بابر اور ہمایوں کے عہد میں فن تعمیر

بابر اور ہمایوں کے عہد میں فن تعمیر

اسپیشل فیچر

تحریر : اسد بخاری


مغل فن تعمیر کی کہانی مغل دور حکومت کی ابتدا کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ 1526ء میں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اپنے اقتدار کا پرچم لہرایا تھا۔اگر مغل فن تعمیر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ فن تعمیر کی یہ کہانی جو مغل دور حکومت نے ہندوستان میں چھیڑی، اس کے نقوش پہلے ہی تیار ہو چکے تھے کیونکہ عربوں کے ہندوستان سے تعلقات آٹھویں صدی عیسوی ہی میں استوار ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنی حکومت میں سندھ اور ملتان دونوں کو شامل کر لیا تھا۔ عربوں کے ان تعلقات سے ملتان اور سندھ دونوں کے طرزتعمیر میں ایک خاص تبدیلی واقع ہوئی۔ اس سے پہلے یہاں کی عمارتوں میں چمکدار قسم کے کھپرے استعمال کرنے کا رواج نہ تھا۔ انہوں نے اپنی عمارتوں میں چکنے چمکدار اور روغنی کھپرے استعمال کر کے تعمیراتی صلاحیت کو جلا دی۔
بارہویں صدی کے اواخر میں جب قطب الدین ایبک ہندوستان کا وائسرائے تھا، اس نے دہلی میں ایک مسجد ''قطب مسجد‘‘ کے نام سے تعمیر کرائی۔ اس کے بعد جب پورے طور سے اس کی حکومت کا استحکام ہو گیا تو اس نے یہاں قطب مینار جیسی بلندوبالا عمارت تعمیر کرائی۔ غلام خاندان، خلجی خاندان، تغلق خاندان، سید خاندان اور لودھی خاندان کی بنوائی ہوئی عمارتوں نے مغل فن تعمیر کیلئے ایک صحت مند خمیر تیار کیا، جس کو بنیاد بنا کر مغلوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔
بابر کے دورحکومت میں جو کچھ بھی چھوٹا موٹا تعمیری کام ہو، وہ چاہے عمارتوں کی شکل میں ہو، باغات کی شکل میں ہو یا مسجد کی شکل میں، وہ مغل فن تعمیر کا ابتدائی نمونہ تھا۔ مغل فنِ تعمیر کی تکمیل کا کام اکبر اور شاہ جہاں تک کے دور میں ہوا۔
مغل بادشاہ ایک تربیت یافتہ ذہن کے مالک تھے۔ وہ تربیت یافتہ ذہن جن کے کارنامے سمرقند، بخارااور ہرات میں دیکھے جا سکتے تھے۔ مغلوں کے آنے سے پہلے دہلی سلطنت زوال کی طرف رخ کیے ہوئے تھی، اس سیاسی انتشار اور خلفشار میں اور اس آئے دن کے انقلاب میں سلاطین دہلی کی اختراعی قوت کو دھکا سا لگا۔ مرکزیت علاقوں میں منتشر ہو گئی۔ دہلی سلطنت سے الگ ہٹ کر تعمیراتی کام صوبوں میں زور پکڑ گیا اور اس طرح مرکز نے فن تعمیر میں کوئی قابل قدر اضافہ نہ کیا، ہاں علاقوں اور صوبوں میں فن تعمیر کے بعض اعلیٰ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں، مثلاً شرقی بادشاہوں کی بنوائی ہوئی جون پور کی کچھ عمارتیں (جیسے اٹالہ مسجد) ان حالات میں مغل دور حکومت کی ابتدا ہوئی۔
بابر کی زندگی غم و آلام کی ایک مستقل داستان ہے۔ تقدیر نے جتنی آزمائشیں اس مغل بادشاہ کے حصے میں لکھی تھیں اتنی شاید ہی کسی دوسرے مغل بادشاہ کو پیش آئی ہوں۔ تمام مشکلات کو جھیل کر جب اس نے منزل کو پالیا اور منزل پر پہنچ کر جب اس نے اطمینان کی سانس لی تو موت نے اسے صدا دے دی۔ اس طور سے بابر نے اپنے پیچھے بہت سے نامکمل کام اور بہت سے ادھورے خواب چھوڑے ۔ تزکِ بابری میں بابر نے خود لکھا ہے کہ ''میں نے عمارتوں کی تعمیر کیلئے ایک کثیر رقم خرچ کرنے کا حکم دیا تھا‘‘۔
تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بابر نے پانی پت کے میدان (کابلی باغ) میں ایک مسجد بھی فوجی سپاہیوں کے نماز ادا کرنے کیلئے بنوائی تھی اور ساتھ ہی ددوسری مسجد (دہلی) کے مقام پر بنوائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کابل میں بنے ہوئے ایک باغ کی طرح دوسرا باغ دہلی میں ''آرام باغ‘‘ کے نام سے بنوایا، جس کا نشان مٹ گیا۔ بابر کے ان کاموں کی تائید گلبدن بیگم کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے: ''(بابر) نے خواجہ قاسم معمار کو حکم دیا کہ اگر ہماری بوائیں کوئی مکان اپنے محل میں بنوانا چاہیں تو بڑا کام ہوتے ہوئے بھی اسے فوراً ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ آگرہ میں دریا کے اس پار کئی عمارتیں بنوانے کا حکم دیا۔ حرم اور باغ کے بیچ میں اپنی خلوتِ خاص کیلئے ایک پتھر کا محل بنوایا اور دیوان خانہ میں بھی ایک محل تعمیر کروایا۔ مکان کے وسط میں ایک باؤلی اور چاروں برجوں میں چار کمرے بنوائے۔ دریا کے کنارے چار صحن والا مکان تعمیر کرایا۔ دھول پور میں پتھر کے ایک حصے میں ایک چوکھٹی باولی 10 گز لمبی اور چوڑی بننے کا حکم دیا اور کہا کہ جب باؤلی تیار ہو جائے تو اسے شراب سے بھروں گا، لیکن رانا سانگا سے جنگ ہونے سے پہلے انہوں نے شراب سے توبہ کر لی تھی۔ اس لیے باولی کو شراب کے بجائے لیموں کے شربت سے بھروایا‘‘۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ بابر کے اس مختصر دور حکومت میں بھی کافی عمارتوں کی تعمیر ہوئی، لیکن باب کی موت کے فوراً بعد ہی جو سیاسی ہنگامہ ہوا اور انتشار پھیلا، اس میں ہمایوں کو فرصت ہی نہ ملی کہ وہ ان عمارتوں کی بقا کی طرف توجہ دے سکے، پھر بھی ان میں سے دو عمارتیں زمانے کے ہاتھوں محفوظ رہیں۔ یہ دونوں عمارتیں وہی مندرجہ بالا مسجدیں ہیں جو کابلی باغ اور سنبھل میں تعمیر کی گئی تھیں۔ مغلوں کیلئے یہ ملک نیا تھا۔ وہ لوگ یہاں کی جغرافیائی حالت سے واقف نہیں تھے اور نہ ہی ان مسجدوں میں مغل فنِ تعمیر کی مخصوص رنگ و بو جھلکتی ہے۔ خود بابر کے الفاظ میں کہ ''یہ بالکل ہندوستانی طرز کی ہیں‘‘۔
ہمایوں کی شخصیت تاریخ کے طالب علموں کیلئے بڑی ہی قابلِ توجہ ہے۔ بابر کے ادھورے خواب اس نے پورے کیے۔ 1530ء میں حکومت کیا ہاتھ آئی پریشانیوں کا ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آ گیا۔ ایک طرف افغان سرکشی پر آمادہ ہوئے اور دوسری طرف حقیقی بھائیوں (کامران عسکری اور ہندال) نے وہ طرز اپنایا کہ سخت دشمن کے ہاتھوں بھی ممکن نہیں۔ اگر اس نے بھائیوں کی شرارت پر انہیں تنبیہ بھی کرنی چاہی تو مرحوم باپ کی وصیت یاد آ گئی۔ ''دیکھو، اپنے بھائیوں کے دکھ درد کا خیال رکھنا‘‘۔ ایسے حالات مین اس صائب الرائے بادشاہ کی عقل بھی جواب دے گئی۔ کیا کرے اور کیا نہ کرے؟ شیر شاہ سوری نے آخری کار اس کو شکست دے دی۔ اب تو حکومت کے بھی لالے پڑ گئے اور وہ ہندوستان چھوڑ کر ایران چلا گیا۔
عالموں اور مؤرخوں کا کہنا ہے کہ ہمایوں کو اس بھاگ دوڑ میں جتنی بھی پریشانی ہوئی ہو، مغل تاریخ اور مغل فنِ تعمیر کو اس سے بہت ہی فائدہ پہنچا۔ فائدہ اس سلسلے میں کہ ایرانی روایات اور ایرانی علامتیں جو مغل تہذیب کا جزو بننے کیلئے ایک مدت سے کسی انجانی شخصیت کا انتظار کر رہی تھیں، وہ ہمایوں کے ہاتھ یہاں پہنچیں۔ اس سخت دور مین اور اس انتشاری فضا اور ماحول میں بھی ہمایوں نے اپنے باپ بابر کی تعمیری روایت کی جوت کو جلائے رکھا۔ فتح آباد اور حصار میں ہمایوں نے دو الگ الگ مسجدیں بھی تعمیر کرائیں لیکن وہ زمانے کی بے مہری کا شکار ہو گئیں۔ 1564ء کی ان سب سے قابل توجہ تعمیر ہمایوں کا مقبرہ ہے، جو اس کے مرنے کے آٹھ سال بعد مکمل ہوا۔ یہ مقبرہ ہمایوں کی چہیتی بیوی ھاجی بیگم نے اپنی زیرنگرانی تعمیر کرایا۔ مزید برآں یہ مقبرہ ہندوستانی روپ میں ایرانی طرزِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ تاج محل کو اگر ہم ایک وفادار عاشق کا خراج کہتے ہیں تو ہمایوں کے مقبرہ کو ہمیں وفادار بیوی کی محبوبانہ پیشکش کہنا پڑے گا۔
اس سے پہلے مقبرہ کے چاروں طرف چاردیواری بنانے کا رواج نہ تھا۔ مثال کے طور پر فیروز شاہ کا مقبرہ اور مبارک شاہ کا مقبرہ۔ لیکن ہمایوں کے مقبرہ نے اس طریقۂ تعمیر کی بنیاد رکھی۔ نہ محض اس مقبرہ کے بعد سے چار دیواری بنانے کا رواج ہوا بلکہ اس کے باہر پیڑ اور پودے لگانے کی ابتدا ہوئی۔ مقبرہ کے چاروں طرف گھری ہوئی اس وسیع و بسیط چاردیواری میں جا بجا دروازے قائم کیے گئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
آج کا دن

