سونے سے پہلے موبائل فون کا استعمال

سونے سے پہلے موبائل فون کا استعمال

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد علی


ہر دوسرا شخص بے خوابی کا مریض کیوں ہے؟

آج کے ڈیجیٹل دور میں سمارٹ فون ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ ہماری روزمرہ کی سرگرمیوں سے لے کر تفریح تک، ہر کام میں فون ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سونے سے قبل موبائل فون کا استعمال نیند اور صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ سائنسی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ رات کو سونے سے پہلے سکرین کا استعمال نہ صرف نیند کے معیار کو متاثر کرتا ہے بلکہ طویل مدتی صحت کے مسائل کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
طبی نفسیات کے تحقیقی جریدے ''Frontiers in Psychiatry‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بستر میں لیٹ جانے کے بعد ایک گھنٹے تک کا سکرین ٹائم ایک عام انسان کیلئے بے خوابی کے خطرے میں 59 فیصد اضافہ کر دیتا ہے۔
نیلی روشنی اور میلیٹونن کی کمی
فون کی سکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی (Blue Light) انسانی جسم کے قدرتی کلاک (Circadian Rhythm)کو متاثر کرتی ہے۔ یہ روشنی خاص طور پر 450-480 نینومیٹر کی لہریں خارج کرتی ہے جو آنکھوں کے ریٹینا تک پہنچ کر دماغ کو اشارہ دیتی ہے کہ دن کا وقت ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم کا میلیٹونن ہارمون کم بنتا ہے جو کہ نیند کو کنٹرول کرنے والا اہم ہارمون ہے۔
ہارورڈ میڈیکل سکول کی ایک تحقیق کے مطابق شام کو صرف دو گھنٹے تک ایل ای ڈی سکرین کے سامنے رہنے سے میلیٹونن کی پیداوار میں 23فیصد تک کمی واقع ہوتی ہے۔ نتیجتاً نیند آنے میں دشواری ہوتی ہے اور نیند کا دورانیہ مختصر بھی ہوجاتا ہے۔
ذہنی بے چینی اور دماغی سرگرمیوں میں اضافہ
فون کا استعمال صرف روشنی تک محدود نہیں سوشل میڈیا، میسجز یا ویڈیوز دیکھنا دماغ کو مصروف رکھتا ہے جس سے ذہنی تناؤ اور بے چینی بڑھ سکتی ہے۔ سویڈن کی یونیورسٹی آف گوتھنبرگ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ رات کو سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے نوجوانوں میں نیند کے مسائل اور ڈپریشن کی شرح عام لوگوں سے دوگنی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پلیٹ فارمز پر منفی خبریں یاسنسنی خیزمواد دماغ کو سونے سے پہلے پرسکون نہیں ہونے دیتا۔
نیند کے مراحل میں خلل
انسانی نیند مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے، ان میں گہری نیند (REM Sleep) سب سے اہم ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب جسم اور دماغ کی مرمت کا عمل تیز ہوتا ہے۔ جرنل آف کلینیکل سلیپ میڈیسین کی ایک رپورٹ کے مطابق جو لوگ سونے سے قبل فون استعمال کرتے ہیں ان میں REM نیند کا دورانیہ 20 سے 30 فیصدتک کم ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صبح اٹھنے پر تھکاوٹ، چڑچڑاہٹ اور کام پر توجہ مرکوز کرنے میں دشواری جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
طویل مدتی صحت کے خطرات
نیند کی کمی صرف تھکاوٹ تک محدود نہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے 2020ء کے اعدادوشمار کے مطابق مسلسل خراب نیند موٹاپے، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو 40 فیصدتک بڑھا دیتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ فون کے استعمال کی وجہ سے نیند کے اوقات میں بے قاعدگی ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی 2018ء کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ رات کو سکرین کے سامنے گزارے گئے وقت کا تعلق یادداشت کی کمزوری اور الزائمر جیسے اعصابی امراض سے بھی ہے۔
حل کی تجاویز
سونے سے قبل فون کا استعمال اگرچہ ایک معمول اور عادت بن چکا ہے لیکن سائنسی شواہد سے ثابت ہے کہ یہ عادت نہ صرف ہماری نیند کو تباہ کررہی ہے بلکہ طویل مدتی بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھاتی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی عادات پر نظرثانی کریں اور فون کے استعمال کو متوازن بنائیں‘ کیونکہ اچھی نیند ہی صحت مند زندگی کی کنجی ہے۔ سونے سے قبل سکرین کے استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچنے کیلئے ہمیں اپنے روزمرہ معمولات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مندرجہ تجاویز پر عمل کر کے ان مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
سکرین کا وقت محدود کریں
سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے فون، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ کا استعمال بند کردیں۔
نیٹ فلٹرز استعمال کریں
فون کی ڈسپلے سیٹنگز میں نائٹ موڈ کو فعال کریں، جو نیلی روشنی کو کم کردیتا ہے۔
پرسکون سرگرمیاں اپنائیں
کتاب پڑھنا یا ہلکی موسیقی سننا دماغ کو سکون دیتا ہے۔
بیڈروم ماحول کو بہتر بنائیں
کمرے کو اندھیرا اور خاموش رکھیں تاکہ قدرتی نیند کے ہارمونز متحرک ہوں۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں:رنگیلا کا ہر رنگ نرالا ، انداز جداگانہ

