ڈیجیٹل ورلڈ دنیا کے اندر ایک اور دنیا

ڈیجیٹل ورلڈ دنیا کے اندر ایک اور دنیا

اسپیشل فیچر

تحریر : خاورنیازی


دنیا کے اندر '' ڈیجیٹل دنیا‘‘ کے نام سے ایک نئی دنیا کا احیاء جس تیزی سے ہماری روزمرہ زندگیوں میں داخل ہوا اس نے ہمیں ایسا سہل پسند اور اپنا عادی بنا دیا کہ ہمارے لئے اس نئی دنیا کی ''شہریت‘‘ اختیار کرنے کے سوا اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں۔ اس سے قبل دنیا ایک ''گلوبل ویلج‘‘ تھی لیکن اب ایک چھوٹی سی ڈیوائس (موبائل کی شکل میں) ہی ہماری دنیا ہے جو ہروقت ہماری جیب میں یا پھر ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہی چھوٹی سی ڈیوائس بنیادی طور پر ''ڈیجیٹل ورلڈ‘‘ہے۔
کاغذی کرنسی اب قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے، پہلے پلاسٹک منی (کریڈٹ ، ڈیبٹ کارڈ وغیرہ ) نے اس کی جگہ لی اور اب پلاسٹک منی بھی آئندہ کچھ سالوں میں قصہ پارینہ بن جائے گی کیونکہ جب آپ گھر بیٹھے بٹھائے اپنے تمام بل، تمام ادائیگیاں، اپنی شاپنگ آن لائن ڈیجیٹل طریقہ کار سے کررہے ہوں گے تو کاغذی کرنسی کا کوئی جواز نہیں بنتا، ماسوائے ٹھیلے والے، پھیری والے یا پلمبر الیکٹریشن وغیرہ کی ادائیگیوں کیلئے۔ بات صرف ادائیگیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ'' دنیا‘‘ سکول کالجوں کے داخلوں سے شروع ہو کر آپ کے ویزے، پاسپورٹ، ہوائی ٹکٹ بلکہ اس سے بھی آگے تک ، آپ کی جیب یا آپ کی مٹھی میں ہے۔
ڈیجیٹل ورلڈ کے شہری کون ؟
ڈیجیٹل شہری وہ ہیں جو اپنی روزمرہ زندگی میں اپنی تعلیم، کاروبار، سیاست، لیں دین یا تفریحی اوقات کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ ''ڈیجیٹل شہری‘‘کہلاتے ہیں۔ جیسے کسی ملک کے ایک عام شہری کو اس ملک کی شہریت حاصل کرنے لئے اپنی شناخت اپنے ملک کے اداروں کو مہیا کرنا پڑتی ہے بالکل ایسے ہی ڈیجیٹل ورلڈ کی شہریت حاصل کرنے کیلئے بھی کسی بھی متعلقہ فرد یا افراد کو سب سے پہلے ای میل ایڈریس کیلئے سائن اپ کرنا پڑتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ غیر محسوس طریقے سے ہم سب رفتہ رفتہ اس نئی دنیا کی '' شہریت‘‘ اختیار کرتے جا رہے ہیں بلکہ کر چکے ہیں ، کچھ جزوی طور پر اور کچھ مکمل طور پر۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں شاید ہی کوئی فرد ڈیجیٹل ورلڈ کی''شہریت‘‘ سے محروم ہو گا ، اگر ہو گا بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ۔ ڈیجیٹل شہریت دراصل آن لائن رابطہ ،قابل اعتماد ذرائع کی تلاش ،انسانی حقوق کے تحفظ ، وقت اور وسائل کی بچت کے ساتھ ٹیکنالوجی کا ذمہ دارانہ اور با عزت استعمال ہے۔ تکنیکی طور پر ڈیجیٹل شہریت ایک اصطلاح ہے جو صارفین کے درمیان ٹیکنالوجی کے مناسب اور ذمہ دارانہ استعمال کی وضاحت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم پر بات چیت کرنے، تعاون کرنے اور مثبت انداز میں مہارتیں سکھانے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا کی خلاف ورزیوں اور شناخت کی چوری کو روکنے کیلئے رازداری کے تحفظ اور حفاظتی اقدامات کے راستوں سے روشناس کراتی ہے۔
کسی بھی ریاست کی طرح ، ڈیجیٹل شہری بھی ایک کمیونٹی یا معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔یہ ان ممبروں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے ''حصے‘‘میں رہنا چاہتے ہیں۔جب ڈیجیٹل شہری اچھے اور پروقار انداز میں اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں تو انٹرنیٹ ان کیلئے ایک ایسا ذریعہ بن جاتا ہے جس سے وہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ، ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے مستقبل کو مزید مستحکم بنا سکتے ہیں۔
مائیکل ریبل( جس نے ایک لمبے عرصے تک ڈیجیٹل ورلڈ کیلئے کام کیا ) نے ڈیجیٹل صارفین کو ذمہ دار ڈیجیٹل شہری بننے کیلئے اس ٹیکنالوجی کے محفوظ اور ذمہ دارانہ استعمال کے تین رہنما اصول احترام، تعلیم اور تحفظ متعارف کرائے ہیں ۔گویا یہ ڈیجیٹل ورلڈ کا ایک ''آئین‘‘ ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونا سب شہریوں پر لازم تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ سب کی فلاح بھی ان قوانین کی پاسداری میں ہے۔
