سوشل میڈیا لائکس بھی بے وفائی قرار: ترک عدالت کا شوہر کو علیحدگی کاخرچ ادا کرنے کا حکم

سوشل میڈیا لائکس بھی بے وفائی قرار: ترک عدالت کا شوہر کو علیحدگی کاخرچ ادا کرنے کا حکم

اسپیشل فیچر

تحریر : جاوید اقبال


ڈیجیٹل دور میں جہاں سوشل میڈیا انسانی زندگی کا لازمی حصہ بنتا جا رہا ہے، وہیں اس کے سماجی اور خاندانی اثرات بھی تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں۔ ترکی کی ایک عدالت نے حال ہی میں ایسا فیصلہ سنایا ہے جس نے ازدواجی رشتوں اور آن لائن رویّوں کے درمیان نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ عدالت نے سوشل میڈیا پر دوسری خواتین کی تصاویر بار بار لائک کرنے اور مبہم و اشتعال انگیز تبصرے کرنے کو ازدواجی وفاداری کے فرائض کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شوہر کو علیحدگی کا خرچ اور معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہ غیر معمولی مقدمہ نہ صرف ترکی بلکہ دنیا بھر میں اس سوال کو اجاگر کرتا ہے کہ کیا ڈیجیٹل دنیا میں کیے گئے اعمال بھی حقیقی زندگی کے رشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
اس کیس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک شوہر جس نے بار بار دوسری خواتین کی تصاویر سوشل میڈیا پر لائک کیں کو ترکی کی اعلیٰ عدالت نے حکم دیا ہے کہ وہ علیحدگی کا خرچ اور معاوضہ ادا کرے، کیونکہ عدالت نے اس کے آن لائن رویے کو ازدواجی وفاداری کے فرائض کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ غیر معمولی کیس ترکی کے وسطی شہر کیسری میں دائر کیا گیا، جہاں ایک خاتون جن کا صرف نام HB بتایا گیا ہے، نے اپنے شوہر پر الزام لگایا ہے کہ اس کا شوہر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارتا ہے، دوسری خواتین کی تصاویر لائک کرتا ہے اور مبہم و اشتعال انگیز کمنٹس چھوڑتا ہے۔
ان کے وکیلوں کا کہنا تھا کہ یہ رویہ ازدواجی وفاداری کے قانونی فرائض کی خلاف ورزی ہے، جو ترکی کے سول قوانین میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔انہوں نے اس کیلئے شوہر سے معاوضہ طلب کیا۔شوہر، جس کی شناخت SB کے طور پر کی گئی نے الزامات سے انکار کیا اور جواب میں طلاق کیلئے درخواست دی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس کی بیوی نے اس کے والد کی توہین کی اور اس کی حسد نے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد، مقامی فیملی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ شوہر زیادہ قصوروار ہے کیونکہ اس کا سوشل میڈیا رویہ مسلسل اور عوامی تھا نہ کہ صرف ایک وقتی غلطی۔عدالت نے حکم دیا کہ شوہر ماہانہ ایک ہزار ترکی لیرا (تقریباً 25پائونڈ) نفقہ ادا کرے اور 60ہزار لیرا (تقریباً 1,500پائونڈ) معاوضہ بھی دے۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ آن لائن رویے کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ بظاہر بے ضرر آن لائن تعاملات دراصل جذباتی عدم تحفظ کو بڑھا سکتے ہیں اور تعلقات کے توازن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ شوہر SB نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ معاوضہ بہت زیادہ ہے۔ تاہم یارگیٹے (Yargitay) جو ترکی میں سول مقدمات میں سپریم کورٹ کے مساوی ہے، نے یہ فیصلہ برقرار رکھا۔یارگیٹے نے نچلی عدالت کے نتائج کی توثیق کرتے ہوئے واضح کیا کہ سوشل میڈیا پر بار بار دوسری خواتین کی تصاویر لائک کرنا ترکی کے قانون کے تحت ازدواجی وفاداری کی خلاف ورزی تصور کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ اس کیس نے آن لائن مذاق کو جنم دیا ہے، وکلاء کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی حقیقت میں بڑی اہمیت ہے کیونکہ اسے اعلیٰ عدالتی سطح پر منظور کیا گیا۔ کچھ وکلاء نے خبردار کیا ہے کہ اسکرین شاٹس، پیغامات اور دیگر ڈیجیٹل ریکارڈز طلاق کے مقدمات میں قصور کا تعین کرنے کیلئے بڑھتی ہوئی اہمیت اختیار کر سکتے ہیں۔
ترکی کے اخبار Haberler سے بات کرتے ہوئے ایک وکیل نے کہا کہ اب اسکرین شاٹس، پیغامات اور تمام ڈیجیٹل تعاملات کو ہر فریق کے قصور کے تعین میں مدنظر رکھا جائے گا۔ میں شہریوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھیں۔عدالت کا یہ فیصلہ اس بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی کرتا ہے جو ماہرین نفسیات اور رشتہ مشیر 'مائیکرو چیٹنگ‘ کے بارے میں ظاہر کر رہے ہیں۔
اس فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ آن لائن سرگرمیاں محض ذاتی مشغلہ نہیں رہیں بلکہ ان کے اخلاقی اور قانونی نتائج بھی ہو سکتے ہیں، خصوصاً جب وہ ازدواجی اعتماد اور باہمی احترام کو مجروح کریں۔
رشتہ مشیر کہتے ہیں کہ اس کے اشارے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ فون کے گرد بڑھتی ہوئی خفیہ پن، سوال کرنے پر دفاعی رویہ، پیغامات حذف کرنا یا پارٹنر کی توجہ کے بجائے آن لائن توجہ کو ترجیح دینا۔اگرچہ یہ رویہ خیانت کے مترادف نہیں،مگر یہ جذباتی تحفظ کو آہستہ آہستہ کمزور کر سکتا ہے اور رنجش پیدا کر سکتا ہے۔ماہرین یہ بھی خبردار کرتے ہیں کہ تہوار کا موسم رشتوں میں موجود کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ پارٹیوں اور سوشل میڈیا کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے حدود پر دباؤ آتا ہے۔ رشتہ قائم رکھنے والی فلاحی تنظیمیں کہتی ہیں کہ کرسمس اکثر فون، پیغامات اور آن لائن رویے کے تنازعات کا عام وقت ہوتا ہے، خاص طور پر جہاں اعتماد پہلے ہی کمزور ہو۔
یہ کیس ایسے وقت سامنے آیا ہے جب رشتہ مشیر خبردار کر رہے ہیں کہ کرسمس اور نیا سال عموماً رشتوں میں مسائل بڑھا دیتے ہیں اور جنوری میں جوڑوں کی طلاق کے کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔برطانیہ میں، خاندانی وکلاء اکثر جنوری میں طلاق کی درخواستوں میں اضافہ رپورٹ کرتے ہیں، خاص طور پر نئے سال کے پہلے کام کے ہفتے میں، جسے کبھی کبھار''ڈائیوورس ڈے‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جب جوڑے کرسمس کے دباؤ کے بعد اپنے تعلقات کا دوبارہ جائزہ لیتے ہیں۔سرکاری عدالتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رسمی طلاق کی درخواستیں اکثر بہار میں آتی ہیں، جب یہ فیصلے قانونی کارروائی میں بدل جاتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
داڑھی سے عالمی ریکارڈز بنانے والا شخص

