زبان خامہ کی چند عام خامیاں

زبان خامہ کی چند عام خامیاں

اسپیشل فیچر

تحریر : طالب الہاشمی


قائمقام؟کچھ عرصہ سے ہمارے بعض صحافی دوست اپنی تحریروں میں ’’قائم مقام‘‘ کی جگہ ’’قائمقام‘‘ لکھ رہے ہیں۔ ایک ’’م‘‘ کو حذف کر دینا بِلا جواز ہے۔ ’’قائم مقام‘‘ ہی صحیح لفظ ہے۔ناراضگی، حیرانگی، محتاجگی، درستگی وغیرہ؟ناراضی، حیرانی، محتاجی اور درستی کی جگہ ناراضگی، حیرانگی، محتاجگی اور درستگی لکھنا اور بولنا فصاحت اور قاعدے کے خلاف ہے۔ فارسی قاعدہ یہ ہے کہ اگر اسمِ صفت کا آخری حرف ہ (ہا) نہ ہو تو حاصل مصدر بنانے کے لئے اس کے آخر میں ی (یا) لگاتے ہیں چنانچہ ناراض، حیران، محتاج، درست وغیرہ جتنے اسمائے صفات ’’ہ‘‘ پر ختم نہیں ہوتے ان کے حاصل مصدر ناراضی، حیرانی، محتاجی، درستی بنتے ہیں۔ صرف دو لفظ ’’ادا‘‘ اور ’’کرخت‘‘ اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کے حاصل مصدر کرختی اور ادائیگی کے بجائے کرختگی اور ادائیگی بنائے گئے ہیں ورنہ اصولاً جب کسی اِسم صفت کا آخری حرف ہ ہو تو ’’ہ‘‘ کی جگہ ’’گی‘‘ لگا کر اس کا حاصل مصدر بنایا جاتا ہے مثلاً عمدہ، شستہ، مردانہ، کمینہ، نمایندہ، فرزانہ، درندہ، زندہ، فریفتہ، وارفتہ، سنجیدہ کے حال مصدر عمدگی، شستگی، مردانگی، کمینگی، نمایندگی، فرزانگی، درندگی، زندگی، فریفتگی، وارفتگی، سنجیدگی ہوں گے۔ خوامخواہ؟صحیح لفظ ’’خواہ مخواہ‘‘ جس کا مطلب ہے ’’چاہو یا نہ چاہو‘‘ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی شخص کسی دوسرے کے معاملے میں بِلاجواز یا زبردستی دخل دے۔ معلوم نہیں بعض اہلِ قلم اپنی تحریروں میں ’’خواہ‘‘ کے بعد ’’ہ‘‘ کو کیوں خذف کر دیتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
’’کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ مصنوعی بارش کیسے ہوتی ہے،کامیابی کے امکانات کتنے؟

’’کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ مصنوعی بارش کیسے ہوتی ہے،کامیابی کے امکانات کتنے؟