ڈیجیٹل ورلڈ کا مستقبل کیا ہے ؟
ڈیجیٹل ورلڈ میں جیسے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا کردار بنیادی ہوتا ہے ایسے ہی کمپیوٹر سسٹم میں ''ڈیٹا‘‘ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جس طرح ہر ادارہ کمپیوٹر سسٹم پر انحصار کرتا ہے ، اسی طرح کمپیوٹر سسٹم کا انحصار ''ڈیٹا پروسسنگ‘‘ پر ہوتا ہے۔ معلومات سے بھری دنیا کا ذرہ تصور کریں جہاں ایک سال میں تخلیق کردہ ڈیٹا18کروڑ سے زائد لائبریریوں کو بھر سکتا ہے۔اس دور میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں انٹرنیٹ لائف لائن بن چکا ہے۔ یہ انٹر نیٹ ہی ہے جس نے عالمی انسانیت میں 67 فیصد سے زائد لوگوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ڈیٹا لوگوں کی زندگیوں کا تانا بانا بن رہا ہے۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی سے لے کرصحت کی خدمات کی تلاش اب صرف ایک ''کلک‘‘ تک محدود ہو گئی ہیں ۔
''اسٹیٹسٹا‘‘ ، ڈیجیٹل ورلڈ کی معاونت کیلئے دنیا بھر کے مختلف شعبہ زندگی سے ڈیٹا اکٹھا کرنے والا ایک معتبر بین الاقوامی پلیٹ فارم ہے۔اسٹیٹسٹانے اب سے کچھ عرصہ پہلے ڈیجیٹل ورلڈ میں انٹر نیٹ کے استعمال کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں جس سے یہ اندازہ کرلینے میں کوئی دو رائے نظر نہیں آتی کہ آنے والا دور مکمل طور پر ڈیجیٹل دور ہو گا۔ اسی رپورٹ میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ سال رواں کے آخر تک انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 5 ارب 30 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہو گی، جو دنیا کی کل آبادی کا 66 فیصد بنتا ہے۔ ان اعداد وشمار میں 4 ارب 95 کروڑ افراد سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہیں ، بالفاظ دیگر دنیا کی کل آبادی کا 61.4 فیصد حصہ دور حاضر میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا ہے۔اسی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جس رفتار سے ''ڈیجیٹل شہریت‘‘ میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے مطابق آئندہ سال کے آخر تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 6 ارب سے تجاوز کر چکی ہو گی جو دنیا کی کل آبادی کا 75 فیصد بنتا ہے۔
اسٹیٹسٹا کے اس سال کے شروع میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ، آئی ٹی کے شعبے پر عالمی اخراجات 2023ء میں 47 کھرب ڈالر کے مقابلے میں 2024ء میں50 کھرب ڈالر بڑھنے کی توقع ہے۔واضح رہے کہ یہ اخراجات انفارمیشن ٹیکنالوجی، پرسنل کمپیوٹر ، ٹیبلٹ، موبائل فونز ، پرنٹرز ، ڈیٹا سنٹر سسٹم، انٹر پرائز سافٹ وئیر اور کمیونیکیشن سروسز وغیرہ پر مشتمل ہیں۔
انٹرنیٹ پر 1 منٹ!
اسٹیٹسٹا نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ ایک انٹرنیٹ منٹ میں بہت کچھ ہوتا ہے۔لاکھوں پیغامات، ای میلز اور متن بھیجے جاتے ہیں۔ڈیٹا اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ ہوتا ہے۔2023ء کے انٹرنیٹ منٹ میں، دنیا بھر میں صارفین نے 24 کروڑ ای میلز بھیجے۔جہاں تک انٹر نیٹ کے استعمال کا تعلق ہے اس میں ایشا 2 ارب 93 کروڑ افراد کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ یورپ کے صارفین کی تعداد 75 کروڑ ہے۔چین ، بھارت اور امریکہ انفرادی طور پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرانے والے ممالک میں سرفہرست ہیں۔
ان اعداد و شمار کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ نے انسانوں کے درمیان فاصلوں کا تاثر ہی ختم کردیا ہے۔اور اب اگر کوئی چاہے بھی تو اس" دنیا " سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
’’گرین نیکلس‘‘ سموگ کے تدارک کیلئے ضروری

