میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں ریاض مجید اردو غزل کے بڑے شاعر
جدید طرز احساس کے شعراء میں ریاض مجید کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے خوبصورت غزل کے معیارات کا خود ہی تعین کیا اور اپنی قوت متخیلہ کو بڑی نفاست اور عمدگی سے شعری لباس پہنایا۔ ان کی شاعری میں ہمیں شعری طرز احساس اور جدید طرز احساس کا وہ سنگم ملتا ہے جس کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے۔ وہ جمالیاتی احساس کو بھی شاعری کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ معروضی صداقتوں کی گونج بھی ان کے اشعار میں ہے اور معاشرتی کرب کی جھلکیاں بھی ہمیں ان کے اشعار میں ملتی ہیں۔ انہوں نے مضمون آفرینی کے ساتھ ساتھ جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے وہ ہے شعر۔
ریاض مجید کا اصل نام ریاض الحق ہے۔ وہ 13 اکتوبر 1942 کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پروفیسر کے طورپر اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگے۔ ان کی تصانیف میں گزرتے وقت کی عبادت ''پس منظر‘‘ ،''نئی آوازیں‘‘، 'رفحان میں ایک شام‘‘ شامل ہیں۔ اردو کے علاوہ مجید نے پنجابی زبان میں بھی اپنی شعری صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔
ریاض مجید کی شاعری کا ایک بڑا وصف یہ ہے کہ اس میں ابلا غ کا کوئی مسئلہ در پیش نہیں۔ وہ کچھ کہتے ہیں بڑی وضاحت سے کہتے ہیں۔ قاری کو کسی مشکل میں نہیں ڈالتے۔ ان کے خیال کی ندرت انہیں ایک عمدہ غزل گو تسلیم کرنے کے لئے کافی ہے۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ فرمایئے جو ان کی شناخت بن چکا ہے
میرا دکھ یہ ہے کہ میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
اس دکھ کو وہی محسوس کرسکتا ہے جس نے اسے جھیلا ہو۔ یہ شعر بے بسی کا استعارہ ہے۔ آپ کے پاس سب کچھ ہے لیکن پھر بھی ناکامی کے اندھیرے آپ کا مقدر ہیں۔ اس سے بڑی مایوسی اور کیا ہوسکتی ہے۔ تنہا لڑائی اگر نہیں لڑسکتے تو پھر اس لشکر میں شامل ہوجائیے جس کے لوگ آپ ہی کی طرح جری اور جانباز ہیں۔ اس شعر کے اندر فلسفہ بھی ملتا ہے اور ایک موثر پیغام بھی۔
ریاض مجید کے بے شمار اشعار ایسے ہیں جن کا دوسرا مصرعہ پڑھ کر قاری ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ مصرعہ اولیٰ کی تاثریت مصرعہ ثانی مکمل کردیتا ہے اور منہ سے بے ساختہ واہ نکلتی ہے۔
ذرا مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں۔
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
جی میں آتا ہے بکھر کر دہر بھر میں پھیل جائوں
قبر لگتی ہے بدن کی چار دیواری مجھے
دیکھتے ہیں سب مگر کوئی مجھے پڑھتا نہیں
گزرے وقتوں کی عبارت ہوں عجائب گھر ہوں میں
ہمارے جدید طرز احساس کے کئی شعرا سیاسی اور سماجی حالات کی بھر پور عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ریاض مجید نے کس مہارت اور نفاست سے وہ المیہ بیان کیا ہے جس کا تعلق اس ملک کے کروڑوں عوام سے ہے۔ انہوں نے اپنی غزل کے ایک مصرعے میں ''اشرافیہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو ہماری سیاست کی زبان میں سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ خاص طورپر وہ سیاسی جماعتیں جو اپوزیشن کی سیاست کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کے لئے یہ لفظ بڑا شاندار لفظ ہے اور وہ''اشرافیہ‘‘ کو ہدفت تنقید بنا کر عوام کے سارے مسائل کا ذمہ دار انہیں گردانتے ہیں۔ لیکن اقتدار حاصل کرنے کیلئے انہیں پھر اسی اشرافیہ کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ اس وقت ان کے نظریات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بہر حال ریاض مجید کا یہ شعر زبردست داد کا مستحق ہے جس میں شعریت بھی ہے اور معروضی صداقتوں کا والہانہ اظہار بھی
