دوسری عالمی جنگ ہٹلر نے قفقاز پر حملہ کیوں کیا؟

اسپیشل فیچر
دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی اور اس کے اتحادیوں نے 22 جون 1941ء کو ''آپریشن باربا روسا‘‘ کا آغاز کیا۔ ان کا ارادہ سوویت یونین کو چند ماہ کے اندر شکست دینے کا تھا۔ اس کارروائی میں ابتدائی کامیابیاں ملیں اور سرخ فوج ہزیمتیں اٹھاتے ہوئے بالآخر ماسکو کے نواح میں جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو روکنے میں کامیابی ہوگئی۔ اگرچہ جرمنی نے بہت بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا لیکن اہم صنعتی مراکز کیلئے لڑائی ہوتی رہی۔
1941-42ء کے موسم سرما میں سوویت یونین نے جوابی وار کیے اور متعدد کامیابیوں کے بعد ماسکو کے سر پر نازیوں کی لٹکتی ہوئی تلوار کو ہٹا دیا۔ شکستوں کے باوجود ہٹلر جارحانہ کارروائیاں جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اس کیلئے اسے قفقاز کے تیل کے ذخائر کی ضرورت تھی۔ فروری 1942ء میں جرمن فوج کی اعلیٰ سطحی قیادت نے باربا روسا میں ناکامیوں کے بعد قفقاز کو اپنا بنیادی ہدف بنایا۔ پانچ اپریل 1942ء کو ہٹلر نے ایک منصوبے کے خدوخال وضع کیے جسے ''کیس بلیو‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قفقاز ایک وسیع اور متنوع ثقافت کا حامل خطہ ہے جس کی پہچان اس کے پہاڑ ہیں۔ اس کے دو مرکزی تیل کے ذخائر میں سے ایک میکوپ تھا جو بحیرہ اسود کے قریب واقع تھا جبکہ دوسرا گروزنی بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین کے درمیان واقع تھا۔ یہاں سے سوویت یونین کے تیل کی کل پیداوار کا 10 فیصد نکلتا تھا۔ پہاڑوں کے جنوب میں جنوبی قفقاز ہے جس میں جارجیا، آذربائیجان اور آرمینیا شامل ہیں۔ اس صنعتی اور گنجان آباد علاقے میں تیل کے وسیع ذخائر تھے۔ آذربائیجان کا دارالحکومت باکو سب سے زیادہ پیداوار دیتا تھا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق 1942ء میں سوویت یونین کی تیل کی 80 فیصد پیداوار یہیں سے تھی۔ قفقاز میں کوئلے سمیت مختلف معدنیات کے وسیع ذخائر تھے۔ہٹلر کو اپنی جنگ جاری رکھنے کیلئے ان وسائل کی اشد ضرورت تھی۔ جرمنی میں تین لاکھ ٹن تیل سالانہ خرچ ہوتا تھا جس میں سے 85 فیصد درآمد کیا جاتا تھا۔
ستمبر 1939ء میں جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو برطانوی بحریہ نے امریکی براعظموں اور مشرق وسطیٰ سے جرمنی کا رابطہ منقطع کر دیا۔ اس کے بعد اس کا انحصار یورپی ملک رومانیہ پر تھا۔ 1941ء تک جرمنی کے اپنے ذخائر تقریباً ختم ہو چکے تھے۔ اس برس تیل کی 75 فیصد درآمد رومانیہ سے ہوئی تھی۔ رومانیہ کے تیل کے ذخائر پر حملوں اور وسائل کی کمیابی کے خدشے کے پیش نظر ہٹلر نے حکمت عملی اپنائی کہ رومانیہ کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے ذخائر کو حاصل کیا جائے۔
1941ء کے اواخر میں رومانیہ نے ہٹلر کو خبردار کیا کہ اس کے ذخائر خاتمے کے قریب ہیں اور وہ جرمنی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے جنگ میں وسعت آنے کے بعد سوویت یونین کے تیل کے ذخائر جرمن صنعت اور افواج کیلئے انتہائی اہم ہو گئے۔
جرمنی کی جنوبی فوج کو اے اور بی گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ گروپ اے کو قفقاز کے پہاڑوں کو عبور کر کے باکو کے تیل کے کنوؤں تک پہنچنے کا کام دیا گیا تھا، جبکہ گروپ بی نے اپنے دستوں کی حفاظت کرنی تھی۔تیرہ لاکھ 70ہزار287 سپاہ پر مشتمل گروپ جنوبی نے 2035 لوفٹوافو جنگی طیاروں، 1934 ٹینکوں اور اسالٹ گنز کی مدد سے 28 جون کوحملہ کیا اور پہلے ہی روز 17لاکھ 15ہزار سپاہ پر مشتمل سوویت یونین کی سرخ فوج کو دھکیل کر 48 کلومیٹر تک اندر گھس گیا۔ جنوب میں سوویت افواج کی ناکامی نے جرمنوں کو چھ جولائی کو شہر ورونیز کے مغربی حصے اور 26 جولائی کو سٹالن گراڈ کے قریب دریائے ڈون پر قبضہ کرنے کا موقع دے دیا۔ جولائی کے اواخر اور اگست کے اوائل میں گروپ بی کے سٹالن گراڈ پہنچنے کا عمل سست پڑ گیا کیونکہ سرخ فوج کے تازہ دم دستوں کو صف آرا کر دیا گیا تھا اور جرمنی کی رسد کا راستہ بھی طویل ہو گیا تھا۔ جرمنوں نے سوویت فوجوں کو کالاچ کی لڑائی میں شکست دے دی اور اگست کے اوائل میں جنگ شہر کے اندر لڑی جانے لگی۔
جنوب میں گروپ اے نے 23 جولائی کو قصبے روسٹو پر قبضہ کر لیا تھا اور آگے بڑھ کر بحیرہ کیسپین کے ساحل پر 9 اگست کو میکوپ کے تیل کے کنوؤں اور 13 اگست کو الیسٹا کے تیل کے کنوؤں کو تباہ کر دیا۔ جرمن جنگی طیاروں نے گروزنی کے تیل کے کنوؤں کو تباہ کر دیا لیکن باکو تک رسائی ان کے لیے ممکن نہ تھی۔
اتحادیوں کو خدشہ تھا کہ جنوب اور مشرق کی جانب جرمن فوجوں کی پیش قدمی انہیں برصغیر میں جاپانی فوجوں سے منسلک کر دے گی جو برما میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ البتہ سرخ فوج نے آپریشن یورانس اور لٹل سیٹرن کے بعد سٹالن گراڈ میں جرمنوں کو شکست دے دی۔ اس شکست کے بعد جرمنی اور اس کے اتحادی قفقاز سے پسپا ہو گئے۔ صرف کوبان کا علاقہ کسی حد تک ان کے قبضے میں رہا۔