آج کا دن

مشتری کے گرد تین سیاروں کی دریافت1610ء میں آج کے دن اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی نے مشتری کے گرد تین سیاروں کی دریافت کی تھی۔ جنہیں افسانوی کرداروں ''لو‘‘، ''یوروپا‘‘ اور ''گانیمیڈ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ مشتری نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، مشتری اتنا بڑا ہے کہ نظام شمسی کے باقی تمام سیارے اس کے اندر سما سکتے ہیں۔ مشتری کے اندر 1300 سے زیادہ زمینیں فٹ ہو سکتی ہیں۔زمین سے یہ رات کو آسمان میں نظر آنے والا دوسرا روشن ترین سیارہ ہے۔ مشتری سورج سے پانچواں سیارہ ہے۔ ہائیڈوجن بم امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 7جنوری 1953ء کوہائیڈروجن بم تیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس منصوبے کے مکمل ہونے سے قبل بھی ایسا ہی اعلان کیا تھا۔ ہیری ٹرومین کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ہائیڈروجن بم بنانے کا فیصلہ سوویت یونین کے 1949ء میں ایٹم بم کے متعلق دئیے گئے بیان کے بعد کیاتھا۔ امریکی صدر کے مطابق ہائیڈروجن بم بنانے کا مقصد امریکہ کے دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔CQDریڈیو سگنلز کا افتتاح''CQD‘‘ریڈیو کے استعمال کیلئے اپنائے جانے والے پہلے ڈسٹریس سگنلز میں سے ایک تھا۔7جنوری1904ء کو مارکونی انٹرنیشنل میرین کمیونی کیشن کمپنی نے ''سرکلر 57‘‘ جاری کیا جس میں واضح طور پر بتایا گیا کہ کمپنی کی تنصیبات کیلئے یکم فروری''CQD‘‘بحری جہازوں کی طرف سے کسی ایمرجنسی یا مشکل کی صورت میں دی جانے والی کال ہو گی۔ کچھ عرصہ بعد اسی ڈسٹریس سگنل کو تبدیل کر کے مورس کوڈ کی شکل دے دی گئی اور دور جدید میں اسے'' SOS‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔امریکی صدر کلنٹن کا مواخذہ7جنوری1999ء کو امریکی صدر کلنٹن کے مواخذے کیلئے مقدمے کی سماعت کاآغاز ہوا۔ کلنٹن پر جھوٹ بولنے اور انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔ بعد میں گواہوں سے چھیڑ چھاڑ اور طاقت کے غلط استعمال جیسے اقدامات کا بھی الزام لگایا گیا۔ کلنٹن پر پاؤلا جونز کی طرف سے ہراساں کرنے کے الزامات کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔مواخذے کے مقدمے کی سماعت کے دوران، ہاؤس جوڈیشری کمیٹی نے مواخذے کے تین آرٹیکلز کی منظوری دی ۔ اس کے بعد کلنٹن نے امریکی عوام سے عوامی معافی مانگی ۔مانٹیل حادثہ7جنوری 1948ء کو کینٹکی ائیر نیشنل گارڈ کا پائلٹ 25سالہ کیپٹن تھامس ایف مانٹیل، فرینکلن کینٹکی ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قریب اپنےP-51 Mustang لڑاکا طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ یہ حادثہ ایک نامعلوم فلائنگ آبجیکٹ ''UFO‘‘ کا پیچھا کرنے کے دوران پیش آیا۔ یہ واقعہ ابتدائیUFOواقعات میں سب سے زیادہ مشہورتھا۔مانٹیل نے کافی اونچائی تک اس کا پیچھا کیا جہاز اس کے کنٹرول میں نہیں رہا اور گر کر تباہ ہو گیا۔   