لاہور میں مصنوعی بارش برسانے کے منصوبے پر عمل درآمد کیلئے حکومتی سطح پر ورکنگ گروپ قائم کر دیا گیا ہے۔ورکنگ گروپ میں وفاقی، صوبائی محکموں اور ریسرچ سے وابستہ عسکری اداروں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ایک اجلاس میں مصنوعی بارش برسانے کے طریقہ کار پر بریفنگ دی گئی، جہاں بتایا گیا کہ ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کیلئے پہلا ٹرائل چار سے چھ ہفتے میں متوقع ہے۔''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ یا مصنوعی بارش کا تصورخاصا پرانا ہے ۔1891ء میں لوئس گیتھ مین نامی ایک جرمن نژاد امریکی انجینئر نے بارش کے حامل بادلوں میں مائع کاربن ڈائی آکسائیڈ سپرے کرکے بارش برسانے کی تجویز پیش کی تھی۔ 1930ء میں ''wegner- bergeron- findeisen - process‘‘ کا نظریہ پیش کیا گیا۔جس کے مطابق بارش والے بادلوں پر برف کے ذرات چھڑکے جائیں تو بارش ہو سکتی ہے۔ تاہم جولائی 1946ء میں امریکی ماہر موسمیات اور کیمیا دان ونسنٹ شیفر نے کلاؤڈ سیڈنگ کے اصول کودریافت کیا۔مصنوعی بارش یعنی ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ مختلف مادوں کو ہوا میں چھڑک کر بارش برسانے کا طریقہ ہے۔ اس تکنیک میںسلور آئیوڈائیڈ، پوٹاشیم آئیوڈائیڈ یا خشک برف بارش کے حامل بادلوں پر چھڑک کر کلاؤڈ سیڈنگ کی جاتی ہے، یعنی ان بادلوں کے اندر پانی کی بوندوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور بارش برسائی جاتی ہے۔ اگرچہ مصنوعی بارش کا تجربہ کئی دہائیوں سے کیا جا رہا ہے لیکن اس کے مؤثر ثابت ہونے کی صلاحیت حالات اور دیگر عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔مصنوعی بارش کے تجربات کا ذکر کیا جائے تو آسٹریلیا میں ''کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن‘‘ (CSIRO) نے 1947ء اور 1960ء کی دہائی کے اوائل کے درمیان مصنوعی بارش کے کئی ٹرائلز کئے۔ 1947ء تا 1952ء کے دوران CSIRO کے سائنسدانوں نے خشک برف کو کمولس بادلوں میں چھڑک کر یہ تجربہ کیا اوراس طریقہ نے کامیابی سے کام کیا ۔1953ء تا 1956ء کے دوران CSIRO نے جنوبی آسٹریلیا، کوئنز لینڈ اور دیگر ریاستوں میں اسی طرح کی آزمائشیں کیں۔ ان تجربات میں زمین اور ہوا سے چلنے والے سلور آئیوڈائیڈ جنریٹرز کا استعمال کیا گیا۔1950ء کی دہائی کے آخر اور 1960ء کی دہائی کے اوائل میں کوئنز لینڈ کے جزیرہ نما کیپ یارک پر، نیو ساؤتھ ویلز کے نیو انگلینڈ ڈسٹرکٹ میں اور سڈنی کے مغرب میں واراگامبا کیچمنٹ ایریا میں کلاؤڈ سیڈنگ کی گئی۔تھائی لینڈ:تھائی لینڈ رائل رین میکنگ پراجیکٹ نومبر 1955ء میں شروع کیا گیا۔ تھائی کسانوں کو بار بار خشک سالی کے اثرات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا تو اُس وقت کے بادشاہ نے اس کیلئے کچھ کرنے کا عزم کیا اور مصنوعی بارش کو پانی کی کمی کا ایک حل تجویز کیا ۔ چین:اس وقت دنیا میں کلاؤڈ سیڈنگ کا سب سے بڑا نظام چین میں ہے۔ چین نے 2008ء کے اولمپکس سے پہلے بیجنگ میں ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کا استعمال کیا۔ بھارت:بھارت میں شدید خشک سالی کی وجہ سے تامل ناڈو حکومت کی طرف سے 1983ء، 1984ء،1993ء اور94ء کے دوران ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ آپریشن کیے گئے ۔ 