حضرت سید علی ہجویریؒ

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


حضرت خواجہ معینؒ الدین اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ جیسے اولیائے کرام نے آپؒ کے مزار سے فیض لیا کشف المحجوب آپؒ کا بے مثال تصنیفی شاہکار ،فارسی میں تصوف پر پہلی کتاب ہے جو صوفیاء کیلئے دستور کی حیثیت رکھتی ہے

لاہور کی روحانی فضاؤں میں جب بھی تصوف، عشقِ الٰہی اور خدمتِ خلق کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے نام حضرت علی ہجویریؒکا ذہن میں آتا ہے۔ آپ نہ صرف برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے بڑے داعی تھے بلکہ اپنی بے مثال درویشانہ زندگی، وسیع علم اور بلند اخلاق کے باعث لاکھوں دلوں کے محبوب بھی بنے۔ آپ کی درگاہ صدیوں سے عقیدت مندوں کا مرکز ہے جہاں ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ یکساں عقیدت و احترام کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔ آج ایک ہزار سال گزرنے کے بعد بھی خطہ لاہور اللہ کے اس کامل ولی کی عظمتوں کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؒ کا مزار پر انوار اور آپؒ کا فیض عام پوری دنیا میں جاری ہے اور بے شمار لوگوں نے آپؒ سے فیض لیا اور حق تک رسائی ممکن ہوئی۔ 

آپؒ کا اسم گرامی سید علی ہجویری، کنیت ابو الحسن ہے۔ آپؒ اپنے عہد کے امام یکتا اور اپنے طریق میں یگانہ تھے۔ علم اصول میں امام اور اہل تصوف میں بہت بڑا درجہ رکھتے تھے۔ قطب زماں، غریب نواز، خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بھی حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پرانوار پر حاضر ہو کر اور آپؒ کی آخری آرام گاہ کے پاس بیٹھ کر چلہ کیا اور انوار الہیہ کی بہاریں لوٹیں۔ 

حضور فیض عالمؒ کی ولادت 400 ھ میں غزنی کے قریب ایک گائوں میں ہوئی۔ ہجویر، جلاب، غزنی کے دو علاقے ہیں اس لئے آپؒ کو جلابی اور ہجویری کہتے ہیں۔ آپؒ کے والد محترم کا اسم گرامی عثمان بن علی بن عبدالرحمان ہے۔ آپؒ کا پورا گھرانہ زہد و تقویٰ میں مشہور ہے۔ بچپن ہی سے اللہ نے آپؒ کو اپنے خصوصی فضل و کرم انعامات اکرام سے نوازا۔ عالم شباب میں ہی آپؒ تمام علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کر چکے تھے۔ ان علوم کیلئے آپؒ نے اپنے وقت کے مایہ ناز اور بے بدل علمائے کرام اور مشائخ عظام سے اکتساب فیض لیا۔ خاص کر اپنے شیخ طریقت حضرت ابوالفضل محمد بن حسن جیسے جلیل القدر بزرگ سے استفادہ کیا اور ان ہی کے دست حق پرست پر بیعت کا شر ف اعظم حاصل کیا۔ آپؒ نے تصوف و معرفت کے تمام اسرار و رموز ان کی صحبت میں رہ کر حاصل کئے۔ 

آپؒ نے اپنی زندگی کا کافی حصہ روحانی تجربات اور تزکیہ نفس کی خاطر سیر و سیاحت میں گزارا۔ دوران سیاحت آپؒ بغداد شریف، طبرستان، خراسان، ماورا، النہر، شام، ترکی اور عراق تشریف لے گئے۔ وہاں بے شمار اولیاء اور صوفیائے کرام سے علم و روحانی فیوض وبرکات حاصل کئے۔ آپؒ کے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسن نے ایک روز آپؒ کو یہ حکم دیا کہ آپؒ تبلیغ اسلام تصوف و طریقت اور لوگوں کی رشد وہدایت کیلئے لاہور جائیں۔ آپ فوراً اپنے مرشد کے حکم کی تکمیل کیلئے لاہور کے شمالی گیٹ کی طرف دریائے راوی کے کنارے ٹھہرے۔  وہاں رات قیام کیا اور اگلے روز شہر میں داخل ہو گئے۔ آپؒ نے بے شمار کافروں کو دین اسلام میں داخل کیا اور ان کے قلوب کو عشق رسولﷺ سے معطر فرما دیا۔ آپؒ کی نورانی صحبت کا یہ اثر ہو اکہ بے شمار لوگ برکت سے مرتبہ ولایت پر فائز ہوئے۔ 