رومانوی شہر  وینس خطرات اور خدشات کی زد میں

رومانوی شہر وینس خطرات اور خدشات کی زد میں

وینس کو دیئے گئے مختلف نامآخر ایسا کیا منفرد اور خاص ہے کہ وینس دنیا بھر کے سیاحوں کی جنت اور رومانوی شہر کی شہرت رکھتا ہے ؟ سیاح ہی نہیں بلکہ خود اطالوی بھی اس شہر سے بہت پیار کرتے ہیں۔ تبھی تو انہوں نے پیار سے اسے کئی نام دے رکھے ہیں ، جیسے ''ایڈریاٹک کی ملکہ‘‘ ، ''محبت کرنے والوں کا شہر‘‘ ، ''سکون دینے والا شہر‘‘ ، ''رومانوی شہر ‘‘ وغیرہ۔اٹلی کے شمال مشرق میں واقع اس شہر کو لوگوں نے جہاں پیار کے کئی نام دے رکھے ہیں، وہیں پہچان کیلئے بھی اس شہر کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے مثلاً تیرتا ہوا شہر ، پلوں والا شہر ،پانی والا شہر ، ماسک والا شہر ، تالابوں والا شہر ، سیاحوں کا شہر وغیرہ۔ دنیا میں شاید ہی کسی اور شہر کے اتنے نام ہوں گے جتنے شہر وینس کو دئیے گئے ہیں۔ دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہوں گے جن کی وجہ شہرت ان کے کسی شہر کی وجہ سے ہوتی ہو گی،ورنہ عمومی طور پر شہر اپنے ملکوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔اٹلی کا ایسا ہی ایک شہر وینس ہے جسے نہ صرف سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے بلکہ اس سے زیادہ اس کی شناخت ایک رومان پرور شہر کے طور پر کی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وینس بنیادی طور پر صوبہ وینیتو کا صدر مقام ہے۔ جس کی کل آبادی 2 لاکھ 70 ہزار کے قریب ہے لیکن وینس میٹروپولیٹن سٹی کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر ایک عرصے سے سالانہ دو سے تین کروڑ سیاحوں کی میزبانی کرتا آرہا ہے۔ ایک اندازے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ 50 ہزار آبادی والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ سیاح وینس میں موجود رہتے ہوں گے؟۔118جزیرےوینس اپنی نہروں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مختلف شناخت رکھتا ہے۔ یہ شہر 118 جزیروں کی شکل میں ایک ''آرکیپیلاگو‘‘ ( آرکیپیلاگو ، جزائر کے ایک گچھے یا سلسلے کو کہتے ہیں )پر مشتمل ایک جزیرہ نما ہے ، جنہیں 150 نہروں نے آپس میں جوڑ رکھا ہے۔بیشتر جزیروں پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد ہیں جو 400 کے قریب پلوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔''کار فری زون‘‘یہ شہر یورپ کاسب سے بڑا ''کار فری‘‘ علاقہ ہے جہاں کاروں، ٹرکوں اور گاڑیوں کے بغیر کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں کے پلوں نے بنیادی طور پر مختلف محلوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے ، آپ جب ایک پل عبور کرتے ہیں تو آپ کو دوسرا محلہ نظر آتا ہے۔ ہر محلہ چھوٹی چھوٹی پتلی قدیم گلیوں پر مشتمل ہے جو اپنے ماضی کی خوبصورت ثقافت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔یہاں کے محلوں کی ایک مخصوص بات یہ ہے کہ ہر محلے کے بیچ ایک کھلی جگہ ہوتی ہے جس میں ایک چرچ اور ندی کنارے سیاحوں کیلئے ہوٹل بھی موجود ہیں ۔ بلکہ اکثر محلوں میں بچوں کیلئے فٹ بال گراونڈ بھی بنائے گئے ہیں جہاں شام کے اوقات میں بچے مختلف کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔پرانا طرز تعمیر اور جدید سہولیات پرانی طرز کے چھوٹے اور تنگ دروازے ، بڑی بڑی کھڑکیاں ان کے ساتھ لٹکتی پرانے زمانے کی کنڈیاں اور بغیر پلاسٹر صدیوں پرانے بنے گھر یہاں کی ثقافت کی ترجمانی تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اندر سے جدید ضروریات زندگی سے آراستہ ہوتے ہیں۔اور شاید سب سے منفرد بات یہاں اکثر گھروں کے باہر پانی والی طرف بندھی وہ کشتی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی آمدورفت کیلئے ایسے باندھ رکھی ہوتی ہے جیسے ہمارے گھروں کے باہر یا گیراجوں میں کاریں کھڑی ہوتی ہیں۔وینس شہر کی کشش صرف پانی اور کشتیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ اپنے دور کا ایک ثقافتی شہر ہونے کے ناطے بے شمار تاریخی اور ثقافتی عمارات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ان میں برج آف سائے ، ریا لٹو برج ، سینٹ مارکس اسکوائر ،اوپرا ہاوس ، بورانو جزیرہ ، اور سانتا مارا ڈیلا سلیوٹ قابل ذکر ہیں۔ مقامی آبادی سیاحوں سے نالاں کیوں ؟ دنیا کا خوبصورت اور رومانوی شہر جہاں سارا سال سیاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس لحاظ سے بھی یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں دنیا بھر سے ہر لمحہ ، شہر کی اصل آبادی سے کئی گنا زیادہ سیاح موجود رہتے ہیںتو پھر آخرایسا اچانک کیا ہوا کہ وینس انتظامیہ کو شہر میں کچھ اس طرح کی پابندیوں کا اطلاق کرنا پڑا کہ ''ایک دن کیلئے آنے والے سیاحوں کا مفت داخلہ بند، یورپ کے سب سے لمبے اور چوڑے ''سپینش سٹیپس‘‘ نامی منفرد اور پرکشش زینوں پر بیٹھنے پر پابندی، املفی کے ساحلی علاقے پر سیاحوں کی بسوں کے داخلے پر پابندی ، ساحلی علاقے پورتوفینو میں سیلفی لینے پر پابندی ، کروز جہازوں کی وینس داخلے پر پابندی، اٹلی کے مشہور ساحلی علاقے چنکوئے تیرے میں قینچی چپل پہننے پر بھاری جرمانہ ہے۔ یہ اور اس جیسی متعدد پابندیوں کو سیاح اپنے لئے حوصلہ شکنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ چند ماہ پہلے مقامی اخبارات میں ایک خبر شہ سرخیوں سے شائع ہوئی جس میں شہریوں کو سڑکوں پر بینر اٹھائے احتجاج کرتے دکھایا گیا تھا جو سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے اس لئے سراپا احتجاج تھے جن کی وجہ سے ان کی زندگیاں تیزی سے مختلف مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے یہاں کے شہری کہتے ہیں کہ وینس میں آنے والے سیاح اس دوران ضرورت زندگی کی ہر شے منہ مانگے داموں خرید کر مہنگائی کی نئی سے نئی بنیاد رکھتے چلے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیشتر نوجوان سیاح قدیم گرجا گھروں کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا کر خالی ڈبے ، بوتلیں اور دیگر کوڑا کرکٹ پانی میں یا سڑکوں پر پھینک کر چلے جاتے ہیں جو بالآخر شہر کے بے شمار پلوں والی نہروں کی تہہ میں ٹنوں کے حساب سے اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔گزشتہ دنوں وینس شہر پر بنی ایک ڈاکومینٹری میں وینس کی نہروں کی تہہ سے کوڑا کرکٹ نکالنے کی ایک مہم کا احوال دکھایا جا رہا تھا۔اس مہم کے دوران درجنوں غوطہ خوروں نے یہاں کی نہروں کی تہہ سے جو کوڑا کرکٹ نکالا اس کا وزن 18 ٹن سے بھی زیادہ تھا۔اس مہم کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس کچرے میں زیادہ تعداد گاڑیوں کے ٹائروں کی تھی جو نہروں میں چلنے والی ہزاروں گنڈولا کشتیوں کیلئے رات کے وقت انہیں نہر کنارے باندھنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ ٹائر اکثر رات کو رسوں سے الگ ہو کر پانی میں گر جاتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔لاحق خطراتمقامی شہریوں کے یہ خدشات بلا سبب نہیں کیونکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی وینس کو لاحق خطرات کا اظہار کرتے ہوئے وینس کو خطرے سے دوچار عالمی ثقافتی مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کا عندیہ دے دیا تھا ۔یونیسکو نے اپنی ایک رپورٹ میں اٹلی کے شہر وینس کو درپیش خطرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ '' وینس کو بہت زیادہ سیاحت ، حد سے زیادہ ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافے کے سبب ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے ، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً زمین کے بڑھتے درجہ ٔ حرارت کے باعث سمندر کی سطح میں اضافے سے پانی میں گھرے وینس کو سیلاب کا بہت خطرہ ہے۔ وینس کی انتظامیہ کو ''وژن کی کمی‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ انتظامیہ کی لاپرواہی سے اٹلی کا سب سے خوبصورت شہر مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ آگے چل کر یونیسکو نے شہر کی بلند و بالا عمارات کی طرف وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ شہر کی خوبصورتی پر منفی اثر ڈالتی ہیں، انہیں شہر کے مرکزی حصے سے دور تعمیر کیا جانا چائیے تھا۔یونیسکو نے اپنی اسی رپورٹ میں وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سان مارکو کینال اور دیگر ساحلوں پر بڑے بحری جہازوں کی آمد پر پابندی کا اطلاق ہونا چائیے تھا جو بہت زیادہ آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔وینس کے مسائل ایک طرف لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکار ممکن نہیں کہ وینس کے باسیوں کا سیاحت کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش بھی تو نہیں ہے۔ روایتی سواریاں''واپوریتو‘‘ اور ''گونڈولا‘‘شہر کے اندر آمدورفت کیلئے سب سے بڑا ذریعہ واٹر بسوں کا ہے جنہیں مقامی زبان میں ''واپوریتو‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بسیں شہر کے اندر پانی پر تیرتی ایسے نظر آتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں سڑکوں پر چلتی نظر آتی ہیںجبکہ شہر کے مختلف علاقوں کو پلوں کے ذریعے آپس میں ملانے کیلئے پیدل راستے بھی بنائے گئے ہیں۔یہاں کی ایک خاص روائتی سواری ''گونڈولا‘‘ہے۔یہ ایک ثقافتی کشتی ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے استعمال ہوتی ہے لیکن اب یہ مقامی افراد سے زیادہ سیاحوں کی سواری کا روپ دھار چکی ہے جو یہاں کے مقامی ملاح جگہ جگہ لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔  