’’گرین نیکلس‘‘ سموگ کے تدارک کیلئے ضروری

شہروں میں بنائے جانے والے ہریالی کے مقامات شہروں کا بنیادی حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے شہروں کا تقابلی جائزہ وہاں کے عوام کیلئے سہولتوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ شہروں میں موجود پارک شہروں کیلئے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔رہائشی علاقوں کے قریب موجود سبزہ زار بنیادی ماحولیاتی خدمات مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جیسا کہ شہریوں کیلئے تفریحی سہولیات، سماجی رابطے، ذہنی سکون اور جسمانی طور پر صحت مند رہنے کے مواقع وغیرہ۔ شہروں میں موجود یہ مقامات شہروں کے ماحولیاتی معیار کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ماحول میں ناموافق تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاکہ شہروں میں نہ صرف انسانی زندگی بلکہ حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی خدمات کا معیار بھی قائم رکھا جا سکے۔ ان سبزہ زاروں کی ماحولیاتی خدمات ہی دراصل موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں اپنا کردار نبھاتی ہیں۔ماحولیاتی خدمات وہ تمام مادی اور غیر مادی فوائد ہیں جو سبزے کی موجودگی سے ماحول اور اس میں رہنے والے جانداروں کو حاصل ہوتے ہیں۔ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوا اور نئے شہر آباد ہوئے ماحول کی تباہی کا عمل بھی تیز ہوا۔ شہروں میں جدت لانے کیلئے قدرتی طور پر موجود سبزے اور کھیتوں کھلیانوں کو ختم کرنے اور نئی رہائشی سکیموں کا آغاز لازم و ملزوم ٹھہرا۔شہرسبزے کا رقبہ اور معیار بڑھائے بغیر محض سیمنٹ کے جنگل ہی ہوتے ہیں۔ جس سے شہر ماحولیاتی تبدیلیوں کیلئے زیادہ حساس ہو جا تے ہیں اور اپنے شہریوں کو زندگی کیلئے محفوظ ماحول فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ آبادی میں اضافہ اور وسائل کا بے جا استعمال ان ماحولیاتی خدمات کیلئے مسلسل خطرہ بن جاتا ہے اور شہروں کی ماحولیاتی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے ماہرین شہروں کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی وضع کرنے میں ان خدمات کی شناخت ، بنیادی حیثیت اور بہتری پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔اقوم متحدہ کے مطابق 2050ء میں دنیا کی آبادی تقریبا 9ارب 70 کروڑ تک پہنچ جائے گی، جس میں سے تقریبا 68 فیصدآبادی شہروں میں رہائش پذیر ہو گی جبکہ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق 55 فیصدآبادی شہروں میں مقیم ہے۔ شہر لاہور ایسے ہی شہروں میں شمار ہوتا ہے جو اپنی آبادی میں اضافے اور جدید سہولیات کی فراہمی کیلئے اپنے ارد گرد موجود سبزے کو قربان کر چکے ہیں۔ جدت پسندی اور شہرکاری نے اس شہر کو م بہت سے مسائل سے آشنا کیا ہے۔ لاہور کی موجودہ آبادی2023ء کی مردم شماری کے مطابق13.979ملین ہے ، جبکہ وسائل محدود ہیں۔ WHOکی تحقیق کے مطابق شہروں میں انسانی صحت کیلئے ایک فرد کیلئے 9 سے 50 مربع میٹر رقبے پر سبزہ موجود ہونا چاہیے۔ لاہو ر اس کم سے کم مقدار تک پہنچنے سے بھی قاصر ہے۔ اس لیے اسے بہت سے ماحولیاتی مسائل نے آ لیا ہے۔ سموگ ان میں سر فہرست ہے۔ لاہور میں سموگ کے بننے کے بہت سے عوامل ہیں، ان میں صنعتی آلودگی ، گاڑیوں کا دھواں، تعمیراتی دھول اور ملحقہ علاقوں میں موسمی فصلوں کی باقیات کے جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں شامل ہے۔ ان مہینوں میں درجہ حرارت اور ہوا کی رفتار میں کمی اس آلودگی کو زمیں کی سطح کے قریب روک لیتی ہے جو سموگ کی موٹی تہہ کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ہوا میں آلودگی کی مقدار کو جانچنے والی معروف ویب سائٹ IQ Air کے مطابق لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہے۔ اسی طرح پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے Pakistan Air Quality Initiative کے نام سے نجی ادارہ / پلیٹ فارم بھی اپنی کوششوں میں مصروف ہے ۔سموگ ہر عمر کے افراد پر خطرناک اثرات مرتب کرتی ہے، خصوصاًسانس اور دل کی بیماریوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور جسمانی اور ذہنی بے سکونی میں اضافہ کرتی ہے جو بچوں اور بزرگوں کی صحت پر خاص طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ماحولیاتی خدمات خصوصاًسموگ کو کم کرنے کیلئے اور ہوا کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے شہریوں کو اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔شہر میں پارکوں، باغات اور چھتوں پر سبزہ زاری سے فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا اور ماحولیاتی اعتبار سے زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔اس میں مقامی لوگ سرکاری ،غیر سرکاری ادارے اور تعلیمی ادارے مل کر اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔چین کے شہر بیجنگ میں سموگ کے تدارک کے لیے ''گرین نیکلس‘‘ کا منصوبہ متعارف کروایا گیا تھا جس میں صنعتوں اورکارخانوں کے گرد شجرکاری سے ماحول کو صاف کرنے کی تجویز دی گئی۔لاہور میں بھی ان اصولوں کی پیروی کر کے صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح شجرکا ری سے درجہ حرارت میں کمی لانے میں مدد لی جاسکتی ہے۔فضا میں آلودگی کے ذرات کو کم کرنے کیلئے خالی جگہوں اورسڑکوں کے کناروں پر سبزہ اگانے سے بھی خاطر خواہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی خدمات کو بہتر بنا کر موسمیاتی تغیرات کا مقابلہ مؤثر انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ چھتوں پر سبزہ اگانے کی حوصلہ افزائی سے شہروں کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو ریگولیٹ کر سکتے ہیں جبکہ مقامی لوگوں کی مدد اور توجہ سے کمیونٹی پارک کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح لوگوں میں ماحولیاتی خدمات کی افادیت اجاگر کرنے کے لیے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مقامی لوگوں کو اس مہم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تاکہ شہر کے ماحول اور فضا کو آلودگی سے پاک کر کے معیار زندگی بہتر بنائی جا سکے۔