داڑھی سے عالمی ریکارڈز بنانے والا شخص

شوق کی کوئی حد نہیں، بعض اوقات یہی شوق ایسے راستے اختیار کر لیتا ہے جو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ دنیا میں عالمی ریکارڈ بنانے کیلئے لوگ طاقت، رفتار اور مہارت کا سہارا لیتے ہیں، مگر کچھ افراد انوکھے انداز اپنا کر تاریخ میں اپنا نام درج کرا لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک منفرد کردار وہ شخص ہے جس نے اپنی داڑھی کو عالمی ریکارڈ کا ذریعہ بنا لیا۔ بظاہر سادہ نظر آنے والی داڑھی اس کیلئے محض شناخت نہیں بلکہ ایک ایسا ہنر بن گئی جس کے ذریعے اس نے حیران کن کارنامے انجام دیے۔اس شخص نے داڑھی میں مختلف اشیا رکھ کر، انہیں متوازن کر کے یا مخصوص وقت تک سنبھال کر ایسے ریکارڈ قائم کیے جن پر پہلے کسی نے غور تک نہیں کیا تھا۔ اس غیر معمولی شوق نے نہ صرف لوگوں کو حیرت میں مبتلا کیا بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ لگن اور جدت کے ساتھ عام چیزیں بھی غیر معمولی کامیابی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ داڑھی کے ذریعے بنائے گئے یہ ریکارڈ اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان اگر چاہے تو اپنی انفرادیت کو دنیا کے سامنے ایک نئی پہچان میں ڈھال سکتا ہے۔ امریکی جوئل اسٹریسر نے اپنی بڑی گھنی داڑھی کے ساتھ کئی عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ٹوتھ پکس سے لے کر گالف ٹی، کانٹے سے پنسلیں تک، جوئل نے اپنی داڑھی میں حقیقتاً متعدد چیزیں رکھی ہیں تاکہ وہ ریکارڈ توڑنے والے لیجنڈ کے طور پر اپنی پہچان قائم کر سکیں۔ جوئل جو انشورنس کلیمز کے شعبے میں کام کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اتفاقاً اپنی داڑھی کی حیرت انگیز اسٹوریج صلاحیتیں دریافت کیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ میرے ریکارڈ توڑنے کے شوق میں کبھی کمی آنے والی نہیں۔انہوں نے کہاکہ خوراک کی چیزیں اتفاقاً اس میں پھنس جاتی تھیں، میں نے محسوس کیا کہ یہ واقعی چیزیں رکھنے میں کمال کی ہے۔ اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا، اگر میں واقعی یہاں چیزیں رکھنے کی کوشش کروں تو کیا ہو گا؟ اور بالکل یہی انہوں نے کیا۔جوئل نے کہا کہ یہ ناقابل یقین احساس ہے! گنیز ورلڈ ریکارڈ کا ٹائٹل توڑنا کبھی پرانا نہیں لگتا۔ وہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا جو ریکارڈ دکھاتا ہے بھی بہت شاندار ہوتا ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اتنے شاندار عالمی ریکارڈز حاصل کر سکوں گا۔جوئل نے کہا کہ کپڑوں کے کلپ سب سے مشکل چیز تھی کیونکہ ان کی داڑھی کے بال کلپ کے باہر والے حصے میں پھنس جاتے تھے، جو انتہائی تکلیف دہ ہوتا تھا۔ یہ ریکارڈ بنانا اتنا آسان کبھی نہیں ہوتا جتنا لوگ سوچتے ہیں۔ جوئل نے بتایا کہ جب میں نے پہلی بار اپنی داڑھی میں سب سے زیادہ کینڈی کینز رکھنے کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی، تو مجھے کئی مشکلات پیش آئیں۔ یہ نازک ہوتے ہیں، اس لیے جلد ٹوٹ جاتے ہیں اور پھر سارا انتظام بکھر جاتا ہے۔ میرا حل یہ تھا کہ انہیں ریپرز میں ہی رکھا جائے، لیکن ریپرز بہت پھسلنے والے ہوتے ہیں اور وہ پکڑنے کی بجائے پھسل جاتے ہیں۔ جب میں اپنی داڑھی میں بہت سارے کینڈی کینز جمع کرنا شروع کرتا ہوں تو اچانک سب گر جاتے ہیں۔ جب میں نے اپنی داڑھی میں 200 کینڈی کینز رکھ کر ریکارڈ توڑا، تو یہ عمل کافی وقت لے گیا کیونکہ دو بار میں بہت قریب پہنچا لیکن سب بکھر گیا اور مجھے دوبارہ شروع کرنا پڑا۔اس سال جوئل کا ایک اور ریکارڈ بنانے کا منصوبہ بھی تھا، جس میں وہ اپنی داڑھی میں سب سے زیادہ مِسٹلٹو رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن سب کچھ خراب ہو گیا۔ کیونکہ ریکارڈ توڑنے کیلئے جتنی مقدار میں مِسٹلٹو چاہیے وہ کافی مہنگی ہے۔ میں نے مشق کیلئے کافی مقدار خریدی، لیکن جب میں ریکارڈ توڑنے گیا تو وہ سب خشک ہو چکی تھی۔ پتے اور بیریز گر گئے اور اس پر پھپھوندی لگنے لگی! یہ واقعی بہت مایوس کن تھا۔ لیکن میں دوبارہ منصوبہ بندی کروں گا اور بہتر تیاری کے ساتھ یقینی طور پر کرسمس 2026ء کیلئے اپنی داڑھی میں سب سے زیادہ مِسٹلٹو رکھنے کا ریکارڈ توڑوں گا۔  