عظیم مسلمان سائنسدان ابو عباس احمد بن محمد کثیر فرغانی

عظیم مسلمان سائنسدان ابو عباس احمد بن محمد کثیر فرغانی

زمین کے محیط کی پیمائش کرنے والوں کی جماعت کا ممبر تھا۔ طغیانی ناپنے کا آلہ ایجاد کیا،دھوپ گھڑی پیش کی۔ علم ہیئت میں بھی کمال رکھتا تھا۔ جوامع العلوم کتاب مرتب کی۔ اس کتاب کے ترجمے ہو چکے ہیں۔احمد کثیر فرغانی علم ہیئت کا ماہر، کامیاب سول انجینئر اور اچھا صناع تھا۔احمد کثیر شہر فرغانہ( ترکستان میں پیدا ہوا) ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بغداد آ گیا۔ تعلیم مکمل کی اور مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ یہاں کے علمی ماحول میں اس کے جوہر کھلے۔ اس نے بہت اچھی استعداد پیدا کرلی۔ مامون الرشید کا زمانہ تھا۔ مامون نے اس کی علمی صلاحیتوں کے سبب بڑی قدر کی۔بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہر علم و فن کے قابل ترین لوگ وہاں موجود تھے۔ مامون الرشید علمی ذہن و دماغ رکھتا تھا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ زمین کے محفظ کی صحیح صحیح پیمائش کی جائے، چنانچہ اس نے انجینئروں کی ایک جماعت مقرر کی، اس جماعت نے غور و فکر کے بعد کچھ اصول اور قاعدے بنائے اور طریق کار متعین کئے ماہرین کی اس جماعت کا صدر احمد کثیر فرغانی تھا۔ شہر کوفہ کے شمال میں ایک وسیع میدان اس کام کے لئے موزوں سمجھا گیا۔ اس میدان کو دشت بخار کہتے تھے۔ اس میدان میں دو مقامات رقہ اور تدرُ کو منتخب کیا گیا۔ جملہ آلات اور سامان وہاں مہیا کر دیا گیا۔زمین کے محیط یعنی گھیر کی صحیح پیمائش کے لئے طریقہ کار یہ طے کیا گیا کہ پہلے اصطرلاب اور سُدس اور دیگر آلات کی مدد سے قطب تارے کی بلندی زاویے کے ذریعے معلوم کی جائے۔ پھر ایک مقررہ فاصلے تک آگے بڑھ کر قطب تارے کی بلند کی پیمائش کی جائے اور اب دونوں کے فرق کو معلوم کر لیا جائے۔ اس طرح زمین کے محیط کی پیمائش معلوم ہو جائے گی۔ماہرین نے پیمائش شروع کی اور حساب کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ زمین کا گھیر 25009 میل ہے۔ مامون الرشید بہت خوش ہوا۔ بیت الحکمتہ کے ممبروں میں فرغانی بھی تھا۔ اسے بھی کام کا کافی موقع ملا۔موجودہ زمانے میں جب کہ ہر طرح کی سہولتیں ہیں، نئے نئے آلات ہیں، زمین کے محیط یعنی گھیر کو 24858میل مانا جاتا ہے۔ مسلم دور کی پیمائش اور آج اس نئے دور کی پیمائش میں بقدر15 میل کا فرق ہے۔ یعنی کل غلطی صرف 6فیصد پائی جاتی ہے یہ غلطی کوئی غلطی نہیں ہے۔فرغانی کو صناعی میں بھی کمال حاصل تھا، اس نے کئی اہم چیزیں ایجاد کیں۔طغیانی ناپنے کا آلہ: اس آلہ کے ذریعے دریا کے پانی کا صحیح اندازہ ہو جاتا تھا اور معلوم ہو جاتا تھا کہ سیلاب آنے والا ہے یا نہیں۔ یہ آلہ دریا میں نصب کر دیا جاتا تھا۔دھوپ گھڑی:دوسری چیز جو بہت ضروری تھی وہ دھوپ گھڑی تھی جس سے دن میں وقت کا صحیح اندازہ ہو جاتا تھا۔فرغانی نے کئی کتابیں مرتب کیں، مشہور کتاب اس کی '' جوامع علم النجوم‘‘ ہے۔ اس کتاب کا پہلالاطینی ترجمہ بارہویں صدی عیسوی میں شائع ہوا۔ پھر دوسرا ترجمہ جرمنی میں 1537ء میں چھپا، اور تیسرا ترجمہ فرانس کے دانشوروں نے 1546ء میں شائع کیا۔ 

