سندھ کابینہ میں تبدیلی کا امکان
پنجاب میں سیلاب کی صورتحال دیکھتے ہوئے سندھ حکومت نے بھی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی کراچی میں طویل ملاقات ہوئی جس میں متوقع سیلابی صورتحال اور فنڈز کے استعمال پر بات چیت ہوئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ کابینہ میں تبدیلی کا بھی امکان ہے۔ سنا ہے کچھ لوگ، جن سے بڑے خوش نہیں،کابینہ سے ہٹائے بھی جاسکتے ہیں اور کچھ موجودہ وزرا، مشیران یا کئی عہدے رکھنے والوں کو مزید عہدے دیئے جاسکتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا کچھ ہونے والا ہے کیونکہ صدرِ پاکستان کی کئی روز کراچی میں موجودگی کچھ اہم اشارے تو ضرور کر رہی ہے!
ادھرسیلاب اور بارش کو جواز بنا کر منافع خوروں کی ایک بار پھر چاندی ہوگئی ہے۔ حکومتی کوششوں کے باوجود چینی کی قیمت میں کمی نہیں آ سکی، گندم اور آٹا بھی مہنگا ہورہا ہے۔ بلوچستان میں 100کلو گندم کی بوری کی قیمت میں دو چار سو روپے نہیں ایک ساتھ دو ہزارروپے اضافہ ہو چکا ہے۔ اب یہ بوری بارہ ہزارروپے تک پہنچ گئی ہے۔ سندھ میں بھی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ نہ جانے کون لوگ ہیں جو ناجائز طریقے سے قیمت بڑھاتے ہیں، مہنگائی کا رونا روتے ہیں، حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں اور پھر اپنے گھروں، دکانوں اور کارخانوں میں مزے سے بیٹھے رہتے ہیں۔ سیاستدان مغرب کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن کوئی بھی کسی مغربی حکومت کی طرح منافع خوروں سے نمٹنے کی کوشش نہیں کرتا۔قیمت کی بات کریں تو کراچی کے بیشتر تندوروں پر روٹی کی قیمت میں پھر اضافہ کردیا گیا ہے۔ کوئی بجلی تو کوئی گیس مہنگی ہونے کا بہانہ بنا رہا ہے حالانکہ حکومت نے گیس سلنڈرز کی قیمت میں کمی کی ہے۔ پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ ہے تو کہاں ہے؟
کراچی آبادی اور آمدنی دونوں لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، شہر کی بدنصیبی بھی اسی طرح بہت بڑی ہے۔ بارش نے تو عوام کے ساتھ جو کیا سو کیا مگراس وقت شہر کی سڑکوں کی بدترین حالات نے عوام کو آٹھ آٹھ آنسو رلا دیا ہے۔بارش کے بعد جمع ہونے والا کیچڑ جو اَب سوکھ کر ہوا میں گرد بن کر اڑ رہا ہے، اس نے نزلہ، زکام اور جلدی بیماریوں میں شہریوں کو مبتلا کرنا شروع کردیا ہے لیکن میئر مرتضیٰ وہاب نے واضح کردیا ہے کہ مون سون بارشیں ختم ہونے کے بعد ہی سڑکوں کی مرمت ہو گی۔ البتہ انہوں نے شہر کے ٹاؤنز کو ہدایت کی ہے کہ انہیں جو فنڈز ملے ہیں وہ اکاؤنٹس کی زینت بنانے کے لیے نہیں، چیئرمین اپنے اپنے علاقوں میں سڑکوں کی مرمت پر توجہ دیں اور اس میں ایمانداری کو مدنظر رکھیں۔ انہوں نے کسی سیاسی جماعت کا نام تو نہیں لیا البتہ ان کا اشارہ غالباً جماعت اسلامی کی طرف ہی ہوگا۔ چند دن پہلے کی بات ہے مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ سندھ حکومت کی طرف سے جماعت اسلامی کے نو ٹاؤنز کو ماہانہ ایک ارب روپے دیے جاتے ہیں، اب تک ان ٹاؤنز کو 27ارب روپے دیے جاچکے ہیں۔ابھی عوام حیرت زدہ ہی تھے کہ جماعت اسلامی نے ملنے والی رقم کا حساب پیش کردیا۔امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر نے کہا کہ گزشتہ مالی سال میں اوسطاً ماہانہ 90کروڑ 76 لاکھ روپے ملے، ہر ماہ تقریباً 70کروڑ 34 لاکھ تنخواہوں کی مد میں چلے گئے، باقی 20کروڑ میں سے ٹاؤنز نے پٹرول، ملازمین کی لیو انکیشمنٹ، میڈیکل، پی ایف اور انشورنس پر خرچ کیے، صرف گلشن اقبال ٹاؤن نے دیگر اخراجات پر تین کروڑ روپے اپنے وسائل سے خرچ کیے۔ منعم ظفر کا کہنا تھا کہ شہر پانی سے نہیں کرپشن، نااہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے ڈوبا ہے۔ جماعت اسلامی نے 31اگست کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے حقوق کراچی مارچ نکالنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔
دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ کراچی کے عوام کو ڈاکوؤں اور تیز رفتار بھاری گاڑیوں کے ہاتھوں موت اور ذلت کا بھی سامنا ہے۔ پہلے اس ذلت کا ذکر کرلیتے ہیں جو اس شہر کے ایک نوجوان کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں سہنا پڑی۔ڈاکوؤں نے نہ صرف نوجوان کو لوٹا، تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ بڑی دیدہ دلیری سے سڑک پر مرغا بنایا اور اس کے منہ پر لات بھی مار دی۔ گو کہ ڈاکو کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے لیکن ویڈیو دیکھ کر عوام میں بڑا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ صوبائی و شہری حکومت اور پولیس کو مسئلے کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے۔ یقینی طور پر جو بات میرے دل و دماغ میں ہے لیکن قلم اسے لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، امید ہے بات حکومت کو بھی سمجھ میں آرہی ہوگی۔عوام کا حال اپنی جگہ ڈاکوؤں نے تو ایس ایس پی کے گھر کو بھی نہ بخشا۔ ایس ایس پی شہر کے پوش علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی اہلیہ سندھ حکومت کی ترجمان بھی ہیں، ڈاکو ان کے گھر سے بھاری مالیت کے زیورات، ڈالرز، نقد رقم، موبائل فونز اور گارڈ ڈیوٹی پر مامور سوتے ہوئے اہلکار کا پستول بھی لے اُڑے۔ پولیس نے چارسہولت کاروں کو گرفتار کرلیا ہے البتہ واردات کے حوالے سے جاری قیاس آرائیوں پر پیپلز پارٹی رہنما اقربا فاطمہ نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں یہ زیورات شادی کے موقع پر تحائف کی صورت میں ملے تھے،افواہیں بے بنیاد اور قیاس آرائیاں سراسر غلط ہیں۔ سوشل میڈیا کو اگر غیر ذمہ دار نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔
شہر میں بھاری اور تیز رفتار گاڑیاں بھی عوام کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہیں۔ سوموار کو تیز رفتار منی بس نے موٹرسائیکل پر سوار چار افراد کو روند ڈالا جن میں سے خاتون سمیت 3افراد چل بسے، منگل کو ڈمپر نے موٹرسائیکل سوار باپ بیٹے کو کچل دیا،ایک پانچ سالہ بچہ بھی جاں بحق ہوگیا۔