لاہور میں مصنوعی بارش برسانے کے منصوبے پر عمل درآمد کیلئے حکومتی سطح پر ورکنگ گروپ قائم کر دیا گیا ہے۔ورکنگ گروپ میں وفاقی، صوبائی محکموں اور ریسرچ سے وابستہ عسکری اداروں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ایک اجلاس میں مصنوعی بارش برسانے کے طریقہ کار پر بریفنگ دی گئی، جہاں بتایا گیا کہ ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کیلئے پہلا ٹرائل چار سے چھ ہفتے میں متوقع ہے۔''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ یا مصنوعی بارش کا تصورخاصا پرانا ہے ۔1891ء میں لوئس گیتھ مین نامی ایک جرمن نژاد امریکی انجینئر نے بارش کے حامل بادلوں میں مائع کاربن ڈائی آکسائیڈ سپرے کرکے بارش برسانے کی تجویز پیش کی تھی۔ 1930ء میں ''wegner- bergeron- findeisen - process‘‘ کا نظریہ پیش کیا گیا۔جس کے مطابق بارش والے بادلوں پر برف کے ذرات چھڑکے جائیں تو بارش ہو سکتی ہے۔ تاہم جولائی 1946ء میں امریکی ماہر موسمیات اور کیمیا دان ونسنٹ شیفر نے کلاؤڈ سیڈنگ کے اصول کودریافت کیا۔مصنوعی بارش یعنی ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ مختلف مادوں کو ہوا میں چھڑک کر بارش برسانے کا طریقہ ہے۔ اس تکنیک میںسلور آئیوڈائیڈ، پوٹاشیم آئیوڈائیڈ یا خشک برف بارش کے حامل بادلوں پر چھڑک کر کلاؤڈ سیڈنگ کی جاتی ہے، یعنی ان بادلوں کے اندر پانی کی بوندوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور بارش برسائی جاتی ہے۔ اگرچہ مصنوعی بارش کا تجربہ کئی دہائیوں سے کیا جا رہا ہے لیکن اس کے مؤثر ثابت ہونے کی صلاحیت حالات اور دیگر عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔مصنوعی بارش کے تجربات کا ذکر کیا جائے تو آسٹریلیا میں ''کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن‘‘ (CSIRO) نے 1947ء اور 1960ء کی دہائی کے اوائل کے درمیان مصنوعی بارش کے کئی ٹرائلز کئے۔ 1947ء تا 1952ء کے دوران CSIRO کے سائنسدانوں نے خشک برف کو کمولس بادلوں میں چھڑک کر یہ تجربہ کیا اوراس طریقہ نے کامیابی سے کام کیا ۔1953ء تا 1956ء کے دوران CSIRO نے جنوبی آسٹریلیا، کوئنز لینڈ اور دیگر ریاستوں میں اسی طرح کی آزمائشیں کیں۔ ان تجربات میں زمین اور ہوا سے چلنے والے سلور آئیوڈائیڈ جنریٹرز کا استعمال کیا گیا۔1950ء کی دہائی کے آخر اور 1960ء کی دہائی کے اوائل میں کوئنز لینڈ کے جزیرہ نما کیپ یارک پر، نیو ساؤتھ ویلز کے نیو انگلینڈ ڈسٹرکٹ میں اور سڈنی کے مغرب میں واراگامبا کیچمنٹ ایریا میں کلاؤڈ سیڈنگ کی گئی۔تھائی لینڈ:تھائی لینڈ رائل رین میکنگ پراجیکٹ نومبر 1955ء میں شروع کیا گیا۔ تھائی کسانوں کو بار بار خشک سالی کے اثرات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا تو اُس وقت کے بادشاہ نے اس کیلئے کچھ کرنے کا عزم کیا اور مصنوعی بارش کو پانی کی کمی کا ایک حل تجویز کیا ۔ چین:اس وقت دنیا میں کلاؤڈ سیڈنگ کا سب سے بڑا نظام چین میں ہے۔ چین نے 2008ء کے اولمپکس سے پہلے بیجنگ میں ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کا استعمال کیا۔ بھارت:بھارت میں شدید خشک سالی کی وجہ سے تامل ناڈو حکومت کی طرف سے 1983ء، 1984ء،1993ء اور94ء کے دوران ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ آپریشن کیے گئے ۔ 