قیام پاکستان کا سفر 1947-1930

تحریر : طاہر حمید


14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے بعد قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کے وجود کو ختم نہیں کر سکتی۔ قیام پاکستان کے بعد ہونے والی بے شمار سازشوں اور خود ہماری کوتاہیوں کے باوجود دنیا کے نقشے پر پاکستان کا موجود ہونا قائد اعظمؒ کے اس فرمان کی صداقت کی دلیل ہے۔

1930ء میں خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبالؒ نے مسلمانان برصغیر کیلئے الگ وطن کا تصور پیش کیا جسے بعد میں مسلم لیگ کی قیادت نے اس تصور کو اختیار کر لیا۔ اس دور کے مخصوص حالات، انگریزوں اور ہندوؤں کے مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ رویہ کے علاوہ اس میں بڑا کردار علامہ اقبالؒ کا قائداعظمؒ کے ساتھ رابطہ کا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے 1936ء اور 1937ء کے دوران قائد اعظمؒ کو تقریباً 19 خطوط لکھے، جن میں انہوں نے قائداعظمؒ کو قائل کر لیا کہ مسلم لیگ کی واحد منزل برصغیر میں مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا حصول ہونا چاہیے۔ 1940ء میں قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان منظور کی گئی جس میں قیام پاکستان کو مسلمانوں کی حتمی منزل قرار دیا گیا۔1940ء کی قرارداد لاہور مسلمانان برصغیر کے دیرینہ خواب کی عکاسی کرتی تھی۔ اس کے بعد سے حصول پاکستان مسلم عوام کی حقیقی منزل بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کی مقبولیت میں اتنا اضافہ ہوا کہ چند برس ہی میں وہ ایک حقیقی متحرک اور فعال عوامی جماعت بن گئی۔

قائداعظم کی مسلمانوں میں بے پناہ مقبولیت کا راز بھی یہی تھا کہ اس دور میں وہ مسلمانوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے اپنی زندگی کو وقف کر چکے تھے اور شب و روز جدوجہد کر رہے تھے۔ ان کی ذات خلوص استقامت حق گوئی اور اعلیٰ کردار کا نمونہ تھی۔1940ء سے 1946ء تک سیاست کا دھارا تیزی سے بہتا رہا اور جدوجہد آزادی میں اس قدر شدت آتی گئی کہ نشان منزل واضح سے واضح تر ہوتا گیا اور اس طرح حصول پاکستان کی خواہش مسلم عوام کی دلوں کی اس طرح دھڑکن بنی کہ اب کوئی لیڈر اور جماعت بھی اس سے منحرف نہیں ہو سکتا تھا۔ قائد اعظمؒ نے بار بار اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ہر حال میں پاکستان حاصل کر کے رہیں گے جبکہ کانگریس ان کے مطالبہ پاکستان کا مذاق اڑاتی تھی۔

1945ء میں شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد ہندوستان میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہو گیا تھا۔ یہ انتخابات مسلمانان برصغیر کیلئے ایک فیصلہ کن مرحلے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان انتخابات نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ مسلمان کیا چاہتے ہیں اور ان کی منزل کیا ہے؟ مسلم لیگ کیلئے یہ انتخابات زندگی اور موت کا مرحلہ تھے۔ان انتخابات کے ذریعے ہی اس نے یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے بلکہ اس کا مطالبہ مسلمانان برصغیر کا مطالبہ ہے۔ اگر ہم ان انتخابات کے دوران انتخابی مہم میںقائد اعظمؒ کی تقاریر پڑھیں تو شاید ہی کوئی تقریر ہو جس میں انہوں نے حصول پاکستان کا وعدہ نہ کیا ہو یا پاکستان کے نام پر ووٹ نہ مانگیں ہوں۔

6 اگست 1945ء کو بمبئی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے کہا: ’’ہم کسی صورت مطالبہ پاکستان سے دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارا مطالبہ مبنی برحق ہے۔ میں آپ سے ان انتخابات کیلئے سرمائے کا مطالبہ نہیں کر رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کی منزل کو حقیقت میں بدلنے کیلئے ہر طرح کی قربانی دیں‘‘۔ انتخابی مہم کے دوران کراچی کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد ہونے کی تلقین کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 30اگست 1945ء کو فرمایا ’’آنیوالے انتخابات میں ہمارے سامنے سب سے بڑا درپیش مسئلہ پاکستان کا قیام اور مسلم لیگ کی نمائندہ اور مقتدر حیثیت کو تسلیم کروانا ہے اور ہم آنے والے انتخابات انہیں دو ایشوز پر لڑ رہے ہیں‘‘۔

20 ستمبر 1945ء کو قائد اعظمؒ نے کوئٹہ میں فرمایا ’’یہ بات واضح ہے کہ آزادی کے حصول کی کوئی کوشش پاکستان کو نظرانداز کر کے کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ یہی وہ بڑا مسئلہ ہے جس کے بارے میں ہم نے فیصلہ کرنا ہے۔ ہندوستان کے بہت پیچیدہ دستوری مسائل کا حل ہندوستان کی تقسیم ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو خوشحالی، بہبود اور ہندوستان کے چار سو ملین افراد کی آزادی کی طرف جاتا ہے‘‘۔