آج کا دن

آج کا دن

پاکستان میں زلزلہ28دسمبر 1974ء کوپاکستان کوایک ہولناک قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ 7.4 شدت کے شدید زلزلے سے شمالی علاقہ جات بری طرح متاثر ہوئے۔ ہزارہ، ہنزہ، سوات اور خیبر پختونخواہ کے مختلف شہروں میں بستیاں چند ہی لمحوں میں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں۔اس المناک سانحے کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے، جبکہ سترہ ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔چار ہزار سے زائد مکانات تباہ ہونے سے ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے۔سوویت یونین کا قیام28 دسمبر 1922ء کو دنیا کی تاریخ میں ایک اہم سیاسی اور نظریاتی تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب سوویت یونین ( USSR) باضابطہ طور پر قائم ہوا۔ اس نئی ریاست کی بنیاد 1917ء کے روسی انقلاب کے بعد رکھی گئی، جس کی قیادت ولادیمیر لینن نے کی۔ سوویت یونین کے قیام کے وقت چار ریاستیں روس، یوکرین، بیلاروس اور ٹرانس کاکیشین فیڈریشن (آج کے جارجیا، آرمینیا اور آذربائیجان) شامل تھے۔ بعد ازاں وقت کے ساتھ ساتھ مزید جمہوریاں شامل ہوئیں اور یہ اتحاد پھیلتا چلا گیا۔ 1991 میں اس کا خاتمہ ہوا۔مالیات کی پہلی خاتونمورئیل فائے ایک امریکی کاروباری خاتون تھیں جنہیں نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں نشست حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ نیو یارک سٹاک ایکسچینج کی رکن فرموں میں سے ایک کی سربراہی کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ یہ28دسمبر1967ء کو ایکسچینج کے ایک ہزار 365مرد اراکین میںشامل ہونے والی پہلی خاتون بنیں۔انہیں ''مالیات کی پہلی خاتون‘‘ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔اس واقعہ کو امریکی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس دور میں خواتین امریکی معاشرے میں زیادہ متحرک نہیں تھیں۔برطانیہ میں وباء28دسمبر1957ء کو برطانیہ میں پاؤں اور منہ کی وباء پھیل گئی۔اس وباء کے پھیلنے کی اصل وجہ برطانیہ کے شمال میں واقع مذبح خانہ تھا جہاں مویشیوں کو ماہرین کی نگرانی کے بغیر ذبح کیا جاتا تھا اور ان کی باقیات کو صحیح انداز میں ٹھکانے نہیںلگایا جاتا تھا۔اس بیماری کے پھوٹنے کے بعد حکام کی جانب سے سخت اقدامات اٹھائے گئے ۔اس بیماری کے شکار تقریباً30ہزار جانوروں کو ذبح کر دیا گیا کیونکہ ان سے بیماری دوسرے جانوروں یا انسانوں میں بھی پھیل سکتی تھی۔انڈونیشیا ائیر لائن حادثہاندونیشیا ائیر ایشیا فلائٹ نمبر8501ایک طے شدہ بین الاقوامی مسافر پرواز تھی جو سورابایا،جاوا، انڈونیشیا سے سنگاپور تک چلائی جارہی تھی۔ 28دسمبر2014ء کو جہاز پرواز کے دوران بحیرہ جاوا میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں جہا زمیں سوار تمام 162 افراد جاں بحق ہو گئے۔ مارچ 2015ء میں سرچ آپریشن مکمل ہوا جس میں صرف 116افراد کی لاشیں تلاش کی جا سکیں۔یہ انڈونیشیا کی سرزمین کا تیسرا سب سے مہلک حادثہ تھا۔دسمبر 2015ء میں، انڈونیشیائی نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی کمیٹی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ریڈار کنٹرول سسٹم میں خرابی نے کپتان کو آن بورڈ فلائٹ کنٹرول کمپیوٹرز کو ری سیٹ کرنے کا سگنل دیا جس کی وجہ سے طیارہ پائلٹ کے کنٹرول سے باہر ہو گیا۔ 

مائیکرو ویو کے استعمال کی عام غلطیاں!

مائیکرو ویو کے استعمال کی عام غلطیاں!

