرتے کہ جیسے کوئی کہانی چل رہی ہو۔وہ کاغذ پر مناظر کو اس طرح عکس بند کرتے کہ منظر جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے جو خوبصورت فضا خلق ہوتی ہے جس میں وہ جمالیاتی طور پر داخل ہوتے ہیں اور خود کو اس منظر کا ایک حصہ ہے۔ یہ مناظر احساساتی سطح پر قاری تک اپنا ابلاغ کرتے ہیں۔ رئیس فروغ کو منظر بنانے میں کمال حاصل تھا۔ وہ سادہ اسلوب میں اشعار کہنے میں حد درجہ وسعت رکھتے تھے۔ اس سادگی سے انہوں نے ایسے اشعار کہے کہ بظاہر وہ اشعار سادہ محسوس ہوتے مگر ان میں گہرائی اور گیرائی اس نوعیت کی ہوتی کہ قاری کے دل میں جگہ بناتے چلے جاتے۔ ان کے اشعار خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے ہاں موضوعات کے ڈھیر سے ایسے ایسے پہلو سامنے آتے گئے۔ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ان سادہ اور سلیس اشعار میں موضوعاتی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔
رئیس فروغ نہ تو کسی تحریک کے زیر اثر آئے نہ ہی انہوں نے نظریے کو ادب پر فوقیت دی۔ وہ ادب میں مقصدیت کے قائل بالکل بھی نہیں رہے۔چونکہ فطری طور پر غزل کے شاعر تھے اس لئے ان کی غزل میں شعوری طور پر کسی تحریک سے وابستگی نظر نہیں آتی۔ بس زندگی سے وابستہ حقائق کا سادگی اور روانی سے بیان نظر آتا ہے۔ رئیس فروغ عمر بھر اپنے آدرشوں اور اصولوں پرچلے۔ان کی شاعری پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ انہوں نے اردو شاعری میں انگریزی زبان کے الفاظ کثرت سے استعمال کئے ۔ اس حوالے سے ان کے حامی ناقدین نے کہا کہ یہ اعتراض والی بات نہیں ہے بلکہ کسی دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرنے سے تو اردو زبان کا دامن وسیع ہوتا ہے اور دیگر زبانوں کے الفاظ اس میں سماتے چلے جاتے ہیں جس سے دیگر زبانوں سے بھی واقفیت پیدا ہو جاتی ہے اور ان زبانوں کے الفاظ کا درست تلفظ بھی اذہان و قلوب میں راسخ ہوتا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مایوسی اور تنہائی میکانکی معاشرے کے انسان کا بڑا مسئلہ رہی ہے اس تنہائی نے انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ اپنے وجود کی تلاش اور اپنے آپ کو جاننا اس جدید انسان کی سب سے بری خواہش رہی ہے۔ صنعتی سماج نے انسان کی سرشت کو تبدیل کر دیا ہے۔ یہ وجودیاتی تلاش آج کے انسان میں جاری و ساری ہے۔ اپنی ذات کے متعلقہ اشعار کا بیان ملتا ہے۔ایسے میں چاہت سے بھرے اشعار رئیس فروغ کے خوبصورت لہجے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی جذبے کے حوالے سے ایک منفرد شعر یوں ہے
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
60 کی دہائی میں اردو ادب میں یہ جدیدیت در آنا شروع ہوئی۔ جدیدیت سے چند دہائیاں ادھر ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تھی جس نے علوم و فنون میں اپنا لوہا منوایا۔ اس صورت حال میں جدیدیت کی تحریک ایک نئی شناخت کا امکان لیے آ گئی۔رئیس کہتے تھے کہ’’ شاعری کے سٹوڈیو‘‘ میں میں اپنے ساتھ ہوتا ہوں اور یہ وہ لمحہ ہے جب میرے چہرے سے سارے نقاب اترے ہوتے ہیں۔ ’’میں ریڈیو میں سٹاف آرٹسٹ کا چہرہ لگا لیتا ہوں، بازار میں شریف آدمی کا نقاب اوڑھ لیتا ہوں گھر میں ایک شوہر کی ایکٹنگ کرتا ہوں، مگر شاعری کے اسٹوڈیوز میں یہ نقاب میرے چہرے پر نہیں ہوتے۔ میرے شاعری کا بڑا حصہ ذات کے اظہار میں تخلیق ہوا ہے‘‘۔