31 اکتوبر 1945ء کو بمبئی میں انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے واضح کیا کہ آئندہ انتخابات مسلمانوں کے مقدر کا فیصلہ کریں گے۔ اس مسئلے پر کہ ہندوستان کے مسلمان پاکستان چاہتے ہیں یا اکھنڈ ہندوستان آئندہ انتخابات واضح فیصلہ دیں گے۔ اس لیے یہ معاملہ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے زندگی اور موت کے سوال کی حیثیت رکھتا ہے۔ 24 نومبر 1945ء کو قائد اعظمؒ نے مردان کے جلسہ عام میں کہا ہمیں ہر قیمت پر پاکستان حاصل کرنا ہے۔ ساری دنیا کی نگاہیں آپ پر لگی ہوئی ہیں کہ آپ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر آپ نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تو دنیا کی کوئی قوت بھی آپ کو اس سے محروم نہیں کر سکتی۔ ان الفاظ میں قائد اعظمؒ کا عزم صمیم نمایاں تھا۔ قائداعظم نے فرمایا ہمیں ہر قیمت پرپاکستان حاصل کرنا ہے۔ ہم اسی کیلئے زندہ ہیں اور اسی کیلئے مریں گے۔ اس بات کی وضاحت کیلئے کسی لمبی چوڑی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان کیا ہے؟ یہ ایک بچہ بھی سمجھتا ہے اور خود ہندو بھی اسے مسلمانوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی باوقار بقا اور زندگی کیلئے جدوجہد اور سخت جدوجہد کرنی ہو گی۔ یہ صرف کوئی وزارت بنانے کیلئے چند نشستیں جیتنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ اس سے زیادہ پیچیدہ اور اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پوری دنیا کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں کہ آپ پاکستان کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ پاکستان کے حق میں فیصلہ کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اس سے محروم نہیں کر سکتی‘‘۔دسمبر 1945ء اور جنوری 1946ء میں جب مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مکمل ہوئے تو یہ نتائج سامنے آئے کہ سندھ، پنجاب اور سرحد کے بہت سے وڈیروں، عبدالغفار خان، جمعیت علمائے ہند، آل انڈیا شیعہ کانفرنس، آل انڈیا مومن کانفرنس، مجلس احرار اور کئی مذہبی جماعتوں کی بھرپور مخالفت اور قائد اعظمؒ کے خلاف کفر کے فتوے کے باوجود مسلم لیگ نے پاکستان کے مطالبے کے منشور پر مرکزی اسمبلی کی تمام نشستیں جیت لیں اور صوبائی اسمبلیوں کی 492 میں سے 428 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے 90 فیصد مسلمان رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرلی۔مسلم لیگ کو سارے صوبوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ تاریخی کامیابی  بنیادی طور پر دو اسباب کی مرہون منت تھی، پاکستان کے قیام کا مطالبہ اور قائد اعظمؒ کی عظیم مدبرانہ قیادت۔ مسلمان عوام کا قائداعظمؒ پر بھرپور اعتماد ایمان کی حد تک تھا۔ تاریخ گواہ ہے قائداعظمؒ نہ کبھی جھکے نہ بکے نہ انہوں نے غلط بیانی کی اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے جھوٹے نعرے عام کیے۔ انہوں نے زندگی بھر حقیقت کی سیاست کی اور حق پر کاربند رہے۔ ان کے بدترین دشمن بھی ان پر منافقت کی سیاست کا الزام نہیں لگا سکے۔ 

قائداعظمؒ نے صرف انتخابات کے دوران ہی پاکستان کے مطالبہ کو زندگی اور موت کے سوال کی صورت میں پیش نہیں کیا بلکہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی وہ اپنے اس موقف پر ڈٹے رہے اور بار بار مسلمانوں کو متنبہ کرتے رہے کہ پاکستان کے بغیر برصغیر میں ان کا وجود ختم ہو جائے گا۔

قائداعظمؒ نے 24 فروری 1946ء کو کلکتہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ہم پاکستان حاصل کریں گے اور پاکستان میں ہی رہیں گے۔ اگر مسلمان مکمل نظم و ضبط اختیار کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان کا حق حاصل کرنے سے محروم نہیں کر سکتی۔  پاکستان کے بغیر یہاں مسلمانوں کیلئے صرف موت ہے۔ ہم پاکستان کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہم اپنی زندگیاں اس کیلئے کیوں قربان کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ آزادی اور خوشحالی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور برطانوی اور ہندو تسلط سے آزادی چاہتے ہیں تو پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے‘‘۔

مطالبہ پاکستان پر یہ قائد اعظمؒ کی استقامت اور ان کا عزم صمیم تھا کہ انجام کار برطانوی حکومت اور کانگریس کو قائد اعظمؒ کے اس مطالبے کے سامنے جھکنا پڑا۔ بعد ازاں کئی اور واقعات بھی پیش آئے جن میں کابینہ مشن پلان بھی شامل تھا لیکن کانگریس کی قیادت بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ وہ پاکستان کے قیام کو تسلیم کر لیں۔ چنانچہ کانگریس نے وہ کڑوی گولی نگل لی جس سے وہ مسلسل انکار کرتے آرہے تھے۔ وہی کانگریس کی قیادت جو پاکستان کا نام لینا گناہ سمجھتی تھی بالآخر تقسیم پر راضی ہوگئی۔ تقسیم ہند کیلئے 15 اگست 1947ء کی تاریخ قرار پائی۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء نصف شب کو 27 رمضان کی مبارک رات کے موقع پر پاکستان معرض وجود میں آگیا اور اگلے دن جمعۃ الوداع تھا۔

آج ہم قیام پاکستان کی 78 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، ہمیں قوم میں وہی عزم صمیم اور پاکستان کے مقاصد پر یقین پیدا کرنا ہے جس کا مظہر قائد اعظمؒ کی جدوجہد اور ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ تھا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد آنے والی ہر سیاسی قیادت نے ایک نیا نعرہ اور نیا بیانیہ دے کر نہ صرف قوم کو تقسیم در تقسیم کیا بلکہ بانی پاکستان کے ویژن سے بھی دور کیا۔ قائداعظمؒ نے خود پاکستان کیلئے لائحہ عمل اور بیانیہ طے کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد فکر اقبالؒ کی روشنی میں آگے بڑھے گا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