آگ یا نقصان سے بچنے کیلئے مائیکروویو کے اوپر کچھ نہ رکھیںچاہے کھانا دوبارہ گرم کرنا ہو یا پاپ کارن بنانا، ہم میں سے اکثر لوگ روزانہ مائیکروویو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ممکن ہے آپ اب تک اپنا مائیکرو ویو غلط طریقے سے استعمال کرتے رہے ہوں۔ بہت سے لوگ باورچی خانے کے اس آلے کے اوپر مختلف چیزیں رکھ دیتے ہیں، جن میں پھلوں کی باسکٹ، ٹشوپیپر، ٹاولز یا کھانا پکانے کی کتابیں شامل ہوتی ہیں۔ تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کا کچن چھوٹا ہے، سطحی جگہ محدود ہے اور آپ کے پاس کاؤنٹر ٹاپ مائیکروویو ہے، تو اس کے اوپر اضافی سامان رکھنا بظاہر پرکشش لگ سکتا ہے۔ لیکن اس سے مائیکروویو کے ہوا کے راستے بند ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں آلہ زیادہ گرم ہو سکتا ہے، نقصان پہنچ سکتا ہے، حتیٰ کہ آگ لگنے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ آپ مائیکروویو درست طریقے سے استعمال کر رہے ہیں، ماہرین نے روزمرہ کی وہ غلطیاں بھی بتائی ہیں جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔کھانے کو ہلانا بھول جانے سے لے کر برتنوں کو حد سے زیادہ مضبوطی سے بند کرنے تک، ذیل میں ایسی ہی چند بڑی غلطیاں اور ان سے بچنے کے طریقے بیان کئے جا رہے ہیں۔ اینڈریو رائٹ(Andrew Wright) جوککولوجی( Cookology )کے بانی ہیں، کا کہنا ہے کہ جب مائیکروویو کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ نہایت بہترین اور کارآمد آلہ ہے، لیکن ہم بار بار ایک ہی غلطیاں ہوتے دیکھتے ہیں۔لوگ اکثر انہیں ایک بٹن دبانے والا سادہ حل سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ تھوڑی سی سمجھ بوجھ نہ صرف بہتر نتائج دیتی ہے بلکہ مشین کی عمر بھی بڑھا دیتی ہے۔ غیر محفوظ برتنوں کا استعمالہم سب جانتے ہیں کہ دھات والی کسی بھی چیز کو مائیکروویو میں نہیں رکھنا چاہیے۔ لیکن Cookology کے مطابق صرف فوائل کی تہہ یا دھاتی تاریں ہی خطرناک نہیں ہوتیں جن سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ماہرین نے وضاحت کی کہ پلاسٹک کو مائیکروویو میں گرم کرنا بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ وہ پلاسٹک ڈبے جو مائیکروویو کیلئے محفوظ نہ ہوں، خاص طور پر چکنائی یا تیل والے کھانے گرم کرتے وقت، نقصان دہ کیمیکل کھانے میں چھوڑ سکتے ہیں۔کھانے کو ہلانا یا گھمانا بھول جانااگرچہ آج کل زیادہ تر مائیکروویوز میں گھومنے والی پلیٹ (ٹرن ٹیبل) ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود کھانا ہمیشہ یکساں طور پر گرم نہیں ہوتا۔اسی لیے ضروری ہے کہ دورانِ استعمال مائیکروویو کو کچھ دیر کیلئے روک کر کھانے کو اچھی طرح ہلا لیا جائے۔ Cookology کے مطابق درمیان میں کھانا ہلانا یا برتن کو گھما دینا زیادہ محفوظ اور یکساں نتائج کو یقینی بناتا ہے، خاص طور پر چاول، گوشت یا بچے ہوئے کھانے دوبارہ گرم کرتے وقت۔برتنوں کو مضبوطی سے بند کرنامائیکرو ویو میں کھانا ڈھانپنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ کھانا یکساں طور پر گرم ہو اور چھینٹے بھی نہ پڑیں۔