آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


سٹیچو آف لبرٹی
1886ء میں آج کے روز امریکی صدر گرووَر کلیولینڈ کو ''اسٹیچو آف لبرٹی‘‘ تحفے میں دیا گیا۔ یہ مجسمہ امریکی عوام کو فرانسیسی عوام نے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ 1975ء سے 1984ء کے درمیان اس کی تعمیر عمل میں آئی۔ امریکہ بھجوانے سے پہلے اس مجسمہ کے مختلف حصوں کی پیرس میں نمائش کی گئی۔ یہ مجسمہ تانبے سے بنا ہوا ہے اور اس کا ڈھانچا لوہے کا ہے۔ نیو یارک شہر میں پانی کے اندر نصب بلند و بالا مجسمہ آزادی کے تحفظ کی ذمہ دار امریکن نیشنل پارک سروس کے حوالے ہے۔
یونان اطالوی جنگ کا آغاز
28 اکتوبر 1940ء کو اٹلی کے وزیر اعظم مسولینی نے یونان کو ایک الٹی میٹم جاری کیا جس میں یونانی علاقے کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا، جسے یونان کے وزیر اعظم نے مسترد کر دیا۔ جس کے چند گھنٹوں بعد ہی اٹلی نے البانیہ کے راستے یونان پر حملہ کر دیا۔ اس لڑائی کو ''یونانی اطالوی جنگ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ اپریل 1941ء تک جاری رہی۔
''ایرس ایکس 1‘‘ کی لانچنگ
2009 ء میں آج کے روز ناسا نے ''ایرس ایکس 1‘‘مشن کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا، جو اس کا قلیل المدتی راکٹ پروگرام تھا۔ اس منصوبے کی لاگت 445 ملین ڈالرتھی۔''ایرس ایکس‘‘ نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (NASA) کی طرف سے تیار کردہ انسانی خلائی پرواز کیلئے لانچ سسٹم''ایرس‘‘ کے پہلے مرحلے کا پروٹو ٹائپ اور ڈیزائن تصور کیا جاتا ہے ۔
بین الاقوامی اینی میشن ڈے
28 اکتوبرکو دنیا بھر میں ''بین الاقوامی اینی میشن ڈے ‘‘ منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا آغاز 2002ء میں اینی میشن کے فن کو اجاگر کرنے کیلئے ''انٹرنیشنل اینی میٹڈ فلم ایسوسی ایشن‘‘ (ASIFA) کی جانب سے کیا گیا۔اس دن کے موقع پر 50 سے زائد ممالک میں 1000 سے زیادہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ دن 1892 میں پیرس کے گریون میوزیم میں چارلس ایملی رینائوڈ کے تھیٹر آپٹک کی پہلی عوامی کارکردگی کی یاد دلاتا ہے۔ 1895ء میں Lumière برادران کے سنیماٹوگراف نے ریناؤڈ کی ایجاد کو پیچھے چھوڑ دیاتھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ڈیجیٹل ورلڈ دنیا کے اندر ایک اور دنیا

