قومی شعور کی بیداری
جداگانہ قوم کیلئے الگ وطن کے عزم میں ڈھل گئی حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان میں مسلم سیاست کو قیام پاکستان کی راہ پر لگانے اور مسلمانوں کو 1947 ء میں قیام پاکستان کی منزل پر پہنچانے میں قائد اعظم سے زیادہ کسی اور نے فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا۔
1820سے 1860ء کے عشروں میں مجاہدین،1870 ء سے 1890ء کے عشروں میں علیگڑھ اور 1918ء سے 1924ء کے عشروں میں خلافت کی تحریکیں ، نیز 1906 ء میں جداگانہ انتخابات کا مطالبہ اور مسلم لیگ کا قیام،1916ء میں میثاقِ لکھنو،1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی قرار د اور جناح کے چودہ نکات اور 1937ء میں جناح اور لیگ کی طرف سے کانگریسی وزار توں میں شرکت کی بجائے کانگریس میں انضمام کی دعوت کو سختی اور حقارت سے مسترد کر دنیا ،یہ سب واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسلمان ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے خود کو ہمیشہ ایک علیحدہ قوم سمجھتے تھے۔ اسی احساس کی بنا پر اکثر و بیشتر ان کی جانب سے ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں تجاویز بھی پیش کی جاتی رہیں تاکہ اس خطہ ٔارض میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن قائم ہو سکے۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے مولانا عبد الحلیم شرر نے اگست 1890ء میں تجویز پیش کی۔ اس کے بعد یہ تجویز مختلف اوقات میں مختلف الفاظ و بیان میں اظہار پاتی رہی تاآنکہ 1930 ء میں الہ آباد کے مقام پر لیگ کا سیشن منعقد ہوا۔ اس سیشن کی صدارت مفکر وشاعر اسلام علامہ اقبال نے کی اور وہ مشہور تقریر کی جو علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس تقریر میں علامہ اقبال نے پہلی مرتبہ اسلامیانِ ہند کی طرف سے ایک سیاسی پلیٹ فارم پر واضح انداز میں تقسیم ہند کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبال کے اسی خطبہ الہ آباد کی وجہ سے لیگ کے اس سیشن کو اسلامیانِ ہند کی تاریخ میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس کے تین برس بعد 1933 ء میں کیمبرج میں زیر تعلیم چوہدری رحمت علی نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مجوزہ وطن کا نام ’’پاکستان‘‘ تجویز کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ہندوستان کی مسلم سیاست میں بالعموم پنجاب کے امور میں بالخصوص گہری دلچسپی کے سبب علامہ اقبال 1930 ء کی دہائی میں قائد اعظم کے بہت قریب آگئے تھے؛ چنانچہ 1936ء سے1937ء کے درمیان وہ جناح سے مسلسل خط و کتابت میں مصروف رہے۔ اس مراسلت میں علامہ اقبال نے بر صغیر کی سیاسی صورت حال اور اس وقت کے اہم مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے ان خطوط میں اس امر کی نشاندہی بھی کی کہ مسلم ہندوستان کے مختصر میعاد کے اور طویل میعاد کے مقاصد اور پروگرام کیا ہونے چاہئیں۔ ساتھ ہی وہ جناح صاحب سے یہ اصرار بھی کرتے رہے کہ لیگ کو ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر ازسر نو منظم کرنے کیلئے وہ اپنی انتھک جدو جہد جاری رکھیں۔ مسلمانوں کی شیرازہ بندی کر کے انہیں ایک ایسی منظم اور فعال قوت میں ڈھال دیں جسے ہر کوئی تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے۔ علاوہ ازیں اقبال اس بات پر بھی زور دے رہے تھے کہ مسلمانوں کے سینوں اور ذہنوں میں ایک علیحدہ مسلم قوم کے احساس کی بنا پر جو خواہشات ، امنگیں اور جذبات ہمیشہ سے پرورش پاتے رہے ہیں جناح انہیں ایک قطعی شکل دے کر ایک مقصد سے ہمکنار کریں اور اسے قوتِ اظہار و بیان سے بہرہ ور کریں۔ اقبال کا قائد سے یہ اصرار بھی تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مسلم تشخص کے فیصلہ کن اثبات اور ان کی غربت وپسماندگی دور کرنے کیلئے مطالبہ پاکستان پیش کریں۔
اقبال ایک دور بین اور مستقبل شناس آدمی تھے۔ وقت کی نبض کو پہچانتے اور مسلم قوم کے جذبات کو سمجھتے تھے۔ اس بنا پر انہوں نے خطبہ الہ آباد میں نہ صرف تقسیم ہند کا وہ تصور پیش کیا جو بعد میں مطالبہ پاکستان کی حیثیت سے سامنے آیا جبکہ1936ء سے 1937ء تک اپنی خط و کتابت میں قائد اعظم پر یہ زور بھی دیتے رہے تھے کہ انہیں اب کھل کر مطالبہ پاکستان کا اعلان کر دینا چاہئے اور اس مطالبے کو منوانے کیلئے تند ہی سے کام کر کے نہرو کے نعرۂ آزادی اور روٹی کا توڑ کر نا چاہیے۔ ساتھ ہی مسلم عوام سے رابطے کی مہم چلانی چاہئے۔ مگر جناح صاحب کیونکہ ایک عملی سیاستدان تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ جب تک مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و منظم نہ کر لیا جائے مسلمانوں کی طرف سے مطالبہ پاکستان پیش کرنا نہ صرف قبل از وقت ہوگا بلکہ اپنی شکست کے مترادف بھی ہو گا۔