خصوصی بچے اور ان کے مسائل

خصوصی بچے اور ان کے مسائل

کہیں پڑھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایمان کے بعد سب سے بڑی جو نعمت انسان کو عطا کی ہے، وہ صحت ہے، لیکن ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور جب قدر آتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی صحت ہمارے پاس ایک بہت بڑی نعمت ہے، جس کی ہمیں بھرپور قدر کرنی چاہیے۔ یہ حقیقت اس وقت مزید واضح ہوتی ہے جب ہم اپنے ارد گرد ان بچوں کو دیکھتے ہیں جو کسی پیدائشی نقص یا حادثے کی بنا پر ذہنی یا جسمانی طور پر محدود ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے اپنی محرومیوں کی وجہ سے معاشرے میں باآسانی گھل مل نہیں پاتے اور ان کے والدین بھی انہیں عام بچوں کے ساتھ باہر لے جانے یا ان کے سامنے پیش کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ بچے ''سپیشل‘‘ کہلاتے ہیں، کیونکہ ان کی صلاحیتیں دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں معاشرے میں ایک خاص توجہ اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کے حوالے سے آگاہی بہت محدود ہے، حتیٰ کہ اکثر والدین کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ان بچوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کس طرح کرنی ہے۔پاکستان میں جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار افراد کی تعداد قابلِ ذکر ہے، جن میں بچے اور بڑے دونوں شامل ہیں۔ وہ بچے جو پیدائشی طور پر یا کسی حادثے کے نتیجے میں اپنی جسمانی یا ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہو گئے ہوں، انہیں ''ڈسیبل‘‘ کہنے کی بجائے ''سپیشل‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ یہ بچے اللہ تعالیٰ کی خاص تخلیق ہیں اور ان میں ایسی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جو انہیں معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں، اگر ہم انہیں مناسب توجہ اور تربیت فراہم کریں۔ یہ بچے اللہ کی نعمت ہیں، اور ہماری ذمہ داری ہے کہ انہیں معاشرتی سطح پر قبولیت اور شمولیت کا حق دیا جائے۔معذوری کے شکار بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے ملک میں کچھ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے موجود ہیں، مگر ان کی تعداد ناکافی ہے۔ سرکاری سطح پر کچھ اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے خصوصی تعلیمی ادارے اور تربیتی مراکز، جہاں معذور بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ کچھ سکولوں میں انکلوسیو کلاس رومز بھی متعارف کروائے گئے ہیں، جہاں سپیشل اور عام بچے مل کر تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ یہ بچے معاشرتی تنہائی سے بچ سکیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ نجی سطح پر بھی کچھ اچھے ادارے موجود ہیں، جو ان بچوں کی بحالی کیلئے خدمات فراہم کر رہے ہیں، لیکن اس بارے میں آگاہی کا فقدان ان اقدامات کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ ہے۔بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کے حوالے سے آگاہی کی کمی ہے۔ ان کے والدین اور ارد گرد کے لوگ انہیں قبول نہیں کرتے اور اکثر انہیں معاشرے سے دور رکھتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں ''پاگل‘‘ سمجھا جاتا ہے اور ان کے باقی بہن بھائیوں سے بھی علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ والدین ان بچوں کو باہر لے جانے سے گریز کرتے ہیں، انہیں بوجھ اور خدا کی طرف سے سزا تصور کرتے ہیں، جس کے باعث یہ بچے معاشرتی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی محرومی کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں اور ان کے والدین کو نہ صرف ہمدردی کی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی سطح پر قبولیت اور شمولیت کا بھی حق دیا جانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ ایسے بچے کسی ''بوجھ‘‘ یا ''سزا‘‘ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کی ایک خصوصی تخلیق ہیں جنہیں ہماری مدد اور حمایت کی ضرورت ہے۔ ایسے بچوں کے والدین کو بھی چاہیے کہ وہ انہیں معاشرے سے الگ نہ کریں بلکہ ان کی طاقت اور صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں بھرپور توجہ دے کر اس قابل بنائیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سپیشل افراد کے لیے ''ہمت کارڈ‘‘ منصوبے کا افتتاح کیا اور پاکستان کے پہلے سرکاری آٹزم سکول کا سنگ بنیاد رکھا، جو خصوصی بچوں کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔ اس حوالے سے میرا مشاہدہ یہ ہے کہ خواتین کے لیے خواتین سٹاف کا ہونا ضروری ہے۔ ایسے مقامات جہاں فیمیل اسپیشل چلڈرن موجود ہوں، وہاں سٹاف بھی فیمیل ہونا چاہیے تاکہ ان بچوں کو مناسب توجہ اور اعتماد فراہم کیا جا سکے۔

