بابر اور ہمایوں کے عہد میں فن تعمیر
مغل فن تعمیر کی کہانی مغل دور حکومت کی ابتدا کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ 1526ء میں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اپنے اقتدار کا پرچم لہرایا تھا۔اگر مغل فن تعمیر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ فن تعمیر کی یہ کہانی جو مغل دور حکومت نے ہندوستان میں چھیڑی، اس کے نقوش پہلے ہی تیار ہو چکے تھے کیونکہ عربوں کے ہندوستان سے تعلقات آٹھویں صدی عیسوی ہی میں استوار ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنی حکومت میں سندھ اور ملتان دونوں کو شامل کر لیا تھا۔ عربوں کے ان تعلقات سے ملتان اور سندھ دونوں کے طرزتعمیر میں ایک خاص تبدیلی واقع ہوئی۔ اس سے پہلے یہاں کی عمارتوں میں چمکدار قسم کے کھپرے استعمال کرنے کا رواج نہ تھا۔ انہوں نے اپنی عمارتوں میں چکنے چمکدار اور روغنی کھپرے استعمال کر کے تعمیراتی صلاحیت کو جلا دی۔
بارہویں صدی کے اواخر میں جب قطب الدین ایبک ہندوستان کا وائسرائے تھا، اس نے دہلی میں ایک مسجد ''قطب مسجد‘‘ کے نام سے تعمیر کرائی۔ اس کے بعد جب پورے طور سے اس کی حکومت کا استحکام ہو گیا تو اس نے یہاں قطب مینار جیسی بلندوبالا عمارت تعمیر کرائی۔ غلام خاندان، خلجی خاندان، تغلق خاندان، سید خاندان اور لودھی خاندان کی بنوائی ہوئی عمارتوں نے مغل فن تعمیر کیلئے ایک صحت مند خمیر تیار کیا، جس کو بنیاد بنا کر مغلوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔
بابر کے دورحکومت میں جو کچھ بھی چھوٹا موٹا تعمیری کام ہو، وہ چاہے عمارتوں کی شکل میں ہو، باغات کی شکل میں ہو یا مسجد کی شکل میں، وہ مغل فن تعمیر کا ابتدائی نمونہ تھا۔ مغل فنِ تعمیر کی تکمیل کا کام اکبر اور شاہ جہاں تک کے دور میں ہوا۔
مغل بادشاہ ایک تربیت یافتہ ذہن کے مالک تھے۔ وہ تربیت یافتہ ذہن جن کے کارنامے سمرقند، بخارااور ہرات میں دیکھے جا سکتے تھے۔ مغلوں کے آنے سے پہلے دہلی سلطنت زوال کی طرف رخ کیے ہوئے تھی، اس سیاسی انتشار اور خلفشار میں اور اس آئے دن کے انقلاب میں سلاطین دہلی کی اختراعی قوت کو دھکا سا لگا۔ مرکزیت علاقوں میں منتشر ہو گئی۔ دہلی سلطنت سے الگ ہٹ کر تعمیراتی کام صوبوں میں زور پکڑ گیا اور اس طرح مرکز نے فن تعمیر میں کوئی قابل قدر اضافہ نہ کیا، ہاں علاقوں اور صوبوں میں فن تعمیر کے بعض اعلیٰ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں، مثلاً شرقی بادشاہوں کی بنوائی ہوئی جون پور کی کچھ عمارتیں (جیسے اٹالہ مسجد) ان حالات میں مغل دور حکومت کی ابتدا ہوئی۔
بابر کی زندگی غم و آلام کی ایک مستقل داستان ہے۔ تقدیر نے جتنی آزمائشیں اس مغل بادشاہ کے حصے میں لکھی تھیں اتنی شاید ہی کسی دوسرے مغل بادشاہ کو پیش آئی ہوں۔ تمام مشکلات کو جھیل کر جب اس نے منزل کو پالیا اور منزل پر پہنچ کر جب اس نے اطمینان کی سانس لی تو موت نے اسے صدا دے دی۔ اس طور سے بابر نے اپنے پیچھے بہت سے نامکمل کام اور بہت سے ادھورے خواب چھوڑے ۔ تزکِ بابری میں بابر نے خود لکھا ہے کہ ''میں نے عمارتوں کی تعمیر کیلئے ایک کثیر رقم خرچ کرنے کا حکم دیا تھا‘‘۔
تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بابر نے پانی پت کے میدان (کابلی باغ) میں ایک مسجد بھی فوجی سپاہیوں کے نماز ادا کرنے کیلئے بنوائی تھی اور ساتھ ہی ددوسری مسجد (دہلی) کے مقام پر بنوائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کابل میں بنے ہوئے ایک باغ کی طرح دوسرا باغ دہلی میں ''آرام باغ‘‘ کے نام سے بنوایا، جس کا نشان مٹ گیا۔ بابر کے ان کاموں کی تائید گلبدن بیگم کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے: ''(بابر) نے خواجہ قاسم معمار کو حکم دیا کہ اگر ہماری بوائیں کوئی مکان اپنے محل میں بنوانا چاہیں تو بڑا کام ہوتے ہوئے بھی اسے فوراً ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ آگرہ میں دریا کے اس پار کئی عمارتیں بنوانے کا حکم دیا۔ حرم اور باغ کے بیچ میں اپنی خلوتِ خاص کیلئے ایک پتھر کا محل بنوایا اور دیوان خانہ میں بھی ایک محل تعمیر کروایا۔ مکان کے وسط میں ایک باؤلی اور چاروں برجوں میں چار کمرے بنوائے۔ دریا کے کنارے چار صحن والا مکان تعمیر کرایا۔ دھول پور میں پتھر کے ایک حصے میں ایک چوکھٹی باولی 10 گز لمبی اور چوڑی بننے کا حکم دیا اور کہا کہ جب باؤلی تیار ہو جائے تو اسے شراب سے بھروں گا، لیکن رانا سانگا سے جنگ ہونے سے پہلے انہوں نے شراب سے توبہ کر لی تھی۔ اس لیے باولی کو شراب کے بجائے لیموں کے شربت سے بھروایا‘‘۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ بابر کے اس مختصر دور حکومت میں بھی کافی عمارتوں کی تعمیر ہوئی، لیکن باب کی موت کے فوراً بعد ہی جو سیاسی ہنگامہ ہوا اور انتشار پھیلا، اس میں ہمایوں کو فرصت ہی نہ ملی کہ وہ ان عمارتوں کی بقا کی طرف توجہ دے سکے، پھر بھی ان میں سے دو عمارتیں زمانے کے ہاتھوں محفوظ رہیں۔ یہ دونوں عمارتیں وہی مندرجہ بالا مسجدیں ہیں جو کابلی باغ اور سنبھل میں تعمیر کی گئی تھیں۔ مغلوں کیلئے یہ ملک نیا تھا۔ وہ لوگ یہاں کی جغرافیائی حالت سے واقف نہیں تھے اور نہ ہی ان مسجدوں میں مغل فنِ تعمیر کی مخصوص رنگ و بو جھلکتی ہے۔ خود بابر کے الفاظ میں کہ ''یہ بالکل ہندوستانی طرز کی ہیں‘‘۔
ہمایوں کی شخصیت تاریخ کے طالب علموں کیلئے بڑی ہی قابلِ توجہ ہے۔ بابر کے ادھورے خواب اس نے پورے کیے۔ 1530ء میں حکومت کیا ہاتھ آئی پریشانیوں کا ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آ گیا۔ ایک طرف افغان سرکشی پر آمادہ ہوئے اور دوسری طرف حقیقی بھائیوں (کامران عسکری اور ہندال) نے وہ طرز اپنایا کہ سخت دشمن کے ہاتھوں بھی ممکن نہیں۔ اگر اس نے بھائیوں کی شرارت پر انہیں تنبیہ بھی کرنی چاہی تو مرحوم باپ کی وصیت یاد آ گئی۔ ''دیکھو، اپنے بھائیوں کے دکھ درد کا خیال رکھنا‘‘۔ ایسے حالات مین اس صائب الرائے بادشاہ کی عقل بھی جواب دے گئی۔ کیا کرے اور کیا نہ کرے؟ شیر شاہ سوری نے آخری کار اس کو شکست دے دی۔ اب تو حکومت کے بھی لالے پڑ گئے اور وہ ہندوستان چھوڑ کر ایران چلا گیا۔
عالموں اور مؤرخوں کا کہنا ہے کہ ہمایوں کو اس بھاگ دوڑ میں جتنی بھی پریشانی ہوئی ہو، مغل تاریخ اور مغل فنِ تعمیر کو اس سے بہت ہی فائدہ پہنچا۔ فائدہ اس سلسلے میں کہ ایرانی روایات اور ایرانی علامتیں جو مغل تہذیب کا جزو بننے کیلئے ایک مدت سے کسی انجانی شخصیت کا انتظار کر رہی تھیں، وہ ہمایوں کے ہاتھ یہاں پہنچیں۔ اس سخت دور مین اور اس انتشاری فضا اور ماحول میں بھی ہمایوں نے اپنے باپ بابر کی تعمیری روایت کی جوت کو جلائے رکھا۔ فتح آباد اور حصار میں ہمایوں نے دو الگ الگ مسجدیں بھی تعمیر کرائیں لیکن وہ زمانے کی بے مہری کا شکار ہو گئیں۔ 1564ء کی ان سب سے قابل توجہ تعمیر ہمایوں کا مقبرہ ہے، جو اس کے مرنے کے آٹھ سال بعد مکمل ہوا۔ یہ مقبرہ ہمایوں کی چہیتی بیوی ھاجی بیگم نے اپنی زیرنگرانی تعمیر کرایا۔ مزید برآں یہ مقبرہ ہندوستانی روپ میں ایرانی طرزِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ تاج محل کو اگر ہم ایک وفادار عاشق کا خراج کہتے ہیں تو ہمایوں کے مقبرہ کو ہمیں وفادار بیوی کی محبوبانہ پیشکش کہنا پڑے گا۔
اس سے پہلے مقبرہ کے چاروں طرف چاردیواری بنانے کا رواج نہ تھا۔ مثال کے طور پر فیروز شاہ کا مقبرہ اور مبارک شاہ کا مقبرہ۔ لیکن ہمایوں کے مقبرہ نے اس طریقۂ تعمیر کی بنیاد رکھی۔ نہ محض اس مقبرہ کے بعد سے چار دیواری بنانے کا رواج ہوا بلکہ اس کے باہر پیڑ اور پودے لگانے کی ابتدا ہوئی۔ مقبرہ کے چاروں طرف گھری ہوئی اس وسیع و بسیط چاردیواری میں جا بجا دروازے قائم کیے گئے۔