بہت بے زار ہیں اشرافیہ کی رہبری سے
کوئی انسان کوئی خاک زادہ چاہتے ہیں
شاعر نے اشرافیہ کو انسانوں کی فہرست ہی سے خارج کردیا ہے۔ اس شعر پر بہت طویل بحث ہوسکتی ہے۔ میں نے جتنی اردو شاعری پڑھی ہے اس میں اشرافیہ کا لفظ پڑھنے کو نہیں ملا۔ مجھے مجید امجد یاد آئے جو وہ شعری زبان استعمال کرتے تھے جو پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ انہوں نے بہت سے نئے الفاظ استعمال کئے۔ مضمون آفرینی کے حوالے سے ان کا ذرا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔
ہر کسی غم کی وہی شکل پرانی نکلی
بات کوئی بھی ہو تیری ہی کہانی نکلی
تنہائی کے حوالے سے بہت سے شعراء نے بڑے خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ کسی نے تنہائی کو مثبت انداز میں لیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ تنہائیوں کا اپنا ایک حسن ہے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا تھا
مقام رنج ہے تنہائیوں نے مل کر آج
واہ اپنا حسن بھی کویا ہے انجمن بن کر
لیکن ریاض مجید جس تجربے سے گزرے ہیں وہ ایک انوکھی داستان بیان کرتا ہے۔ وہ تنہائی کے آرزو مند نہیں لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ محفلوں نے بھی انہیں کچھ نہیں دیا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ تنہائیاں ہی ان کا مقدر ہیں۔ کہتے ہیں۔
کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی
نکتہ آفرینی شاعری کا ایک بہت بڑا وصف ہے۔ ریاض مجید نے وہ رومانوی شعر کہا ہے جو کوئی اور شاعر نہ کہہ سکا۔ عام طورپر شاعر محبوب کے نہ ملنے کو اپنی بد نصیبی قرار دیتا ہے اور اس کا دل حزیں اس محرومی کی چکی میں پستا رہتا ہے لیکن ریاض مجید نے اس حوالے سے کیا نکتہ نکالا ہے ذرا غور کیجئے۔
زندگی تھوڑی تھی ہم کو اور بھی سو کام تھے
ورنہ اک تجھ کو ہی پانا تو کوئی مشکل نہ تھا
اب آپ اسے کیا کہیں گے یہ نکتہ آفرینی بھی ہے اور ندرت خیال بھی ریاض مجید نے جدید غزل کے امکانات کو وسیع کیا۔ جسم کو کئی ایسے مضامین کا لباس پہنایا جس سے قاری کو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ انہوں نے فطری حقائق سے بھی کبھی نظریں نہیں چرائیں۔ جدید طرز احساس کے ساتھ ساتھ ان کا شعری طرز احساس بھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔ جب کوئی شاعری ان دونوں اوصاف کی حامل ہو تو ادب کا کون سا قاری ایسا ہوگا جو ایسی شاعری کو نظر انداز کرے گا۔
ریاض مجید شاعری میں کسی ایک دھڑے ے وابستہ نہیں ہیں۔ نہ ان پر ترقی پسندی کا لیبل لگا اور نہ ہی وہ روایتی اور کلاسیکل مکتبہ فکر کے داعی ہیں۔ ان کا شاعری کا کینوس وسیع ہے
ریاض مجید کے شعری خزانے میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اردو غزل کے قارئین ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے رہیں گے۔