سو میری دنیا کی اولین تہذیب
اسپیشل فیچر
قدیم تہذیبوں بارے مورخین ایک عرصہ تک اس بحث میں الجھے رہے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کونسی تھی۔ جب یہ طے ہو گیا کہ مصر اور میسوپوٹیمیا دو قدیم ترین تہذیبیں ہیں تو ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ زیادہ قدیم یا قدیم ترین تہذیب ان دونوں میں سے کونسی تہذیب ہے ؟۔ تاہم بیشتر مورخین اور محققین کم از کم اب اس نقطے پر متفق ہیں کہ میسو پیٹیمیا کی سومیری تہذیب لگ بھگ 6000 مسیح اور 5500 قبل مسیح کے درمیان پروان چڑھی تھی، جبکہ قدیم مصری تہذیب کا آغاز 3100سے 4000 قبل مسیح کے دوران ہوا تھا ۔
ممفس، تھیبس اور ہیلی اوپولس مصر کے قدیم ترین شہر جبکہ عراق کے قدیم ترین شہر بابل اور نینوا ، کریٹ میں کنوسوس اسی دور کے شہروں میں اپنے زمانے کے ثقافتی اور تاریخی شہر ہوا کرتے تھے۔
سومیری یا سمیری تہذیب میسوپیٹیمیا (موجودہ عراق ) کی قدیم ترین تہذیب کا نام ہے۔یہ نام انہیں ان کی زبان کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ اسی لئے انہیں تاریخ میں ''سومیرئین‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سومیری زبان بنیادی طور پر جنوبی میسوپیٹیمیا کے رہنے والے غیر سامی النسل کے قبائل، ممکنہ طور پر اپنے ''اکدی‘‘قبائل سے لے کر آئے تھے۔اب کم از کم یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کی پہلی تحریر ''کیونی فارم رسم الخط‘‘ ایجاد کی۔اس تحریر کو وہ قوانین لکھنے ، شاہی فرمان اور حکم نامے جاری کرنے اور سلطنت کا حساب کتاب رکھنے میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ویسے کیا باکمال لوگ تھے یہ ، مٹی کی تختیوں پر تحریریں کندہ کرتے اور پھر انہیں پکاتے تاکہ یہ تحریر لمبے عرصے تک محفوظ رہے۔
یہ تہذیب دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان واقع تھی۔بیشتر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ سومیری ، مغربی ایشیاء کی باقاعدہ اوّلین تہذیب اور تعلیم یافتہ تہذیب تھی۔یہ لوگ سمیری زبان بولتے تھے ۔ مورخین کو اس بات کے ثبوت ان کی تحریروں ، دریاوں کے نام اور باقیات سے ملے ہیں۔ ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سومیری زبان بنیادی طور پر دریائے فرات کے گرد ونواح بولی جانے والی فراتی زبان ہی کی ایک شکل ہے اور یہ لوگ صدیوں سے یہیں دریائے فرات کے آس پاس ہی آباد تھے ، باہر سے نقل مکانی کر کے نہیں آئے تھے ۔ان کا گزر بسر شکار پر تھا جو گرد ونواح کے جنگلوں سے شکار کیا کرتے تھے۔ ان کا مسکن عرب کے دلدلی علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔
کچھ مورخین یہ کہتے ہیں کہ سومیری لوگ بنیادی طور پر شمالی افریقہ سے نقل مکانی کر کے دریائے فرات کے کنارے آکر آباد ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس علاقے کو اپنے لئے موزوں پایا اور یہیں سے انہوں نے پہلی مرتبہ کاشتکاری کو باقاعدہ رواج دیا۔ اوّلین کاشتکاری کی بنیاد رکھنے والے یہی سومیری لوگ ہی تھے جنہوں نے کاشتکاری کو نہ صرف بطور پیشہ متعارف کرایا بلکہ کاشتکاری کو دنیا بھر میں پھیلایا۔
معروف مورخ لازاریدیس اپنی تحریروں میں لکھتا ہے کہ شمالی افریقہ میں غیر سامی النسل کی بنیاد رکھنے والے یہی لوگ تھے جو اس تہذیب کو وسطی ایشیاء تک لے کر آئے تھے۔ جہاں جہاں سومیریوں نے قدم جمائے۔ بعد کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ وہاں کے کھنڈرات سے ملنے والے مٹی کے برتن اور مورتیاں بنانے کا انداز ایک جیسا ملتا ہے۔ ان برتنوں سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ سومیری ہی اوّلین لوگ تھے جنہوں نے فن ظروف سازی کی بنیاد رکھی۔
