29نومبر فلسطینی عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کا دن
اسپیشل فیچر
ہر سال 29نومبر کودنیا بھر کے مسلمان فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن مناتے ہیں ۔ اس دن کو منانے کا آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے2 دسمبر 1977ء کو اپنی ایک قرارداد کے ذریعے کیا تھا تاکہ اس مظلوم قوم کے مسائل کی طرف ممالک کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔
فلسطین پر غاصبانہ قبضہ اور 1948ء میں ناجائز صیہونی حکومت کا قیام مغربی ایشیاء میں جنگ اور عدم تحفظ کا آغاز تھا۔ شاید 29 نومبر کو فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن کا نام دینا 1947ء کی اس ظالمانہ ''قرارداد 181‘‘ کے حوالے سے مطمئن کرنا ہے، جسے اسی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اس قرارداد کے مطابق فلسطین کی زمین کا 57فیصد حصہ یہودیوں کو دیا گیا، جو زیادہ تر دوسرے ممالک سے آئے تھے اور یہی ''قرارداد 181‘‘ تقریباً چھ ماہ بعد صیہونی حکومت کے وجود کے اعلان کا پیش خیمہ بن گئی۔ اس جارح حکومت نے جنگ اور تسلط کے ذریعے فلسطین کے تقریباً 85 فیصد حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
انبیاء علیہ السلام کی مقدس سر زمین فلسطین پرایک عالمی سازش کے تحت دنیا بھر سے اسلام دشمن شیطانی طاقتوں کو جمع کر کے ناقابل تسلیم ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس گھناونی سازش میں سرفہرست امریکہ اور برطانیہ تھے۔ ان طاقتوں کے زیر اثر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 29نومبر 1947ء کو ''قرارداد 181‘‘ پاس کی، جس کے تحت سرزمین فلسطین کو غیر منصفانہ طریقے سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصے میں یہودی حکومت اور دوسرے حصے میں فلسطینی حکومت قائم کی جانا تھی۔
اقوام متحدہ کی قرارداد اس قدر غیر منصفانہ تھی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 29 نومبر 1977ء کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن قرار دیا۔ 1974ء میں یاسر عرفات نے فلسطین کے نمائندے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو ایک قوم تسلیم کیا اور ان کے حق خود ارادیت کیلئے کئی قرار دادیں منظور کیں۔
اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد نہتے فلسطینیوں کو صیہونی ظلم وجبر برادشت کرتے 76 سال بیت گئے لیکن عالمی برداری اور اسلامی ممالک کی بے حسی کے باعث فلسطینی عوام صیہونی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کئی عشروں سے اسرائیل کی جارحیت کا شکار فلسطینی آج بھی اسرائیل کی دہشت گردی کے ہاتھوں اپنی ہی سر زمین پر قیدیوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت فلسطینی عوام ظلم، کرب و اذیت کا شکار ہیں، بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ گھر، ہسپتال اور تعلیمی ادارے گرائے جا چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی فلسطینی مسلمانوں کیلئے جہنم بن چکی ہے۔ حد یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں رہی ہے۔ فلسطینی مسلمان تعداد کے اعتبار سے اگرچہ مٹھی بھر ہیں لیکن یہی مسلمان اسرائیلی عزائم کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطینی مسلمانوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہے انھیں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور دل لرز جاتے ہیں۔
فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ممالک میں سیمینارز اور تقاریب میں اسرائیلی مظالم کی مذمت اور مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہارکیا جاتا ہے۔ دنیا نصف صدی سے اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منا رہی ہے۔ پچاس سال سے اظہار یکجہتی کا دن منانے کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور مسئلہ فلسطین سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب مدد کے عملی تقاضے پورے نہیں کر رہے۔
اقوام متحدہ 1947ء سے فلسطین میں امن کیلئے کوشاں ہے مگر اسرائیل کے مظالم اسی طرح جاری ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیلی فوجی نہتے فلسطینیوں کو شہید کرتے رہتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج کے ہاتھوں ہر سال اوسطاً 560 فلسطینی شہید ہو جاتے ہیں جبکہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران 14ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کئے جانے کے بعد ہزاروں فلسطینی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل اور یہودی طاقتیں دنیا کو ''ڈبل ایم‘‘ یعنی (Money and Media) کی پالیسی کے تحت خود کوتسلیم کروانے کیلئے انتھک کوششیں کر رہی ہیں۔ اسرائیل خود کو تسلیم کروانے کیلئے دنیا کو طرح طرح کے لالچ دیتا رہتا ہے۔ ''کویڈ 19‘‘ کے دوران کورونا ویکسین مفت دینے اور کورونا کے باعث معاشی بدحالی میں مبتلا ممالک کو مالی امداد دینے کا لالچ دیا جاتا رہا۔ عالم اسلام کو انفرادی مفادکے بجائے اجتماعی مفاد کو ترجیح دینا چاہیے۔