یادرفتگاں: فیض اور عصر نو کے تقاضے

اسپیشل فیچر
فیض احمد فیض غیر معمولی ذہانت، فسطانیت اور دیانت کی بدولت انسانوں کے درمیان طبقاتی تفاوت اور غیر مساویانہ رویوں کے خلاف تھے، ان کی تعلیم و تربیت خالص دینی ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے عربی زبان و ادب کا مطالعہ کیا پہلے عربی زبان میں ایم اے کیا اور اس کے بعد انگریزی میں ایم اے کیا۔ بظاہر یہ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ فیض کا خاندان پڑھا لکھا تھا۔ انہیں پہلے قرآن پاک حفیظ کرایا گیا۔ وہ بیک وقت اردو ، فارسی، عربی، انگریزی اور پنجابی زبان پر عبور رکھتے تھے، وہ روسی زبان بھی جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جھکائو اشتراکیت کی طرف ہوا۔ وہ معاشرے میں غیر انسانی رویوں کو ناپسند کرتے اور احترام آدمیت میں یقین رکھتے تھے۔
فیض احمد فیض کے آٹھ شعری مجموعے ہیں، ایک تنقیدی مجموعہ ''میزان‘‘ ہے۔ ان کے مضامین اور انٹرویو کے علاوہ ان کے خطوط بھی ہیں ''دامن یوسف‘‘ ۔ یہ وہ خطوط ہیں جو بیگم سرفراز اقبال کے نام لکھے گئے۔ وہ لکھتی ہیں '' کتنا خاص آدمی کتنا عام سا لگتا ہے، کوئی ناز، کوئی ادا بڑے آدمیوں والی نہیں اور روز فیص صاحب سے مل کر مجھے ایک لخطے کیلئے تو یوں لگا تھا جیسے قدیم یونانی دیوتا کا بت اچانک اپنی آنکھیں جھپکنے لگا ہو۔ دراصل فیض ہر طرح بے نیازانہ زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں، وہ اپنی ذات میں گم ہیں یا کبھی اپنے گرد و پیش کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں‘‘۔
ان کے نظریات کو سمجھنا ہو تو وہ موضوعات پیش نظر رکھنا ہوں گے جن پر فیض نے لکھا جیسے ادب کا ترقی پسند نظریہ۔ ادب اور جمہور، فنی تخلیق اور تخیل اس کے علاوہ پاکستانی تہذیب کا مسئلہ یا ادب اور ثقافت ایسے موضوعات ہیں جن پر انہوں نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ دراصل ان کی زندگی میں عجب طرح کی کشاکش رہی۔ انہوں نے زندگی برتنے کا یہی سلیقہ اپنایا کہ دھیمے لہجے میں بات کی جائے اور اپنے موقف کی صداقت پر ایسا یقین ہو کہ زمانہ مخالف ہو لیکن اپنے موقف کا اظہار شائستگی سے کر دیا جائے۔ وہ جانتے تھے کہ تخلیقی ادب سچائی اور حسن کی جستجو کرنا ہے۔
فیض نے زبان و قلم سے کام لیا اور نئے امکانات کو جوت جگا کر نظم اور نثر کو تابناک بنا کر دم لیا۔ پاکستان میں ایسے حالات بھی آئے کہ مطلق العنان طالع آزما حکمران اس ملک کے مختار کل بن گئے۔ زبان و قلم پر پابندی لگا کر حکومت کرنے لگے۔ یہاں پہلے ہی ہمارے معاشرے پر جاگیردارانہ نظام کی بڑی مہر ثبت تھی۔ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کو عوام کی فکر لاحق رہی ان میں انقلاب برپا کرنے کی خاطر کچھ کر گزرنے کی تمنا کروٹیں لے رہی تھیں۔
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ فیض کو مزدوروں اور کسانوں سے ہمدردی ہے مگر وہ ان کے دکھ درد کو کیسے سمجھ سکتے ہیں، انہیں کیا خبر کہ بھوک اور تنگدستی میں کیا گزرتی ہے۔ ان کی شاعری غریبوں اور بے سہارا لوگوں کے زخموں کا مرہم کیسے بن سکتی ہے۔ اسی طرح ترقی پسند ادیبوں کی تحریک سے انقلاب کیسے برپا ہو سکتا ہے ؟اس کا جواب ان کی تحریر میں موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''اگر ترقی پسند مصنفین کی آواز مزدوروں تک نہیں پہنچتی تو نہ پہنچے مجھ تک اور آپ تک تو پہنچتی ہے، ان کی تحریروں سے اتنا بھی ہو جائے کہ ہم اور آپ ان مسائل پر غور کرنا شر وع کر دیں تو یہی غنیمت ہے، مزدور اور سرمایہ داری کی جنگ صرف مزدور کی جنگ نہیں ہے ہم سب کی جنگ ہے ہمارے دوست دشمن بھی مشترکہ ہیں۔ مزدور اور کسان کی بہبودی سماج کی اجتماعی بہبودی کے مترادف ہے کیا ہم بھی اسی طرح سماج میں شامل نہیں‘‘ ۔ہمیں ان کا جواب مسئلے کے حل میں ایک حد تک مطمئن کر سکتا ہے۔ دراصل معاشرے میں وہ مساوات پیدا نہیں ہو سکتی جس کی توقع موہوم سا تصور ہے البتہ مواسات ضروری ہے جس کا فقدان معاشرے کو عدم توازن سے دوچار کرتا ہے۔ یہاں ہر شخص کو اس کی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق نوازا جائے اور جس میں جتنی اور جیسی قابلیت ہو اسے ایسا معاوضہ ملنا چاہئے۔
