وفا کا پیکر (قسط نمبر 1)

تحریر : اشفاق احمد خاں


وہ کھیل کود میں مصروف تھا۔ اسے اپنے گردو پیش کی کچھ خبر نہ تھی۔ بڑے عرصے کے بعد تو اسے گھومنے پھرنے اور کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ اس کی والدہ اسے ہر وقت اپنی نگاہوں میں رکھتی تھیں۔ لیکن یہاں ایسا نہیں تھا۔ وہ اپنے نانا کے پاس آیا ہوا تھا اور بچے اپنے ننھیال میں جو آزادی پاتے ہیں وہ کہیں اور کیسے نصیب ہو سکتی ہے۔ وہ بچہ اس آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے گھر سے کچھ فاصلے پر کھیل میں مصروف تھا۔

اچانک اس کے کانوں میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز پڑی۔ وہ چونک گیا۔ دور گردو غبار کے بگولے اٹھ رہے تھے۔ یہ گرد و غبار رفتہ رفتہ اس کے قریب آتا گیا۔ گرد چھٹی تو کرخت چہروں والے گھڑ سوار نمودار ہوئے۔ ان کے گھوڑے طرح طرح کے مال سے لدے ہوئے تھے۔ وہ بچہ بہت حیران ہوا۔ تاجر تو ہمیشہ اونٹوں پر اپنا مالِ تجارت لے کر جاتے تھے۔ یہ پہلے تاجر تھے جو گھوڑوں پر مال لے جا رہے تھے۔ لیکن وہ جا کہاں رہے تھے، وہ تو اس کے پاس آکر رک گئے۔ ان کے چہروں سے خباثت ٹپک رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے چند ایک نیچے اترے اور اس کی طرف بڑھے۔ بچہ خوفزدہ ہو گیا۔ ان کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ لیکن اس  سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، یا اس کے حلق سے کوئی آواز نکلتی، انہوں نے اسے دبوچا اور گھوڑے پر لاد کر یہ جاوہ جا! کسی کو بھی اس سانحہ کی خبر نہ ہو سکی۔

یہ گھڑ سوار قبیلہ بنوقین بن جسر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا کام ہی لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ تھا۔ کوئی ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اسے غلاموں کے بازار میں فروخت کر دیتے، جس بچے کو انہوں نے اغوا کیا تھا اس کا نام زید تھا۔ اس وقت اس کی عمر صرف دس سال تھی۔ زید کو عُکاظ کے بازار میں لایا گیا۔ یہ جگہ تجارت کیلئے بہت مشہور تھی۔ لوگوں کی اکثریت خرید و فروخت کیلئے اس بازار کا رخ کرتی تھی۔

زید فروخت ہونے کیلئے کھڑا تھا۔ یاد رہے، یہ وہ دور تھا جب انسان بھی جانوروں اور مویشیوں کی طرح بکتے تھے۔ آزاد انسانوں کو غلام بنا کر ان کی زندگی ہمیشہ کیلئے تاریک بنا دی جاتی تھی۔ عکاظ کے بازار میں، زید حسرت و بے چارگی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ اس کے معصومیت سے بھرے بچپن کے دن اس کے دل کو تڑپا رہے تھے۔ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہوگا۔ ابھی تو اس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے۔ آرزوئوں اور خواہشات کی دنیا میں مگن رہنے کے دن تھے۔ ان ظالموں نے اس کے خوابوں کی دنیا ہی لوٹ لی تھی۔ اس سے اس کے پیارے رشتے چھین لئے تھے۔

’’شاید، اب میں کبھی اپنے پیاروں کی آواز نہ سن سکوں‘‘ زید نے آنسو بہاتے ہوئے سوچا۔ یہ اس کے ساتھ کیسی اَنہونی ہو گئی تھی۔ اپنے خاندان سے دور جانوروں کی طرح بکائو مال بن کر کھڑا تھا۔ زید دل میں سوچ رہا تھا کہ بکنا تو اب مقدر ہو ہی گیا ہے، کاش! کوئی ایسا مالک ملے جو اس سے پیار محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ کہتے ہیں زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب دل کی خواہش آناً فاناً پوری ہو جاتی ہے۔ زید کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

عکاظ کے بازار میں ایک شریف النفس خریدار آ ہی گیا۔ زید کی اس پر نظر پڑی تو اس کی نگاہوں میں چمک سی آ گئی۔ حسب نسب سے وہ واقعی کسی اچھے قبیلے سے لگتا تھا۔ شرافت کی روشنی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ زید دل ہی دل میں تمنا کرنے لگا کہ کاش وہ اسے خرید لے۔ وہ آدمی چلتے چلتے، ادھر اُدھر چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے جب زید کے پاس پہنچا تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ اس کمسن بچے کو دیکھ کر اسے حیرت ہوئی، نہ جانے کس گلشن کا یہ پھول تھا۔ نہ جانے ظالموں نے کس ماں کی گود کو اجاڑا تھا۔ زید کی معصومیت اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ انہیں تمنا اور خواہش تو نہیں تھی پھر بھی انہوں نے زید کو خرید لیا۔ یوں وہ زید کے مالک بن گئے۔

 زید کا مالک کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ اس کا نام حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ تھا۔ وہی حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جو ہمارے نبیﷺ کی پہلی بیوی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ زید کو اپنے گھر لے آئے۔ زید کے چہرے سے نیکی اور شرافت نمایاں تھی۔ اس لئے وہ اپنے مالک کے چہیتے بن گئے۔

ایک دفعہ سیدہ خدیجۃ رضی اللہ عنہا اپنے بھتیجے سے ملنے کیلئے گئیں۔ وہاں انہوں نے زید (رضی اللہ عنہ) کے طور طریقے دیکھے۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے سب کے سامنے اس بچے کی تعریف کی کہ یہ بچہ کس قدر عمدہ اخلاق کا مالک ہے۔ کتنی خوش اسلوبی سے کام انجام دیتا ہے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ابھی وہاں سے واپس آئی ہی تھیں کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے زید کو ان کی خدمت میں بطور تحفہ بھیج دیا، اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ تحفہ رسول اقدس ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یوں زیدؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ 

زیدؓ کے والد کا نام حارثہ بن شراجیل تھا۔ ان کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا۔ قسمت نے انہیں خادم بنا کر بار گاہ نبوی میں پہنچا دیا۔ وہیں ان کی تربیت اور پرورش ہوئی۔ زید ؓ کا آپ ﷺ سے اتنا قریبی تعلق تھا کہ آپﷺ نے انہیں یہ بشارت دی کہ جس طرح تم دنیا میں میرے ساتھ ہو جنت میں بھی میرے ساتھ ہو گے۔ اس جلیل القدر ہستی زید بن حارثہؓکے ہاں اس بیٹے نے جنم لیا جس کا ذکر ہم کرنے جا رہے ہیں۔(جاری ہے)

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