ڈیجیٹل ورلڈ دنیا کے اندر ایک اور دنیا

دنیا کے اندر '' ڈیجیٹل دنیا‘‘ کے نام سے ایک نئی دنیا کا احیاء جس تیزی سے ہماری روزمرہ زندگیوں میں داخل ہوا اس نے ہمیں ایسا سہل پسند اور اپنا عادی بنا دیا کہ ہمارے لئے اس نئی دنیا کی ''شہریت‘‘ اختیار کرنے کے سوا اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں۔ اس سے قبل دنیا ایک ''گلوبل ویلج‘‘ تھی لیکن اب ایک چھوٹی سی ڈیوائس (موبائل کی شکل میں) ہی ہماری دنیا ہے جو ہروقت ہماری جیب میں یا پھر ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہی چھوٹی سی ڈیوائس بنیادی طور پر ''ڈیجیٹل ورلڈ‘‘ہے۔ کاغذی کرنسی اب قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے، پہلے پلاسٹک منی (کریڈٹ ، ڈیبٹ کارڈ وغیرہ ) نے اس کی جگہ لی اور اب پلاسٹک منی بھی آئندہ کچھ سالوں میں قصہ پارینہ بن جائے گی کیونکہ جب آپ گھر بیٹھے بٹھائے اپنے تمام بل، تمام ادائیگیاں، اپنی شاپنگ آن لائن ڈیجیٹل طریقہ کار سے کررہے ہوں گے تو کاغذی کرنسی کا کوئی جواز نہیں بنتا، ماسوائے ٹھیلے والے، پھیری والے یا پلمبر الیکٹریشن وغیرہ کی ادائیگیوں کیلئے۔ بات صرف ادائیگیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ'' دنیا‘‘ سکول کالجوں کے داخلوں سے شروع ہو کر آپ کے ویزے، پاسپورٹ، ہوائی ٹکٹ بلکہ اس سے بھی آگے تک ، آپ کی جیب یا آپ کی مٹھی میں ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ کے شہری کون ؟ ڈیجیٹل شہری وہ ہیں جو اپنی روزمرہ زندگی میں اپنی تعلیم، کاروبار، سیاست، لیں دین یا تفریحی اوقات کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ ''ڈیجیٹل شہری‘‘کہلاتے ہیں۔ جیسے کسی ملک کے ایک عام شہری کو اس ملک کی شہریت حاصل کرنے لئے اپنی شناخت اپنے ملک کے اداروں کو مہیا کرنا پڑتی ہے بالکل ایسے ہی ڈیجیٹل ورلڈ کی شہریت حاصل کرنے کیلئے بھی کسی بھی متعلقہ فرد یا افراد کو سب سے پہلے ای میل ایڈریس کیلئے سائن اپ کرنا پڑتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غیر محسوس طریقے سے ہم سب رفتہ رفتہ اس نئی دنیا کی '' شہریت‘‘ اختیار کرتے جا رہے ہیں بلکہ کر چکے ہیں ، کچھ جزوی طور پر اور کچھ مکمل طور پر۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں شاید ہی کوئی فرد ڈیجیٹل ورلڈ کی''شہریت‘‘ سے محروم ہو گا ، اگر ہو گا بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ۔ ڈیجیٹل شہریت دراصل آن لائن رابطہ ،قابل اعتماد ذرائع کی تلاش ،انسانی حقوق کے تحفظ ، وقت اور وسائل کی بچت کے ساتھ ٹیکنالوجی کا ذمہ دارانہ اور با عزت استعمال ہے۔ تکنیکی طور پر ڈیجیٹل شہریت ایک اصطلاح ہے جو صارفین کے درمیان ٹیکنالوجی کے مناسب اور ذمہ دارانہ استعمال کی وضاحت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم پر بات چیت کرنے، تعاون کرنے اور مثبت انداز میں مہارتیں سکھانے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا کی خلاف ورزیوں اور شناخت کی چوری کو روکنے کیلئے رازداری کے تحفظ اور حفاظتی اقدامات کے راستوں سے روشناس کراتی ہے۔ کسی بھی ریاست کی طرح ، ڈیجیٹل شہری بھی ایک کمیونٹی یا معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔یہ ان ممبروں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے ''حصے‘‘میں رہنا چاہتے ہیں۔جب ڈیجیٹل شہری اچھے اور پروقار انداز میں اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں تو انٹرنیٹ ان کیلئے ایک ایسا ذریعہ بن جاتا ہے جس سے وہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ، ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے مستقبل کو مزید مستحکم بنا سکتے ہیں۔مائیکل ریبل( جس نے ایک لمبے عرصے تک ڈیجیٹل ورلڈ کیلئے کام کیا ) نے ڈیجیٹل صارفین کو ذمہ دار ڈیجیٹل شہری بننے کیلئے اس ٹیکنالوجی کے محفوظ اور ذمہ دارانہ استعمال کے تین رہنما اصول احترام، تعلیم اور تحفظ متعارف کرائے ہیں ۔گویا یہ ڈیجیٹل ورلڈ کا ایک ''آئین‘‘ ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونا سب شہریوں پر لازم تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ سب کی فلاح بھی ان قوانین کی پاسداری میں ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ کا مستقبل کیا ہے ؟ ڈیجیٹل ورلڈ میں جیسے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا کردار بنیادی ہوتا ہے ایسے ہی کمپیوٹر سسٹم میں ''ڈیٹا‘‘ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جس طرح ہر ادارہ کمپیوٹر سسٹم پر انحصار کرتا ہے ، اسی طرح کمپیوٹر سسٹم کا انحصار ''ڈیٹا پروسسنگ‘‘ پر ہوتا ہے۔ معلومات سے بھری دنیا کا ذرہ تصور کریں جہاں ایک سال میں تخلیق کردہ ڈیٹا18کروڑ سے زائد لائبریریوں کو بھر سکتا ہے۔اس دور میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں انٹرنیٹ لائف لائن بن چکا ہے۔ یہ انٹر نیٹ ہی ہے جس نے عالمی انسانیت میں 67 فیصد سے زائد لوگوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ڈیٹا لوگوں کی زندگیوں کا تانا بانا بن رہا ہے۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی سے لے کرصحت کی خدمات کی تلاش اب صرف ایک ''کلک‘‘ تک محدود ہو گئی ہیں ۔''اسٹیٹسٹا‘‘ ، ڈیجیٹل ورلڈ کی معاونت کیلئے دنیا بھر کے مختلف شعبہ زندگی سے ڈیٹا اکٹھا کرنے والا ایک معتبر بین الاقوامی پلیٹ فارم ہے۔اسٹیٹسٹانے اب سے کچھ عرصہ پہلے ڈیجیٹل ورلڈ میں انٹر نیٹ کے استعمال کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں جس سے یہ اندازہ کرلینے میں کوئی دو رائے نظر نہیں آتی کہ آنے والا دور مکمل طور پر ڈیجیٹل دور ہو گا۔ اسی رپورٹ میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ سال رواں کے آخر تک انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 5 ارب 30 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہو گی، جو دنیا کی کل آبادی کا 66 فیصد بنتا ہے۔ ان اعداد وشمار میں 4 ارب 95 کروڑ افراد سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہیں ، بالفاظ دیگر دنیا کی کل آبادی کا 61.4 فیصد حصہ دور حاضر میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا ہے۔اسی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جس رفتار سے ''ڈیجیٹل شہریت‘‘ میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے مطابق آئندہ سال کے آخر تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 6 ارب سے تجاوز کر چکی ہو گی جو دنیا کی کل آبادی کا 75 فیصد بنتا ہے۔اسٹیٹسٹا کے اس سال کے شروع میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ، آئی ٹی کے شعبے پر عالمی اخراجات 2023ء میں 47 کھرب ڈالر کے مقابلے میں 2024ء میں50 کھرب ڈالر بڑھنے کی توقع ہے۔واضح رہے کہ یہ اخراجات انفارمیشن ٹیکنالوجی، پرسنل کمپیوٹر ، ٹیبلٹ، موبائل فونز ، پرنٹرز ، ڈیٹا سنٹر سسٹم، انٹر پرائز سافٹ وئیر اور کمیونیکیشن سروسز وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ انٹرنیٹ پر 1 منٹ!اسٹیٹسٹا نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ ایک انٹرنیٹ منٹ میں بہت کچھ ہوتا ہے۔لاکھوں پیغامات، ای میلز اور متن بھیجے جاتے ہیں۔ڈیٹا اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ ہوتا ہے۔2023ء کے انٹرنیٹ منٹ میں، دنیا بھر میں صارفین نے 24 کروڑ ای میلز بھیجے۔جہاں تک انٹر نیٹ کے استعمال کا تعلق ہے اس میں ایشا 2 ارب 93 کروڑ افراد کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ یورپ کے صارفین کی تعداد 75 کروڑ ہے۔چین ، بھارت اور امریکہ انفرادی طور پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرانے والے ممالک میں سرفہرست ہیں۔ان اعداد و شمار کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ نے انسانوں کے درمیان فاصلوں کا تاثر ہی ختم کردیا ہے۔اور اب اگر کوئی چاہے بھی تو اس" دنیا " سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتا۔  