چہل قدمی اور توانائی

چہل قدمی اور توانائی

باقاعدگی سے پیدل چلنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ جسمانی سرگرمی کا یہ آسان اور سستا طریقہ ہے، نیز روزانہ مطلوبہ چہل قدمی سے یاسیت اور وزن میں اضافے کا خطرہ کم ہوتا ہے، ذہن اور ہڈیوں کی صحت میں بہتری کے ساتھ ساتھ زندگی کے مجموعی معیار میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں باقاعدہ جسمانی سرگرمیوں کیلئے روزانہ 10 ہزار قدم چلنے کا مشورہ بہت مقبول ہے۔ آخر 10 ہزار قدم ہی کیوں؟ کیا اس سے فٹنس کا حصول ممکن ہے؟ اس تحریر میں 10 ہزار قدم چلنے سے خرچ ہونے والے حراروں (کیلوریز) پر روشنی ڈالی گئی ہے۔بہت سے لوگوں کیلئے 10 ہزار قدم چلنا تقریباً پانچ میل (8.05 کلومیٹر) چلنے کے مساوی ہوتا ہے۔ جدید تحقیق بھی اس کی حمایت کرتی ہے کہ وزن کم کرنے اور مجموعی صحت کیلئے 10 ہزار قدم چلنا اچھا ہے۔باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) کی قدر وزن اور قد کی مناسبت سے حاصل کی جاتی ہے۔ آپ اپنا بی ایم آئی متعدد آن لائن ویب سائٹس پر وزن اور قد درج کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔ 31.7 سے 44.9تک باڈی ماس انڈیکس رکھنے والے 35 بالغوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں شرکاء کو غذائی مشاورت فراہم کی گئی اور ساتھ ہی ان کے قدموں میں درجہ بہ درجہ 10 ہزار تک اضافہ کیا گیا۔ 6 ماہ کے بعد ان شرکاء کے بی ایم آئی میں 3.7 فیصد کمی ہو گئی۔ تاہم کہا جاسکتا ہے کہ اس کمی کی ذمہ دار صرف چہل قدمی نہیں اور اس میں غذائی مشاورت کا بھی کردار ضرور ہو گا۔ حیران کن طور پر یہ جاننا آسان نہیں کہ 10 ہزار قدم اٹھانے سے آپ کے کتنے حرارے خرچ ہوئے۔ دراصل ہر فرد کی مقدار میں فرق ہو سکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسمانی سرگرمی کے نتیجے میں خرچ ہونے والے حراروں پر مختلف عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ حراروں کی مقدار کے خرچ ہونے میں ایک بڑا عامل جسم کا سائز اور وزن ہے۔ چھوٹے جسم کی نسبت بڑے کو حرکت دینے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ پتھریلی چٹان پر 5 میل چڑھتے ہیں تو ہر ایک منٹ میں آپ کے 7 سے زیادہ حرارے خرچ ہوں گے۔ اگر آپ 3 سے 4 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑی سے اترتے ہیں تو شاید ہر منٹ میں آپ 3.5 سے 7 حرارے خرچ کریںگے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 10 ہزار قدم چلنے کی نسبت 4 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے سے اوسطاً 153 زیادہ حرارے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک اور عامل جسے عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جینیات ہے۔ 2 ہفتوں تک 8 جڑواں افراد کی جسمانی سرگرمی سے خرچ ہونے والے حراروں کی پیمائش کی گئی جس کے بعد محقق اس نتیجے پر پہنچے کہ روزمرہ زندگی میں حراروں کے خرچ میں جینیات 72 فیصد تک اثر ڈال سکتی ہے۔ علاوہ ازیں چوہوں پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ مستقل سرگرم رہنے والے اور زیادہ دوڑنے کی صلاحیت رکھنے والے چہل قدمی کے دوران اپنے پٹھوں کو زیادہ حرارت پہنچاتے ہیں۔ 10 ہزار قدم چلنے پر آپ کتنے حرارے خرچ کرتے ہیں، یہ جاننے کیلئے مدِنظر رکھے جاتے ہیں،وزن، ورزش کی شدت اور ورزش کا عرصہ۔ ان عوامل کے تحت ایک مساوات کے ذریعے چہل قدمی یا ورزش کے دوران خرچ ہونے والے حراروں کا پتا لگایا جا سکتا ہے، مساوات یہ ہے: خرچ ہونے والے حرارے فی منٹ = 0.0175 × ایم ای ٹی × وزن( کلوگرام میں)اس مساوات کو استعمال کرنے کیلئے آپ کو کچھ باتیں معلوم کرنا ہوں گی۔(1) ''ایم ای ٹی‘‘ (میٹابولک اکوئی ویلنٹ آف ٹاسک‘‘)۔ ایم ای ٹی اس شرح کی نمائندگی کرتا ہے جس میں کسی جسمانی سرگرمی کے دوران آپ حرارے خرچ کرتے ہیں۔ سرگرمیوں کی نوعیت کے اعتبار سے ایم ای ٹی مختلف ہوتی ہے۔ پیدل چلنے میں ایم ای ٹی 2 سے 10 تک ہو سکتی ہے جس پر رفتار اور پیدل چلنے والی سطح جیسے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقے پر یا ریس کے دوران بائیسکل چلانے پر ایم ای ٹی 14 سے 16 اور کھانا پکاتے ہوئے2.5 ہوتی ہے۔ (2) کلوگرام میں اپنا وزن۔ اگر آپ کو اپنا وزن پاؤنڈ میں معلوم ہے تو اسے کلوگرام میں بدل لیں۔ اس کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ پاؤنڈ میں اپنے وزن کو 2.2 پر تقسیم کر لیں۔ (3) یہ نوٹ کریں کہ 10 ہزار قدم پیدل چلنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے۔ چونکہ اس مساوات میں فی منٹ کے لحاظ سے حراروں کا حساب رکھا جاتا ہے اس لیے آپ کل منٹوں سے ضرب دے کر 10 ہزار قدموں کے دوران خرچ ہونے والے حرارے پا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اس میں 1.5 گھنٹے (90 منٹ) لگے ہیں تو آپ کی مساوات کچھ یوں ہو گی: خرچ ہونیوالے حرارے= 0.0175×ایم ای ٹی×کلوگرام میں وزن×90 (منٹ)4۔ جب آپ اپنا ایم ای ٹی، کلوگرام میں وزن اور 10 ہزار قدموں میں صرف ہونے والا وقت معلوم کر لیں گے تو آپ اس مساوات میں یہ ڈیٹا داخل کر کے مکمل اندازہ لگا سکیں گے۔ ذیل میں گراف سے مثالیں دی جا رہی ہیں کہ جسمانی وزن اور قدموں کی رفتار میں فرق سے حراروں کے خرچ ہونے پر کیسے فرق پڑتا ہے۔