تاہم اس معاملے میں حد سے زیادہ احتیاط بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے، اس لیے برتن کو بہت زیادہ سختی سے بند نہ کریں۔ ماہرین کے مطابق بھاپ کے باہر نکلنے کیلئے تھوڑی سی جگہ چھوڑنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اگر ڈھکن مکمل طور پر بند ہو تو اندر دباؤ بڑھ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں برتن خراب ہو سکتا ہے یا ڈھکن اچانک اچھل کر کھل سکتا ہے۔ حتیٰ کہ مائیکروویو کیلئے محفوظ برتن بھی اس صورت میں خراب ہو سکتے ہیں اگر ان کا ڈھکن بہت زیادہ مضبوطی سے بند کیا جائے۔ Cookology کے مطابق بہترین نتائج کیلئے کھانے کو ہلکے انداز میں ڈھانپیں تاکہ حرارت اور نمی برقرار رہے، لیکن ساتھ ہی بھاپ کو محفوظ طریقے سے باہر نکلنے کا راستہ بھی ملتا رہے۔صفائی کو نظر انداز کرنامائیکروویو صاف کرنا ایک ایسا کام ہے جسے بہت سے لوگ ناپسند کرتے ہیں۔لیکن ماہرین کے مطابق یہ نہ صرف صفائی بلکہ مائیکروویو کی کارکردگی کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گندا مائیکرو ویو زیادہ توانائی جذب کرتا ہے اور کھانے کو کم مؤثر طریقے سے پکاتا ہے۔ کھانے کے دھبے بدبو اور دھوئیں کے خطرے کو بھی بڑھا دیتے ہیں۔ تاہم، بلیچ یا دیگر امونیا پر مبنی محلول استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مائیکرو ویو جیسے محدود اور بند جگہ میں یہ محلول زہریلی بھاپ چھوڑ سکتے ہیں جو کھانے کو آلودہ کر سکتی ہیں۔کھانے کو زہریلا ہونے سے بچائیں! کام کرنے کی جگہ کو صاف رکھیں: جراثیم کچن کی مختلف سطحوں پر زندہ رہ سکتے ہیں، اس لیے پکانے کی جگہ اور اپنے ہاتھوں کو صاف رکھنا ضروری ہے۔کراس کنٹامینیشن (cross-contamination) سے بچیں: کچا گوشت، مرغی، سمندری غذا اور انڈے کو اگر الگ نہ رکھا جائے تو یہ تیار کھانوں میں جراثیم پھیلا سکتے ہیں۔ ان اجزاء کو ہینڈل کرتے وقت الگ کٹنگ بورڈز اور پلیٹیں استعمال کریں۔ یہ اجزا فریج میں بھی الگ رکھے جانے چاہئیں۔تھرمامیٹر استعمال کریں: کھانے کو محفوظ طریقے سے پکانے کیلئے اندرونی درجہ حرارت اتنا ہونا چاہیے کہ وہ جراثیم کو مار دے جو فوڈ پوائزننگ پیدا کر سکتے ہیں۔ درست اندرونی درجہ حرارت اجزاء کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، اور کھانے کے محفوظ پکنے کا واحد یقینی طریقہ فوڈ تھرمامیٹر استعمال کرنا ہے۔کھانے کو صحیح طریقے سے محفوظ کریں: کھانے کو صحیح طریقے سے اسٹور کرنا نقصان دہ بیکٹیریا سے لڑنے کیلئے ضروری ہے۔ فریش کھانے کو خریدنے کے دو گھنٹے کے اندر فریج میں رکھنا چاہیے اور فریج کا درجہ حرارت 40°F سے کم ہونا چاہیے۔صرف ختم ہونے کی تاریخ پر بھروسہ نہ کریں: صرف ایکسپائری ڈیٹ یہ نہیں بتاتی کہ کھانے کی اشیاء کب پھینکی جائیں۔ اگر کچھ بو یا رنگ میں عجیب لگے تو بہتر ہے کہ اسے پھینک دیا جائے۔منجمد کھانے کو کاؤنٹر پر پگھلانے سے گریز کریں: فریزر سے نکالے گئے کھانے کو کاؤنٹر پر پگھلانا خطرناک ہے کیونکہ بیرونی حصہ کمرے کے درجہ حرارت تک پہنچتے ہوئے بیکٹیریا تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ منجمد کھانے کو فریج، سرد پانی میں یا مائیکروویو میں پگھلائیں۔ 