2003ء اور 2004ء میں کرناٹک حکومت نے بھی ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کا آغاز کیا۔ اسی سال ریاست مہاراشٹر میں امریکہ میں قائم ویدر موڈی فیکیشن انکارپوریشن کے ذریعے ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ آپریشنز کیے گئے۔ایران:جون 2022ء میں ایران کی ایرو سپیس فورس نے ایران کے 10 صوبوں میں ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کیلئے ڈرون استعمال کئے۔متحدہ عرب امارات:متحدہ عرب امارات خلیج فارس کے خطے میں ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والا پہلا ملک ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سائنسدان ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے پانی کی عدم تحفظ کو پورا کرتے ہیں، جو کہ انتہائی گرم آب و ہوا سے پیدا ہوتی ہے۔مشرق بعیدکے کئی ممالک میں بھی ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ سے بارش برسانے کی خبریں آ چکی ہیں۔20 جون 2013ء کو انڈونیشیا نے کہا تھا کہ وہ سنگاپور اور ملائیشیا کی رپورٹوں کے بعد ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ آپریشن شروع کرے گا تا کہ سماٹرا جزیرے میں جنگلات کی آگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کو ختم کیا جاسکے جو کہ پڑوسی ممالک میں روزمرہ کی سرگرمیاں متاثر کر رہی تھی۔ ملائیشیا میں کلاؤڈ سیڈنگ پہلی بار 1988ء میں تین مقاصد کیلئے استعمال کی گئی، ڈیموں کو بھرنا، فضائی گردو غبار کے اثرات کو کم کرنا اور جنگل کی آگ سے نمٹنا۔ 2015ء میں اگست کے اوائل میں جب ملائیشیا کی فضا شدید دھند کی لپیٹ میں تھی، اُس وقت ملائیشیا میں روزانہ ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کی جاتی تھی۔پاکستان: پاکستان میں 2000ء کے دوران کلاؤڈ سیڈنگ کے تجربات کیے گئے۔ یہ پاکستان میں کلاؤڈ موڈی فیکیشن پروگرام کے ذریعے بارش کو بڑھانے کیلئے کی جانے والی پہلی مکمل تجرباتی سرگرمی تھی جو کہ 1999-2000 ء میں ملک کے جنوبی نصف حصے میں تاریخ کی بدترین خشک سالی کے نتیجے میں بروئے کار لائی گئی اور مجموعی طور پر 48 تجربات کیے گئے۔ سندھ میں 14، بلوچستان میں 18، سرحد میں 3 اور پنجاب میں 13 تجربات کیے گئے ،جن میں سے 10 جنوبی پنجاب میں کیے گئے۔ یہ تجربات 20 جون سے 15 ستمبر 2000 ء کے دوران کیے گئے تھے جو کہ پاکستان میں عملی طور پر مون سون کا دورانیہ ہے جب convective قسم کے بادل اپنی کافی مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں۔محکمہ موسمیات کے سابق سربراہ قمر الزمان چودھری نے ملک میں کلاؤڈ سیڈنگ کی اس اولین باقاعدہ سرگرمی پر ریسرچ پیپر لکھا ہے۔ لاہور کی شدید آلودہ صورتحال مصنوعی بارش پر غور کرنے کا کافی اور منطقی جواز ہے۔اگرچہ کلاؤڈ سیڈنگ کے تجربات کے نتائج دنیا بھر میں مختلف رہے ہیں‘ تاہم اس پرانے اور آزمودہ طریقہ کار کو استعمال کرنا یقینی طور پر موسمیاتی اور انسانی لحاظ سے محفوظ ہے اور اگر اس سے بارش برسنے کا سسٹم متحرک ہو سکے تو سموگ کی شدت میں یقینی طور پر کمی آئے گی۔ چونکہ سموگ ہمارے ملک کا اب پانچواں موسم بن چکا ہے تو کیا پتہ کلاؤڈ سیڈنگ ہمارے لیے اس مرض سے چھٹکارے کا قابلِ بھروسا ذریعہ ثابت ہو۔  