یادرفتگاں:رنگیلا کا ہر رنگ نرالا ، انداز جداگانہ

''وے سب توں سوہنیا ، ہائے وے من موہنیا۔۔!‘‘پاکستان فلم انڈسٹری کے ہر فن مولا فنکار کی آج 20ویں برسی ہےاداکاری کے مخصوص انداز سے شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے اداکا ررنگیلا کو بچھڑے 20 برس بیت گئے، فلموں میں 42سال تک ہنسانے والے رنگیلا فلم انڈسٹری کا اثاثہ تھے۔آج ان کی برسی منائی جا رہی ہے۔وہ پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے بطور ورسٹائل اداکار، پروڈیوسر، ہدایتکار، مصنف، نغمہ نگار، گلوکار اورموسیقار خدمات سر انجام دیں۔ایک ایکسٹرا اداکار سے چوٹی کا مزاحیہ اداکار بننے والے اس عظیم فنکار نے وہ مقام حاصل کر لیا تھا کہ اسے کچھ کہنے ، کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کیونکہ فلم بین اسے دیکھتے ہیں ہنس پڑتے تھے۔جب اس نے فلم بنانے کا اعلان کیا تو لوگ اسے بھی مذاق ہی سمجھے لیکن جب1969ء میں اس نے بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ، فلم '' دیا اور طوفان‘‘ بنائی تو ناقدین حیران رہ گئے ۔ اوپر سے بطور گلوکار بھی اس کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا اور ''گا میرے منوا گاتا جارے‘‘ ہر طرف گایا جانے لگا تھا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ یہ مشہورزمانہ گیت لکھا ہوا بھی ان کا اپنا تھا۔اس کے بعد جب اس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنے فلمی نام پر فلم ''رنگیلا‘‘ بنائی تو اس میں وہ ہیرو بھی خود تھے۔ وہ شکل سے ہیرو لگتے ہی نہیں تھے لیکن کمال دیکھیے کہ پورا ملک ان کے حسن کے ترانے گنگنانے پر مجبور ہو گیا تھا کہ ''وے سب توں سوہنیا ، ہائے وے من موہنیا!‘‘ اس نے بطور موسیقار اور نغمہ نگار بھی تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا تھا۔یکم جنوری 1937ء کوخیبر پختونخواہ کے علاقے پاراچنار میں پیدا ہونے والے سعید خان نے رنگیلا کے نام سے شہرت پائی۔عملی زندگی کا آغاز باڈی بلڈنگ سے کیا، اس عظیم فنکارنے شروع میں کئی فلموں کے بورڈ تک بھی پینٹ کئے اور پھر اسٹیج کی ر اہ اختیار کرلی۔اپنے فلمی کریئر کا آغاز انہوں نے 1958 میں فلم ''جٹّی‘‘ سے کیا جس میں انہوں نے اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔1969ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''دیا اور طوفان‘‘ میں بہترین مزاحیہ اداکاری کے ساتھ ساتھ بطور رائٹر، گلو کار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے طور پر عوام کے سامنے آئے اور اپنی قابلیت منوائی۔رنگیلا پروڈکشن کے بینر تلے انہوں نے متعدد فلمیں بنائیں، ان کی مشہور فلموں میں رنگیلا، دل اور دنیا، کبڑا عاشق، عورت راج، پردے میں رہنے دو، ایماندار، بے ایمان، انسان اور گدھا اوردو رنگیلے‘‘ شامل ہیں۔ رنگیلا کی بطور ہدایتکار 21 فلمیں ہیں اور گیارہ گیارہ فلمیں بطور فلمساز اور مصنف تھیں۔ بطور موسیقار اور نغمہ نگار دو دو فلمیں تھیں۔بطور گلوکار 21 فلموں میں 32 گیت ملتے ہیں اور متعدد سپرہٹ گیت گائے تھے۔رنگیلا نے فلموں کے عام کامیڈین سے ہیرو شپ تک کا سفر انتھک محنت اور خداداد صلاحیتوں کے بل پر طے کیا، پردہ سکرین پر رنگیلا اور منور ظریف کی آمد فلم بینوں میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی۔انہوں نے اپنے دور کی تمام ہیروئینوں کے مقابل مرکزی کردار ادا کئے، اس کے علاوہ بہترین اداکاری اور دیگر شعبوں میں شاندار کاکردگی پر 9 مرتبہ نگار ایوارڈ بھی انہوں نے اپنے نام کیے۔اداکاری ہو یا گلوکاری رنگیلا نے ہر شعبے میں اپنے آپ کو منوایا۔بیالیس برسوں پر محیط کریئر میں چھ سو سے زائد فلموں میں فن کے جوہر دکھائے اور متعدد ایوارڈ اپنے نام کئے۔ان کی مقبول فلموں میں کبڑا عاشق، دوستی، دل اور دنیا، رنگیلا، دیا اور طوفان، نوکر تے مالک، سونا چاندی، مس کولمبو، نمک حلال، راجہ رانی شامل ہیں۔رنگیلا پر مسعودرانا کے چار درجن کے قریب گیت فلمائے گئے تھے جن میں زیادہ تر مزاحیہ گیت تھے۔ان میں 21گیت اردو تھے جبکہ 26گیت پنجابی زبان میں تھے۔1991ء میں رنگیلا نے جگر اور گردے کے عارضے میں مبتلا رہنے کے باعث فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پھر24 مئی 2005 کو اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئے۔رنگیلا کا ہر رنگ نرالا اور انداز جداگانہ تھا، انہوں نے لوگوں میں بے شمار خوشیاں بانٹیں اور فلم انڈسٹری پر وہ ان مٹ نقوش چھوڑے کہ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فلمی تاریخ ہمیشہ ادھوری رہے گی۔اداکار رنگیلا کو مزاح کا  بادشاہ کہا جائے تو  بے جا نہ ہو گا،انہوں نے68 برس کی عمر میں وفات پائی لیکن آج بھی وہ اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ 

