مجید امجد کی نظم عملِ خیر کا تسلسل
مجید امجد کی نظمیں اس امر کی غماز ہیں کہ وہ خوشی کے التوا کے نظریے کے قائل نہیں بلکہ کسی بھی پل ملنے والی چھوٹی سے چھوٹی مسرت کو بھی وہ زندگی کی ایک بڑی قدر خیال کرتے ہیں۔
’’امروز ‘‘ اس سلسلے کی ایک اہم نظم ہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی کی جمالیات کی عکاسی کرتے ہوئے مجید امجد نے بہت سی ایسی دلچسپ نظمیں تخلیق کی ہیں جو لمحہ موجود سے مسرت کشید کرنے کے سلسلے میں بہت اہم ہیں مگر ان کی طرف خاص توجہ نہیں کی گئی مثلاً بعض فلمی اداکاراؤں پر ان کی نظمیں اس حوالے سے بڑی پْر کشش ہیں۔ اس کے علاوہ ‘‘ کیلنڈر کی تصویر ‘‘، ائیر پورٹ‘‘ اور ’’ایک فلم ‘‘ ایسی نظمیں قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے کی ایک بڑی خوبصورت نظم ملاحظہ ہو ’’جو لاہور میں‘‘ کے عنوان سے ہے :
ڈاک خانے کے ٹکٹ گھر پر خریداروں کی بھیڑ !
ایک چوبی طاقچے پر کچھ دوائیں اک قلم
قلم میں نے اٹھایا اور خط لکھنے لگا:
پیارے ماموں جی !
دعا کیجئے
خدارکھ لے بھرم
آج انٹرویو ہے ! کل تک فیصلہ ہو جائے گا
دیکھیں کیا ہو؟ مجھ کو ڈر ہے۔۔۔
اتنے میں تم آگئیں !
اک ذرا تکلیف فرما کر پت لکھ دیجیے‘‘
میں نے تم سے لفافہ لے لیا، جھجکا نہیں،
بے دھڑک لکھ ڈالا میں نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ
مختصر، رنگین پتہ: گلگت میں … گوہر خان کے نام!
’’شکریہ … جی کیسا ؟ … اک ہستی نگہ زیر نقاب
ڈاک میں خط ! تانگہ ٹمپل روڈ کو … قصہ تمام!
مجید امجد نے عملی سطح پر یا نظریاتی طور پر کسی تحریک کا حصہ نہ تھے لیکن انہوں نے ایک انٹرویو میںاپنی شاعری کو عمل خیر کا تسلسل قرار دیا تھا اور کسی معاشرے میں اس سے بڑا عمل خیر کیا ہو گا کہ اپنے ہم عصرانسان کے حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ اس کائنات میں دہشت و وحشت کی قوتوں کا راستہ روک کے اصل انسانی معصومیت کو تلاش کیا جائے اور لمحہ موجود کو دستیاب مسرت خیال کرتے ہوئے بہجت و نشاط کشید کی جائے۔
مجید امجد کی نظم میں جہاں طبقاتی جدوجہد ہے۔ وہاں انہوں نے عام آدمی کی زندگی کی جمالیات کی تصویر کشی کرتے ہوئے اس کی توجہ لمحہ موجود کی مسرت کی طرف دلائی ہے کہ زندگی کا یہی وہ لمحہ ہے جو اس کے پاس ہے اور اسے حاصل ہونے والی بہجت کو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان نظموں میں بھی بین السطور طبقہ اشرافیہ اور صاحبان سطوت پر طنز ہے کہ وہ کس طرح خود کو مستقبل کے ان ارادوں کے لیے گھلاتے رہتے ہیں جو ان کی زندگی میں پورے ہونے والے نہیں۔ وہ اپنی نسل کے آنے والے افراد کی زندگیوں کے لیے فکر مندرہ کر اپنے ہم عصر انسانوں اور ان کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے کشت و خون کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