گلیشیئرز کی کٹائی !
اسپیشل فیچر
ماحولیاتی نظام خطرے میں،قانون سازی کی جائے
سیاحت کے دوران اہم مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلند دروں پر پڑی برف نے راستے روک رکھے ہوتے ہیں اور گلیشیر کی وجہ سے اہم گزر گاہیں بند ملتی ہیں۔ ناران سے گلگت جاتے ہوئے بھی یہی مسئلہ درہیش ہوتا ہے کہ وسط جون تک بابوسر ٹاپ بند ملتا ہے۔ راستہ کھولنے کیلئے برف کے حصاروں کو توڑ کر اور کاٹ کر راستہ بنایا جاتا ہے۔ ہم نے خود متعدد بار یہ بھی دیکھا کہ مزدور بیلچوں سے برف کاٹ کر ٹرکوں میں بھرتے ہیں اور پھر وہ چلاس اور رائے کوٹ کے بازاروں میں فروخت ہوتی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والے وکلاء کی درخواست پر چترال سمیت مالاکنڈ ڈویڑن کے مختلف اضلاع میں برفانی تودے کاٹنے اور اس کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔پشاور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرواتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ چترال، سوات، دیر، شانگلہ اور کاغان/ ناران میں برفانی تودوں کی کٹائی سے ماحولیاتی نظام کو نقصان ہو رہا ہے۔
برفانی تودوں کے کمرشل استعمال پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ گلیشیئر اور ایوالانچ، جنہیں اردو میں عام طور پر برفانی تودا ہی کہا جاتا ہے، میں کیا فرق ہے۔حمید احمد چترال میں گلیشیئرز کے حوالے سے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے منصوبے GLOF کے سابق منیجر اور ابھی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے کوآرڈینیٹر ہیں اور گلیشیئرز پر مختلف تحقیقی مقالوں کا حصہ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ میں نے پڑھا ہے، لیکن اس میں کچھ چیزیں تکنیکی ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔برفانی تودا کاٹنے اور اس کے کمرشل استعمال کی بات جب آتی ہے، تو اس میں گلیشیئرز نہیں بلکہ ایوالانچ کا استعمال ہوتا ہے، جس کو برف کے استعمال کیلئے کاٹ کر فروخت کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گلیشیئرز بہت زیادہ بلندی پر ہوتے ہیں اور وہاں جانا اور پھر اس کو کاٹنا بہت مشکل عمل ہے، جبکہ گلیشیئرز کو کسی عام آلے سے کاٹنا بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ وہ عام برف سے سو گنا سخت ہوتا ہے، جبکہ عام برف کی ایک کیوبک میٹر کا وزن 300 کلوگرام، جبکہ گلیشیئر کا ایک کیوبک میٹر وزن ایک ہزار کلوگرام ہوتا ہے۔ گلیشیئرز کسی ایک موسم یا سال میں نہیں بنتے بلکہ اس کے بننے میں دہائیاں لگتی ہیں اور تب جا کر گلیشیئر بنتا ہے۔عدالتی فیصلے میں جس بات کا ذکر ہوا ہے، وہ اصل میں ایوالانچ ہے۔ ایوالانچ اور گلیشیئر کو عام زبان میں برفانی تودا کہا جاتا ہے، گو کہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے '' انسٹیٹوٹ فار سنو اینڈ ایوالانچ ریسرچ‘‘ کے مطابق ایوالانچ کی تین بنیادی قسمیں ہیں، جن میں ایک ''سنو ایوالانچ‘‘ کہلاتا ہے، جب سنو (آئس نہیں) کی کمزور سلیب کے اوپر برف کی مضبوط تہہ بن جائے۔دوسری قسم کو ''لوز سنو ایوالانچ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کو عام طور پر پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں برف باری کے موسم میں دیکھا جاتا ہے اور یہ پہاڑیوں کی نچلی سطح پر ہوتا ہے، جبکہ تیسری قسم کو ''گلائیڈنگ ایوالانچ‘‘ کہا جاتا ہے، جو کہ گھاس یا پتھر کے اوپر برف پڑنے سے بن جاتا ہے۔
سائمن فریزر یونیورسٹی کے مطابق گلیشیئرز گرنے سے بھی ایوالانچ بن سکتا ہے، لیکن حمید احمد کے مطابق چترال، کاغان، ناران یا سوات میں گلیشیئر کا ایوالانچ نہیں بنتا بلکہ برف باری کے دوران پہاڑوں میں برف پڑنے سے ایوالانچ بنتا ہے۔ایوالانچ کے کاٹنے کے حوالے سے حمید نے بتایا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ایوالانچ کے کاٹنے سے ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ ایوالانچ آہستہ پگھل کر پودوں اور زرعی زمینوں کیلئے پانی کا ایک اہم ذخیرہ ہے۔ چترال میں 2017 سے پہلے یہ پریکٹس بہت عام تھی، لیکن اب بجلی آنے کے بعد گھروں میں فریج کا استعمال کیا جاتا ہے، تو ایوالانچ کاٹ کر برف حاصل کرنا اتنا زیادہ نہیں رہا۔
ایوالانچ کی بھی پھر مختلف اقسام ہیں، جن میں ''آئس ایوالانچ‘‘ اور ''سنو ایوالانچ‘‘ شامل ہیں۔
عدالت میں دائر درخواست کے مطابق یہ برفانی تودوں کے پگھلنے سے مختلف پودوں، درختوں، جانوروں اور زرعی زمینوں کیلئے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جبکہ اس کو کاٹنے سے سیلاب کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے۔تاہم درخواست گزار کے مطابق برفانی تودوں کو کمرشل مقاصد کیلئے بلاک کی شکل میں کاٹ کر فروخت کیا جا رہا ہے، جس سے اس اہم ذخیرے کو خطرہ لاحق ہے اور یہ خیبر پختونخوا ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔
درخواست کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ کے فریم ورک برائے موسمیاتی تبدیلی سمیت پیرس کے بائیو ڈائیور سٹی فریم ورک پر دستخط کر چکا ہے اور اسی کے تحت گلیشیئرز کا کاٹنا غیر قانونی عمل ہے۔
اسی طرح اقوام متحدہ کے سسٹینیبل ڈویلپمنٹ گول 13 بھی گلیشیئرز کے تحفظ کے حوالے سے ہے اور پاکستان کو اس غیر قانونی عمل کو روکنا چاہیے۔ درخواست گزار طارق افغان نے بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے گزشتہ سال خیبر پختونخوا محکمہ ماحولیات میں بھی درخواست دی تھی، لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اسی وجہ سے عدالت میں درخواست جمع کرائی۔عدالت میں 6 مئی کو درخواست پر دو رکنی بینچ نے سماعت کی اور متعلقہ اضلاع کو گلیشیئرز کی کٹائی روکنے کے احکامات جاری کیے۔
ارجنٹینا اور تاجکستان نے گلیشیئرز پر قانون سازی کی ہے تو پاکستان بھی اس کیلئے قانون سازی کرے اور گلیشیئر کی غیر قانونی کٹائی فوری طور پر روکی جائے۔