 بابل کے معلق باغات  عجوبہ فن اور اساطیری حسن

بابل کے معلق باغات عجوبہ فن اور اساطیری حسن

بابل کے معلق باغات دنیا کے سات قدیم عجائبات میں سے ایک ہیں جو اپنی شاندار تعمیراتی ہنر، غیر معمولی حسن اور پراسرار تاریخ کی وجہ سے آج بھی انسانی تخیل کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان باغات کا کوئی ٹھوس آثارِ قدیمہ شواہد آج تک دریافت نہیں ہوا ہے لیکن یونانی مورخین کی تحریروں اور اساطیری داستانوں میں ان کا تذکرہ شاندار حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ ان باغات کو تقریباً 600 قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا (جدید عراق) کے شہر بابل میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ عجوبہ بابل کے طاقتور حکمران نبوکدنزر دوم (Nebuchadnezzar ii) سے منسوب ہے جس نے 605 قبل مسیح سے 562 قبل مسیح تک حکومت کی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ نے یہ باغات اپنی ملکہ امیٹیس آف میڈیا (Amytis of media) کو خوش کرنے کیلئے بنوائے تھے۔ ملکہ کا تعلق میڈیا کے پہاڑی اور سرسبز علاقوں سے تھا اور جب وہ بابل کے خشک اور میدانی ماحول میں آئیں تو اُداس رہنے لگیں۔ ان کی دلجوئی کیلئے بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ بابل کے مرکز میں مصنوعی پہاڑ اور اس پر لہلہاتے ہوئے باغات تعمیر کروائیں گے جو انہیں اپنے وطن کی یاد دلائیں۔ یہ اقدام بادشاہ کے اپنی ملکہ سے گہری محبت کے اظہار کے ساتھ بابل کی شان و شوکت کا مظہر بھی تھا۔ معلق باغات کی سب سے حیرت انگیز خصوصیت ان کا غیر معمولی تعمیراتی ڈیزائن اور آبپاشی کا پیچیدہ نظام تھا۔ چھتوں پر یا کئی منزلہ چھتوں پر لہراتے ہوئے درخت اور بیلیں تھیں۔ یہ باغات دیوہیکل، سیڑھی نما ڈھانچے پر مشتمل تھے، جو سیڑھی نما ہرمی عمارت کی طرح بلند ہوتے جاتے تھے۔ ہر سطح چھت کا کام کرتی تھی جس پر مٹی ڈال کر پودے اور درخت لگائے جاتے تھے۔ ممکنہ طور پر یہ ڈھانچہ چونے کے پتھر، پکی ہوئی اینٹوں اور اسفالٹ (Asphalt) کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ سب سے بڑا چیلنج پانی کو چھتوں سے رسنے سے روکنا تھا۔ مورخین کے مطابق، کاریگروں نے مٹی اور پودوں کے نیچے سیسے کی موٹی چادریں یا تارکول اور سرکنڈوں کی تہیں بچھائی تھیں تاکہ پانی عمارت کو نقصان نہ پہنچائے۔ دجلہ اور فرات جیسی نہروں کے قربت کے باوجود، باغات کی بلندی تک پانی پہنچانا انجینئرنگ کا شاہکار تھا۔ سب سے مشہور نظریہ یہ ہے کہ پانی دریائے فرات سے پیچیدہ زنجیری ڈول (Chain Pumps)یا آرکی میڈیز سکرو (Archimedes Screw) جیسے آلات کے ذریعے اوپر کھینچا جاتا تھا۔ یہ نظام چوبیس گھنٹے کام کرتا تھا تاکہ اوپر کی سطحوں پر موجود درختوں اور پودوں کو مسلسل پانی ملتا رہے۔ یہ قدیم زمانے میں تکنیکی مہارت کا شاندار نمونہ تھا۔ یہ باغات دنیا کے مختلف حصوں سے لائے گئے غیر ملکی درختوں، پھولوں، پھلوں کے پودوں اور خوشبودار جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دور سے یہ منظر سرسبز پہاڑ کا تاثر دیتا تھا جو بابل کے ریگستانی منظر نامے کے درمیان نخلستان کی حیثیت رکھتا تھا۔اگرچہ روایتی طور پر یہ باغات بابل سے منسوب ہیں لیکن بیسویں صدی کے اواخر میں برطانوی ماہر آثارقدیمہ ڈاکٹر سٹیفنی ڈیلی (Stephanie Dalley) نے نیا اور متنازعہ نظریہ پیش کیا۔ ان کے مطابق بابل کے معلق باغات آشوری سلطنت کے شہر نینویٰ (Nineveh) میں تعمیر کیے گئے تھے اور ان کی تعمیر کا سہرا آشوری بادشاہ سِنحاریب (Sennacherib) کو جاتا ہے۔ ڈیلی کے اس دعوے کی بنیاد آشوری کتب اور نینویٰ میں دریافت ہونے والے وسیع آبپاشی کے نظام کے آثار ہیں جو پہاڑی علاقوں میں پانی پہنچانے کیلئے بنائے گئے تھے۔ تاہم اس نظریے کو بھی تمام ماہرین نے قبول نہیں کیا اور نبوکدنزر دوم کی بابل کے ساتھ وابستگی آج بھی زیادہ مقبول ہے۔ آثارِ قدیمہ کی عدم دستیابی نے اس بحث کو مزید تقویت دی ہے اور باغات کو مزید پراسرار بنا دیا ہے۔معلق باغات کی ثقافتی اور اساطیری اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ یہ باغات انسانی عزائم اور فطرت کو اپنے تابع کرنے کی خواہش کا طاقتور اظہار تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ انسانی ذہانت اور محنت سے خشک زمین پر بھی جنت کا سماں پیدا کیا جا سکتا ہے۔