آپؒ کے لاہور آنے سے قبل حضرت میراں حسین زنجانیؒ جو ایک کامل بزرگ تھے یہاں دین اسلام کی خدمت کر رہے تھے۔ جس دن حضرت علی ہجویریؒ لاہور تشریف لائے اسی شب شیخ میراں زنجانیؒ نے وصال فرمایا۔ لاہور میں اپنی پر خلوص کوششوں سے آپؒ نے تعلیمات رسول ﷺ کو عام کیا اور بھٹکے ہوئے انسانوں کے دلوں کو عشق مصطفیﷺ کی شمع سے منور فرمایا۔ آپؒ کی کوششوں سے ہزاروں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام میں داخل ہوئے۔ جن میں لاہور کا ایک راجہ بھی شامل تھا۔ 

تصوف اور علوم دینیہ میں آپؒ کا درجہ بہت بلند ہے۔ حضرت خواجہ معینؒ الدین اجمیری اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ جیسے اولیائے کرام نے آپؒ کے مزار سے فیض لیا اور حضرت خواجہ معین الدین ؒچشتی کا فیض لینے کے بعد یہ شعر آفاق میں مشہور زبان زد عام ہے کہ

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا 

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

حضرت علی ہجویریؒ نے اپنی مشہور کتاب کشف ال محجوب میں تصوف کے اسرار و رموز پر  روشنی ڈالی ہے۔ ہندوستان میں اسلامی تصوف پر یہ پہلی کتاب ہے۔ سرزمین لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؒ نے اپنی یہ معرکہ آرا کتاب یہیں تصنیف فرمائی۔ یہ آپؒ کی وہ ایمان افروز، باطل شکن، روح پرور، صراط مستقیم دکھانے والی کتاب ہے جو دنیائے تصوف و معرفت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے مطالعہ سے کئی بھٹکی ہوئی روحیں راہ حقیقت پر گامزن ہو چکی ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اس کو کشف ال محجوب کے مطالعہ کی برکت سے مل جائے گا۔ ہر دور کے محققین، مورخین، مصنفین اور صوفیاء اصفیاء بہ صمیم قلب کشف ال محجوب کی فضیلت و اکملیت کے معترف ہیں۔ حضرت علی ہجویریؒ خود اس عدیم النظیر کتاب کے دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب ایسے افراد کیلئے تحریر کی ہے جو حجاب غنیی میں گرفتار ہیں یعنی جن افراد کے قلوب میں حقائق و معارف کی تنویر موجود تو ہو لیکن وہ نور حق سے پرنور نہیں۔ یہ فارسی زبان میں لکھی جانے والی سب سے پہلی فقید المثال دستاویز اور تصوف میں ایک کامل رہنما ہے۔

مخدوم الاولیاء اسی کشف ال محجوب میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عراق میں دنیا حاصل کرنے اور اسے لٹانے میں پوری طرح مشغول تھا۔جس کی وجہ سے میں قرض دار ہو گیا جس کسی کو بھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی وہ میری ہی طرف رجوع کرتا اور میں اس فکر میں رہتا کہ ہر ایک کی آرزو کیسے پوری کروں گا۔ ان حالات میں ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھا کہ اے فرزند! اگر ممکن ہو تو دوسروں کی حاجت ضرور پوری کرو مگر سب کیلئے اپنا دل پریشان مت کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا حاجت روا ہے اور اپنے محبوب کے صدقے سب کو دیتا ہے۔ آپؒ نے اپنے عقیدت مندوں کو بھی یہی درس دیا اور فرمایا کہ علم شریعت کے بھی تین ارکان ہیں کتاب، سنت اور اجماع امت۔  حضرت علی ہجویریؒ نے صوفیاء کے اقوال  اور اپنے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جس شخص کو خدا کا علم یعنی علم حقیقت نہیں اس کا دل جہالت کے سبب مردہ ہے اور جس شخص کو اس کا عنایت کیا ہوا یعنی علم شریعت نہیں اس کا دل نادانی میں مبتلا ہے ۔