اخروٹ۔۔موسم سرما کی سوغات

اخروٹ۔۔موسم سرما کی سوغات

عربی: جوزفارسی: گردگانسندھی: اکھروٹبنگالی: اکروٹانگریزی :Walnutاخروٹ میں روغن اور پروٹین کی مقدار کافی ہوتی ہے۔ اس کا رنگ سفیدی مائل بھورا اور مغز سفید ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ پھیکا مگر لذیذ اور مرغن ہوتا ہے۔ اخروٹ کا مزاج گرم دوسرے درجے میں اور خشک تیسرے درجے میں ہے۔ اس کی مقدار دو تولہ سے تین تولہ تک ہے۔اخروٹ کے فوائد٭... یہ بد ہضمی کو دور کرتا ہے۔٭... جسم کے فاسد مادوں کو تحلیل کرتا ہے۔٭...اس کا مغز زیادہ مقوی معجونات میں استعمال ہوتا ہے۔٭...سرد کھانسی کی صورت میں مغز اخروٹ کو بھون کر کھلاتے ہیں۔٭...بواسیر کے خون کو روکنے کیلئے اسے پانی میں رگڑ کر استعمال کرنا بے حد مفید ہے۔٭...داد کا نشان مٹانے کیلئے پانی میں رگڑ کر تین ہفتے تک لگاتے رہنا مفید ہوتا ہے۔٭... اسی طرح چوٹ کے نشان کو مٹانے کیلئے پانی میں رگڑ کر تین ہفتے تک لگاتے رہنا مفید ہوتا ہے۔٭... اخروٹ کا تیل خارش پر لگانے سے خارش دور ہو جاتی ہے۔٭... آنکھوں کی کھجلی، پانی بہنا اور جالا وغیرہ کی صورت بطور سرمہ پیس کر لگاتے ہیں۔٭... سبز اخروٹ کے چھلکوں کو اتار کر دانتوں اور مسوڑوں پر ملنے سے دانتوں کو کیڑا نہیں لگتا اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔٭...بہت لطیف ہوتا ہے اور طبیعت کو نرم کرتا ہے۔٭... اعضائے رئیسہ اور باطنی حواسوں کو قوت بخشتا ہے۔٭...مغز اخروٹ، تخم سداب اور انجیر کے ساتھ کھانا زہر کے اثر کو دور کرتا ہے۔٭... اس کے بکثرت کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔٭... فالج کے لئے بے حد مفید ہے۔ مغز اخروٹ تین تولہ اور انجیر سات دانہ دونوں کو رگڑ کر کھانا مفید ہوتا ہے۔٭... اخروٹ کے سبز چھلکے سے خضاب بھی بنایا جاتا ہے جو بالوں کو نہ صرف کالا کرتا ہے بلکہ چمکدار بھی بناتا ہے۔ ایک کلو اخروٹ میں آٹھ کلو دودھ ملا کر ابالیں، پھر اس کا دہی جما دیں۔ صبح بلو کر گھی حاصل کریں اور اسے شیشی میں محفوظ کر لیں۔ حسب ضرورت بالوں پر لگائیں، بال سیاہ ہو جائیں گے یہ خضاب بالکل بے ضرر ہوتا ہے۔ ٭...گرمی کو بڑھاتا ہے اور چربی پیدا کرتا ہے اس لئے دل کے امراض والے مریض اس کے کھانے میں ا حتیاط برتیں۔٭... اگر دو اخروٹ کے مغز بچوں کو رات سوتے وقت کھلائے جائے تو ان کے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔٭... مقوی دماغ ہوتا ہے۔٭...گردہ، مثانہ اور جگر کو طاقت دیتا ہے۔٭...اس کا زیادہ استعمال گلے میں خراش اور معدہ میں سوزش پیدا کرتا ہے۔٭... جسم کے اندرونی ورموں میں اس کا استعمال بے حد مفید ہے۔