پہلی صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے دنیا کے سات سب سے شاندار اور غیر معمولی تعمیراتی شاہکاروں کی فہرست مرتب کی، جس میں معلق باغات کو بھی شامل کیا گیا۔ اس شمولیت نے ان باغات کو پوری دنیا کیلئے معیار بنا دیا۔ صدیوں سے معلق باغات مختلف فنون، شاعری اور ادب کا موضوع رہے ہیں۔ ان کی تصویر کشی شاندار، سرسبز اور جادوئی مقام کے طور پر کی گئی ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔معلق باغات کا انجام بھی ان کی پیدائش کی طرح پراسرار ہے۔ یہ واضح نہیں کہ یہ باغات کب اور کیسے تباہ ہوئے۔ بابل کا خطہ زلزلوں کی زد میں رہا ہے اور یہ ممکن ہے کہ طاقتور زلزلے نے اس پیچیدہ اور بھاری ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہو۔ باغات کا آبپاشی کا نظام انتہائی حساس اور پیچیدہ تھا۔ اگر بادشاہوں کی سرپرستی ختم ہوئی ہو یا دریائے فرات کا رخ بدلا ہو تو پانی کی عدم دستیابی سے باغات خشک ہو گئے ہوں گے اور عمارت تباہ ہو گئی ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ عمارتیں قدرتی طور پر بوسیدہ ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں اور بابل کے ریت کے نیچے دفن ہو گئیں۔یہ عجوبہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدیم تہذیبیں کس قدر تکنیکی طور پر ترقی یافتہ تھیں اور کس طرح وہ اپنے فن، عظمت اور حسن کو دائمی بنا سکتی تھیں۔ ان کا پراسرار وجود ہی انہیں قدیم دنیا کے سات عجائبات میں سب سے منفرد اور دلچسپ بناتا ہے۔ ان باغات کی تلاش آج بھی آثارِ قدیمہ کے ماہرین کیلئے خواب ہے جو ان اساطیری باغات کے حتمی راز کو جاننے کیلئے کوشاں ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بے نظیر بھٹو کا قتلبے نظیر بھٹو کا قتل27دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں ہوا۔ بے نظیر بھٹو دوبار پاکستان کی وزیر اعظم رہیں،جس وقت ان کو قتل کیا گیا وہ اپنی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔لیاقت باغ میں ایک جلسے کے بعد ان پر گولیاں چلائی گئیں اور فائرنگ کے بعد ایک خود کش بم دھماکہ بھی کیا گیا۔بے نظیر کو فوراً راولپنڈی جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی وفات کی تصدیق کی۔اس بم دھماکے میں 23دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔آیاصوفیہ کی تکمیلآیاصوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور بلاشک و شبہ اس کا دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 27دسمبر 537ء میں اس کی دوبارہ ہونے والی تعمیر مکمل ہوئی۔ آیاصوفیہ سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔آئی ایم ایف کا قیامبین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اقوام متحدہ کی ایک بڑی مالیاتی ایجنسی اور بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہے۔اس کا صدر دفتر واشنگٹن میں واقع ہے جو 190ممالک پر مشتمل ہے۔ اس کا مقصد عالمی مالیاتی تعاون کو فروغ دینا،مالیاتی استحکام کو محفوظ بنانا، بین الاقوامی تجارت کو آسان بنانا ،روزگار اور پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینا اور دنیا بھر میں غربت کو کم کرنا ہے۔ بین الاقوامی فنڈ(آئی ایم ایف)27دسمبر1945ء میں 29رکن ممالک کے تعاون سے وجود میں آیا۔ ارزنکن کا زلزلہ27دسمبر1939ء کو مشرقی ترکی میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جسے ارزنکن کا زلزلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس زلزلے کی شدت 7.8میگاواٹ ریکارڈ کی گئی۔ یہ 1668ء کے شمالی اناطولیہ کے زلزلے کے بعد ترکی میں ریکارڈ کیا جانے والا دوسرا سب سے طاقتور زلزلہ تھا۔ یہ 1939ء اور 1999ء کے درمیان شمالی اناطولیائی فالٹ کے ساتھ ترکی کو متاثر کرنے والے پرتشدد جھٹکوں کے سلسلے میں سب سے بڑا جھٹکا تھا۔کینیا میں بحران2007-08ء کے دوران کینیا کا بحران ایک پر تشدد سیاسی ،اقتصادی اور انسانی بحران تھا جو کینیامیں اس وقت پھوٹا جب سابق صدرموائی کو27دسمبر2007ء کوہونے والے صدارتی انتخابات میں فاتح قرار دیا گیا۔ان انتخابات کے نتائج میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کی گئی جس کی تصدیق بین الاقوامی مبصرین نے بھی کی۔انتخابات کو متنازع بنانے میں دونوں جماعتوں نے اپنا کردار ادا کیا یہاں تک کہ خود انتخابی کمیشن کے سربراہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ صدر کے عہدے کے اعلان کرنے کے باوجود نہیں جانتے تھے کہ انتخابات کس نے جیتے ہیں۔ 