وہ مطالعہ کا گہراشوق رکھتے تھے اور بسا اوقات اپنے دوستوں سے کتابیں مانگ مانگ کر پڑھتے تھے۔ کتابیں پڑھنے میں انہیں لذت ملتی تھی۔ رئیس فروغ کتابیں پڑھتے رہتے تھے، گھر میں بھی ذاتی لائبریری تھی۔ عصرِ حاضر سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور عصری حالات ان کی نظموں کے موضوعات میں بھی شامل ہیں۔انہوں نے گیت، ملی و قومی نغمے بچوں کے لئے نظمیں، منظوم ڈرامے، مضامین، تراجم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگرام وغیرہ کئے۔ چند فلمیں بھی ڈب کیں۔ اس طرح کی متعدد اصناف میں کام سے رئیس فروغ کی تجربات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔فروغ اس بچے کی طرح تھے جو تجربات کی ناکامی سے خوفزدہ نہ ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا اور ناکامی کو بھی اپنا حق سمجھتا ہے۔ فروغ کی اسی صلاحیت نے انہیں ایسی شعری کا میابیوں سے ہمکنار کیا۔
رئیس فروغ کی شخصیت میں بچوں سے پیار اور شفقت شامل تھا وہ بچوں سے حد درجہ پیار کرتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر بچوں سے انس و محبت کی اور ان کے لئے نظموں کی الگ کتاب لکھی ۔رئیس خود کو ایک عام آدمی کی طرح سمجھتے تھے۔ ان کے مطابق تمام انسان دھرتی پہ ایک ہی سرشت لے کے آتے ہیں۔ ان کے مطابق دوسروں کے رویے میں وہی انسان بول رہا ہے۔ تمام انسان ایک دوسرے کاعکس ہیں یعنی ایک زندگی اس کی طرح گزار رہے ہیں۔ جس طرح گزارنی چاہئے۔
روئے زمیں پہ چار ارب میرے عکس ہیں
ان میں سے میں بھی ایک ہوں، چاہے کہیں ہوں میں
رئیس فروغ کا اصل نام سید محمد یونس تھا اور وہ 15فروری 1826ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی زمانے میں انہوں نے قمر مراد آبادی کی شاگردی اختیار کی جو مراد آباد کے ایک اہم شاعر شمار ہوتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور پہلے ٹھٹھہ اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ملازمت کے دوران انہوں نے بزم ادب کے پی ٹی کی بنیاد ڈالی اور اس کے ادبی مجلے ’’صدف‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ رئیس فروغ کی بچوں کے لئے لکھی گئی نظموں کا مجموعہ ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے نام سے اور نثری نظموں اور غزلیات کا مجموعہ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ رئیس فروغ کا انتقال دن5اگست 1982ء کو کراچی میں ہوا۔ وہ عزیز آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
غزل
راتوں کو دن سپنے دیکھوں دن کو بتائوں سونے میں
میرے لئے کوئی فرق نہیں ہے ہونے اور نہ ہونے میں
برسوں بعد اسے دیکھا تو آنکھوں میں دو ہیرے تھے
اور بدن کی ساری چاندی چھپی ہوئی تھی سونے میں
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صَرف ہوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
گھر میں تو اب کیا رکھا ہے ویسے آئو تلاش کریں
شاید کوئی خواب پڑا ہو اِدھر اُدھر کسی کونے میں
سائے میں سایہ الجھ رہا تھا چاہت ہو کہ عداوت ہو
دور سے دیکھو تو لگتے تھے سورج چاند بچھونے میں
دو شعر
تمہارے ساتھ ہمارا سفر عجب ہے میاں
شجر شجر پہ امر بیل کیا غضب ہے میاں
ذرا بھی تیز ہوا شعلۂ نوا تو یہ لوگ
یہی کہیں گے کہ درویش بے ادب ہے میاں
دو شعر
جوئے تازہ کسی کُہسارِ کہن سے آئے
یہ ہنر یوں نہیں آتا ہے جتن سے آئے
لوگ نازک تھے اور احساس کے ویرانے تک
وہ گزرتے ہوئے آنکھوں کی جلن سے آئے
رئیس فروغ کی تفانیف
1-رات بہت ہوا چلی( مجموعہ کلام)
2-ہم سورج چاند ستارے(بچوں کی نظمیں)
3-رئیس فروغ برزخ کے وی آئی پی روم میں(مضامین)
4-گیت کھلونے( بچوں کی نظمیں)
5-ماہنامہ صدف (رئیس فروغ نمبر)
رئیس فروغ کے اشعار
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
…… …… ……
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
…… …… ……
تمھیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا