رامسس دوم: مصرکا طاقتور فرعون
اسپیشل فیچر
رامسس دوم تاریخ میں سب سے طاقت ور اور بااثر مصری فرعونوں میں سے ایک تھا۔ جنگی معرکوں کے ساتھ ساتھ اس نے ’’سلطنتِ نو‘‘ کی تعمیر پر توجہ دی اور شاید کسی بھی دوسرے فرعون سے زیادہ عرصہ حکمران رہا۔ ابتدائی زندگی اور اقتداررامسس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔ اس کی تاریخ پیدائش کے بارے میں حتماًکچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 1303 ق م ہے۔ اس کا باپ سیٹی اول تھا، جو رامسس دوم کے دادا رامسس اول کے قائم کردہ، سلطنتِ مصر کے انیسویں سلسلۂ شاہی کا دوسرا فرعون تھا۔ غالب امکان یہی ہے کہ رامسس دوم تقریباً24 برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا۔ وہ پہلے ہی مستقبل کی ملکہ نیفرٹاری سے شادی کر چکا تھا۔ ان کے ہاں 4 بیٹے اور 2 بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ہو سکتا ہے ان کے مزید بچے بھی ہوں تاہم دریافت شدہ دستاویزات اور پتھر کی نقاشی میں تاریخ دانوں کو 6 بچوں کا واضح ذکر ملا ہے۔ اپنے اقتدار کے ابتدائی چند برسوں ہی میں رامسس نے بحری قزاقوں سے جنگوں اور بڑے عمارتی منصوبوں کے ذریعے اپنی طاقت کی پیشگی خبر دے دی تھی۔ اولین معلوم کامیابی اسے دورِ اقتدار کے دوسرے برس ملی، جب اس نے شرڈن بحری قزاقوں کو شکست دی۔ شرڈن بحری قزاقوں کا ایک بیڑا تھا جو مصر سامان لے کر آنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بناتا جس سے مصریوں کی سمندری تجارت کو نقصان پہنچ رہا تھا یا وہ بالکل بیٹھنے لگی تھی۔ ان بحری قزاقوں کا تعلق غالباً ایونیا یا سارڈینیا سے تھا۔ رامسس نے اپنے اقتدار کے پہلے 3 برسوں میں بڑے عمارتی منصوبے بھی شروع کیے۔ اس کے حکم پر شہر طیبہ (Thebes) کے قدیم معبدوں کی ازسرنو مکمل تزئین و آرائش کی گئی۔ اس کا مقصد بحیثیت حکمران رامسس کو خراجِ تحسین اوردیوی، دیوتاؤں جیسا مقدس بنا کر پیش کرنا تھا۔ سابقہ فرعون کے دور میں پتھروں پر نقاشی کم گہری ہوا کرتی تھی جس کے باعث بعدازاں اقتدار میں آنے والے فرعون ان میں ردوبدل کر سکتے تھے۔ اس کے بجائے رامسس نے پتھروں پر نقاشی گہری کرنے کا حکم دیا جسے مستقبل میں مٹانا یا بدلنا مشکل تھا۔ عسکری مہمات اپنے اقتدار کے چوتھے برس رامسس نے ہاتھوں سے نکلنے والے مصری علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے اور سلطنت وسیع کرنے کے لیے بڑی عسکری مہمات شروع کیں۔ ابتدا ہمسایہ کنعان پر حملہ آور ہو کر کی۔ یہ علاقہ مصر کے شمال مشرق میں تھا جہاں آج کل مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک بشمول اسرائیل ہیں۔ اس زمانے کی ایک کہانی کے مطابق لڑائی کے دوران رامسس نے خود کنعانی شہزادے کو زخمی کیا اور مصر میں قیدی بنایا۔ اس کی عسکری مہمات پہلے حِتّیوں (Hittites )کے سابقہ اور بالآخر شامی علاقوں تک پھیل گئیں۔ شامی مہم رامسس کے ابتدائی دورِ اقتدار کا اہم ترین کام تھا۔ 1274 ق م کے لگ بھگ رامسس ذہن میں دو مقاصد کے تحت شام میں حِتّیوں کے خلاف لڑا: مصری سرحدوں میں توسیع اور 10 برس بعد شہر قدش کو دوبارہ فتح کرنا۔ البتہ رامسس کو احساس ہو گیا کہ شہر کو فتح کرنے کے لیے جس طرح کے محاصرے کی ضرورت ہے، وہ اس کی فوج کے بس میں نہیں۔ پس وہ مصر واپس آ گیا، جہاں وہ ایک نیا دارالحکومت ’’پی رامسس‘‘ تعمیر کر رہا تھا۔ چند برس بعد رامسس نے حِتّیوں کے زیرِتسلط شام کی جانب رخ کیا اور انہیں مزید شمال کی جانب دھکیلنے میں کامیاب ہوا، اتنا دور کہ ایک صدی کے دوران کوئی دوسرا فرعون نہ دھکیل پایا تھا۔ اس کی بدنصیبی کہ شمال کی طرف فتوحات پائیدار ثابت نہ ہوئیں۔ شام میں جنگی مہمات کے علاوہ اس نے دوسرے علاقوں پر بھی وار کیے۔ اپنے بیٹوں کے ساتھ اس نے کچھ عرصہ نوبیا کے خلاف فوجی کارروائی کی، جسے مصر نے چند صدیاں قبل فتح کیا اور نوآبادی بنایا تھا لیکن یہ مسلسل ایک مسئلہ بنا ہوا تھا۔ حالات نے حیران کن موڑ لیا، حِتّی بادشاہ مرسیلی سوم نے مصر میں پناہ لے لی۔ جب اس کے چچا اور نئے بادشاہ حتوسیلی سوم نے مرسیلی کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تو رامسس نے مصر میں اس کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کئی برسوں تک جنگ کے دہانے پر رہے۔ البتہ 1258 ق م میں دونوں نے تنازعے کو رسمی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں انسانی تاریخ کے اولین امن معاہدوں میں سے ایک عمل میں آیا (یہ قدیم ترین امن معاہدہ ہے جس کی دستاویزات موجود ہیں) ۔ علاوہ ازیں نیفرٹاری نے حتوسیلی کی بیوی ملکہ پوڈوہیپا کے ساتھ خط وکتابت کی۔ عمارتیں اور یادگاریں عسکری مہمات سے بھی بڑھ کر رامسس کا عہد عمارات کی تعمیر کے جنون کے سبب یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے نئے دارالحکومت ’’پی رامسس‘‘ میں بڑے بڑے معبد اور شاہی محل تعمیر کیے گئے۔ کسی بھی دوسرے پیشرو کی نسبت اس نے زیادہ عمارتیں تعمیر کرائیں۔ نئے دارالحکومت کے علاوہ رامسس نے معبدوں کا ایک کمپلیکس تعمیر کیا۔ اس میں بڑے صحن اور رامسس کے مجسمے تھے۔ اس میں فتح یاب فوج اور رامسس کو متعدد دیوی دیوتاؤں کے درمیان دکھایا گیا تھا۔ آج اس کمپلیکس کے کل 48 ستونوں میں سے 39 باقی ہیں تاہم بیشتر معبد مٹ چکے ہیں۔ جب نیفرٹاری کا انتقال ہوا تو اسے ملکہ کے شایانِ شان مقبرے میں دفن کیا گیا جس کی اندرونی دیواروں پر کی گئی مصوری مصری فن کی بلندیوں کو بیان کرتی ہے۔ نیفرٹاری رامسس کی اکلوتی بیوی نہیں تھی لیکن اسے سب سے اہم بیوی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ اس کا بیٹا ولی عہد امون ہر خپیشف اس کی موت کے ایک برس بعد مر گیا۔ آخری دور اور داستانیں30 سالہ اقتدار کے بعد رامسس دوم نے طویل ترین دورِ اقتدار کا روایتی جشن منایا جسے ’’سڈ جشن‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس وقت تک رامسس وہ تمام کام کر چکا تھا جن کے سبب وہ مشہور ہوا۔ وہ سلطنت کو توسیع دے چکا تھا، بہتر انفراسٹرکچر قائم کر چکا تھا اور نئی عمارتیں اور یادگاریں بنا چکا تھا۔ 66 برس اقتدار میں رہنے کے بعد رامسس کی صحت خراب ہونے لگی۔ اسے جوڑوں کی سوزش کے علاوہ شریانوں اور دانتوں کے مسائل تھے۔ وہ 90 برس کی عمر میں فوت ہوا اور اس کے بیٹے مرنی پٹا کو اقتدار ملا۔ اسے پہلے وادی الملوک میں دفن کیا گیا لیکن مقبرے کو لوٹ مار سے بچانے کے لیے مقام بدل دیا گیا۔ بیسویں صدی میں اس کی حنوط شدہ لاش کو معائنے کے لیے فرانس لے جایاگیا جس سے علم ہوا کہ اس کی جلد کا رنگ سفید اور بالوں کا سرخ تھا۔ آج یہ قاہرہ کے عجائب گھر میں ہے۔ اس کی تہذیب نے اسے ’’بزرگِ عظیم‘‘ کا لقب دیا اور بعد میں آنے والے فرعونوں نے اس کے اعزاز میں رامسس کا لاحقہ اپنایا ۔ عوامی داستانوں میں اس کا عام ذکر ملنے لگا۔ رامسس کا شمار قدیم مصر کے مشہور بادشاہوں میں ہوتا ہے۔ ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا (بشکریہ ’’تھاٹ کو‘‘)