گلیشیئرز کی کٹائی !

گلیشیئرز کی کٹائی !

ماحولیاتی نظام خطرے میں،قانون سازی کی جائےسیاحت کے دوران اہم مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلند دروں پر پڑی برف نے راستے روک رکھے ہوتے ہیں اور گلیشیر کی وجہ سے اہم گزر گاہیں بند ملتی ہیں۔ ناران سے گلگت جاتے ہوئے بھی یہی مسئلہ درہیش ہوتا ہے کہ وسط جون تک بابوسر ٹاپ بند ملتا ہے۔ راستہ کھولنے کیلئے برف کے حصاروں کو توڑ کر اور کاٹ کر راستہ بنایا جاتا ہے۔ ہم نے خود متعدد بار یہ بھی دیکھا کہ مزدور بیلچوں سے برف کاٹ کر ٹرکوں میں بھرتے ہیں اور پھر وہ چلاس اور رائے کوٹ کے بازاروں میں فروخت ہوتی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والے وکلاء کی درخواست پر چترال سمیت مالاکنڈ ڈویڑن کے مختلف اضلاع میں برفانی تودے کاٹنے اور اس کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔پشاور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرواتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ چترال، سوات، دیر، شانگلہ اور کاغان/ ناران میں برفانی تودوں کی کٹائی سے ماحولیاتی نظام کو نقصان ہو رہا ہے۔برفانی تودوں کے کمرشل استعمال پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ گلیشیئر اور ایوالانچ، جنہیں اردو میں عام طور پر برفانی تودا ہی کہا جاتا ہے، میں کیا فرق ہے۔حمید احمد چترال میں گلیشیئرز کے حوالے سے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے منصوبے GLOF کے سابق منیجر اور ابھی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے کوآرڈینیٹر ہیں اور گلیشیئرز پر مختلف تحقیقی مقالوں کا حصہ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ میں نے پڑھا ہے، لیکن اس میں کچھ چیزیں تکنیکی ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔برفانی تودا کاٹنے اور اس کے کمرشل استعمال کی بات جب آتی ہے، تو اس میں گلیشیئرز نہیں بلکہ ایوالانچ کا استعمال ہوتا ہے، جس کو برف کے استعمال کیلئے کاٹ کر فروخت کیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ گلیشیئرز بہت زیادہ بلندی پر ہوتے ہیں اور وہاں جانا اور پھر اس کو کاٹنا بہت مشکل عمل ہے، جبکہ گلیشیئرز کو کسی عام آلے سے کاٹنا بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ وہ عام برف سے سو گنا سخت ہوتا ہے، جبکہ عام برف کی ایک کیوبک میٹر کا وزن 300 کلوگرام، جبکہ گلیشیئر کا ایک کیوبک میٹر وزن ایک ہزار کلوگرام ہوتا ہے۔ گلیشیئرز کسی ایک موسم یا سال میں نہیں بنتے بلکہ اس کے بننے میں دہائیاں لگتی ہیں اور تب جا کر گلیشیئر بنتا ہے۔عدالتی فیصلے میں جس بات کا ذکر ہوا ہے، وہ اصل میں ایوالانچ ہے۔ ایوالانچ اور گلیشیئر کو عام زبان میں برفانی تودا کہا جاتا ہے، گو کہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔سوئٹزرلینڈ کے '' انسٹیٹوٹ فار سنو اینڈ ایوالانچ ریسرچ‘‘ کے مطابق ایوالانچ کی تین بنیادی قسمیں ہیں، جن میں ایک ''سنو ایوالانچ‘‘ کہلاتا ہے، جب سنو (آئس نہیں) کی کمزور سلیب کے اوپر برف کی مضبوط تہہ بن جائے۔