29نومبر فلسطینی عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کا دن

29نومبر فلسطینی عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کا دن

ہر سال 29نومبر کودنیا بھر کے مسلمان فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن مناتے ہیں ۔ اس دن کو منانے کا آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے2 دسمبر 1977ء کو اپنی ایک قرارداد کے ذریعے کیا تھا تاکہ اس مظلوم قوم کے مسائل کی طرف ممالک کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ اور 1948ء میں ناجائز صیہونی حکومت کا قیام مغربی ایشیاء میں جنگ اور عدم تحفظ کا آغاز تھا۔ شاید 29 نومبر کو فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن کا نام دینا 1947ء کی اس ظالمانہ ''قرارداد 181‘‘ کے حوالے سے مطمئن کرنا ہے، جسے اسی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اس قرارداد کے مطابق فلسطین کی زمین کا 57فیصد حصہ یہودیوں کو دیا گیا، جو زیادہ تر دوسرے ممالک سے آئے تھے اور یہی ''قرارداد 181‘‘ تقریباً چھ ماہ بعد صیہونی حکومت کے وجود کے اعلان کا پیش خیمہ بن گئی۔ اس جارح حکومت نے جنگ اور تسلط کے ذریعے فلسطین کے تقریباً 85 فیصد حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔انبیاء علیہ السلام کی مقدس سر زمین فلسطین پرایک عالمی سازش کے تحت دنیا بھر سے اسلام دشمن شیطانی طاقتوں کو جمع کر کے ناقابل تسلیم ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس گھناونی سازش میں سرفہرست امریکہ اور برطانیہ تھے۔ ان طاقتوں کے زیر اثر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 29نومبر 1947ء کو ''قرارداد 181‘‘ پاس کی، جس کے تحت سرزمین فلسطین کو غیر منصفانہ طریقے سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصے میں یہودی حکومت اور دوسرے حصے میں فلسطینی حکومت قائم کی جانا تھی۔اقوام متحدہ کی قرارداد اس قدر غیر منصفانہ تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 29 نومبر 1977ء کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن قرار دیا۔ 1974ء میں یاسر عرفات نے فلسطین کے نمائندے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو ایک قوم تسلیم کیا اور ان کے حق خود ارادیت کیلئے کئی قرار دادیں منظور کیں۔اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد نہتے فلسطینیوں کو صیہونی ظلم وجبر برادشت کرتے 76 سال بیت گئے لیکن عالمی برداری اور اسلامی ممالک کی بے حسی کے باعث فلسطینی عوام صیہونی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کئی عشروں سے اسرائیل کی جارحیت کا شکار فلسطینی آج بھی اسرائیل کی دہشت گردی کے ہاتھوں اپنی ہی سر زمین پر قیدیوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت فلسطینی عوام ظلم، کرب و اذیت کا شکار ہیں، بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ گھر، ہسپتال اور تعلیمی ادارے گرائے جا چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی فلسطینی مسلمانوں کیلئے جہنم بن چکی ہے۔ حد یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں رہی ہے۔ فلسطینی مسلمان تعداد کے اعتبار سے اگرچہ مٹھی بھر ہیں لیکن یہی مسلمان اسرائیلی عزائم کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطینی مسلمانوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہے انھیں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور دل لرز جاتے ہیں۔ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ممالک میں سیمینارز اور تقاریب میں اسرائیلی مظالم کی مذمت اور مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہارکیا جاتا ہے۔ دنیا نصف صدی سے اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منا رہی ہے۔ پچاس سال سے اظہار یکجہتی کا دن منانے کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور مسئلہ فلسطین سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب مدد کے عملی تقاضے پورے نہیں کر رہے۔ اقوام متحدہ 1947ء سے فلسطین میں امن کیلئے کوشاں ہے مگر اسرائیل کے مظالم اسی طرح جاری ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیلی فوجی نہتے فلسطینیوں کو شہید کرتے رہتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج کے ہاتھوں ہر سال اوسطاً 560 فلسطینی شہید ہو جاتے ہیں جبکہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران 14ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کئے جانے کے بعد ہزاروں فلسطینی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل اور یہودی طاقتیں دنیا کو ''ڈبل ایم‘‘ یعنی (Money and Media) کی پالیسی کے تحت خود کوتسلیم کروانے کیلئے انتھک کوششیں کر رہی ہیں۔ اسرائیل خود کو تسلیم کروانے کیلئے دنیا کو طرح طرح کے لالچ دیتا رہتا ہے۔ ''کویڈ 19‘‘ کے دوران کورونا ویکسین مفت دینے اور کورونا کے باعث معاشی بدحالی میں مبتلا ممالک کو مالی امداد دینے کا لالچ دیا جاتا رہا۔ عالم اسلام کو انفرادی مفادکے بجائے اجتماعی مفاد کو ترجیح دینا چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