آج کا دن

آج کا دن

''سپوتنک دوئم‘‘ کا خلائی مشن3 نومبر 1957ء سوویت یونین نے دوسرا مصنوعی سیارہ ''سپوتنک دوئم‘‘ کو خلا میں بھیجا جس میں لائیکا نامی ایک کتا بھی سوار تھا۔ روسی سائنسدانوں نے خلا میں بھیجنے کیلئے جانوروں میں سے کتے کا انتخاب کیاجو زمین کے گرد گردش کر نے والا پہلا جا نور بھی بن گیا۔ 14اکتوبر1957ء کو روس نے ''سپوتنک ون‘‘کو خلاء میں بھیجنے میں کامیابی حاصل کی تھی جس کے بعد خلاء میں کھوج کے سفر کا آغاز ہوا۔ ایک ماہ بعد لائیکا نا می کتے کو اسپوتنک دوم کے ذریعے خلاء میں بھیجا گیا۔ لائیکا کے صحیح سلامت واپس لوٹنے کی وجہ سے انسان کے خلاء میں جانے کے دروازے کھل گئے۔''بیراج اتاترک اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن‘‘ 3 نومبر 1983ء دنیا کے پانچویں بڑے ''بیراج اتاترک اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جس کی تعمیر 11 سال میں مکمل ہوئی۔ بیراج اتاترک اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں دریائے فرات پر قائم ایک عظیم منصوبہ ہے۔ اس کا نام مصطفیٰ کمال اتاترک کے نام پر رکھا گیا ہے، جو جدید ترکی کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ترکی کا سب سے بڑا اور دنیا کے بڑے ڈیمز میں سے ایک ہے۔اس کی لمبائی تقریباً 1820 میٹر ہے، جو اسے دنیا کے بڑے ڈیمز میں شمار کرتی ہے۔ اس کی بلندی 169 میٹر ہے، جو فرات کے پانی کو روک کر ایک وسیع جھیل کی صورت میں ذخیرہ کرتی ہے۔بیراج اتاترک کا ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن ترکی کے توانائی کے شعبے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس پاور اسٹیشن کی بجلی پیدا کرنے کی مجموعی گنجائش تقریباً 2400 میگاواٹ ہے، جو ترکی کے جنوبی علاقوں کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔سالانگ سرنگ حادثہ3 نومبر 1982 ہندو کش کوہساروں سے گزرتے ہوئے افغانستان کے جنوبی و شمالی علاقوں کو آپس میں ملانے والی سالانگ نامی سرنگ میں آگ بھڑک اٹھی، جس میں 2 ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔سالانگ سرنگ وسطی ایشیا کے اہم راستوں میں سے ایک ہے جو افغانستان کے شمالی اور جنوبی حصوں کو جوڑتی ہے۔ یہ سرنگ 1960ء کی دہائی میں سوویت یونین کی مدد سے تعمیر کی گئی تھی اور تقریباً 3,878 میٹر (12,723 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین سرنگوں میں سے ایک ہے اور سردیوں میں اکثر برف باری اور سخت موسمی حالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ سالانگ سرنگ میں عام طور پر یہ حادثات تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ سرنگ میں اکثر گاڑیوں کے تصادم یا سلپ ہونے کے باعث حادثات ہوتے ہیں، جن میں ایندھن کے رِسنے سے آگ لگنے کا خطرہ رہتا ہے۔

مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں کیسے معاون؟

مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں کیسے معاون؟

''مصنوعی ذہانت‘‘ (AI) کا استعمال آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف کوششوں میں بھی معاونت کر سکتا ہے۔ موجودہ AI سسٹمز میں وہ صلاحیت شامل ہے جو موسم کی پیشگوئی کرسکتی ہے، برفانی تودوں کو ٹریک کرسکتی ہے اور آلودگی کی شناخت کرتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق AI کو زراعت کو بہتر بنانے اور اس کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ AI ڈیٹا کو پروسیس کرنے اور انسانوں کو فیصلے کرنے میں مدد دے رہی ہے لیکن آب و ہوا کی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں بھی AI کی صلاحیت قابل ذکر ہے۔ WHO کے مطابق تقریباً 4 ارب افراد ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کیلئے انتہائی حساس ہیں۔ اندیشہ ہے کہ غذائیت کی کمی، ملیریا، اسہال اور گرمی کی شدت کی وجہ سے 2030ء اور 2050ء کے درمیان تقریباً اڑھائی لاکھ مزید اموات ہوں گی۔ AI آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے میں 8طریقوں سے مدد کر سکتا ہے، جو درج ذیل ہیں۔برفانی تودوں کو پرکھنا(1)AI جانتا ہے کہ برفانی تودے کہاں اور کتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔AIمیں برفانی تودوں میں تبدیلی کو انسان سے 10ہزار گنا تیزی سے ناپنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ یہ سائنسدانوںکو سمجھنے میں مدد دے گا کہ برفانی تودے پگھل کر سمندر میں کتنا پانی چھوڑ سکتے ہیں۔برطانوی سائنسدانوں کے مطابق AI سیٹلائٹ کی تصاویر کو دیکھ کر ایک سیکنڈ کے سوویں حصے میں بڑے انٹارکٹک برفانی تودوں کا نقشہ بنا سکتا ہے۔جنگلات کی کٹائی کی نقشہ سازیسیٹلائٹ تصاویر اور ماحولیاتی علم کے ساتھ مصنوعی ذہانت کا استعمال جنگلات کی کٹائی کے اثرات کا نقشہ بنانے کیلئے بھی کیا جا رہا ہے۔ سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں واقع کمپنی ''Space Intelligence‘‘ کے مطابق وہ 30 سے زائد ممالک میں کام کر رہی ہے اور اس نے سیٹلائٹ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے خلا سے 10 لاکھ ہیکٹر علاقے کا نقشہ بنایا ہے۔ کمپنی کی ٹیکنالوجی ایسے معیارات کی پیمائش کرتی ہے جو ماحولیات سے متعلق ہوتے ہیں۔افریقہ میں ماحولیاتی خطرات کو بھانپناAI افریقہ میں ماحولیات کے خطرات کا سامنا کرنے والی کمیٹیوں کی بھی مدد کر رہا ہے۔ افریقہ میںAI کا استعمال اقوام متحدہ کے ایک منصوبے میں کیا جا رہا ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ کمیونٹیز کی مدد کی جا سکے۔AI ٹیکنالوجی کی موسمیاتی پیٹرنز کی پیشگوئی کی مدد سے حکام بہتر منصوبہ بندی کر سکیں گے کہ لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ کیسے خود کو ڈھالیں۔کچرے کو ری سائیکل کرناAI کچرے کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے میں بھی مدد کر رہا ہے۔فضلہ میتھین کا بڑا ذریعہ ہے اور امریکہ کی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے مطابق عالمی گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا 16فیصد ذمہ دار ہے۔ لندن میں قائم ایک سافٹ ویئر سٹارٹ اپ Greyparrot نے ایک AI سسٹم تیار کیا ہے جو کچرے کی پروسیسنگ اور ری سائیکلنگ کرتا ہے۔کمپنی نے 2022 ء میں کچرے کی 67 کیٹیگریز میں 32 ارب ویسٹ آئٹمز کا سراغ لگایا اور اس سٹارٹ اپ کا کہنا ہے کہ یہ اوسطاً 86 ٹن مواد کی نشاندہی کرتی ہے جسے ٹھکانے لگانا چاہیے۔سمندروں کی صفائیAI سمندر کو صاف کر رہی ہے۔ہالینڈ میں ایک ماحولیاتی تنظیم ''The Ocean Cleanup ‘‘سمندر سے پلاسٹک آلودگی سے نمٹنے کیلئے AIاور دیگر ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہی ہے۔AI اس تنظیم کو دور دراز مقامات پر سمندری کچرے کا تفصیلی نقشے بنانے میں مدد دے رہی ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی گیسوں کے اخراج کے ذریعے آب و ہوا کی تبدیلی میں حصہ ڈالتی ہے اور نیچر کو نقصان پہنچاتی ہے۔آفات کی پیشگوئیAI موسمیاتی آفات کی پیشگوئی میں مدد کرتا ہے۔ برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو میں ایک کمپنی جس کا نام Sipremo ہے، AI کا استعمال کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ موسمیاتی آفات کہاں اور کب ہوں گی اور یہ کیسے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔یہ کمپنی مختلف صنعتوں کیلئے کام کرتی ہے جیسا کہ انشورنس، توانائی، لاجسٹکس اور کھیل، جہاں اس کا تجزیہ فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے کہ آیا ایونٹس کو ملتوی کرنا یا معطل کرنا چاہیے۔گوگل کی AI تحقیقی لیبارٹریگوگل کی AI تحقیقی لیبارٹری گوگل ڈیپ مائنڈکے مطابق وہ کئی شعبوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف کام کرنے کیلئے AI کا استعمال کر رہی ہے۔اس میں وہ مکمل فہرست بنانا بھی شامل ہے جس میں ایسے ڈیٹا سیٹس شامل ہوں گے جوAI کو ماحولیاتی تبدیلی کیلئے مزید کار آمد بناتے ہیں۔ گوگل کےAI ٹولز موسم کی پیشگوئی کو بہتر بنانے اور ہوا کی توانائی کے حصول میں بھی مدد کرتے ہیں۔ صنعتوں کو ڈی کاربونائز کرناAI صنعتوں کو ڈی کاربونائز کرنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔AI کو دھاتوں اور کان کنی، تیل اور گیس کی صنعتوں میں کمپنیوں کو اپنے آپریشنز کو ڈی کاربونائز کرنے میں مدد دینے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیلیفورنیا میں قائم ویب سائٹ: https://eugenie.aiنے آلودگی کی ٹریکنگ کا پلیٹ فارم تیار کیا ہے جو سیٹلائٹ کی تصاویر کو اکٹھا کرتا پھر AI اس ڈیٹا کا تجزیہ کرتا ہے تاکہ کمپنیوں کو اپنے اخراجات کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔صنعتی شعبے دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً30فیصد پیدا کرتے ہیں۔رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق برازیل میں AI سے چلنے والے کمپیوٹرز ڈرونز کے ساتھ مل کر ریو ڈی جنیرو کے ساحلی شہر کے اردگرد پہاڑیوں پر دوبارہ جنگلات لگانے میں مدد کر رہے ہیں۔اس میں کمپیوٹرز ہدف اور گرائے جانے والے بیجوں کی تعداد کا تعین کرتے ہیں۔ یہ منصوبہ جنوری 2024ء میں شروع ہوا تھا ۔یہ ریو ڈی جنیرو کی مقامی حکومت اور سٹارٹ اپ ''Morfo‘‘ کے درمیان شراکت داری سے چل رہا ہے اور اس کا مقصد ان علاقوں میں بیج اگانا ہے جہاں انسانوں کا پہنچنا مشکل ہے۔ ایک ڈرون فی منٹ 180 بیج کی کیپسولز پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو روایتی جنگلات کاری کے لیے انسانی ہاتھوں کے استعمال سے 100 گنا تیز ہے۔