حکایت رومیؒ آنسو

حکایت رومیؒ آنسو

ایک کتانزع کے عالم میں تھا اور اس کا مالک پاس بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔ فرط رنج سے اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔روتا جاتا اور کہتا جاتا کہ ''ہائے مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا،میں کیا کروں، کدھر جائوں ، کون سا جتن کروں کہ میرے پیارے کتے کی جان بچ جائے‘‘۔غرض کہ اسی طرح سے اونچی آواز سے رو رہا تھا۔ اتنے میں ایک فقیر ادھر سے گزر ا۔ کتے کے مالک کو یوں بے حال دیکھا تو پوچھ بیٹھا کہ ''بھائی خیر تو ہے، یوں گلا پھاڑ پھاڑ کر کیوں رو رہا ہے؟‘‘کتے کے مالک نے جواب دیا : '' کیا کہوں، کون میری فریاد سننے والا ہے، میرا یہ کتا جس پر نزع کا وقت طاری ہے، بڑے اوصاف والا ہے۔ چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو ایسا کتا نہ ملے گا۔ رات کو میرے مکان کی نگہبانی کرتا ہے، کیا مجال کہ کوئی پرندہ بھی ادھر پر مارے۔کتا کیا،اسے شیر کہو شیر، بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ہیبت ناک ، اونچا قد، دوڑنے میں ہرن کو مات کر دے، اسے دیکھ کر چور اچکوں کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح شکار کے تعاقب میں نکلتا ہے، ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ بلا کا قانع، بے غرض اور وفادار۔ میں نے جو دے دیاوہی کھالیا‘‘۔ فقیر نے بے حد متاثر ہو کر چوچھا: ''تیرے کتے کو تکلیف کیا ہے؟ کیا کوئی مہلک زخم آ گیا ہے؟‘‘ کتے کے مالک نے جواب دیا : ''بھوک سے اس کا دم نکالا جا رہا ہے، اور کوئی بیماری نہیں۔ کئی دن ہو گئے ، اسے کچھ کھانے کو نہیں ملا‘‘۔ فقیر نے کہا : ''بھائی اب صبر کرو، اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے، خدا کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ صبر کا پھل بھی دیتا ہے‘‘۔ اتنے میں فقیر کی نظر رونے والے کی کمر پر پڑی۔ جہاں کپڑے میں کوئی چیز بندھی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ فقیر نے پوچھا ''میاں! اس کپڑے میں کیا چیز لپیٹی ہوئی ہے ؟‘‘یہ میں نے کل کے لئے کچھ روٹیاں اور کھانے کا سامان رکھا ہوا ہے‘‘۔وہ بولا۔ فقیر حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے کہا : ''ارے ظالم ، کتا اتنا اچھا ہے تو اسے کیوں نہیں دیتا کھانے کو‘‘!وہ شخص کہنے لگا ''کتے سے مجھے اس حد تک محبت نہیں ہے کہ اپنی روٹی اسے دے دوں۔ روٹیاں بغیر پیسوں کے نہیں ملتیں۔ یہ جو آنسو اس کیلئے بہا رہاہوں، یہ میرے پاس مفت ہیں، فالتو ہیں، آنسو بہانے پر کوئی خرچ نہیں آتا، سو میں اس پے بہا رہاہوں‘‘۔فقیر بولا: ''لعنت ہو تیری اس عقل اور محبت پر۔ تیری مثال تو اس مشک کی سی ہے جس میں ہوا بھری ہوتی ہے۔ خاک تیرے سر پر، تیرے نزدیک روٹی کا ایک ٹکڑا آنسو سے زیادہ قیمتی ہے۔ ارے نامراد، آنسو تو وہ خون ہے جسے غم اور صدمے نے پانی بنا دیا ہے‘‘۔ ''ارے ظالم! خون کی قیمت خاک کے برابر کیسے ہو سکتی ہے‘‘۔ درس حیات: اگر تم ضرورت مند کی مدد کرنے کے قابل ہو تو اس کے لئے ہمدردی کے چند الفاظ بولنا کافی نہیں ہیں، بلکہ تم پر فرض ہے کہ اس کی مدد کرو۔ 

آج کا دن

آج کا دن

برج خلیفہ کی تعمیر دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہوں گے جن کی وجہ شہرت ان کے کسی شہر کی وجہ سے ہوتی ہو گی،ورنہ عمومی طور پر شہر اپنے ملکوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔اٹلی کا ایسا ہی ایک شہر وینس ہے جسے نہ صرف سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے بلکہ اس سے زیادہ اس کی شناخت ایک رومان پرور شہر کے طور پر کی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وینس بنیادی طور پر صوبہ وینیتو کا صدر مقام ہے۔ جس کی کل آبادی 2 لاکھ 70 ہزار کے قریب ہے لیکن وینس میٹروپولیٹن سٹی کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر ایک عرصے سے سالانہ دو سے تین کروڑ سیاحوں کی میزبانی کرتا آرہا ہے۔ ایک اندازے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ 50 ہزار آبادی والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ سیاح وینس میں موجود رہتے ہوں گے؟۔ٹیلی گراف کی ایجادشعبہ ٹیکنالوجی میں جدت پسندی کا پہلا قدم ٹیلی گراف کی ایجاد سے ہوا، جسے پہلی بار سامویل مورس نے 1838ء میں آج کے دن متعارف کروایا۔ ''ٹیلی گرافی‘‘ پیغامات کی طویل فاصلے تک منتقلی کا نظام ہے، جہاں بھیجنے والا علامتی کوڈز استعمال کرتا ہے، جو کہ وصول کنندہ کو معلوم ہوتا ہے۔اس تخلیق نے مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ انسانی زندگی میں معلومات بھیجنے اور وصول کرنے کے عمل کو تیز کیا۔ نیو میکسیکو امریکہ کی 47 ویںریاست بنی1912ء میں آج کے روز نیو میکسیکو کو 47 ویں امریکی ریاست کے طور پر یونین میں شامل کیا گیا۔ یہ رقبے کے لحاظ سے متحدہ امریکہ کی پانچویں بڑی ریاست ہے، لیکن اس کی آبادی صرف 21 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کی آب و ہوا اور جغرافیہ انتہائی متنوع ہے۔نیو میکسیکو کی ایک تہائی اراضی وفاق کی ملکیت ہے۔ جنگل کے پہاڑوں سے لے کر صحراؤں تکِ شمالی اور مشرقی علاقے سردہیں جبکہ مغرب اور جنوب گرم اور زیادہ خشک ہیں۔مسافر طیارے میں بم دھماکہ1960ء میں آج کے روز نیشنل ایئر لائنز کی پرواز 2511 نیویارک سے میامی جاتے ہوئے فضاء میں ایک بم سے تباہ ہو گئی۔نیشنل ایئرلائن کے طیارے میں عملے کے 5 ارکان اور 29 مسافر سوار تھے، جن میں سے سبھی ہلاک ہوگئے۔ سول ایروناٹکس بورڈ کی تحقیقات نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ طیارہ بارود سے بنے بم سے گرایا گیا۔ کوئی مجرمانہ الزامات کبھی درج نہیں کیے گئے، اور نہ ہی کبھی بم دھماکے کیلئے الزام کا تعین کیا گیا، حالانکہ شبہ ہے کہ خودکش بم حملہ کیا گیاتھا۔