آپؒ نے دونوں علموں کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے، جس طرح ظاہری علوم کیلئے اساتذہ کرام کی شاگردی کرنا لازم ہے، اسی طرح باطنی علوم کیلئے مشائخ عظام کی بیعت اور مرید ہونا بھی ضروری ہے۔ بزرگان دین نے دلائل شریعہ سے ثابت کیا کہ کوئی شخص اس وقت تک کمال کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ کامل کے ہاتھ پر بیعت نہ ہوا ہو۔ اللہ کا فرمان ہے کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے ۔

حضرت علی ہجویریؒ کا شمار بھی ان اکابر اولیاء کرام میں ہوتا ہے جن کی پاکیزہ جدوجہد سے پنجاب کے خطے لاہور میں علم و عرفان کے چشمے پھوٹے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سیدنا حضرت علی ہجویریؒ ایک عارف کامل، صوفی باصفا، صاحب فضل و کمال، عالم بے مثال، داعی حق اور پروانہ شمع رسالت تھے۔ آپؒ کا علمی و روحانی فیض ہمیشہ جاری رہا جو شخص بھی آپؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، علم وعرفان ور روحانی دولت سے مالا مال ہوا ۔ مخدوم الاولیاء سلطان الاصفیاء سیدنا علی ہجویریؒ ؒجس جگہ اقامت پذیر ہوئے آپؒ نے وہیں اللہ کا گھر مسجد کی تعمیر کرائی اور خلق خدا کو فیض سے نوازا۔

جب حضرت علی ہجویریؒ تبلیغ اسلام کی خاطر غزنی سے لاہور تشریف لائے۔ ان دنوں شہر لاہور اور گردو نواح کے لوگ اپنے مویشیوں کا ایک وقت کا دودھ لاہور کے ہندو جوگی رائے (شہر کوتوال) کو دیا کرتے تھے۔ آپؒ کے قیام کے تیسرے دن ایک بڑھیا دودھ اٹھائے جوگی کو دینے جا رہی تھی تو آپؒ نے بلا کر پوچھا تو اس بڑھیا نے کہا کہ میں یہ دودھ لاہور کے کوتوال رائے راجو کو دینے جا رہی ہوں، اگر میں نے دودھ نہ دیا تو میرے جانور دودھ کے بجائے خون دینا شروع کر دیں گے۔ سرکارؒ نے فرمایا یہ دودھ تم مجھے دے دو تمہارے جانور خون نہیں دیں گے۔ آپؒ کی بات پر وہ بڑھیا اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ دودھ آپؒ کو دے کر چلی گئی۔ جب اس نے گھر پہنچ کر شام کو دودھ دوہنا شروع کیا تو خون آنے کے بجائے دودھ کی مقدار میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اس بات کی خبر بڑھیا نے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچائی تو انہوں نے بھی آپؒ کی خدمت میں دودھ دینا شروع کر دیا۔ جب کوتوال شہر رائے راجو کو پتہ چلا تو اس نے اپنی شعبدہ بازیوں سے آپؒ کو اٹھانے کی کوشش کی مگر آپؒ نے اپنی کرامات اور نگاہ کیمیاء اثر سے اسے زیر کر دیا اور اسے بھی کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کر دیااور لقب شیخ ہندی سے مشہور ہوا۔ آپؒ کا وصال مبارک 465ھ کو لاہور میں ہوا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