دوسری قسم کو ''لوز سنو ایوالانچ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کو عام طور پر پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں برف باری کے موسم میں دیکھا جاتا ہے اور یہ پہاڑیوں کی نچلی سطح پر ہوتا ہے، جبکہ تیسری قسم کو ''گلائیڈنگ ایوالانچ‘‘ کہا جاتا ہے، جو کہ گھاس یا پتھر کے اوپر برف پڑنے سے بن جاتا ہے۔سائمن فریزر یونیورسٹی کے مطابق گلیشیئرز گرنے سے بھی ایوالانچ بن سکتا ہے، لیکن حمید احمد کے مطابق چترال، کاغان، ناران یا سوات میں گلیشیئر کا ایوالانچ نہیں بنتا بلکہ برف باری کے دوران پہاڑوں میں برف پڑنے سے ایوالانچ بنتا ہے۔ایوالانچ کے کاٹنے کے حوالے سے حمید نے بتایا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ایوالانچ کے کاٹنے سے ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ ایوالانچ آہستہ پگھل کر پودوں اور زرعی زمینوں کیلئے پانی کا ایک اہم ذخیرہ ہے۔ چترال میں 2017 سے پہلے یہ پریکٹس بہت عام تھی، لیکن اب بجلی آنے کے بعد گھروں میں فریج کا استعمال کیا جاتا ہے، تو ایوالانچ کاٹ کر برف حاصل کرنا اتنا زیادہ نہیں رہا۔ایوالانچ کی بھی پھر مختلف اقسام ہیں، جن میں ''آئس ایوالانچ‘‘ اور ''سنو ایوالانچ‘‘ شامل ہیں۔عدالت میں دائر درخواست کے مطابق یہ برفانی تودوں کے پگھلنے سے مختلف پودوں، درختوں، جانوروں اور زرعی زمینوں کیلئے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جبکہ اس کو کاٹنے سے سیلاب کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے۔تاہم درخواست گزار کے مطابق برفانی تودوں کو کمرشل مقاصد کیلئے بلاک کی شکل میں کاٹ کر فروخت کیا جا رہا ہے، جس سے اس اہم ذخیرے کو خطرہ لاحق ہے اور یہ خیبر پختونخوا ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔درخواست کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ کے فریم ورک برائے موسمیاتی تبدیلی سمیت پیرس کے بائیو ڈائیور سٹی فریم ورک پر دستخط کر چکا ہے اور اسی کے تحت گلیشیئرز کا کاٹنا غیر قانونی عمل ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کے سسٹینیبل ڈویلپمنٹ گول 13 بھی گلیشیئرز کے تحفظ کے حوالے سے ہے اور پاکستان کو اس غیر قانونی عمل کو روکنا چاہیے۔ درخواست گزار طارق افغان نے بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے گزشتہ سال خیبر پختونخوا محکمہ ماحولیات میں بھی درخواست دی تھی، لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اسی وجہ سے عدالت میں درخواست جمع کرائی۔عدالت میں 6 مئی کو درخواست پر دو رکنی بینچ نے سماعت کی اور متعلقہ اضلاع کو گلیشیئرز کی کٹائی روکنے کے احکامات جاری کیے۔ ارجنٹینا اور تاجکستان نے گلیشیئرز پر قانون سازی کی ہے تو پاکستان بھی اس کیلئے قانون سازی کرے اور گلیشیئر کی غیر قانونی کٹائی فوری طور پر روکی جائے۔

بھائی  ایک رشتہ، ایک سایہ، ایک محبت!

بھائی ایک رشتہ، ایک سایہ، ایک محبت!

اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو رشتوں کی لڑی میں پرویا ہے۔ ہر رشتہ اپنی جگہ خاص اور انمول ہے۔ بھائی ایک ایسا رشتہ ہے جس میں محبت، تحفظ، قربانی، ہمدردی اور بے لوث خلوص پایا جاتا ہے۔ بھائی وہ ہوتا ہے جو بچپن کی شرارتوں میں ساتھی، مشکل وقت میں سائبان، اور کامیابیوں کے سفر میں حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔یہ رشتہ صرف خون کا نہیں ہوتا بلکہ روح کی گہرائیوں سے جُڑا ہوتا ہے۔ ایک بھائی کا درد دوسرے بھائی کے دل میں گونجتا ہے، ایک کی خوشی دوسرے کی مسکراہٹ بن جاتی ہے۔ جب دنیا منہ موڑلیتی ہے، تب بھائی سہارا بنتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ''ورلڈ برادرز ڈے‘‘ 24 مئی کو منایا جاتاہے، جس کا مقصد بھائی کے رشتے کی عظمت کو اجاگر کرنا، اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے، جس کا مفہوم ہے: تم میں سب سے اچھے اخلاق والا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ اصل اخلاق وہی ہے جو آپ گھر میں اپناتے ہیں، جہاں کوئی دکھاوا نہیں، صرف حقیقت ہوتی ہے۔ہر رشتے کو وقت دینا پڑتا ہے۔ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں کئی نوجوان دوستوں کو تو وقت دیتے ہیں، گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں، ان کی باتیں سنتے ہیں، ہنستے کھیلتے ہیں، لیکن حقیقی بھائی کیلئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ یہ رویہ نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ قابلِ مزمت بھی ہے۔ بھائی وہ ہوتا ہے جو بچپن کا گواہ ہوتا ہے، جو ماں کی گود میں ساتھ بیٹھ کر پلا بڑھا ہوتا ہے، جس نے ہماری ہر کامیابی پر خوشی سے تالیاں بجائی ہوتی ہیں۔ اگر آپ باہر کی دنیا میں اچھے رویے سے پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اپنے سگے بھائی سے بدزبانی کرتے ہیں، اسے طنز کا نشانہ بناتے ہیں، تو آپ کو اپنے کردار اور اخلاق پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔حقیقی بھائیوں سے محبت سے پیش آئیں، اگر آپ بڑے بھائی ہیں، تو چھوٹے بھائیوں کیلئے آپ صرف بھائی نہیں بلکہ والد کے بعد ایک راہنما، محافظ اور محبت بھرا سایہ ہیں۔ ان کے کندھوں پر شفقت سے ہاتھ رکھیں، ان کی بات توجہ سے سنیں، ان کے خوابوں اور جذبوں کی قدر کریں، اور جب وہ زندگی میں کسی الجھن کا شکار ہوں تو ان کا سہارا بنیں۔ اور اگر آپ چھوٹے بھائی ہیں، تو بڑے بھائیوں کا ادب کریں، ان کی عزت دل سے کریں۔ ان کے تجربات سے سیکھیں، ان کے فیصلوں میں ان کا ساتھ دیں۔ اگر کبھی بڑے بھائی کسی وجہ سے ڈانٹ دیں اور آپ کو اختلاف ہو بھی جائے تو آپ کا انداز مؤدبانہ ہونا چاہیے، جیسے والدین سے گفتگو کرتے وقت ہوتا ہے۔ بڑے بھائی کی شخصیت، مزاج، اور رائے کا احترام کرنا آپ کے اخلاق کا عکس ہے۔ ان کے سامنے اونچی آواز سے بات نہ کریں، ان کے ساتھ مشورہ کریں اور ان کی بات کو اہمیت دیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

روس امریکہ معاہدہامریکہ اور روس کے درمیان ایک معاہدہ ہو اجسے ماسکو معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان ہتھیاروں میں کمی کا ایک اسٹریٹجک معاہدہ تھا جو جون 2003ء سے فروری 2011ء تک نافذ رہا بعد ازاں اسے نیو اسٹارٹ ٹریٹی کے ذریعے ختم کر دیا گیا ۔اس وقت اس معاہدے کو دونوں ممالک کے درمیان نئے اسٹریٹجک تعلقات کے ایک اہم عنصر کے طور پر رکھا گیا تھا اور اس پر ماسکو میں 24 مئی 2002ء کو دستخط کئے گئے۔معاہدے میں یہ بھی لکھا گیا کہ کوئی بھی فریق دوسرے کو تین ماہ کا تحریری نوٹس دینے پر معاہدے سے دستبردار ہو سکتا ہے۔بروکلین برج کا افتتاحبروکلین برج نیویارک شہر میں ایک ہائبرڈ کیبل پل ہے جو مین ہٹن اور بروکلین کے درمیان مشرقی دریا پر پھیلا ہوا ہے۔اس پل کو عام عوام کے لئے 24 مئی 1883ء کو کھولا گیا، بروکلین برج مشرقی دریا کو عبور کرنے والا پہلا پل تھا۔ جس وقت اس کا افتتاح کیا گیا یہ اس وقت دنیا کا سب سے لمبا کیبل برج تھا ۔ اس پل کو اصل میں نیویارک اور بروکلین برج یا ایسٹ ریور برج کہا جاتا تھا لیکن 1915ء میں باضابطہ طور پر اس کا نام بدل کر بروکلین برج رکھ دیا گیا۔ بحیرہ ایجیئن میں شدید زلزلہ 24 مئی 2014ء کو یونان اور ترکی کے درمیان شمالی بحیرہ ایجیئن میں شدید زلزلہ آیا۔ جس کی شدت 6.9 ریکارڈ کی گئی۔ ترکی کے جزیرے امبروس اور ایڈیرنے اور چاناکلے کے شہروں کے ساتھ ساتھ یونانی جزیرے لیمنوس میں بھی شدید نقصان اور تباہی ہوئی۔ زلزلے کے جھٹکے بلغاریہ اور جنوبی رومانیہ میں بھی محسوس کیے گئے۔ مرکزی جھٹکے کے بعد کئی آفٹر شاکس بھی آئے جس کی شدت 5.3 ریکارڈ کی گئی۔ان آفٹر شاکس کی وجہ سے وہ عمارتیں زمین بوس ہو گئیں جنہیں زلزلے سے نقصان پہنچا تھا۔ اس زلزلے میں450ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔   