وارن کمیشنامریکی صدر کینیڈی کے قتل کے بعد ایک صدارتی کمیشن تشکیل دیا گیا جسے ''وارن کمیشن ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔یہ کمیشن صدر لنڈن بی جانسن نے 29نومبر1963 ء کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کر کے قائم کیا تھا تاکہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی تحقیقات کی جا سکیں۔کمیشن کو صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بارے میں رپورٹ کرنے کا اختیار دیا گیا۔کمیشن کی 888صفحات پر مشتمل رپورٹ 24 ستمبر 1964ء کو صدر جانسن کو پیش کی گئی۔ برازیل فٹ بال ٹیم طیارے حادثے کا شکار2016ء میں آج کے روز برازیل فٹ بال ٹیم ایک فضائی حادثے کا شکار ہوئی، پوری ٹیم میں سے سوائے تین کھلاڑیوں کے تمام ہلاک ہو گئے۔ یہ طیارہ بولیویا سے کولمبیا کے شہر میڈیلن جا رہا تھا کہ منزل سے کچھ دور ایک پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ جہاز پر 81 افراد سوار تھے۔ زندہ بچ جانے والوں میں فٹ بال کلب کے تین ارکان، ایک صحافی اور جہاز کے عملے کے دو ارکان شامل تھے۔ جاپانی سلطنت کا آئینسلطنت جاپان کا آئین جسے میجی آئین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کا اعلان 11 فروری 1889کو ہوا اور29 نومبر 1890ء کو نافذ کیاگیا۔اس نے مخلوط آئینی اور مطلق بادشاہت کی ایک شکل فراہم کی ۔ اصولی طور پر شہنشاہ جاپان کا سپریم لیڈر تھا اور وزیراعظم کو ایک کونسل کے ذریعے منتخب کیا جاتا تھا جو شہنشاہ کے ماتحت کام کرتا تھا۔ جاپان پر امریکی قبضے کے دوران میجی آئین کو 3 نومبر 1946 کو ''پوسٹ وار آئین‘‘سے بدل دیا گیا۔وائٹ مین قتل عاموائٹ مین قتل عام جسے ایک سانحہ کے طور پر جاناجاتا ہے29نومبر1847ء کو پیش آیا۔اس واقع کے بعد کیوس جنگ کا آغاز ہوا۔ امریکی آبادکاری میں اسے سب سے زیادہ بد نام زمانہ واقعہ تصور کیا جاتا ہے۔قتل عام کی کہانی نے ریاستہائے متحدہ کی کانگریس کو اوریگون ملک کی مستقبل کی علاقائی حیثیت کے بارے میں کارروائی کرنے پر مجبور کردیا، اوریگون علاقہ 14 اگست 1848 کو قائم ہواتھا۔مرکری اٹلس5کی لانچنگمرکری اٹلس5امریکی خلائی ادارے کے مرکری پروگرام کی ایک خلائی پرواز تھی۔ اسے 29 نومبر 1961ء کو اینوس نامی چمپینزی کے ساتھ لانچ کیا گیا۔ مرکری اٹلس5نے زمین کا دوبار چکر لگایا ۔اینوس ریاستہائے متحدہ امریکہ کا پہلا پریمیٹ اور زمین کا چکر لگانے والا تیسرابندر بن گیا۔اس دور میں امریکہ اور سویت یونین کے درمیان خلا ء کو زیادہ سے زیادہ ایکسپلور کرنے کی ریس لگی ہوئی تھی۔ 