کچھوے: روئے زمین کی قدیم ترین مخلوق

کچھوے: روئے زمین کی قدیم ترین مخلوق

جنگلی حیات کے تحفظ کی ایک بین الاقوامی تنظیم '' انٹرنیشنل کنزرویشن آف نیچر ‘‘ (IUCN ) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کچھووں کی 300اقسام میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کچھووں کی نسل ''بلیک پانڈ‘‘کی معدومیت بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے WWF نے بھی اس طرف حکومتی توجہ مبذول کرائی ہے ۔ماہرین کا خیال ہے کہ کچھوے اس روئے زمین پر لگ بھگ 21 کروڑ سال پہلے وجود میں آئے تھے۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ کچھوے ڈائنو سا ر کے ہم عصر تھے۔ ان کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے ، ویسے تو عام طور پر ان کی عمر 30 سے 50 سال ہے لیکن بعض اوقات 100سالہ کچھوے بھی پائے گئے ہیں۔ اب تک تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحرالکاہل کے جزیرہ ٹونگا میں پایا گیا تھا ، جس کی عمر 188 سال تھی۔ پاکستان میں کچھووں کی مجموعی طور پر 11 اقسام پائی جاتی ہیں۔جن میں آٹھ میٹھے یا تازہ پانیوں اور تین سمندری ( نمکین )پانی میں پائی جاتی ہیں۔میٹھے پانی کا کچھوا دریائے سندھ ، اس سے منسلک دریاوں ، ندی نالوں ، چشموں اور تالابوں میں پایا جاتا ہے۔یہ گھاس سے لے کر سمندری مخلوق حتی کہ مردہ آبی مخلوق بھی کھا لیتے ہیں۔ آبی ماہرین علوم کہتے ہیں کچھوے، گدھ کی طرح '' فطرت کے خاکروب‘‘ ہوتے ہیں کیونکہ یہ مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔سمندری کچھوے سائز میں بھاری بھر کم ہوتے ہیں۔ ان کی سب سے چھوٹی نسل ''کیمپس رڈلی‘‘جو تقریباً 70 سنٹی میٹر لمبا ہے اس کا وزن 40کلوگرام تک دیکھا گیا ہے جبکہ ''لیدر بیگ‘‘ نسل کچھوا 180 سنٹی میٹر لمبا اور 500 کلوگرام کے قریب اس وزن ہے۔ آج تک سب سے بڑے لیدر بیگ کا ریکارڈ 2.5 میٹر لمبائی اور 900 کلوگرام وزن کا ہے۔ بلیک پانڈ کچھوے۔۔قیمتی کیوں ؟کچھووں کی یہ نسل تازہ پانی کی نسل ہے جو عموماً بارشوں ، دریاوں ، ندی نالوں یا نہروں میں پائے جاتے ہیں۔عام طور پر جب بارشوں کے بعد دریاوں یا نہروں میں پانی کم ہو جاتا ہے تو بننے والے چھوٹے تالابوں یا گڑھوں میں کچھوے رہ جاتے ہیں جو عام طور پر کالے رنگ کے ہوتے ہیں اس وجہ سے انہیں '' بلیک پانڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں کچھووں، بالخصوص بلیک پانڈ کی بہت مانگ ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعض اقسام کی قیمت فی کچھوا 1500ڈالر(تقریباً 4 لاکھ روپے) کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ویسے تو اس نسل کے کچھووں کی درآمد پر پابندی ہے جس کی وجہ سے یہ جنوبی کوریا، سنگاپور، ویتنام، ہانگ کانگ ، انڈونیشیا، نیپال غیر قانونی طور پر سمگل ہو جاتے ہیں۔چین کچھووں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں یہ بیش قیمت ادویات میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی بڑھتی طلب کا ایک سبب یورپ، امریکہ اور چین کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کا بطور پالتو جانور بڑھتا رجحان بھی ہے۔ ماحول دوست جانور کچھووں کی موجودگی سمندروں، دریائوں، نہروں، جھیلوں اور تالابوں کے پانی کو صحت کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ کچھوے اس کرہ ارض پر فطرت کی ''فوڈ چین‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔یہ آبی ایکو سسٹم کو متوازن رکھنے میں لاشعوری طور پر اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔کچھوے پانی کے اندر مضر صحت اشیاء اور جراثیموں کو بطور غذا استعمال کرتے ہیں جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریوں کا باعث بننے سے محفوظ رہتا ہے۔ کچھووں کی اس خصوصیت کی وجہ سے انہیں چاول کی کھڑی فصلوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے ، جب فصلوں میں کئی فٹ پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ پانی میں موجود فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو کھا کر فصلوں کو ضائع ہونے سے بچا لیتے ہیں۔سمندری کچھوے مونگے اور چٹانوں کو چاٹتے رہتے ہیں جس سے ان چٹانوں میں جمی کائی اور دیگر گھاس ختم ہو جاتی ہے اور مونگے کی چٹانوں کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے۔جبکہ میٹھے پانی کے کچھوے پانی میں مردار جانوروں سمیت کوڑے کو کھا کر پانی کو صاف بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دلچسپ حقائق ٭... تقریباً 6 کروڑ50 لاکھ سمندری کچھوے باقی ہیں۔٭... ساتوں اقسام خطرے سے دوچارہیں۔٭... ایک ہزار میں سے صرف ایک بمشکل بالغ ہونے تک زندہ رہتا ہے۔٭...سمندری کچھوے 50 سال یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں۔٭... کچھ سمندری کچھوے طویل فاصلے تک ہجرت کرتے ہیں، جبکہ کچھ اپنے گھروں کے قریب ہی رہتے ہیں۔ چمڑے والے کچھوے اور لاگر ہیڈ ہر سال ہزاروں میل سفر کر سکتے ہیں۔٭...کچھووں کی ہر قسم کی خوراک مختلف ہوتی ہے۔ چمڑے والے کچھوے زیادہ تر جیلی فش کھاتے ہیں، سبز کچھوے سمندری گھاس کھاتے ہیں، لاگر ہیڈس اکثر کیکڑے پسند کرتے ہیں۔٭... زیادہ تر کچھوے چیمبرز کھودتے ہیں جہاں انڈے رکھے جاتے ہیں۔٭... محققین سمندری کچھووں کو ٹریک کرنے اور ان کے خوراک کے مقامات اور ہجرت کے پیٹرن کے بارے میں جاننے کیلئے سیٹلائٹ ٹیگ کا استعمال کرتے ہیں۔ لاحق خطراتماہرین کچھووں کی ممکنہ معدومیت کو ان کی آبادیوں میں کمی کی وجوہات ،ان کا بے دریغ شکار ، دن بدن ان کی کم ہوتی پناہ گاہوں اور غیر قانونی تجارت کو ٹھہراتے ہیں۔ چین ہانگ کانگ اور ویتنام میں کچھوے کے خول کے سوپ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی مانگ میں اضافے اور ان کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے نے کچھووں کی غیرقانونی تجارت میں اضافہ کردیا ہے۔ سمندروں میں کشتیوں اور بحری جہازوں سے ٹکرا کر ہلاک ہونے کے واقعات بھی روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ کچھووں کی ایک کثیر تعداد سمندر میں بچھائے شکاریوں کے جال میں پھنس کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، بالخصوص پلاسٹک آلودگی اور گلوبل وارمنگ تمام آبی مخلوق کی زندگیوں کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔    