روبرٹ کوچ جان لیوا امراض کے اسباب دریافت کرنے والا جرمن ڈاکٹر

روبرٹ کوچ جان لیوا امراض کے اسباب دریافت کرنے والا جرمن ڈاکٹر

روبرٹ کوچ(Robert Koch) اُس ڈاکٹر کا نام ہے جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کئی مہلک امراض کا سبب دریافت کیا۔ اس کی شہرت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے تپ دق کے جراثیم کا سراغ لگایا۔ اس زمانے میں ہر سات موتوں میں سے ایک اسی مہلک مرض سے واقع ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے مویشیوں کی کئی بیماریوں کے جراثیم دریافت کئے۔روبرٹ کوچ11دسمبر1843ء کو شمال مغربی جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے ایک میڈیکل سکول میں داخلہ لیا وہ سوچا کرتا تھا کہ بڑا ہو کر وسطیٰ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کی سیر کرے گا اور وہاں اپنے فن سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے گا لیکن شادی کے بعد اس نے مشرقی جرمنی کے مختلف دیہاتوں میں ڈاکٹری شروع کر دی اور وہیں کا ہو رہا۔کوچ کی اٹھائیسویں سالگرہ پر اس کی بیوی نے اسے ایک خوردبین تحفے کے طور پر پیش کی۔ طبیعت میں تجسس تو پہلے سے موجود تھا اب ایک موقع بھی ہاتھ آ گیا۔ جب بھی مریضوں سے فرصت ملتی تھی وہ اس خوردبین سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا۔ اسے جراثیم سے دلچسپی تھی کیونکہ وہ انہیں مختلف امراض کا سبب سمجھتا تھا۔ اس نے خوردبینی کو ترقی دی اور جراثیم کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کے بعض ایسے طریقے دریافت کئے جو آج بھی رائج ہیں۔کوچ نے 24مارچ 1882ء کو برلن میں فزیولوجیکل سوسائٹی کی ایک میٹنگ میں تپ دق جیسے موذی مرض کے اسباب بیان کئے۔ اس میٹنگ میں اس زمانے کے چند مشہور ڈاکٹر اور محقق موجود تھے جن کی شہرت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ تپ دق ایک عام مرض تھا۔ ہر سات موتوں میں سے ایک موت تپ دق سے ہوتی تھی۔ ہر ڈاکٹر اس کا سبب دریافت کرنے کی فکر میں تھا تاکہ علاج میں آسانی پیدا ہو جائے۔یہ اعزاز کوچ کے مقدر میں تھا۔ اس نے بتایا کہ تپ دق ایک سلاخ نما جرثومے سے پھیلتی ہے۔ کوچ نے یہ جرثومہ ہر اس مریض کے جسم میں دیکھا تھا جو اس مرض کا شکار ہوا۔ اس نے یہ جراثیم ایسے مریضوں کے جسم سے علیحدہ کئے، ان کی پرورش کی اور ان پر تحقیقات کیں۔ ڈاکٹر کوچ نے یہ جاثیم بعض جانوروں کے جسم میں داخل کئے یا ان کے پنجروں اور دڑبوں پر پھیلائے اور دیکھا کہ وہ جانور بھی تپ دق میں مبتلا ہو گئے۔تمام قابل ڈاکٹروں اور محققین نے کوچ کی بات غور سے سنی۔ کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی کیونکہ اس کی دریافت صحیح تھی اور آج تک صحیح سمجھی جاتی ہے۔ ساری دنیا میں اس کی شہرت پھیل گئی کہ ایک جرمن ڈاکٹر نے تپ دق جیسے مہلک مرض کا سبب دریافت کر لیا ہے۔1882ء سے 1900ء تک کا زمانہ اس لحاظ سے ہمیشہ یادگار رہے گا، کہ انسان نے بیماریوں کے خلاف بڑی تن دہی سے جنگ جاری رکھی۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا تھا جب کسی نہ کسی مرض کا سبب دریافت نہ کیا جاتا ہو۔1883ء میں خناق اور ہیضے کے جراثیم معلوم کئے گئے۔1886ء میں نمونیہ کا سبب دریافت کیا گیا۔ اسی طرح 1890ء تک بعض بخاروں، پلیگ اور پیچش کے جراثیم کا پتہ لگایا۔1865ء میں اس نے یہ حقیقت ثابت کر دکھائی تھی کہ جراثیم جانوروں میں بھی بیماری پھیلاتے ہیں اور پھر یہ جانور انسانوں کیلئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ شروع میں کسی کو اس بات کا یقین نہیں آیا لیکن پھر سب قائل ہو گئے۔ دنیا کے تمام ملکوں میں ڈاکٹروں نے خوردبینوں کی مدد سے مہلک جراثیم کا پتہ لگانا شروع کردیا تاکہ ان کے پیدا کئے ہوئے امراض کا علاج دریافت کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔یہ کام آسان نہ تھا کیونکہ انسانی جسم میں کتنی ہی اقسام کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ کسی ایک جرثومے پر تحقیقات کرنے کیلئے یہ ضروری تھا کہ اسے باقی جراثیم سے علیحدہ کیا جائے، اس جیسے دوسرے جراثیم پیدا کئے جائیں پھر انہیں جانوروں کے جسم میں داخل کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس سے زیر تحقیق بیماری پھیلتی ہے یا نہیں۔ ایسے کام کیلئے وقت کے علاوہ بڑی محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔کوچ محنت کا عادی تھا۔ بہت سے دوسرے ڈاکٹروں اور محققین نے اس کے اصولوں کو اپنایا اور کئی بیماریوں کے جراثیم دریافت کئے۔1876ء میں کوچ نے بھیڑوں اور مویشیوں میں کالی بخار پیدا کرنے والے جرثومے کا پتہ لگایا اور پھر اس مرض کا علاج بھی دریافت کیا۔ اس سے پہلے مویشیوں کے ریوڑ کے ریوڑ اس مرض سے صاف ہو جاتے تھے۔ کوچ کی زندگی نہایت کامیاب رہی اس نے انسان کے کئی دشمنوں کا سراغ لگایا اور جاتے وقت دوسروں کو یہ بتا گیا کہ ایسے دشمن کس طرح تلاش کئے جاتے ہیں۔ نیز انہیں کس طرح ختم کیا جاتا ہے۔ اس نے پاسچر کی معیت میں متعدی امراض کی بیخ کنی کی۔ جسے بیسویں صدی کا سب سے بڑا کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔تپ دق روبرٹ کی قابل ستائش تحقیقبرلن کے ہسپتالوں میں جو لوگ تپ دق کا شکار ہوتے تھے کوچ ان کے مردہ جسم سے اس مرض کے جراثیم حاصل کرتا تھا لیکن انہیں دیکھنے میں بڑی دشواری پیش آ رہی تھی۔ بڑی کوششوں کے بعد کوچ کو ایک جرثومہ رینگتا نظر آیا لیکن اسے جدا کرنا اور پرورش کرنا آسان کام نہ تھا۔ کوچ نے اس کیلئے خاص قسم کی ایک خون آمیز غذا تیار کی اور اس کی تعداد بڑھائی۔ اب ایک کام باقی تھا۔ ان جراثیم کو بعض جانوروں کے جسم میں منتقل کیا جانا تھا۔ یہ کام تھا بڑا خطرناک کیونکہ سوئی کی ذرا سی جنبش کا یہ مطلب تھا کہ وہ خود کوچ کی انگلی سے ٹکرا جائے اور یہ خطرناک جراثیم اس کے اپنے جسم میں داخل ہو جائیں۔ کوچ بالکل نہیں گھبرایا۔ اس نے سینکڑوں جانوروں پر یہ تجربات کئے اور انہیں کامیاب پایا۔ تپ دق واقعی متعدی مرض تھا۔کوچ ابھی مطمئن نہیں ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ مرض سانس کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے یعنی اگر اس کے جراثیم سانس کے ساتھ کسی کے جسم میں پہنچ جائیں تو وہ ان کا شکار ہو سکتا ہے۔ کوچ نے ایک ٹیوب کے ذریعے یہ جراثیم اپنی تجربہ گاہ سے باہر سوروں اور چند دوسرے جانوروں کے دڑبوں میں پہنچائے اور دیکھا کہ وہ واقعی تپ دق میں مبتلا ہو گئے۔ہیضہ کا سبب بننے والے جرثومے کی دریافت 1883ء کے شروع میں ہندوستان میں ہیضہ وبائی شکل میں پھیلا۔ وہاں سے یہ وبا مشرق وسطیٰ ہوتی ہوئی مصر تک پہنچ گئی۔ فرانس اور جرمنی نے سوچا کہ یہ موقع نہ صرف انسانی خدمت کا ہے بلکہ اس مرض پر تحقیقات بھی کی جا سکتی ہیں۔ جرمنی نے کوچ کو روانہ کیا کہ ہیضے کا سبب دریافت کرے۔ کوچ ہندوستان آیا اور اس نے ثابت کر دیا کہ ہیضہ''د‘‘ جیسے ایک جرثومے سے پھیلتا ہے جو گندے پانی میں پایا جاتا ہے۔ اس دریافت کے بعد جب کوچ اپنے وطن واپس گیا تو اس کا ایک بڑے فاتح کی طرح استقبال کیا گیا۔ خود قیصر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے اسے جرمنی کا سب سے بڑا اعزاز عطا کیا۔ اس کے بعد1886ء میں اس نے ایک امریکی محقق کے ساتھ مل کر آنکھوں کی ایک بیماری کا سبب دریافت کیا۔ پھر وہ دو مرتبہ جنوبی افریقہ گیا اور اس نے وہاں مویشیوں کی ایک مہلک بیماری کا سبب معلوم کیا۔   