کوانٹم تھیوری

کوانٹم تھیوری

آج ہم آپ کوایک عجیب و غریب،انتہائی حیرت انگیز،پیچیدہ اور دلچسپ تھیوری کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جسے''کوانٹم تھیوری‘‘ کہتے ہیں۔ 1913ء سے 1925ء کے درمیان کوانٹم تھیوری میں کئی اہم پیش رفت ہوئیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ''کوانٹم‘‘ کو انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔کوانٹم خلاء دراصل ذرات، توانائی اور لہروں سے بھرا ہوا ایک ماحول ہے جو پُراسرار انداز میں ظاہر ہوتا ہے اور تیزی سے غائب ہو جاتا ہے۔ ''کوانٹم تھیوری ‘‘ریاضی کے اعداد و شمار پر مبنی ایک تھیوری ہے۔اس تھیوری کو کوانٹم وجودات اور ان سے منسلک تجرباتی حقائق کی وضاحت کیلئے استعمال کیا گیا۔کوانٹم تھیوری کی مساوات بہت زیادہ کامیاب رہی ہیں اور پچھلے ستر سالوں سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کوانٹم کے ذریعے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ایٹم اور ایٹم کی ذیلی سطحوں میں مسلسل حرکت اور تبدیلی جاری رہتی ہے۔ ایٹم ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور اُن میں ذرات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس نظرئیے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تبدیلی ایک تسلسل میں رونماہونے کی بجائے ایک بتدریج عمل سے گزرتی رہتی ہے۔کوانٹم وجودات پر کیے جانے والے تجربات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے کچھ نتائج کو دیکھاجائے تو وہ حیران کن ہیں ۔یہ تجربات زیادہ تر الیکٹران اور فوٹان پر مشتمل ہیں۔الیکٹران جو کہ ایٹم کا جزو ہیں اور آسانی سے ان کو الیکٹران گن کے ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے جبکہ فوٹان لائٹ (بجلی) کی اکائی (یونٹ) ہیں ان کو بھی مختلف طریقوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ کچھ تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ کوانٹم وجودات ذرات ہیں جبکہ کچھ تجربات کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ ''لہریں‘‘ ہیں۔ ذرات قابل شناخت اور جگہ گھیرلینے والے اجسام ہیں۔جو ایک دوسرے کے ساتھ خاص طریقے سے عمل کرتے ہیں مثلاً ایک دوسرے کو دھکیل سکتے ہیں، ٹکرا سکتے ہیں اور چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں جبکہ لہریں مظہر ہوتی ہیں اجسام کی طرح قابل امیتاز نہیں ہوتیں اور وسیع علاقے پر پھیلی ہوتی ہیں۔لہروں کا باہمی تعامل اجسام کے باہمی تعامل سے مختلف ہوتا ہے۔وہ لہریں باہم تعامل کر کے کبھی ایک بڑی لہر پیدا کرتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے کے اثر کوذائل کر دیتی ہیں۔فرض کریں!الیکٹرانز اجسام ہیں اگر آپ ایک رکاوٹ جس میں دو درزیں ہوں جس کی پچھلی طرف فوٹو گرافک پلیٹ لگی ہوئی ہو۔ اس پر جب الیکڑان فائر کئے جائیں اور وہ اجسام ہوں تو ان میں سے کافی سارے الیکٹران اس رکاوٹ کے ساتھ ٹکرائیں گے اور باقی الیکٹران ان درزوں سے گزر کر فوٹو گرافک پلیٹ سے ٹکرائیں گے اور خاص قسم کے نشانات چھوڑیں گے۔ آپ کو ایک اور عجیب بات بتائیں۔