فیلڈ مارشل کا عہدہ تاریخ، اہمیت اور تفصیلات

فیلڈ مارشل کا عہدہ تاریخ، اہمیت اور تفصیلات

دنیا بھر میں عسکری مراتب کی باقاعدہ درجہ بندی ہوتی ہے جس کے ذریعے افواج میں قیادت، اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ ان مراتب میں سب سے اعلیٰ اور باوقار عہدہ ''فیلڈ مارشل‘‘ (Field Marshal) کا ہوتا ہے، جو عموماً جنگی مہارت، عسکری خدمات اور قومی سطح پر دفاعی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہ عہدہ اکثر علامتی نوعیت کا بھی ہوتا ہے لیکن اس کی تاریخی اہمیت اور عسکری وقار غیر معمولی ہے۔فیلڈ مارشل ایک پانچ ستارہ فوجی عہدہ ہے جو بری فوج میں دیا جاتا ہے۔ یہ عہدہ عام طور پر کسی افسر کو اس وقت دیا جاتا ہے جب وہ نہ صرف افواج کی قیادت کے اعلیٰ معیار پر پورا اترے بلکہ قومی سطح پر اس کی عسکری خدمات نمایاں ہوں۔ فیلڈ مارشل کا رینک جنرل سے بھی بلند ہوتا ہے اور یہ جنگی تاریخ میں ایک مخصوص مقام رکھتا ہے۔عہدے کا تاریخی پس منظرفیلڈ مارشل کا تصور سب سے پہلے یورپ میں ابھرا تھا۔ خاص طور پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں۔ اس کا آغاز 17ویں صدی کے دوران ہوا۔ جرمنی میں ''فیلڈ مارشل‘‘ (Feldmarschall) کا عہدہ سلطنتِ مقدسِ روم (Holy Roman Empire) کے دور میں مستعمل تھا جبکہ فرانس میں بھی اس کا ہم پلہ عہدہ ''مارشل آف فرانس‘‘ (Marshal of France) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ برطانیہ میں فیلڈ مارشل کا عہدہ 1736ء میں متعارف ہوا اور تب سے اب تک یہ عہدہ مخصوص عسکری شخصیات کو دیا جاتا رہا ہے۔ برطانوی سلطنت کے زیرِ اثر ممالک، بشمول پاکستان،بھارت، آسٹریلیا، مصر اور دیگر ممالک میں بھی یہ عہدہ وقتاً فوقتاً دیا جاتا رہا ہے۔ بعض ممالک میں، جیسا کہ سپین اور میکسیکو، یہ عہدہ کبھی ڈویژنل کمانڈ کی نشاندہی کرنے کیلئے استعمال ہوتا تھا جبکہ پرتگال اور برازیل میں یہ بریگیڈ کمانڈ کیلئے۔ بہرحال یہ رینک انتہائی معتبر ہے اس لیے پوری تاریخ میں کچھ انتہائی نامور عسکری عہدیدار ہی اس عہدے کو حاصل سکے ہیں۔ خصوصیات و علامتی حیثیت٭...فیلڈ مارشل کا عہدہ عمومی طور پر پانچ ستارہ (Five star) درجہ رکھتا ہے۔ ٭...تاحیات ہوتا ہے یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ اعزازی حیثیت میں برقرار رہتا ہے۔٭... اسے قومی ہیرو یا جنگی فاتح کے طور پر اعزاز کے طور پر دیا جاتا ہے۔ ٭...اس کا تعلق عام فوجی کمان سے کم اور قومی اعزاز سے زیادہ ہوتا ہے۔٭...اکثر ممالک میں یہ عہدہ علامتی ہوتا ہے تاہم اس کے حامل عسکری مشاورت یا عسکری نمائندگی کی سطح پر موجود رہتے ہیں۔ فیلڈ مارشل کے مشہور حاملینفیلڈ مارشل برنارڈ مونٹگمری (برطانیہ) : دوسری جنگ عظیم کے ممتاز برطانوی جنرل جنہوں نے نازی جرمنی کے خلاف افواج کی قیادت کی۔فیلڈ مارشل برنارڈ مونٹگمری شاید جدید سینئر رینکنگ برطانوی افسران میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم اور آئرش جنگِ آزادی میں خدمات انجام دیں لیکن غیر مبہم طور پر اپنی شہرت دوسری جنگ عظیم میں اپنی خدمات کے دوران حاصل کی۔ انہوں نے شمالی افریقہ میں اروین رومیل کے خلاف اتحادیوں کی قیادت کی نیز اٹلی اور نارمنڈی میں لینڈنگ کے دوران برطانوی اور کینیڈین افواج کی قیادت کی۔فیلڈ مارشل ارون رومیل (جرمنی) : نازی جرمنی کے مشہور ''ڈیزرٹ فاکس‘‘جنہوں نے شمالی افریقہ میں جنگ لڑی۔ ایرون رومیل نے دوسری جنگ عظیم کے شمالی افریقی تھیٹر میں فوجوں کی قیادت کی اور فرانس پر حملے کے دوران 7ویں پینزر ڈویژن کی کمان کی۔جلد ہی انہیں شمالی افریقہ منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے ایک ٹینک کمانڈر کی حیثیت سے خاصی شہرت حاصل کی اور اس کے بعد فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی حاصل کر لی۔ اسی مہم کے دوران انہیں ''ڈیزرٹ فاکس‘‘ کا لقب ملا۔ ایرش جارج ایڈورڈ وون مانسٹائن:پہلی جنگ عظیم میں خدمات انجام دینے کے بعد ایرش وون مانسٹائن کو ایک مضبوط حکمت کار سمجھا جاتا تھا۔جب وہ دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوجی صفوں میں آگے بڑھے۔ درحقیقت یہ ان کا منصوبہ تھا جسے 1940ء میں فرانس پر حملے کے لیے منتخب کیا گیا تھا تاہم جنگ میں ان کا بنیادی کردار جون 1941ء میں شروع ہونے والے سوویت یونین پر حملے میں تھا۔ وان مانسٹین کو یکم جولائی 1942ء کو سیواستوپول کے محاصرے اور جزیرہ نما کرچ کی جنگ کے بعد فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ سوویت یونین میں ان کی کئی کوششیں ناکام رہیں لیکن 1943ء میں کرسک کی جنگ کے دوران انہوں نے کامیابی حاصل کی تاہم اپنی فوجوں کی کمان کرتے ہوئے جرمن قیادت کے ساتھ جنگ لڑنے کے طریقوں کے بارے میں ان کے مسلسل اختلافات رہے۔ایچ آر ایچ پرنس فلپ:ہز رائل ہائینس پرنس فلپ، ڈیوک آف ایڈنبرا اور مرحوم ملکہ الزبتھ دوم کے شوہر نے دوسری جنگ عظیم میں خدمات انجام دیں لیکن یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ انہیں فیلڈ مارشل بنایا گیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے پہلے ہی ڈارٹموتھ میں برطانوی رائل نیول کالج میں شرکت کرتے ہوئے بحری کیریئر کا آغاز کر دیا تھا۔وہیں ان کی ملاقات اپنی مستقبل کی شریک حیات سے ہوئی۔ انہوں نے پوری جنگ میں بحریہ میں خدمات انجام دیں۔ 1940ء میں انہوں نے بحر ہند میں تعینات ایک جہاز پر خدمات انجام دیں اور پھر 1941ء میں سکندریہ‘ مصر چلے گئے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ انہیں فرسٹ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ یہ عہدہ جنگ کے خاتمے پر ان کے پاس برقرار رہا اور 1947ء میں انہوں نے الزبتھ کر لی۔ جب 1952ء میں اُن کی اہلیہ تخت نشین ہوئیں تو فلپ کو متعدد فوجی عہدے دیئے گئے جن میں برطانیہ کے فیلڈ مارشل کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بھی عہدے شامل تھے۔پاکستان میں فیلڈ مارشل کا عہدہپاکستان میں آج تک صرف دو شخصیات کو فیلڈ مارشل کا درجہ دیا گیا ہے: جنرل محمد ایوب خان اور جنرل سید عاصم منیر۔ایوب خان کا فیلڈ مارشل بننا ایوب خان پاکستان کے پہلے مقامی سپہ سالار تھے جنہیں 1951ء میں آرمی چیف بنایا گیا۔ 1958ء میں وہ ملک کے پہلے فوجی آمر کے طور پر ابھرے جب انہوں نے مارشل لاء نافذ کیا۔1959ء میں بطور صدر اور آرمی چیف انہوں نے خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ ان کا یہ اقدام بعض حلقوں میں سیاسی علامتی قدم سمجھا گیا جس کا مقصد اپنی طاقت اور وقار کو فوجی اور سیاسی دونوں سطح پر مستحکم کرنا تھا۔ ان کے دورِ حکومت میں فیلڈ مارشل کی وردی، سلامی اور دیگر اعزازات کا استعمال سرکاری طور پر ہونے لگا۔یہ امر قابلِ غور ہے کہ ایوب خان کو یہ عہدہ جنگی فتوحات یا عسکری میدان میں عظیم کارنامے انجام دینے کے باعث نہیں بلکہ بطور سیاسی حکمران خودساختہ طور پر دیا گیا تھا، جس پر بعد ازاں کئی تجزیہ نگاروں اور تاریخ دانوں نے تنقید کی۔  