بیٹریز کی دنیا میں انقلاب

بیٹریز کی دنیا میں انقلاب

دنیا بھر کے سائنسدان جدید بیٹریوں کی تیارمیں مصروف ہیں یا پہلے سے موجود لیتھیم آئن بیٹریوں کی افادیت بڑھانے میں مصروف ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کی بیٹریاں نہ صرف انتہائی کم وقت میں چارج ہو جایا کریں گی بلکہ ان کی مدتِ استعمال میں بھی دس گنا اضافہ ہو جائے گا۔ امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے لیتھیم آئن بیٹریز کی صلاحیت میں اضافے کیلئے ان میں استعمال ہونے والے عناصر میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ایسی ہی ایک تبدیلی کے تحت بیٹری میں لاکھوں انتہائی چھوٹے سوراخ بھی کیے گئے ہیں جبکہ لیتھیم ایئونز کی کمیت اور حرکت ہی اس تکنیک میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق اس انوکھی تکنیک کی مدد سے بنائی جانی والی بیٹریز آئندہ پانچ برس میں بازار میں دستیاب ہوں گی۔اس تکنیک کے تحت جو بیٹری تیار کی جائے گی وہ مکمل چارج ہونے میں صرف پندرہ منٹ کا وقت لے گی اور اسے ایک ہفتے بعد ہی دوبارہ چارج کرنے کی ضرورت پڑے گی۔جرنل آئی ای ای ای ٹرانزیکشنز آن ٹرانسپورٹیشن الیکٹری فکیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون کے مطابق چینی محققین نے لیتھیم آئن بیٹریوں (ایل آئی بیز) کی زندگی کی پیش گوئی کرنے کیلئے ایک نئی قسم کا ڈیپ لرننگ ماڈل پیش کیا ہے۔ ڈیپ لرننگ ماڈل نے بڑی مقدار میں چارجنگ ٹیسٹ ڈیٹا پر انحصار کو مؤثر طریقے سے ختم کیا ہے اور حقیقی وقت میں بیٹری کی زندگی کی پیش گوئی کرنے کیلئے ایک نیا خیال فراہم کیا ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ایل آئی بی کی درست زندگی کی پیشگوئی برقی آلات کے عام اور مؤثر آپریشن کیلئے ضروری ہے تاہم اس طرح کے تخمینے کو ایل آئی بیز کی غیرلائنر صلاحیت میں کمی کے عمل اور غیریقینی آپریٹنگ حالات کی وجہ سے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے ڈیلیان انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل فزکس اورژیان جیائو ٹونگ یونیورسٹی کے محققین نے ہدف بیٹری کی موجودہ سائیکل کی زندگی اور بقیہ مفید زندگی کی پیش گوئی کرنے کیلئے چارج سائیکل ڈیٹا کی ایک چھوٹی مقدار پر مبنی ایک گہری سیکھنے کا ماڈل تجویز کیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق سائنسدانوں کو پوٹاشیم بیٹری ٹیکنالوجی میں اہم کامیابیپوٹاشیم دھاتی بیٹریوی کے متعلق سائنس دانوں کو ایک کامیابی حاصل ہوئی ہے جو ان بیٹریوں کی کارکردگی اور حفاظت میں بہتری لا سکتی ہے۔ اس ڈویلمنٹ میں اینوڈ کو بہترکیا گیا ہے جوبیٹری کے تحفظ اور کارکردگی کی بہتری ک یلئے اہم ہے۔ پوٹاشیم کی وافر مقدار میں موجودگی اور لیتھیم جیسی کیمیائی خصوصیات کی وجہ سے پوٹاشیم میٹل بیتریز (پی ایم بیز) کو لیتھیم آئن بیٹریوں کے متبادل کے طورپر سمجھا جارہا ہے۔ تاہم بے قابویڈارائٹ کی نمو اور پہلوئوں کے مابین عدم استحکام ان بیٹریوں کی کارکردگی اور تحفظ کو بڑھاتی ہے۔ اینوڈ انٹرفیس کو مستحکم کرنے ڈیڈرائٹ کو بننے سے روکنے کیلئے ان مسائل کو حل کرنا اہم ہے۔ اب نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے محققین اور ان کے شراکت داروں نے پوٹاشیم دھات پر KF/Zn کے ہائیبرڈ سطح بنانے کا ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے۔ یہ جدیدانٹرفیس آئن اور الیکٹرون کی نقل وحرکت بڑھاتا ہے، جونتیجتاً ایک بہتر کارکردگی والے الیکٹرو کیمیکل انوڈ کو وجود میں لاتا ہے او ر2000 سے زائد گھنٹوں تک سائیکلنگ کو مستحکم کرتا ہے۔ محققین نے پوٹاشیم میٹل اینوڈر پر KF/Zn ہائبرڈ انٹرفیس تہہ ایک ری ایکٹیو پر وینٹنگ تکنیک استعمال کرتے ہوئے چڑھائی جو بیٹری کے استحکام اور کارکردگی کو بہتر کرتی ہے۔سائنسدانوں نے کاربن فائبر سے ایک انتہائی مضبوط اور کم وزن بیٹری بنائی ہے جس کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ یہ برقی طیاروں کوچلانے کیلئے کافی ہے۔ دنیا کی سب سے طاقتور ترین قرار دی جانے والی اس بیٹری کے متعلق سوئیڈن کی چامرزیونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والی ٹیم کا کہنا تھا کہ یہ مٹیریل اتنا مضبوط ہے کہ اس کو وزن اٹھانے والے اسٹرکچر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اس مٹیریل کووزن کم کرنے کیلئے سواریوں کے ڈیزائن میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق کی سربراہی کرنے والی سائنسدان رچا چوہدری کا کہنا تھا کہ سائنسدان کاربن فائبر سے ایک ایسی بیٹری بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو ایلومینیم جتنی سخت ہے اور اتنی توانائی فراہم کر سکتی ہے کہ اس کو کمرشل استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس جدید اسٹرکچرل بیٹری میں لیپ ٹاپ کا وزن نصف کرنے اورموبائل فونز کو کریڈٹ کارڈ کے برابر پتلا کردینے کے ساتھ برقی گاڑیوں کے ڈرائیونگ دورانیے میں ایک چارجنگ کے بعد 70 فیصد تک اضافے کی صلاحیت ہے۔ اس جدید ڈیزائن کو پازیٹو الیکٹروڈ میں ایلومینیم فوائل کور کی جگہ لگایا گیا ہے۔ ان بیٹریوں میں لیتھیم آئنز جزوی ٹھوس الیکٹرولائٹ سے منتقل کئے جاتے ہیں جو بیٹری سیل کی حفاظت میں اضافہ اور آگ لگنے کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے بعد ماہرین نے فون میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کو زہریلے کیمیکل پھیلانے کا سبب قراردیا ہے۔ ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ موبائل فونز‘ برقی گاڑیوں اور ا کثر جدید گیجٹس میں پائی جانے والی بیٹریاں زہریلے 'فارایورکیمیکلز‘ رکھتی ہیں جو ہماری فضا اور پانی میں پھیل رہے ہیں۔ امریکی محققین نے ایک تحقیق میں دریافت کیا کہ ری چارج ہونے والی لیتھیم آئن بیٹریاں پیداوار کے دوران اورتلف ہونے کے بعد ماحول میں پی ایف ایز نامی نقصان دہ مرکبات خارج کرتی ہیں۔ تحقیق میں بی آئی ا یس پر فلور والکائل سلفونیمائیڈ (bis-FASI) نامی ایک مخصوص کیمیکل (جس پر فی الحال کوئی پابندی نہیں ہے) پی ایف او اے کے برابر ہی زہریلا کیمیکل پایا گیا ہے۔ یہ مرکب کیڑے مار ادویات‘ واٹر پروف پرت اور مخصوص اقسام کے رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔ پی ایف ایز کو فارایور کیمیکل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کیمیا ایک بار جسم میں داخل ہونے کے بعد باہر نہیں نکلتے ہیں۔ یہ کیمیکلز کینسر‘ بلند کولیسٹرول‘ کمزور گردوں‘ تھائیرائیڈ بیماری‘ بانجھ پن‘ کمزورمدافعتی نظام اور بچوں میں پیدائش کے وقت کم وزن جیسے صحت کے سنجیدہ نوعیت کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مرکبات شیرخوار اور چھوٹے بچوں میں نمو‘ سیکھنے اوررویوں کوبھی متاثرکرتے ہیں۔ 