جس عمل میں لہروں کا مطالعہ کیا جارہا ہوگا وہاں اجسام سے متعلق ریاضی کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔یہ کہنا کہ کوانٹم تھیوری ماضی میں پیش کیے جانے والی تھیوریز سے مختلف ہے تو یہ بات درست ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کوانٹم تھیوریزکی پیش کردہ پیشگوئیوں میں یقینی پن کی بجائے امکان کا تاثر پایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کوانٹم ریاضیات کو الیکٹران کی پوزیشن معلوم کرنے کیلئے استعمال کریں تو یہ ہمیں ایسے کئی مقامات کی نشاندہی کروائے گی جہاں الیکٹران موجود ہو سکتے ہیں۔کوانٹم تھیوری الیکٹران کی کسی جگہ موجودگی کے بارے میں پیشگوئی کرسکتی ہے اور ہر کوئی اس سے اتفاق کرتا ہے کہ کوانٹم تھیوری کی حسابی مساوات عمومی لحاظ سے آپ کو دنیا سے جوڑتی ہے۔ اگر کوئی اس عمومی سطح سے آگے بڑھنا چاہے تو کوانٹم تھیوری کی حسابی مساوات حقیقت کی جو تصویر کشی کرتی ہے وہ نہایت عجیب اور بے سروپا ہے۔ درحقیقت یہ بے ترتیبی کوانٹم تھیوری کی حسابی مساوات میں نہیں بلکہ اس کی تعبیر میں ہے لہٰذاکوانٹم تھیوری کے حوالے سے آلاتی اپروچ رکھنا درست ہوگا۔کوانٹم تھیوری اور لہروں سے جڑے ریاضی کے باہمی تعلق کومخصوص ریاضی عمل (مساوات) سے بیان کیا جا سکتا ہے،جس کو عام طور پر اس نظام کا لہری عمل کہا جاتا ہے۔ کوانٹم نظام کی مدد سے کی جانے والی ہر پیمائش لہروں کے ایک مخصوص گروہ سے منسلک ہوتی ہے۔ کوانٹم نظام کی مدد سے حاصل ہونے والی پیمائش کے بارے میں کی گئی پیشگوئی کا حصول اس عمل میں استعمال ہونے والی مخصوص گروہ کی لہروں کی تعداد کی مدد سے ممکن ہوتا ہے جن کو جب اکٹھا کیا جاتا ہے تو لہروں کا عمل وجود میں آتا ہے۔الیکٹران کو ایک مخصوص کوانٹم نظام میں ایک مخصوص ویو فکشن کے ذریعہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ لہروں کے مختلف خاندان ہوتے ہیں لہٰذا ان سے منسلک ریاضی کی مساواتیں بھی ایک خاندان کی شکل میں پائی جاتی ہیں اور کوانٹم تھیوری کی ریاضیاتی مساواتوں میں مساواتوں کے یہ خاندان مخصوص طرح پیمائشوں سے منسلک ہوتے ہیں کوئی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے اور کوئی حرکت کو۔ فزکس صرف ایک مخصوص وقت میں کی جانے والی پیمائشوں کے ساتھ ہی منسلک نہیں ہوتی بلکہ مستقبل میں کی جانے والی پیمائشوں سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے۔ کوانٹم تھیوری میں یہ کام ''Schrodingerمساوات‘‘ کی مدد سے کیا جاتا ہے جو کوانٹم نظام کی موجودہ ویوفکشن کی مدد سے مستقبل میں اس نظام کی متوقع حالت کے بارے میں بتاتی ہے لہٰذا کوانٹم تھیوری کی ریاضیات کی مدد سے ہم ایک مخصوص وقت میں کی جانے والی پیمائشوں کے نتائج کے بارے میں پیشگوئی کر سکتے ہیں بلکہ مستقبل میں اس نظام کی متوقع حالت کے حوالے سے بھی پیشگوئی کی جا سکتی ہے ۔تجربات و حقائق اور کوانٹم تھیوری کی پیش کردہ مساوات میں کوئی فرق نہیں لیکن تعبیر کے حوالے سے مسائل موجود ہیں۔جن میں سے ایک پیمائش کا مسلہ ہے یہ سب سے پیچیدہ مسلہ ہے۔اگر سیدھے طریقے سے کوانٹم ریاضیات کی تعبیر کرنا چاہیں تو ایسا ممکن نہیں۔کوانٹم تھیوری ریاضیات کوانٹم نظام کی سوپر پوزیشن کی پیشن گوئی کرتی ہے۔مگر عملی طور پر اس کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔جب پیمائشی آلات کو استعمال کیا جاتا ہے تو کوانٹم موجودات کی سوپر پوزیشن ایک حالت میں محدود ہوجاتی ہے اور دوسری حالت کا مشاہدہ نہیں ہوپاتاجبکہ اس دوران حالات بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیساکہ آلات کی غیر موجودگی میں کی جانے والے تجربہ میں تھے۔  

