بُخل کرنیوالے عذاب الٰہی کے مستحق!

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


اور ایسے لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں (النساء) ’’جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا ،وہ سمجھتا ہے کہ مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، ہرگز نہیں وہ توڑ ڈالنے والی آگ میں پھینکا جائے گا‘‘ (سورۃ الھمزہ)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’’اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ایسے کفران نعمت کرنے والوں کیلئے ہم نے رسوا کن عذاب رکھا ہے‘‘ (النساء:37)۔ اس آیت مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ نے اپنے کرم سے اگر کسی کو دنیاوی دولت، روپیہ پیسہ اور شہرت سے نوازا ہے اور وہ شخض اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اور اس کو چھپا چھپا کر رکھتا ہے تو اس کا یہ عمل اللہ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ہے اور اس کیلئے عذاب کا باعث بنے گا۔ اگر اس مال و دولت پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے تو وہ خوش ہو گا اور نعمت میں اضافہ فرما دے گا، چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’تو (ان نعمتوں پر) مجھے یاد کرو، میں تمہیں (عنایت سے) یاد رکھوں گا اور میری (نعمت کی) شکر گزاری کرو ‘‘(البقرہ: 152)۔ 

جب کسی نعمت کا بندہ شکر گزار ہوتا ہے تو اللہ کریم اپنا فضل و کرم اس بندے کے شکر کے صلے میں اور زیادہ فرما دیتا ہے اور یہ بہت غلط ہے کہ اللہ کسی پر اپنی نوازش اور کرم کرے اور بندہ اس کو چھپائے اور اپنے آپ کو خستہ حال اور لاچار و مجبور ظاہر کرے۔ ایسا کرنا اللہ کی نعمت کی ناشکری ہے اور اللہ بھی جب کسی کو اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اس کی عطا کرد ہ نعمت کا اثر اس بندے کے رہن سہن، کھانے پینے، لباس، مسکن، لین دین غرض ہر چیز پر پڑے۔ اس کے ہر عمل سے اللہ کی نعمت کے ملنے کا اظہار شکرانہ کی صورت میں ہو۔ یہ نہ ہو کہ اللہ تو اس کو اپنے فضل سے نواز رہا ہو اور وہ اپنے عمل قول و فعل سے اس کی نعمتوں کی ناشکری کرے۔ دراصل وہ ہر کس و ناکس پر اپنی مجبوری اس لئے ظاہرکرتا ہے تاکہ جو فضل اللہ نے اس پر کیا ہے اس میں دوسروں کو حصے دار نہ بنانا پڑے۔ 

قرآن پاک رب کریم ارشاد فرماتا ہے کہ ’’جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، ہرگز نہیں وہ توڑ ڈالنے والی آگ میں پھینکا جائے گا‘‘ (الھمزہ:2-4)۔ معلوم ہو کہ جس نے مال جمع کیا اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کیا نہ اپنے اہل و عیال پر اور نہ ہی دوسرے ضرورت مندوں پر تو ایسے شخض سے اللہ بہت سخت حساب لے گا۔ 

جو مال و دولت اللہ اپنے کرم سے کسی بندے کو دیتا ہے اس میں غریبوں اور ناداروں کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلا خاندان کے غریب و نادار رشتے داروں کا ہوتا ہے جن کے حالات سے خاندان کے لوگ بہت اچھی طرح واقف ہوں۔ اس کے بعد یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے۔ اللہ نے جو بھی مال دیا ہے، اسے تمام حق داروں میں در جہ بدرجہ تقسیم کرنے سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ اپنی خواہشات کو انسان اتنا بڑھا دے کہ ان حق داروں کا حصہ بھی خود ہڑپ کر لے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک سزاکی خبر دے دو‘‘ (سورہ توبہ: 34) ۔  ضرورت سے زیادہ سونا چاندی اور مال ودولت جمع کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ یہ سب اللہ کی راہ میں خرچ ہونا چاہیے، اپنی ضرورت سے زیادہ مال کا جمع کرنا اور اسے غریبوں اور ناداروں میں تقسیم نہ کرنا اپنے آپ کو مشکل اور ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور اپنا ہاتھ نہ تو اپنی گردن سے باندھ رکھ کہ خرچ نہ کرے اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے تاکہ ملامت زدہ اور حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے‘‘ (بنی اسرائیل: 29)