حکایت رومیؒ: اللہ میرا محافظ ہے

حکایت رومیؒ: اللہ میرا محافظ ہے

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک یہودی حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا، اے علیؓ! اگر آپؓ کو اس بات پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؓ کی حفاظت کرتا ہے تو آپ ؓکسی بلند قلعہ یا اونچے مکان کی چھت سے اپنے آپ کو گرا کر دیکھیں تا کہ مجھے بھی یقین آ جائے کہ آپؓ کو اپنے اعتقاد پر بھروسہ ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا،'' بے شک مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا محافظ ہے لیکن بندے کو یہ حق نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی امتحان کے ذریعے آزمائش کرے یہ بات تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گستاخی ہے جس اک نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا آزمانے کا حق تو اللہ تعالیٰ کو ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائے۔ میں تو بغیر دلیل کے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری حفاظت فرماتا ہے‘‘۔یہودی نے حضرت علیؓ کی باتیں سنیں تو خاموشی سے اپنی راہ پر ہو گیا۔ اس حکایت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر کامل ایمان اور یقین ہونا چاہئے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جان بوجھ کر موت کے منہ میں چھلانگ لگا دینا دانائی کی بات نہیں۔خزانہایک کسان کی یہ تمنا تھی کہ جس طرح وہ محنت سے کام کرتا ہے اس کے بیٹے بھی کریں۔ جبکہ اس کے بیٹے کچھ کاہل تھے۔ محنت سے جی چراتے تھے۔اچانک کسان بیمار ہوا۔ علاج کیا مگر کوئی دوا کارگر نہ ہوئی۔ کسان مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا ''دیکھو! میں تمہیں ایک خزانے کی خبر دیتا ہوں۔ اور وہ خزانہ میرے کھیت میں دبا ہوا ہے۔ جب میرے کفن دفن سے فارغ ہو جائو تو اسے ڈھونڈ لینا۔‘‘اور کسان کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ باپ کے کفن دفن سے فارغ ہو کر کھیت کو چلے اور اس میں ہل چلایا۔ کافی گہری زمین کھود ڈالی مگر ان کو خزانہ نہ ملا ۔ کسان کے بیٹے پسینے پسینے ہو گئے۔ مایوسی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے آخر کار ہل چلائی زمین میں انہوں نے بیج بو دیا۔ پودے نکلے تو خوب پھلے پھولے۔ جب وہ فصل کاٹ کر لائے تو ان کا گھر غلہ سے بھر گیا۔ یہاں تک کہ بہت سا غلہ انہوں نے فروخت کر دیا پھر بھی ختم ہونے میں نہ آیا تو خوش ہو کر بولے۔''اصلی خزانہ تو یہ ہے۔ اگر ہم یونہی محنت کریں تو یہ خزانہ ہمیں ہمیشہ ملتا رہے گا‘‘۔٭...٭...٭ 

