مساجدمعاشرتی اصلاح کا مرکز

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں(التوبہ: 18)رسول اللہ ﷺ نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں صاف ستھرا اور خوشبو دار رکھنے کا حکم دیا (سنن ابو داؤد)

مساجد کو بجا طور پر بیت اللہ کی بیٹیاں کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کی اصل اور مرکزیت کعبۃ اللہ ہے۔ جس طرح ماں اپنی بیٹیوں میں محبت، شفقت اور روشنی بانٹتی ہے، اسی طرح بیت اللہ دنیا بھر کی مساجد کو روحانیت، تقدس اور مرکزیت عطا کرتا ہے۔ ہر مسجد، چاہے وہ کسی گاؤں کی چھوٹی سی عبادت گاہ ہو یا کسی بڑے شہر کا عظیم الشان مرکز، اپنے قبلے کی نسبت سے بیت اللہ سے جڑی ہوئی ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں مسجد آباد ہوئی، وہاں ایمان اور کردار بھی پروان چڑھا۔ جہاں مسجد ویران ہوئی، وہاں دین کا چراغ بجھنے لگا۔ اسی لیے قرآن و سنت میں مساجد کی تعمیر، ان کی قربت اور ان کو آباد رکھنے پر بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔چند اہم باتیں درج ذیل ہیں۔

مسجد کی تعمیر کی فضیلت

قرآن کریم میں ارشاد ہے:اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں(التوبہ: 18)۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں صاف ستھرا اور خوشبو دار رکھنے کا حکم دیا۔ (سنن ابو داؤد)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کو سب سے زیادہ محبوب جگہیں مساجد ہیں(صحیح مسلم)۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی، اللہ اس کیلئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا(صحیح مسلم)۔ یہ تعمیر صرف اینٹ اور پتھر کا ڈھیر کھڑا کرنے کا نام نہیں بلکہ نیت خالص ہونی چاہیے کہ یہ گھر صرف اللہ کی عبادت کیلئے بنایا جا رہا ہے۔

مسجد سے محبت

نبی کریم ﷺنے فرمایا: سات آدمی وہ ہیں جنہیں اللہ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا۔ ان میں ایک وہ شخص ہے جس کا دل مسجدوں سے جڑا ہوا ہو۔(صحیح البخاری)، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دل ہمیشہ مسجد کی طرف مائل ہو، وہاں نماز، ذکر، اور تعلیم میں دل لگتا ہو۔

مسجد کے قریب رہائش کی فضیلت

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  تاریکیوں میں مسجدوں کی جانب چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی بشارت سنا دو(ابن ماجہ)۔ مسجد کے قریب رہنا محض سہولت کا مسئلہ نہیں بلکہ روحانی برکت کا ذریعہ بھی ہے۔مسجد کے قریب رہنا بچوں کی تربیت کیلئے بھی مؤثر ہے، کیونکہ وہ روزانہ اذان کی آواز سنتے ہیں، نماز پڑھنے کا ماحول دیکھتے ہیں اور دین سے مانوس ہوتے ہیں۔الغرض ہمیں تو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر لوگ اذان دینے اور صفِ اوّل میں کھڑے ہونے کا ثواب جان لیں تو قرعہ ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ اور اگر وہ جان لیں کہ مسجد کے قریب رہنے میں کیا خیر ہے تو وہ ضرور مسجد کے قریب رہائش اختیار کریں گے۔ 

مسجد کو آباد کرنا

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو چر لیا کرو۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’مساجد‘‘، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! چرنے سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکبَر پڑھنا (سنن الترمذی)۔

حقیقی  طور پر  مساجد کو آباد کرنے والے وہ ہیں جو صرف ظاہری تعمیر سے نہیں بلکہ عبادت، ذکر اور تعلیم سے مساجد کی روح کو زندہ رکھتے ہیں۔مسجد میں نماز، تلاوت، دعا اور اذکار کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ آنے والا دل کا سکون پائے۔ 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مسجد ہی دینی تعلیم کا بنیادی مرکز تھی۔ آج بھی اگر مساجد میں قرآن کلاسیں، حدیث کے حلقے اور بچوں کیلئے تعلیم کا انتظام ہو تو یہ حقیقی آباد ہو گی۔ 

منبر مسجد معاشرتی برائیوں کے خاتمے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ یہاں سے خیر، محبت، اتحاد اور ایثار کا پیغام جانا چاہیے۔ مسجد کے ذمہ داران کو چاہیے کہ ضرورت مندوں کی مدد، یتیموں کی کفالت اور محلے کے مسائل کے حل میں کردار ادا کریں۔

مسجد کا کردار

آج جبکہ مادہ پرستی اور دینی بے رغبتی بڑھ رہی ہے، مساجد کو صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ ایمان کی قلعہ بندی کا مرکز بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے امام و مؤذن کا کردار مثالی ہو، مسجد کا ماحول صاف اور پرسکون ہو، نوجوانوں کو مسجد سے جوڑنے کیلئے پروگرام ہوں ۔ جو دل اللہ سے جڑتا ہے، وہ مسجد سے بھی جڑتا ہے۔

 ہمیں چاہیے کہ اپنی مساجد کو ایمان، تعلیم اور معاشرتی اصلاح کا گہوارہ بنائیں۔ یہی وہ حقیقی خدمت ہے جس کا صلہ جنت ہے اور یہی وہ سرمایہ ہے جو قیامت میں ہمارے ساتھ ہوگا۔ مسجد کا ادب یہ ہے کہ وہاں بلند آواز، دنیاوی باتیں اور خرید و فروخت سے بچا جائے۔ بچے اور نوجوان مسجد سے محبت کریں، نمازی وقت کی پابندی کریں۔ مسجد کی رونق نماز باجماعت سے ہے اور جماعت کے ساتھ تعلق مضبوط رکھا جائے۔ مساجد امت کی وحدت، ایمان کی تازگی اور دلوں کی زندگی کا مرکز ہیں، اس لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ مسجد کو آباد رکھے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