مصنوعی ذہانتvsہیومن سائیکالوجی

اسپیشل فیچر
جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے ویسے ہی کئی ایسے سوالات بھی انسانیت کے سامنے سراٹھارہے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ سب سے اہم سوال جس نے ماہرین اور سائنسدانوں کو بھی دو گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے وہ یہ کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانی بقاء کیلئے خطرہ ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور اب بھی اس پر تحقیق جاری ہے۔حال ہی میں ''چیٹ جی پی ٹی 4‘‘کے لانچ نے اس بحث کو مزید تقویت بخشی ہے کہ مصنوعی ذہانت، بائیولوجیکل ذہانت یعنی انسانی عقل کے برابر پہنچنے کے بہت قریب ہے۔ تکنیکی زبان میں اس مقام کو ''سنگولیریٹی‘‘ (Singularity)بھی کہا جاتا ہے جہا ں انسان اور مصنوعی ذہانت ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں۔مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اس لئے بھی قابل تشویش ہے کہ مستقبل میں یہ انسانوںکی ایک بہت بڑی تعداد کو نوکریوں سے محروم کر سکتی ہے۔
اس سلسلے میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرنفسیات ڈاکٹر گیرڈ گیگررینزر کی کتاب ''ہائو ٹو سٹے سمارٹ ان اے سمارٹ ورلڈ‘‘ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسان کی ذہانت تک پہنچنے کیلئے ابھی بہت زیادہ ترقی کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر گرڈ کے مطابق مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے الگورتھم وہاں بہترین کارکردگی فراہم کرتے ہیں جہاں واقعات میں کسی قسم کی تبدیلی رونما نہ ہو، یعنی اگر ایک واقعہ جو آج رونما ہوا ہے ویسا ہی روزانہ کی بنیاد پر ہو تو مصنوعی ذہانت بغیر کسی غلطی کے تمام ذمہ داریاں سرانجام دے دی گی۔مثلاً کسی ادارے میں ملازمین کی حاضری کیلئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاتا ہے تو یہاں اس کی کارکردگی یقینا مثالی ہو گی کیونکہ ملازمین کے دفتر آنے کا ایک مخصوص وقت ہوگا اور وہ روزانہ کی بنیا د پر اسی مخصوص وقت پر حاضری لگائیں گے۔ لیکن جہاں واقعات میں تبدیلی ہو گی اور روزانہ کی بنیا د پر روٹین تبدیل کی جائے گی، وہاں مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگر اس کے مقابلے میں انسانی ذہانت کو دیکھا جائے تو اس کا زیادہ تر تعلق تبدیلی اور سرپرائز سے ہی ہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی میں بھی روزانہ کی بنیا د پر کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو اس کیلئے اور اس کی ذہانت کیلئے بالکل نئے ہوں۔انسان اپنی روٹین میں تبدیلی کی صورت میں بھی ضروری اور صحیح فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت فی الحال اس طرح کے فیصلے لینے سے قاصر ہے۔
مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے موجودہ دور کے بہترین الگورتھم جن میں ''ایلفا گو‘‘(Alpha Go)اور ''ایلفا زیرو‘‘ (Alpha Zero)شامل ہیںنے بھی انسانوں کو GOگیم میں اس لئے شکست دے دی کیونکہ اس گیم کے اصول پہلے سے طے شدہ تھے۔اگر اس میں کوئی نئی چال شامل کی جاتی تو یقینا وہاں بھی مصنوعی ذہانت کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا کیونکہ وہ نئی چال اس کے ڈیٹا بیس میں موجود نہ ہوتی۔
ڈاکٹر گرڈ نے اس صورتحال کو ''سٹیبل ورلڈ پرنسپل ‘‘ کے نام سے بیان کیا ہے۔ڈاکٹر گر ڈ کے مطابق مصنوعی ذہانت کو فیصلے لینے کے قابل بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اسے سائیکالوجی جیسی صلاحیت فراہم کی جائے۔ مثلاً اگر کسی انسان کو سنسان سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے کوئی اجنبی یا مشکوک شخص رکنے کا اشارہ کرے تو گاڑی چلانے والا شخص خطرے کو محسوس کرتے ہوئے گاڑی نہیں روکے گا ۔ اگر مصنوعی ذہانت پر چلنے والی بنا ڈرائیور کے گاڑی کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جب کوئی انسان گاڑی روکنے کا اشارہ کرے تو رک جانا ہے ،ایسی صورت میں مصنوعی ذہانت یہ فیصلہ نہیں کر پائے گی کہ اسے گاڑی روکنے والے شخص سے کسی قسم کا خطرہ ہے یا نہیں۔
اسے Heuristic Approachکہا جاتا ہے۔ جس کے تحت انسان خطرے کو بھانپتے ہوئے موقع کی مناسبت سے فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مصنوعی ذہانت کی شروعات بھی Heuristic Approach سے ہوئی تھی۔مصنوعی ذہات کی بنیا د رکھنے والے دو امریکی ماہرین Allan NewellاورHerber Simonنے بھی مصنوعی ذہانت کو اسی قانون کے تحت ڈیزائن کیا تھا جس میں موجود ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت موقع کے مطابق فیصلے لے سکے لیکن مشین لرننگ کی آمد نے مصنوعی ذہانت کو ترقی کے ساتھ ساتھ ایک نئی سمت بھی فراہم کی جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی میں تو بہتری آئی لیکن یہ بنیادی اصول سے دور ہوتی چلی گئی۔
ڈاکٹر گرڈ کے مطابق مصنوعی ذہانت کو سائیکالوجی جیسی صلاحیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ موقع کے مطابق فیصلہ لینے کے قابل بن سکے اور اسی صورت میں مصنوعی ذہانت اصل معنی میں انسانی عقل کا مقاملہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