پاکستان کی پہلی عید
14اگست 1947ء کو آزاد مملکت حاصل ہوئی تاکہ مسلمان یہاں اپنی مذہبی روایات، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت اور اپنے آبائو اجداد کے تعلق کو آزادی کے ساتھ جاری رکھ سکیں۔
اپنی مرضی سے قومی جذبہ کا اظہار کر سکیں اور دنیا کی آزاد ریاستوں کے ساتھ اقتصادی، تحقیقی، سائنسی، فوجی اور پاکستانیوں کی زندگیوں کو خوشحال بنانے کے لئے تعلقات استوار کر سکیں۔ اپنی منزل پا لینا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔14اگست 1947ء کو قائداعظمؒ نے پاکستان کی ساکھ، شناخت کو ظاہر کرنے کیلئے ملک کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف لیا۔ اس دن ایک تاریخی فتح نصیب ہوئی۔ وہ دن جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ تین روز بعد 18اگست 1947ء کو عیدالفطر منائی گئی۔ پاکستان کی اس پہلی عید الفطر پر قائداعظم محمد علی جناح کی خوشی خوبصورتی، ان کے چہرہ، کلام اور حسن خیال سے عیاں تھی کہ گزشتہ سال نماز عید بطور ایک غلام ملک کے فرد کے طور پر ادا کی اور امسال کی نماز عید آزاد مملکت کے فرد، ایک اسلامی ریاست کے تخلیق کرنے والے اور گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے کرنے جا رہے تھے۔آپ اپنے سٹاف کے ساتھ گورنر جنرل ہائوس سے کار میں نکلے۔ آپ نے اپنے نوجوان اے ڈی سی (جی) ربانی سے راستے میں پوچھا: ’’ تم نے رمضان کے کتنے روزے رکھے‘‘؟ مسٹر ربانی نے ڈرتے ڈرتے تعجب سے جواب دیا’’سر آدھے ماہ کے روزے رکھ سکا‘‘۔مذہبی اور روحانی تڑپ رکھنے والے قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے سنجیدگی سے پوچھا: ’’آدھے ماہ کیوں؟ پورے ماہ کے فرض روزے کیوں نہ رکھے‘‘؟ربانی کھسیاتے ہوئے بولے، مختلف مقامات پر ڈیوٹی کی وجہ سے روزے رہ گئے تھے۔قائداعظم محمد علی جناحؒ لنکن ان کے کوالیفائیڈ بیرسٹر نے غیر متوقع طور پر نصیحت کی کہ آپ مسلمان نوجوان ہیں۔ آپ کو پورے ماہ رمضان کے روزے رکھنے چاہئیں تھے اور آپ نے اب پورے کرنے ہیں۔ آپ نے رمضان کی اہمیت اور احساس کو یوں اُجاگر کیا کہ مذہب اسلام میں ایک ماہ کے روزے ہر سال رکھنا فرض ہے اور یہ روح کی پاکیزگی ہے۔ روزہ تقویٰ سکھاتا ہے۔ روزہ انسان کو ڈسپلن سکھاتا ہے۔ اپنی ذات پر ضبط کا درس دیتا ہے، قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور برائیوں سے بچاتا ہے۔ سال میں ایک ماہ کے روزے رکھنے سے مستقل مزاجی اور اخلاقی قدروں میں اضافہ ہوتا ہے اور طبی اعتبار سے ایک ماہ کے روزے صحت کیلئے بڑے ضروری ہیں۔ گویا قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے روزہ کی اہمیت قرآن و سنت کے مطابق عیدگاہ جاتے وقت اپنے سٹاف کو سکھا دی۔
عیدگاہ پہنچے۔ نماز تمام مسلمانوں کے ساتھ ادا کی۔ مسرت و انبساط کا دن تھا۔ عظیم ملک کے سربراہ کی حیثیت سے رب جلیل کے حضور بڑے عجزو انکسار کے ساتھ ، تکبیرات کے ساتھ سجدہ ریز ہوئے۔ قادر مطلق کا شکر ادا کیا اور واپسی پر گورنر جنرل ہائوس جانے کیلئے سنت محمدﷺ کے مطابق آپ نے ڈرائیور کو حکم صادر فرمایا کہ دوسرے راستہ سے جایا جائے کیونکہ والدہ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی پرورش بڑے دینی ماحول میں کی تھی کہ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھی جائے اور راستہ بدل کر جانا چاہیے۔ راستہ میں تسبیحات کہنی چاہئیں۔ گویا وہ مذہبی اور دینی معاملات میں بھی رہبر تھے۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے جمعۃ المبارک 15اگست کو جب گورنر جنرل کا حلف لیا تھا، آپ نے قوم کو ایک قیمتی پیغام یوں دیا تھا: ’’ اے میرے ہم وطنو! آخر میں ، میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان بیش بہا وسائل کی سرزمین ہے۔ لیکن اس کو مسلم قوم کے شایان شان بنانے کیلئے ہمیں اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہو گی۔ مجھے پورا اعتماد ہے کہ یہ سب کی طرف سے اور فراوانی کے ساتھ ملیں گی۔ پاکستان زندہ باد‘‘۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ دہلی سے 7اگست 1947ء کو بذریعہ ہوائی جہاز کراچی پہنچے تھے۔ تمام راستہ مغموم ہے کیونکہ دہلی میں اکثریت کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا۔ آپ نے دکھی مسلمانوں کے ساتھ عید کے روز یکجہتی کا اظہار یوں کیا: ’’ہمارے بھائیو! آپ اکثریت کے ہاتھوں دکھ اُٹھا رہے ہیں۔ آپ کے دُکھ کا ہمیں احساس ہے۔ ہم آپ کی مدد کریں گے اور ہمارے دل آپ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ آپ کی حفاظت کیلئے ہم اپنی سی کوشش کریں گے۔ آپ نے ہماری آزادی کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ آپ نے آزادی کی شمع کو اپنے خون جگر سے روشن کیا۔ آپ کو علمت ھا کہ مرکزی ہندوستان کے صوبے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے۔ پھر بھی آپ نے پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیا۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے تسلیم کیا کہ برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبے ہی تھے جو حصول پاکستان کیلئے جدوجہد اور اس کی منزل مقصود کی جانب سفر میں پیش پیش تھے اور جنہوں نے آزادی کا پرچم بلند رکھا۔ بلا شبہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ تو منزل کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہے‘‘۔