آج کا دن

آج کا دن

روس کا دولت عثمانیہ کیخلاف اعلان جنگ2 نومبر1914ء عثمانی بحریہ نے سیواس توپول پر بمباری کر دی جس پر روس نے دولت عثمانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔ جس کے بعد جنگ عظیم اوّل کے آغاز پر دولت عثمانیہ کا ساتھ جرمنی اورسلطنت آسٹریا،ہنگری نے دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد فاتح مغربی قوتوں نے شکست پانے والے ممالک پر کئی سخت معاہدے مسلط کردیئے۔ ان معاہدوں کے تحت مرکزی قوتوں (جرمنی اور آسٹریا،ہنگری کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ ترکی اور بلغاریہ) سے وسیع علاقے چھین لئے گئے اور بھاری تاوان جنگ مسلط کر دیا گیا۔برطانیہ مخالف مظاہرے2نومبر1951ء کو مصر میں برطانیہ مخالف مظاہروں نے زور پکڑ لیا۔ ہنگامہ آرائی کو ختم کرنے کیلئے 6ہزار برطانوی فوجی مصر کے کینال زون میں پہنچے جبکہ فوج کی ایک بڑی تعداد راستے میں تھی۔ یہ لڑائی اگلے 2 سال تک جاری رہی۔ 1953ء میں آئینی بادشاہت کا آغاز ہوا اور 1954ء میں عرب قوم پرست عبدالناصر برسراقتدار آئے۔ 1954ء میں ناصر نے نہر سویز کو قومی کر کے اسے کنٹرول میں لے لیا جس کے بعد اسرائیل اور فرانس نے حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے مداخلت کر کے حالات کو کنٹرول کیا۔اولو آگ2نومبر1882ء کو اولو میں آگ بھڑک اٹھی،آگ کرکوکاٹو اور پکاہوونینکاٹو کے کونے میں دواخانے کے تہہ خانے میں شروع ہوئی، جس نے فن لینڈ کے شہر اولو میں ہالیٹسکاٹو اور پکاہوونینکاٹو کے ساتھ ساتھ 27 عمارتوں کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان عمارتوں میںشہریوں کی لاکھوں روپے مالیت کی املاک جل کر راکھ ہو گئیں۔ تہہ خانے کا استعمال پیٹرول اور دیگر آتش گیر مواد کو ذخیرہ کرنے کیلئے کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے آگ قابو سے باہر ہو گئی۔آگ دریائے اولو تک پھیل گئی اور اس کے ساتھ نمک اور اناج کے گوداموں کو بھی تباہ کر دیا۔ تاہم فائر بریگیڈ نے آگ کو پیک ہاؤس تک پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کرلی۔اس آگ کو تاریخ کے بدترین حادثات میں شمار کیا جاتا ہے۔لولو برگس کی لڑائیلولو برگس کی لڑائی سلطنت بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان ہونے والی ایک خونریز جنگ تھی۔ اسے پہلی بلقان کی جنگ کی سب سے خوفناک لڑائی بھی کہا جاتا ہے۔یہ جنگ 28 اکتوبر1912ء کو شروع ہوئی اور2نومبر 1912ء تک جاری رہی۔مورخین کے مطابق یہ فرانکو،پرشین جنگ کے خاتمے اور پہلی عالمی جنگ کے آغاز کے درمیان میں یورپ میں لڑی جانے والی سے بڑی جنگ تھی۔