نیئر سلطانہ : لالی وڈ کی ملکہ جذبات

نیئر سلطانہ : لالی وڈ کی ملکہ جذبات

پاکستانی فلمی صنعت میں کچھ اداکارائیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک اپنے فن کا سفر جاری رکھا اور ان میں سے کچھ نے ملکہ جذبات کا خطاب بھی حاصل کیا۔ ان میں نبیلہ، سلمیٰ ممتاز اور بہار کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ سب سے منفرد اور مثالی اداکاری کرنے والی کا نام تھا نیئر سلطانہ۔ معاون اداکارہ، ہیروئن اور پھر کریکٹر ایکٹریس تک انہوں نے جو کردار بھی ادا کیے انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔1973ء میں علی گڑھ (بھارت) میں پیدا ہونے والی نیئر سلطانہ کا اصل نام طیبہ بانو تھا۔ انہوں نے ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی شفٹ ہو گیا۔ کراچی سے ایک بار انہیں لاہور آنے کا موقع ملا جہاں ان کی ملاقات اپنے وقت کے نامور ہدایتکار انور کمال پاشا سے ہوئی۔ انور کمال پاشا نیئر سلطانہ کے حسن و جمال اور ان کی اردو ادب میں دلچسپی سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں فلموں میں کام کرنے کی پیش کش کی۔ نیئر سلطانہ نے اپنے والدین سے اجازت مانگی اور انہوں نے ہاں کر دی۔ اس طرح انور کمال پاشا نے سب سے پہلے انہیں اپنی فلم ''قاتل‘‘ میں کاسٹ کیا، اس میں انہوں نے نازلی کے نام سے کام کیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ''قاتل‘‘ مسرت نذیر اور اسلم پرویز کی بھی پہلی فلم تھی۔1955میں ہی ا نہیں ہمایوں مرزا کی فلم ''انتخاب‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم میں وہ نیئر سلطانہ کے نام سے جلوہ گر ہوئیں اور پھر اس کے بعد وہ 40برس تک اسی فلمی نام سے اداکاری کے جوہر دکھاتی رہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے معروف اداکار عشرت عباس المعروف درپن سے شادی کی۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصے کیلئے فلمی صنعت سے کنارہ کش ہو گئیں۔ 60ء کی دہائی کے آخر میں وہ دوبارہ فلمی صنعت سے وابستہ ہوئیں لیکن ان کی فلمیں 'ایک مسافر ایک حسینہ‘ 'میری بھابھی‘ اور 'عظمت‘ باکس آفس پر ناکام ہو گئیں۔70ء کی دہائی کے آغاز میں انہوں نے کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور اس روپ میں بھی انہوں نے اپنی فنی عظمت کے نقوش چھوڑے۔ اس حوالے سے ان کی جن فلموں کا نام لیا جا سکتا ہے ان میں ' 'بہشت، ابھی تو میں جوان ہوں،ماضی ،حال، مستقبل اور سیتا مریم، مارگریٹ‘‘ شامل ہیں۔ 1980ء میں ان کے شوہر درپن خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کی ریکروٹنگ ایجنسی کے معاملات سنبھال لیے اور اس ایجنسی کو بڑی کامیابی سے چلایا۔90ء کی دہائی میں وہ پھر کچھ فلموں میں نمودار ہوئیں جن میں ''تین یکے تین چھکے ‘‘اور ''گاڈ فادر‘‘ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے کئی ایوارڈ حاصل کیے۔ المیہ کردار نگاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہیں ملکہ جذبات کا خطاب دیا گیا۔جب لالی وڈ کا سنہری دور تھا تو نیئر سلطانہ کا شمار صف اوّل کی اداکارائوں میں ہوتا تھا۔ ان کی مشہور فلموں میں ''اولاد، ایاز، خیبر میل، خدا تے ماں، پہچان، باجی، دیو داس ، چن سجناں، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے کچھ پنجابی فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ان میں ''چن سجناں‘‘ سب سے اہم فلم تھی۔ اس فلم میں ان کے شوہر درپن بھی تھے۔ یہ ایک سپر ہٹ فلم تھی جس کے گیتوں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔''سہیلی‘‘ اور ''باجی‘‘ کو نیئر سلطانہ کی اہم ترین فلمیں قرار دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ''باجی‘‘ میں انہوں نے ایک ایسی بیوہ کا کردار ادا کیا تھا جو ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے جو اس سے عمر میں بہت چھوٹا ہے۔ اس فلم کی ہدایت کاری کے فرائض ان کے دیور ایس سلیمان نے ادا کئے تھے۔ اگرچہ یہ فلم باکس آفس پر اتنی کامیاب نہیں ہوئی لیکن نیئر سلطانہ کی اداکاری اور ایس سلیمان کی ہدایتکاری کو بہت سراہا گیا۔ اسی طرح ایس ایم یوسف کی فلم ''اولاد‘‘ بھی نیئر سلطانہ کی بہترین فلم تھی۔ ان فلموں میں بھی نیئر سلطانہ نے اعلیٰ درجے کی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔'' سہیلی‘‘ میں ان کے ساتھ درپن اور شمیم آرا نے بھی لاجواب اداکاری کی۔ نیئر سلطانہ نے سہیلی میں ایک ایساکرار ادا کیا جو وفا ،قربانی اور دوستی کا ملغوبہ ہے۔یہ کردار بلا شبہ انہوں نے کمال مہارت سے ادا کیا۔ ''بہشت‘‘ میں انہوں نے ایک منفی کردار ادا کیا لیکن انہوں نے اس کردار میں بھی اپنے فن کا سکہ جما دیا۔ یہ ایک سفاک اور بے حس ساس کا کردار تھا جو اپنے جبرو ستم سے اپنی بہو (نشو)کا عرصہ حیات تنگ کر دیتی ہے۔ نیئر سلطانہ فطری اداکاری پر یقین رکھتی تھیں اور اس کیلئے انہوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کی دوسری خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کبھی فحاشی اور عریانی کا سہارا نہیں لیا۔ انہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ وہ مشرقی عورت کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مردوں اور عورتوں میں یکساں طور پر مقبول تھیں۔ ان کی ایک اور یادگار فلم ''پیاسا ‘‘تھی۔ حسن طارق کی یہ فلم رضیہ بٹ کے ناول ''وحشی‘‘ سے ماخوذ تھی۔ اس میں نیئر سلطانہ کے علاوہ شاہد نے بھی متاثر کن اداکاری کی تھی۔نیئر سلطانہ کا فلمی سفر 1955ء سے 1991ء تک جاری رہا، پھر وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو گئیں۔29اکتوبر 1992ء کو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