یہاں سے ملنے والے چار ڈھانچوں کے جب ڈی این اے ٹیسٹ لئے گئے تو اس تشخیص سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہاں کے لوگ ایک زمانے تک سندھ تک پھیل چکے تھے۔ چنانچہ ماہرین آثار قدیمہ کے ان اندازوں کو اس تشخیص سے تقویت ملی کہ بنیادی طور پر سندھ تہذیب کے لوگ بھی سومیری قبائل ہی کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے ہوںگے۔ بعد کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سومیری قبائل کا تعلق حوریہ قبائل اور یوریٹیائی قبائل سے بھی تھا جن کا مسکن قفقاز سے تھا۔
قبل از تاریخ جو قبائل سومیری علاقہ جات میں بس رہے تھے ان کو شروع میں فراتی یا عبیدی کا لقب دیا ہوا تھا۔ مورخین کہتے ہیں بنیادی طور پر میسوپیٹیمیا کی پہلی تہذیب ''سمیری تہذیب‘‘ کی بنیاد رکھنے والے یہی قبائل تھے جنہوں نے اس تہذیب کو آگے تک بڑھایا۔ دراصل یہی فراتی یا عبیدی قبائل ہی سومیری تہذیب کے بانی اور اس کی اصل طاقت تھے۔ انہوں نے دلدلی علاقوں کو زرخیز زمین میں بدلنا لوگوں کو سکھایا۔یہ اعلیٰ درجے کے کاشتکار تھے، اون سے پارچہ جات بنانے کا فن، چمڑے سے ضروریات زندگی کی اشیاء بنانے ، ظروف سازی کو متعارف کرانے اور دھاتی اشیاء بنانے کو رواج دینے والے بھی یہی لوگ تھے۔
شواہد سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان لوگوں کی زبان اعلیٰ ترقی یافتہ تھی اور یہ لوگ باقاعدہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے۔ چونکہ ان کی اپنی زبان سومری تھی اس لئے ان کی لکھی ہوئی تختیاں قدیم مصر سے ملنے والی تحریروں سے بھی پرانی ہیں۔ماہرین نے سومیرئن (سومیری لوگ ) کو دنیا کی سب سے پہلی پڑھی لکھی قوم مانا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کو رسم الخط ایجاد کرنے والی دنیا کی پہلی قوم کا اعزاز بھی جاتا ہے۔ ان کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ سومیرئن وہ پہلی قوم تھی جنہوں نے تحریر کو دائیں سے بائیں لکھنے کو رواج دیا۔ اس کے علاوہ آثار قدیمہ کے ماہرین کو پتھروں پر جو قدیم ترین کندہ کاریاں ملی ہیں ان کا تعلق 3600 قبل مسیح سے بتایا جاتا ہے۔
سومیرئن کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک دوراندیش قوم تھی جنہوں نے بہت شاندار شہر بھی بنائے جن میں ار ، ارک ، اریدو قابل ذکر ہیں۔ان شہروں میں انہوں اونچی اونچی پر شکوہ عمارات بنائیں جو بنیادی طور پر ان کی عبادت گاہیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کے شہر اپنے دور کے انتہائی ترقی یافتہ شہر ہوا کرتے تھے جن میں درس گاہیں ، بازار اور عبادت گاہوں کو فوقیت دی جاتی تھی۔مورخین کہتے ہیں سومیرئن بہت ذہین اور سمجھدار لوگ تھے ، زراعت کو فروغ دینے کیلئے انہوں نے نہریں کھودیں اور کھیتوں تک پانی پہنچانے کا مربوط نظام بنایا۔ یہ ریاضی اور فلکیات میں حیرت انگیز طور پر مہارت رکھتے تھے۔ پہیہ کی ایجاد کا سہرا بھی سومیرئین کے سر جاتا ہے جسے انہوں نے 3500قبل مسیح میں ایجاد کیا تھا۔
2000 قبل مسیح کے آس پاس یہ تہذیب اکادی سلطنت میں شامل ہو گئی ،تاہم سومیری تہذیب کی ایجادات اور علم کی روشنی آنے والے ادوار تک زندہ رہیں ۔ بعض ماہرین ان کی تہذیب کو کانسی دور کی تہذیب سے ملاتے ہیں۔اگرچہ بعض لوگ اس تہذیب کا تسلسل قدیم مصر کی تہذیب عیلام تہذیب، کارل سوپے کی تہذیب، قدیم سندھی تہذیب، میونسٹر اور قدیم چینی تہذیب کے عہد سے جوڑتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تہذیب ان سب سے قدیم ہے اور باقی ساری تہذیبیں سومیری تہذیب کی''توسیع ‘‘ ہو سکتی ہیں۔