سائوچائے ٹنکونگ

سائوچائے ٹنکونگ

چین کے جنوب مغرب میں واقع مضافاتی علاقہ ''چونگ قنگ‘‘اپنے سرسبز وشاداب کھلیانوں کی وجہ سے تو مشہور ہے ہی لیکن حیرت انگیز طور پر اس گاؤں کے مغربی کنارے پر واقع ایک دیو ہیکل کنواں نما گڑھا جو 660 میٹر گہرائی اور تقریباً 13کروڑ مربع میٹرز حجم کے ساتھ اس وقت تک قدرتی طور پر وجود میں آنے والا دنیا کا سب سے گہرا گڑھا مانا جاتا ہے۔ جسے چینی زبان میں ''ساؤ چائے ٹنکونگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چینی زبان میں ''ساؤ چائے‘‘ کا مطلب ایک چھوٹا سا گاؤں جبکہ ''ٹنکونگ‘‘ کے معنی گڑھے یا کنوئیں کے ہیں۔یہ گڑھا صدیوں سے لوک داستانوں، پراسرار انکشافات اور افواہوں کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن آج تک اس کی تاریخ اور حقیقت کا علم کسی کو نہ ہو سکا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دیوتاؤں کا کوئی قدیم مسکن ہے، کچھ لوگ اسے کسی بڑی دیوہیکل مخلوق کے قدموں کے نشان سے تعبیر کرتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ پراسرا گڑھا زمین سے کسی سیارے کے ٹکراؤ کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہو گا۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے کچھ ماہرین نے اس کنوئیں کے معائنے کے بعد اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اس طرح کے کنوئیں دنوں اور مہینوں میں نہیں بنتے بلکہ اس کے وجود میں آنے کا عمل لگ بھگ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار سال قبل شروع ہوا ہو گا۔ اس کنوئیں کی غیر معمولی گہرائی بارے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ زمین سے ڈھلوان کی جانب پانی کا رسنا اور زیر زمین بہتے دریا میں شامل ہونا ہی دراصل اس گڑھے کی گہرائی میں اضافے کا سبب ہو سکتا ہے۔ اگرچہ چینی صدیوں سے اس گڑھے کو دیکھتے آ رہے ہیں لیکن چینیوں نے شاید اس کی پراسراریت کے خوف سے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ 1994ء تک بیرونی دنیا اس پراسرا گڑھے کی حقیقت سے لاعلم تھی۔ کہتے ہیں سب سے پہلے اس گڑھے کو ایک بین الاقوامی ٹی وی نے عوام کے سامنے ایک ڈاکومینٹری کے طور پر پیش کیا۔ جس کے بعد 1994ء ہی میں برطانوی مہم جوؤں کی ایک ٹیم اینڈریو جیمز کی سربراہی میں چین پہنچی۔ اس ٹیم کے گائیڈ زاو گوئلین تھے۔ اینڈریو جیمز سب سے پہلے اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ گڑھے کے اندر غاروں میں اترے یہ دیکھنے کیلئے کہ زیر زمین انہیں کس قسم کے حالات سے نمٹنا ہو گا۔ غاروں کے سروے کے دوران ہی اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ غاروں کے نیچے زیر زمین ایک انتہائی تیز بہاؤ والا دریا بھی بہہ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس گڑھے کے اندر ایک دنیا آباد ہے جس میں 1300 کے لگ بھگ مختلف پودے اور بے شمار اقسام کے جانور جن میں کلاؤڈڈ، تیندوے اور گنگکو جیسے پرندے شامل ہیں۔یہ زیر زمین دنیا اس قدر پیچیدہ اور پراسرار ہے کہ اس برطانوی ٹیم کو سب سے زیادہ مشکل یہ درپیش تھی کہ کنوئیں کے اندر پھیلی غاروں کا سروے کیسے کیا جائے کیونکہ گھپ اندھیرے اور تیز رفتار بہتے دریا کے سامنے نیچے غاروں تک رسائی بذات خود ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس کے علاوہ اس گڑھے کے دہانے پر ایک آبشار گرتی ہے جو اس گڑھے کے غاروں کو سیراب کرتی ہے۔جیسے جیسے دنیا کے مہم جوؤں کے سامنے اس کنوئیں کی اسراریت کھلتی گئی دنیا کے مہم جوؤں نے گویا اسے ایک چیلنج سمجھ کر اسے پرکھنے کا ارادہ کر لیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2004ء تک دنیا کے مختلف ممالک کے مہم جوؤں نے پانچ بار اس کے غاروں تک رسائی کی کوشش کی لیکن ان دس سالوں میں مہم جوؤں کی کوئی بھی ٹیم زیر زمین دریا کی تیز لہروں کے سامنے اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔اب تک اس گڑھے کی اسراریت کو کھوجنے میں سب سے موثر کردار برطانوی ٹیم کا رہا ہے۔ اس کے مطابق اس گڑھے کی پراسرایت میں جہاں سب سے بڑی رکاوٹ پانی کی تیز لہریں ہیں، وہیں اس کی زیر زمین غاروں کی تاریکی بھی ان کی کامیابیوں کے درمیان حائل ہے۔ تاہم میں اور میری ٹیم پرامید ہے کہ جلد یا بدیر دنیا کے قدرتی طور پر وجود میں آنے والے سب سے گہرے اس کنوئیں کے سربستہ رازوں سے پردہ ضرور اٹھے گا۔ 

حکایت سعدیؒ :روح ایک سرکش گھوڑا

حکایت سعدیؒ :روح ایک سرکش گھوڑا

ایک رات میں (شیخ سعدیؒ) اس ارادے سے سو گیا کہ صبح سویرے قافلے کے ساتھ مل کر سفر کروں گا۔ اچانک رات کو ایسا بگولا آیا کہ اندھیرا ہی اندھیرا ہو گیا۔ میں نے راستے میں دیکھا ایک چھوٹی سی بچی اپنے دوپٹے کے ساتھ باپ کے چہرے سے گرد صاف کر رہی تھی اور باپ اپنی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے دیکھ کر رو پڑا اور کہنے لگا! بیٹی ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ان آنکھوں میں اس قدر مٹی بھر جائے گی کہ جو اوڑھنیوں سے صاف نہ ہو سکے گی۔ سعدیؒ فرماتے ہیں ہر شخص کی روح قبر کی طرف سرکش گھوڑے کی طرح بھاگ رہی ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا۔ موت آکر جسم کی رکاب توڑ دے گی جس سے جسم کا تعلق روح سے ٹوٹے گا اور بالآخر جسم گڑھے میں گر جائے گا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے دنیا میں انسان اپنے آپ کو جتنا بھی مٹی سے بچاتا پھرے لیکن قبر میں جا کر اس کا جسم مٹی سے ضرور بھر جائے گا لہٰذا اس وقت کی تیاری کرنی چاہیے۔