ملک عزیز پاکستان بحری گزرگاہوں کے ذریعے دنیا سے منسلک ہے اور یوں سمندری تجارت پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سمندری سیاحت کو وہ مقام حاصل نہیں جیسا کہ دیگر ممالک میں ہے لیکن اگر بات کی جائے ساحلی علاقوں کی تو ان گنت مقامات اپنی خوبصورتی کے باعث عالمگیر شہرت کے حامل ہیں، لیکن سیاحوں کی آمد و رفت کم اور صرف ملکی سیاحوں تک محدود ہے۔ ساحل گڈانی کو دیکھ لیں‘جو ہے تو بلوچستان کا حصہ لیکن کراچی سے 50کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باعث قریب ترین ساحل ہے جہاں با آسانی پہنچا جاسکتا ہے ۔گڈانی کا دلکش ساحل موسمِ گرما اور موسمِ سرما میں اپنی دلکش رعنائی سے سیاحوں کیلئے منفرد مقام ہے۔پاکستان میں چونکہ ساحلی سیاحت کیلئے موسمِ گرما کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی تعطیلات ہوتی ہیں ۔ساحل گڈانی پر مختلف تفریحی مقام ہیں جہاں ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں ، ساحلوں کے شوقین مہم جُو سیاح قریبی ساحل ،ڈگار زئی پہنچتے ہیں جو اپنی پہاڑیوں کے باعث مشہور ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پہاڑی ٹیلے نیلگوں پانی میں استادہ ہیں جہاں سمندر کی لہریں اٹکھیلیاں کرتی ہیں تو پانی کی اچھال دیکھ کر لطف آجاتا ہے۔ سیاح قریبی ٹیلوں پر بیٹھ کر فوٹوگرافی میں وہ لمحات قید کرتے ہیں اور پھر اگلی منزل پھوکارا کے ساحل پر پہنچتے ہیں ۔گڈانی کا یہ ساحل ایک پہاڑی ٹیلے کا تسلسل ہےجہاں ایک پہاڑ میں بنا سوراخ جو چٹان میں ہوا دان کی طرح ہے اور دوسری جانب اس کا راستہ پہاڑ کے نیچے دروازے کی مانند سمندر کی جانب کھلتا ہے ۔سمندر کی لہریں جب اس دروازے پر دستک دیتی ہیں تو ان کی گونج اس ہوا دان یعنی پہاڑ میں بنے دریچے سے پھونکار کی طرح گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ یہ ردھم سیاحوں کیلئے بڑی کشش کا باعث بنتا ہے۔ یہاں سمندری لہریں پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں جو اس مقام کی انفرادیت ہے۔اسی ساحل سے تھوڑے فاصلے پر سنگ مرمر ساحل ہے ۔یہ مقام ساحل اور پہاڑی سلسلے کا بہت خوبصورت سنگم ہے، یہاں بھی سیاحوں کی اکثریت آتی ہے۔ پہاڑیوں کی دلکشی اور لہروں کی تیزی ایسی ہے کہ جب لہریں ساحل سے ٹکراتی ہیں تو پانی بہہ کر 20،25 فٹ تک پھیل جاتا ہے اور اسی تیزی سے وہ پانی سمندر کی جانب واپس پلٹتا ہے۔ ان لہروں کی کشش سیاحوں کو پانی میں بھیگنے کیلئے اکساتی ہے۔ ایسے ساحلوں پر حفاظتی انتظامات ضروری ہیں ، سیاحوں کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے پُر خطر حصوں میں مہم جوئی میں احتیاط سے کام لیں۔گڈانی کے ساحلی حصوں میں پوشیدہ ایک ایسا ساحل بھی ہے جو چٹانی ہے اور ایڈونچر پسند سیاح ان چٹانوں میں اتر کر انہیں عبور کرکے ساحل کی لہروں کو چھو سکتے ہیں یوں یہ غار نما پہاڑی راستہ ساحل کے کنارے پہنچاتا ہے ۔یہ غار اس قدر ٹھنڈک فراہم کرتی ہے کہ تھکان کو دور کر دیتی ہے۔ اس مقام کی دلکشی ناقابلِ فراموش ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار آنے کی دعوتِ نظارہ بھی دیتی ہیں۔ موسمِ سرما میں آنے والے سیاح گڈانی کو مختلف انداز میں پاتے ہیں۔ اس وقت سمندر ان چٹانوں سے دوری اختیار کر لیتا ہے اور سمندر اور چٹانوں کے درمیان ساحل کی ریت آجاتی ہے جو آنے والے موسمِ گرما تک حدود قائم رکھتی ہے۔سفر کے آخر میں گڈانی کے اُس روپ کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور وہ ہے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں جہاز کٹنے کیلئے آیا کرتے تھے، اب وہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے، اس کمی کو دور کرنے کیلئے بین الاقوامی ماحولیاتی اور حفاظتی معیارات کو اپنایا جارہا ہے تاکہ گڈانی شپ یارڈ آنے والے وقتوں میں گرین یارڈ میں منتقل ہوسکے ان اقدامات سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی اور مزدوروں کی صحت کو بھی تحفظ ملے گا۔گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کا شمار دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس کا شمار دنیا میں پہلے نمبر پر ہے 132 یارڈز پر مشتمل گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سالانہ لاکھوں ٹن سٹیل فراہم کرتا ہے۔یوں گڈانی اپنی ان گنت خوبیوں کے باعث ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔اس کے باوجود گڈانی ایک تنہائی پسند ساحل ہے جو صرف موسم گرما میں سیاحوں کے ساتھ گھل مل کر اپنی تنہائی دور کرتا ہے۔