2003ء اور 2004ء میں کرناٹک حکومت نے بھی ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کا آغاز کیا۔ اسی سال ریاست مہاراشٹر میں امریکہ میں قائم ویدر موڈی فیکیشن انکارپوریشن کے ذریعے ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ آپریشنز کیے گئے۔ایران:جون 2022ء میں ایران کی ایرو سپیس فورس نے ایران کے 10 صوبوں میں ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کیلئے ڈرون استعمال کئے۔متحدہ عرب امارات:متحدہ عرب امارات خلیج فارس کے خطے میں ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والا پہلا ملک ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سائنسدان ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے پانی کی عدم تحفظ کو پورا کرتے ہیں، جو کہ انتہائی گرم آب و ہوا سے پیدا ہوتی ہے۔مشرق بعیدکے کئی ممالک میں بھی ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ سے بارش برسانے کی خبریں آ چکی ہیں۔20 جون 2013ء کو انڈونیشیا نے کہا تھا کہ وہ سنگاپور اور ملائیشیا کی رپورٹوں کے بعد ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ آپریشن شروع کرے گا تا کہ سماٹرا جزیرے میں جنگلات کی آگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کو ختم کیا جاسکے جو کہ پڑوسی ممالک میں روزمرہ کی سرگرمیاں متاثر کر رہی تھی۔ ملائیشیا میں کلاؤڈ سیڈنگ پہلی بار 1988ء میں تین مقاصد کیلئے استعمال کی گئی، ڈیموں کو بھرنا، فضائی گردو غبار کے اثرات کو کم کرنا اور جنگل کی آگ سے نمٹنا۔ 2015ء میں اگست کے اوائل میں جب ملائیشیا کی فضا شدید دھند کی لپیٹ میں تھی، اُس وقت ملائیشیا میں روزانہ ''کلاؤڈ سیڈنگ‘‘ کی جاتی تھی۔پاکستان: پاکستان میں 2000ء کے دوران کلاؤڈ سیڈنگ کے تجربات کیے گئے۔ یہ پاکستان میں کلاؤڈ موڈی فیکیشن پروگرام کے ذریعے بارش کو بڑھانے کیلئے کی جانے والی پہلی مکمل تجرباتی سرگرمی تھی جو کہ 1999-2000 ء میں ملک کے جنوبی نصف حصے میں تاریخ کی بدترین خشک سالی کے نتیجے میں بروئے کار لائی گئی اور مجموعی طور پر 48 تجربات کیے گئے۔ سندھ میں 14، بلوچستان میں 18، سرحد میں 3 اور پنجاب میں 13 تجربات کیے گئے ،جن میں سے 10 جنوبی پنجاب میں کیے گئے۔ یہ تجربات 20 جون سے 15 ستمبر 2000 ء کے دوران کیے گئے تھے جو کہ پاکستان میں عملی طور پر مون سون کا دورانیہ ہے جب convective قسم کے بادل اپنی کافی مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں۔محکمہ موسمیات کے سابق سربراہ قمر الزمان چودھری نے ملک میں کلاؤڈ سیڈنگ کی اس اولین باقاعدہ سرگرمی پر ریسرچ پیپر لکھا ہے۔ لاہور کی شدید آلودہ صورتحال مصنوعی بارش پر غور کرنے کا کافی اور منطقی جواز ہے۔اگرچہ کلاؤڈ سیڈنگ کے تجربات کے نتائج دنیا بھر میں مختلف رہے ہیں‘ تاہم اس پرانے اور آزمودہ طریقہ کار کو استعمال کرنا یقینی طور پر موسمیاتی اور انسانی لحاظ سے محفوظ ہے اور اگر اس سے بارش برسنے کا سسٹم متحرک ہو سکے تو سموگ کی شدت میں یقینی طور پر کمی آئے گی۔ چونکہ سموگ ہمارے ملک کا اب پانچواں موسم بن چکا ہے تو کیا پتہ کلاؤڈ سیڈنگ ہمارے لیے اس مرض سے چھٹکارے کا قابلِ بھروسا ذریعہ ثابت ہو۔