ان خطوط میں اقبال نے جو انداز، جو آہنگ اختیار کیا ہے اور جس طرح مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ اس امر کے غماز ہیں کہ انہیں قائد اعظم اور ان کی قیادت پر کس درجہ اعتماد اور یقین تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے قائد کو لکھا ’’ہندوستان میں آج آپ ہی وہ واحد مسلمان ہیں جس کی طرف مسلمان اس توقع کے ساتھ پرامید نگا ہوں سے دیکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ انہیں بڑھتے ہوئے طوفان سے محفوظ و مامون طو پر نکال لے جائے گا‘‘۔ اقبال کا یہی فکری اثر و نفوذ تھا جس کی بنا پر قائد اعظم اور لیگ دونوں بالا ٓخر نہایت بااعتماد اور پر زور انداز میں مطالبہ پاکستان پیش کرنے پر آمادہ ہو گئے، لیکن اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں مسلم مسئلہ کو فکری جہت عطا کی اور فکری طور پر اسے معنویت سے ہمکنار کیا۔ خطبہ الہ آباداپنے باطن میں مطالبۂ پاکستان کے فکری جوازکا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے بڑے موثر انداز میں نشاندہی کی کہ ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں بلکہ اپنی اصل میں اس کی نوعیت بین الاقوامی ہے۔ ہندوستان کی یہ دو قومیں اپنے نظریہ حیات اور عقائد کے ساتھ قطعی مختلف اور متضاد ہیں، اس لئے ان کا اتحاد یا انضمام نا ممکنات میں سے ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف سیاسی اور ثقافتی پہلو ہی وہ بنیادی عوامل نہ تھے جنہوں نے قیام پاکستان کی طرف مسلمانوں کی رہنمائی کی، حقیقت یہ ہے کہ تاریخی، اقتصادی، سماجی ، لسانی اور مذہبی اختلافات وغیرہ تمام عوامل مسلمانوں اور ہندوؤں کے تعلقات پر اثر انداز ہوئے تھے اور ان میں اختلاف و امتیازکا باعث تھے۔ یہی وہ عوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اپنے طور پر ایک جداگانہ اور آزانہ وجود حاصل کرنے کے راستے پر گامزن کیا، اور پھر انہوں نے قیام پاکستان کی سمت اس جذبے سے پیش قدمی کی کہ راہ میں پیش آنے و الی مشکلات کو خاطر میں نہ لائے۔ انہوں نے اس بات کا بھی خیال نہ کیا کہ اپنے لئے جو مملکت وہ قائم کرنا چاہتے ہیں اس میں کوئی جغرافیائی تسلسل نہیں ہے۔ وہ اس بات سے بھی ہراساں نہ تھے کہ ہندو قوم جو عددی ، اقتصادی، سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بر تر اور ترقی یافتہ ہے، ان کی مخالفت پر آمادہ ہے۔
ہندوؤں نے اس مرحلے پر تاریخ، ثقافت اور روایات کی قوتوں کو بھی فراموش کر دیا ؛ چنانچہ مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان پر ان کا رد عمل بہت تلخ اور مخاصمانہ تھا۔ اپنی مخالف میں وہ اتنے شدید اور جذباتی تھے کہ وہ مسلمانوں میں من حیث القوم آنے والی تبدیلی کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے مطالبہ پاکستان کے عوامل کا تجزیہ کرنے کی بجائے اس مطالبہ پر جذباتی انداز میں نکتہ چینی کرتے ہوئے پاکستان پر ہر طرح سے طعن و تشنیع کو اپنا شعار بنا لیا۔ مخالفت کے جذباتی دھارے میں وہ اس کھلی حقیقت کا بھی صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ر ہے کہ مطالبہ پاکستان پر مسلمانوں نے جس زبردست اور پرجوش انداز میں لبیک کہا ہے اس کی سیاسی اور نفسیاتی اہمیت کیا ہے۔ مخالفت کے اس طوفان میں وہ اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے کہ مسلمان جو پہلے ہندوستان میں خود کو ایک اقلیت سمجھتے تھے اب سیاسی اور نفسیاتی اعتبار سے ان کے قلب کی ماہیت تبدیل ہو چکی ہے۔
لاہور سیشن 1940 ء اور اس میں قرار داد پاکستان کی منظوری ایک اعتبار سے قائد اعظم کے اس مشن کی کامیاب تکمیل تھی جو انہوں نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کیلئے اختیار کیا تھا۔ ساتھ ہی اس سیشن اور اس قرار داد نے ان کے اس دعوے پر بھی مہر تصدیق ثبت کر دی کہ صرف وہی مسلم ہندوستان کی قیادت کے واحد علمبر وار ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہندوستان میں مسلم سیاست کو قیام پاکستان کی راہ پر لگانے اور مسلمانوں کو 1947 ء میں قیام پاکستان کی منزل پر پہنچانے میں قائد اعظم سے زیادہ کسی اور نے فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا۔ پاکستان کے دعوے کی جس پُر زور طریقے سے انہوں نے وکالت کی اور پھر دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان سے متعلق نہایت نازک، اہم اور پیچیدہ مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں قائد اعظم نے جو حکمت عملی اختیار کی یہ اسی وکالت اور حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ قیام پاکستان ناگزیر ہو گیا۔