فیض ہوں یا سجاد ظہیر، پروفیسر احتشام حسین ہوں یا فراق، یہ سب اشتراکیت کے زیر اثر وہی آواز اٹھا رہے تھے مگر فیض کے ہاں لہجہ اور ترسیل فکر میں حسین امتزاج پایا گیا۔ ان کے ہاں جھنجھلاہٹ یا بیزاری نہیں بلکہ رومانوی فضا کے سبب دل پر گہرا نقش نے زندگی اور انسانیت سے بھرپور محبت کی ہے اور اس ''جرم محبت‘‘ کی سزا ایک بار نہیں کئی بار ملی۔ وہ بڑی حوصلہ مندی کے ساتھ مخالف قوتوں سے نبرد آزما رہے۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
ہم فیض احمد فیض جیسے باخبر دانا و بینا اور وسیع المطالعہ باشعور شاعر کے نسخہ ہائے وفا رقم کرنے اور خون دل میں انگلیاں ڈبو کر استعماریت کے خلاف مزاحمتی ادب تخلیق کرنے کے مقصد کو پانے کی توفیق ارزانی کا اہتمام کریں تاکہ ہم پاکستان میں جاگیرداری نظام پر ضرب لگا سکیں۔ ہمارے قدرتی وسائل سے بڑھ کر ہماری افرادی قوت اور ذہانت عظیم سرمایہ ہے۔
بیشتر حکمران جاگیرداری نظام کو دوام بخشنے اور مذہبی خدائی ٹھیکیداروں کی پشت پناہی میں سرگرم عمل رہے۔ خطے میں کشیدگی کی فضا برقرار رکھنے کی حکمت عملی اپنا کر اپنے وسائل کے علاوہ امریکی اسلحہ کی خریداری کیلئے مقروض ہونا پسند کیا۔ امریکہ اور یورپ نے قرضے جاری کرنے کے ساتھ کارخانوں کو جاری و ساری رکھنے کی خاطر امداد کے نام پر ہمیں بے وقوف بنایا ۔ اس انداز سے دیئے ہوئے قرضوں کی رقوم بھی ان کے خزانوں کو واپس ہوتی رہیں۔ ایسے میں فیض اپنے مخصوص انداز میں یہ تجزیہ کرنے پر مجبور ہوئے۔
حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے
سر پر ہیں خداوند سرِ عرش خدا ہے
کب تک اسے سینچو گے تمنائے ثمر میں
یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا نہ پھلا ہے
ملتا ہے خراج اس کو تری نان جویں سے
ہر بادشاہ وقت ترے در کا گدا ہے
فیض کی غزل ہو یا نظم ان کا اہم موضوع جبر و استحصال کے خلاف اظہار خیال کرتا ہے۔ان کا کلیات نسخہ ہائے وفا میں نقش فریادی، دست صبا، زندان نامہ، دشت تہ سنگ، سر وادی سینا، شام شہر یاراں، میرے دل مرے مسافر اور غبار ایام کا مطالعہ کرتے ہوئے فیض کے اشعار میں ان کی دلی کیفیت سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ ان کے ہاں رومانوی انداز اظہار قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔ خدا وہ وقت نہ لائے، سرود شبانہ اور آخری خط میں ایک ہی اداس اور مغموم فضا پائی جاتی ہے۔ ان کے قطعات بھی دلنوازی میں اپنی مثال آپ ہیں، خصوصاً ان کی نظم''مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘ آفاقی سچائی کا مظہر ہے کہ
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ہر باذوق اور شعر و ادب سے شغفرکھنے والا فیض کی شاعری سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، ان کا ہمنوا ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ اختلاف نظر کا اظہار کر سکتا ہے، مگر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اقبال کے بعد قدو قامت میں نئے امکانات کا مژدہ جاں فزا لے کر آنے والا شاعر صرف فیض احمد فیض ہے۔ اقبالؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فیض نے بجا طور پر یہ بتایا کہ:
تمہیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
دست صبا میں ان کی غزل میں بظاہر ذکر محبوب ہے مگر درون پردہ وہ انقلاب کی راہ دیکھ رہے ہیں جیسے '' تم آئے ہونہ شب انتظار گزری ہے یا تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں اور اس غزل کا مقطع ان کے دل کا احوال واقعی ہے کہ قید و بند کی صعوبت سہہ کر بھی رجائیت سے دشت کش نہیں ہوئے۔
درقفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
فیض کی وابستگی اشتراکیت سے رہی لیکن ان کے دل میں اپنی درخشندہ روایات تازہ رہیں اور عظیم المرتبت ہستیوں کا کردار عمل انہیں بھولا نہیں یہی وجہ ہے کہ پایان عمر میں انہوں نے مرثیہ کہا، جس میں حسینیت کا حوالہ ان کی فکر رسا کی شہادت کے سوا اور کیا ہے۔ فیض کی نگاہ دور رس کربلا کی صبح عاشور پر جا پڑی۔
رات آئی ہے شبیر پہ یلغار بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غم خوار رہا ہے
مونس ہے تو اک مدد کی گھنگور گھٹا ہے
مشفق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی غربت کی پریشانی کی شب ہے
یہ خانہ شبیر کی ویرانی کی شب ہے
فیض کی دنیا اور عاقبت سنور گئی اور شاعری و نثر میں ان کو ہمیشہ وہی مقام حاصل رہے گا جو ایک سچے اور بے داغ فنکار کا مقصد کہلاتا ہے۔