یوم آزادی قربانی، جدوجہد اور خود احتسابی کا دن

تحریر : عکاشہ وجاہت


ہر سال 14 اگست کے موقع پہ جب ہر جانب جشن کا سماں بندھ جاتا ہے۔اطراف کناف میں سبز ہلالی پرچم جھوم جھوم کے ہماری آزادی کے گن گارہے ہوتے ہیں۔ملی نغمے اور قومی ترانے گلی کوچوں میں ایک جوش اور ولولے بھرے منظرسے سماعتوں کو دلفریبی بخش رہے ہوتے ہیں۔

ایسے میں بہت سے سوال خیال،سوچ اورفکر کی وادیوں میں جنم لینے لگتے ہیں۔میں اپنے تمام تر حواس کو یکجا کر کے بہت سی گتھیوں کو سلجھانے کے کوشش کرنے لگتی ہوں۔ان تمام خیالات و سوالات میں اکثر لوگوں کی جانب سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’ ہم لے کے ریں گے آزادی؟میں نے ہمیشہ ایک بات پہ غور کیا کہ یہ لوگ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟آیا کشمیر میں سسکتی انسانیت کے رستے زخموں پہ مرہم لگانے کی بات کی جارہی ہے یا پھر برما میں بے آبرو ہوتی ہماری بے بس ماؤں بہنوں کی عزت کی حفاظت کے لیے سینے پیش کرنے کی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔پھر خیال آیا کہ شاید یہ بیت المقدس کی آزادی کے عہد وپیمان کیے جاریے ہیں۔مگر پھر اگے ہی لمحے سمجھ میں آیا کہ نہیں ایسا کوئی درد دور دور تک انکی آنکھوں یا دل میں پنہاں نظر نہیں آتا ہے یہ تو اپنی آزادی کی بات کر رہے انہیں لگتا کہ یہ آج بھی آزاد نہیں ہیں۔

چلیں آج اس موضوع پہ ہی بات کرلیتے کہ آزادی کیا ہے؟اپنے ملک میں اپنی سرزمین پہ بنا کسی روک ٹوک کے سر اٹھا کر سینہ تان کر چلنے کا نام آزادی ہے۔مساجد کے میناروں پہ بلند آواز سے اگر اذان سنائی دے رہی ہے اور اسکے بعدگر تم مساجد میں جا کر ائیرکڈیشنڈ ہالز میں اطمینان سے نماز ادا کر پارہے ہو تو تم آزاد ہو۔تمہارے تعلیمی ادارے،تمہارے تہوار،تمہارے تمام ترتاریخی دن آزاد ہیں یعنی کہ آزاد ہو۔اب ایک نظر ان ممالک کی جانب جو نماز کے لیے مساجد میں جمع ہوتے ہیں تو حملہ ہوجاتا ہے ،کئی بچے،بوڑھے جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔چند پل پہلے امن کا گہوارہ دکھنے والی مساجد پل بھر میں کسی قتل و غارت کے میدان کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔کئی دن کرفیو لگ گزر جاتے ہیں بلکتے بچوں کی بھوک پیاس کسی درو دیوار پہ آزادی کا لفظ لکھنا تو در کنار آزادی کے مطالبے کے لیے زبان بھی کھولتی ہے تو کٹی پھٹی لاش دلوں کو دہلادیتی ہے۔اور یہ آزادی کا مطالبہ اکثر لوگ کرتے پھرتے ہیں کہ آزادی ہے کیا؟

اگر اپنی اصلیت سے آزادی جو تم حاصل کر بھی لو تو تماری شناخت،تمہاری پہچان تمہاری اصل مسخ ہوجاتی ہے مگر در حقیقت نہ تم گھر کے رہتے ہو نہ گھاٹ کے۔دوٹوک اور اٹل بات یہ کہ ہم آزاد ہیں ،ہم آزاد ہیں اپنے اسلام کے مطابق سانس لینے میں،ہم آزاد ہیں اس سرزمین پہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق زندگی گزارنے میں ،ہم آزاد ہیں کہ جب بھی ہمارے ساتھ کوئی زیادتی ہو تو آواز اٹھا سکیں،وہ آواز ایوانوں تک نہ پہنچے تو یہ ملکی نظام کی کوتاہی ہے وگر نہ اسکا آزادی یا غلامی سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔یہاں کوئی ایک درندہ صفت اگر اپنی بری سرشت کے باعث کسی ماں بہن کی عصمت پہ وار کرتا ہے تو ہزاروں نوجوان اس ماں ،بہن کی آواز بنے ہوتے ہیں۔یہاں ایک بے گناہ قتل ہوتا ہے تواسکا تعلق بھی ہمارے آزاد نہ ہونے سے نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ آزاد ہونے سے ہے۔بات اگر آزادی کی کروں تو پھر مجھے یہ لکھنے میں کوئی مبالغہ نہیں لگتا کہ میں قلم کو خون سے بھروں اور پھر کاغذ پہ قائد کی کاشیں رقم کروں اور پھر اس دیوان کے سرِ ورق پہ لکھوں کہ ہم آزاد ہیں۔جس یورپ سے متاثر ہوکرہم آزادی کی بات کرتے ہیں یہاں پہ جب آپ ان جیسا لباس پہنتے ہیں ،ا ن جیسالہجہ اپنانے کے کوشش کرتے ہو تو وہ آپ کی احساسِ کمتری پہ ہنستے ہیں۔یہاں جس علاقے میں غیر ملکی کی کثرت ہوتی ہے وہاں سے اس ملک کے شہری اور مکین اپنا گھر بدل لیتے ہیں یعنی وہ آپ کے ساتھ رہنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔پھرمحسوس ہوتا ہے کہ اپناملک،اپناگھر اور اپنی سر زمین مان، غرور اور فخر ہوتا ہے۔میری جانب سے تمام پاکستانیوں کو صرف 14 اگست کے موقع پہ ہی نہیں بلکہ ہر لمحہ آزادی مبارک۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