اڑنے والی کار اڑان بھرنے کو تیار

اڑنے والی کار اڑان بھرنے کو تیار

جدید ٹیکنالوجی کے ایک اور خواب کو حقیقت کا روپ دینے کا وقت قریب آ گیا ہے ۔ دنیا کی پہلی بڑے پیمانے پر تیار کی جانے والی اْڑنے والی کار آئندہ چند ماہ میں فروخت کیلئے پیش کی جا رہی ہے، لیکن یہ خواب ہر کسی کیلئے نہیں، بلکہ صرف اْن کیلئے ہے جو 10 لاکھ امریکی ڈالر (تقریباً 28 کروڑ 37لاکھ پاکستانی روپے) ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔سلوواکیہ کی کمپنی ''کلین وژن‘‘ کا دعویٰ ہے کہ اس کی ''ایئر کار‘‘ دنیا کی پہلی بڑے پیمانے پر تیار کی جانے والی اْڑنے والی کار 2026ء کے اوائل میں فروخت کیلئے دستیاب ہوگی۔یہ جدید اڑن کار ایک ایسے وقت میں مارکیٹ میں آ رہی ہے جب شہروں میں ٹریفک کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ سفر کے لیے تیز تر اور آسان ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایجاد شہری نقل و حمل کے ایک نئے دور کی شروعات ہو سکتی ہے۔کار کی خصوصیاتاس جدید گاڑی کو ''Pal-v Liberty‘‘ یا ''Model A‘‘ جیسے نام دیے جا رہے ہیں۔یہ عجیب و غریب ہائبرڈ گاڑی، جو ایک اسپورٹس کوپ کی طرح تیار کی گئی ہے، چار پہیوں اور دو پروں پر مشتمل ہے۔ یہ پہلے رن وے پر رفتار پکڑتی ہے اور پھر ہوا میں بلند ہو جاتی ہے۔ یہ چند منٹوں میں زمین سے فضا میں بلند ہو سکتی ہے اور ایک مخصوص حد تک اڑان بھر سکتی ہے۔یہ دو نشستوں والی گاڑی صرف دو منٹ سے بھی کم وقت میں اپنے فولڈ ہونے والے پر نکال سکتی ہے تاکہ پرواز کے لیے تیار ہو سکے، اور منزل پر پہنچنے کے بعد وہ پروں کو دوبارہ سمیٹ لیتی ہے۔ 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی ہوائی رفتار تک پہنچ سکتی ہے،زمین پر عام کار کی طرح دوڑ سکتی ہے،مکمل چارج یا ایندھن پر 150 کلومیٹر تک پرواز کر سکتی ہے۔''کلین وژن‘‘ کے بانی اسٹیفن کلین نے کہا ہے کہ ''ایئر کار‘‘ ایک طویل عرصے کا خواب پورا کرنے جا رہی ہے، یعنی مسافروں کی پرواز کو عام لوگوں کی دسترس میں لانا۔انہوں نے کہا ''ہماری پروڈکشن پروٹو ٹائپ کے آغاز کے ساتھ، ہم دنیا میں نقل و حرکت کا انداز بدلنے کے ایک قدم اور قریب آ چکے ہیں۔ سڑک اور آسمان کو ذاتی آمد و رفت کے ایک نئے دور میں ضم کرتے ہوئے‘‘۔کلین وژن کا اندازہ ہے کہ یہ گاڑی 2026ء کی پہلی تین ماہ میں فروخت کیلئے پیش کی جائے گی لیکن یہ سستی ہرگز نہیں ہوگی۔کون خریدے گا؟ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی خریداروں میں ارب پتی افراد، ٹیکنالوجی کے شوقین اور کار کلیکٹرز شامل ہوں گے۔ کچھ ممالک میں اس قسم کی پرواز کیلئے مخصوص لائسنس کی ضرورت ہو گی، جو صرف تربیت یافتہ افراد کو دیا جائے گا۔ٹریفک کا حل یا لگژری کا نیا کھلونا؟جہاں کچھ لوگ اس ایجاد کو مستقبل کی آمدورفت کا انقلابی قدم قرار دے رہے ہیں، وہیں کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ابھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے اور فی الحال صرف امیر طبقے کیلئے ایک ''لگژری کھلونا‘‘ ہے۔ماہرین کی رائےایوی ایشن ماہر ڈاکٹر مائیکل ہارپر کہتے ہیں: ''یہ آغاز ہے ایک نئے دور کا۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرے گی، قیمتیں گریں گی اور مستقبل میں ہم اْڑنے والی گاڑیاں عام لوگوں کے لیے بھی قابلِ رسائی بنتی دیکھیں گے‘‘۔خلاصہاڑنے والی کار، جو کبھی سائنس فکشن میں دیکھی جاتی تھی، اب حقیقت بننے کے قریب ہے۔ لیکن فی الحال، یہ صرف ان کیلئے ہے جو دس لاکھ ڈالر کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ کیا ہم ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں؟ وقت ہی بتائے گا۔