اللہ کو ہر کام میں اعتدال بہت پسند ہے۔ حد سے زیادہ اور حد سے کم دونوں ہی عمل نقصان دہ ہیں۔ اعتدال پسندی بہترین طریقہ کار ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور ہم نے تمہیں (ایسی) جماعت بنا دیا ہے جو (ہر پہلو سے) اعتدال پر ہے (البقرہ: 143)۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہ ہے کہ بندہ نہ تو کنجوسی کرے اور نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرے بلکہ اپنے ہر عمل میں اعتدال کا مظاہرہ کرے۔ کنجوسی کی بناء پر انسان اللہ کے بہت سے احکامات کی بجا آوری میں ناکام رہتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ نہ تو وہ کنجوسی کر کے اللہ کی ناراضی مول لے اور نہ سب کچھ دے ڈالے کہ اپنی جائز ضروریات کیلئے بھی کچھ نہ رکھے۔ اگر یہ ایسا کر ے گا تو حسرت زدہ بن جائے گا۔ ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور جس نے بخل کیا اور (اپنے اللہ سے) بے نیاز ی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا اس کیلئے سخت عذاب ہے، اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہو جائے گا‘‘ (سورۃ اللیل :8-11)۔

جس شخص نے کنجوسی سے مال ودولت جوڑ جوڑ کر رکھا، اپنی ذات اپنے عیش و آرام اور اپنی دلچسپیوں پر تو دل کھول کر خرچ کیا مگر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تنگ دلی کا مظاہرہ کیا وہ بڑے خسارے میں رہے گا۔ جو مال اس نے جوڑ جوڑ کر رکھا ہے، وہ اللہ ہی کی امانت ہے۔ اللہ نے وہ مال اسے امانت کے طور پر دیا ہے، اگر وہ یہ امانت غریبوں اور ضرورت مندوں کو نہیں دے گا تو خیانت کا مرتکب ہو گا ،یہ جمع کیا ہوا مال اس کے مرنے کے بعد کس کام آئے گا ؟ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اور جو دل کی تنگی (یا نفس کے بخل) سے محفوظ رہے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ (سورۃ التغابن :16)

زیادہ تر لوگ اپنے نفس کے بخل کی بناء پر ضرورت مندوں کی مدد نہیں کرتے اور نفس کے غلام بنے رہتے ہیں جو انہیں بخل کی طرف مائل رکھتا ہے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے پر خرچ کرنے سے روکتا ہے وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل میں اللہ کی امانت میں مسلسل خیانت کرتے رہتے ہیں ایسے لوگ بڑے نقصان میں ہیں لیکن جو لوگ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں اللہ اپنے فضل سے انہیں اور بھی دے گا جو نیکی کے کاموں میں خرچ نہیں کرتے وہ تنگ دل ہیں اور جو ضرورت کے وقت ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں وہی فلاح پانے والا ہے ایسے شخض کیلئے اللہ نے بہت انعام رکھا ہے جو شخض اپنے نفس کی بے پناہ خواہشوں کے باوجود کسی دوسرے کی مدد کرے اللہ اسے اور زیادہ عطا فرماتا ہے اور اس کے رزق میں وسعت عطا فرماتا ہے۔

 قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ’’ اور جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے فضل کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں، وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ یہ ان کیلئے اچھا ہے بلکہ یہ ان کیلئے بہت برا ہے، جس مال میں انہوں نے بخل کیا ہے اس کا طوق روز قیامت ان کے گلے میں ڈالا جائے گا‘‘ (سورہ آل عمران:19-21)۔

اللہ کی مخلوق جو اپنے تصرف میں لاتی ہے دراصل وہ اللہ کی ہی ملکیت ہے۔ اس نے مخلوق کو عارضی طور پر دیا ہے لہٰذا اس عارضی قبضے کے دوران اللہ کے مال کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کیا جائے اور بخل سے کام نہ لیا جائے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’انسان جلد باز پیدا کیا گیا جب اس پر مصیبت آتی ہے تو یہ گھبرا جاتا ہے اور جب خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے‘‘ (المارج: 19-21)۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا کہ ’’اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا کہ جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں، اور فخر جتاتے ہیں، وہ خود بخل کرتے ہیں، اور دوسروں کو بخل کرنے پر اکساتے ہیں‘‘ (سورۃ الحدید: 24) 

اللہ ہمیں بخل جیسی لعنت سے بچائے رکھے اور دیا ہوا مال اپنی راہ پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی اپنے حبیب پاکﷺ کے صدقے توفیق عطا فرمائے، آمین۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