شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے شعری مصرعے ''ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے جرمن نژاد برطانوی خاتون کیرولین ہرشل نے دور بین کے شیشے صاف کرتے کرتے خلائوں کا مشاہدہ شروع کیاتو اس حیرت انگیز انوکھی دنیا کے کئی رازوںپر سے پردہ اٹھایا۔ ان کے مشاہدات آج بھی ماہر فلکیات کیلئے مشعل راہ ہیں۔ کیرولین ہرشل دنیا کی پہلی ماہر فلکیات خاتون ہیں۔ کیرولین ہرشل 16 مارچ 1750 کو ہینوور، جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ کیرولین ہرشل کے والدآئزک مقبول موسیقار تھے۔کیرولین پانچ بہن بھائی تھے جو کہ ریاضی، فرانسیسی اور موسیقی کی کا علم حاصل کر رہے تھے جبکہ کیرولین کی والدہ نے لڑکی ہونے کی وجہ سے اسے تعلیم دینا ضروری نہ سمجھی اور گھر کے کام کاج میں لگا دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کی طرح باقی بہن بھائیوں کے کام کرنے لگی۔ دس سال کی عمر میں کیرولین بیمار ہوگئی اس مہلک بیماری نے اس کی نشونما کو مستقبل طور پر روک دیا۔بیماری کے باعث ہرشل کی شادی نہ ہوسکی اور 22 سال تک اپنے والدین کے گھر ہی گھریلو ملازمہ کی طرح زندگی گزارتی رہی۔ ان دنوں ان کا بھائی ولیم تعلیم حاصل کرنے اور روز گار کے سلسلے میں انگلینڈ کیلئے روانہ ہوا تو کیرولین کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ ولیم موسیقی کا ماہر تھا اس لئے و لیم نے اپنی بہن ہرشل کیرولین کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور اس طرح ہرشل ایک ماہرپیشہ ور گائیکہ بن گئی ۔ولیم فلکیات کے علم کا بھی شوق رکھتا تھا۔اس نے فلکیات کے علم میں دلچسپی کی وجہ سے ایک طاقتور دور بین بنانا شروع کی۔ یہ ایک ایسی دوربین تھی جس سے وہ خلا میں گہرائی تک دیکھ سکتا تھا۔ ہرشل کیرولین بھی گھرکے کام کاج کے ساتھ ساتھ بھائی ولیم کی ٹیلی سکوپ بنانے میں مدد کرنے لگی۔ اس دوران ہرشل کو بھی خلائوں میں جھانکنے کا شوق پیدا ہوا اورزیاد ہ سے زیادہ وقت اپنے بھائی کے ساتھ گزارنا شروع کردیا اور ولیم کے فلکیاتی علم میں مدد کرنا شروع کر دی۔ ولیم نے ٹیلی سکوپ بنانے میں اتنی شہرت حاصل کی کہ اس نے موسیقار کی نوکری چھوڑ دی اور باقاعدہ طورپر دور بین بنانے اور فلکیات پر تحقیق شروع کر دی۔ ولیم نے 1781ء میں سیارہ یورینس دریافت کیا اور اس کے بعد اسے کنگ جارج III کے درباری ماہر فلکیات کا خطاب دیا گیا اور حکومت کی طرف سے باقاعدہ تنخواہ کا اعلان بھی کیاگیا۔ اکثر اوقات ولیم اپنے تیار کردہ ٹیلی سکوپ کے ذریعے سیڑھی پر کھڑے ہو کر خلاء کا مشاہدہ کرتا اور مشاہدے کے دوران جو نظر آتا وہ کیرولین ہرشل کو بتاتا اور وہ اسے قلمبند کرتی جاتی ۔ اس طرح ہرشل بھی فلکیات کے مشاہدے میں گہری دلچسپی لینے لگی۔ ولیم نے آسمان کا سروے شروع کیا۔ اپنی دوربین پر ایک سیڑھی پر کھڑے ہو کر، اس نے اپنے مشاہدات کیرولین کو بتا ئے۔ آخر کار، انہوں نے 2,500 نئے نیبولا اور ستاروں کے جھرمٹ کی ایک فہرست مرتب کی، جسے ''نیو جنرل کیٹلاگ‘‘ (NGC)کا نام دیا گیا۔ خلائوں میں بہت سی غیر تاریک اشیاء کی شناخت ان کے ''این جی سی نمبر‘‘ سے ہوتی ہے۔ کیرولین اکثر اپنے طور پر آسمان کا مطالعہ کرنے کیلئے ایک چھوٹا نیوٹنین سویپر استعمال کرتی تھی۔ 26 فروری 1783ء کو کیرولین نے ایک کھلا جھرمٹ دریافت کیا جسے آج ''این جی سی 2360‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیرولین ہرشل نے تین نئے نیبولا (دھندلے بادل جہاں ستارے بنتے ہیں) دریافت کئے۔یکم اگست 1786ء کو، کیرولین نے رات کے وقت آسمان سے آہستہ آہستہ سفر کرنے والی ایک چیز (دم دار ستارے )حرکت کرتے ہوئے دیکھی ۔ اس نے اگلی رات دوبارہ اس کا مشاہدہ کیا اور فوری طور پر دیگر ماہرین فلکیات کو خط کے ذریعے دم دار ستارے کی دریافت کے بارے آگاہ کیا تا کہ وہ بھی ان کے بتائے ہوئے خطوط پر خلاء کا مشاہدہ کرتے ہوئے مطالعہ کریں اوردم دار ستارے کو دیکھیں۔ دم دار ستارے کی دریافت کے بعد ہرشل کیرولین کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ماہر فلکیات تسلیم کرلیا گیا۔ 1787ء میں، کنگ جارج III نے اسے ولیم کے اسسٹنٹ کے طور پر ملازم رکھا۔ اس طرح سائنسی خدمات کیلئے تنخواہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون ماہر فلکیات بن گئیں۔ 1786ء اور 1797ء کے درمیان اس نے آٹھ دم دام ستارے دریافت کیے۔ کیرولین نے اپنی اور ولیم کی ہر دریافت کی فہرست بنائی۔ کیرولین ہرشل کے شائع کردہ فلکیاتی کیٹلاگ میں سے دو آج بھی استعمال میں ہیں۔ ان کی چھیاسیویں سالگرہ پر ''کنگ آف پرشیا کے گولڈ میڈل آف سائنس‘‘ سے نوازا گیا۔ 1822ء میں ولیم کی موت کے بعد، کیرولین جرمنی واپس آگئیں اور نیبولا کے اپنے کیٹلاگ پر کام جاری رکھا۔ اس نے رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کا گولڈ میڈل حاصل کیا اور رائل سوسائٹی میں اعزازی رکنیت حاصل کی۔کیرولین ہرشل کا انتقال9 جنوری 1848ء کو ہوا۔ اس نے اپنے مقبرے کے پتھر پر یہ نوشتہ لکھا، جس میں لکھا ہے: "The eyes of her who is glorified here below turned to the starry heavens."