گڈانی:تنہائی پسند ساحل

گڈانی:تنہائی پسند ساحل

ملک عزیز پاکستان بحری گزرگاہوں کے ذریعے دنیا سے منسلک ہے اور یوں سمندری تجارت پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سمندری سیاحت کو وہ مقام حاصل نہیں جیسا کہ دیگر ممالک میں ہے لیکن اگر بات کی جائے ساحلی علاقوں کی تو ان گنت مقامات اپنی خوبصورتی کے باعث عالمگیر شہرت کے حامل ہیں، لیکن سیاحوں کی آمد و رفت کم اور صرف ملکی سیاحوں تک محدود ہے۔ ساحل گڈانی کو دیکھ لیں‘جو ہے تو بلوچستان کا حصہ لیکن کراچی سے 50کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باعث قریب ترین ساحل ہے جہاں با آسانی پہنچا جاسکتا ہے ۔گڈانی کا دلکش ساحل موسمِ گرما اور موسمِ سرما میں اپنی دلکش رعنائی سے سیاحوں کیلئے منفرد مقام ہے۔پاکستان میں چونکہ ساحلی سیاحت کیلئے موسمِ گرما کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی تعطیلات ہوتی ہیں ۔ساحل گڈانی پر مختلف تفریحی مقام ہیں جہاں ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں ، ساحلوں کے شوقین مہم جُو سیاح قریبی ساحل ،ڈگار زئی پہنچتے ہیں جو اپنی پہاڑیوں کے باعث مشہور ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پہاڑی ٹیلے نیلگوں پانی میں استادہ ہیں جہاں سمندر کی لہریں اٹکھیلیاں کرتی ہیں تو پانی کی اچھال دیکھ کر لطف آجاتا ہے۔ سیاح قریبی ٹیلوں پر بیٹھ کر فوٹوگرافی میں وہ لمحات قید کرتے ہیں اور پھر اگلی منزل پھوکارا کے ساحل پر پہنچتے ہیں ۔گڈانی کا یہ ساحل ایک پہاڑی ٹیلے کا تسلسل ہےجہاں ایک پہاڑ میں بنا سوراخ جو چٹان میں ہوا دان کی طرح ہے اور دوسری جانب اس کا راستہ پہاڑ کے نیچے دروازے کی مانند سمندر کی جانب کھلتا ہے ۔سمندر کی لہریں جب اس دروازے پر دستک دیتی ہیں تو ان کی گونج اس ہوا دان یعنی پہاڑ میں بنے دریچے سے پھونکار کی طرح گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ یہ ردھم سیاحوں کیلئے بڑی کشش کا باعث بنتا ہے۔ یہاں سمندری لہریں پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں جو اس مقام کی انفرادیت ہے۔اسی ساحل سے تھوڑے فاصلے پر سنگ مرمر ساحل ہے ۔یہ مقام ساحل اور پہاڑی سلسلے کا بہت خوبصورت سنگم ہے، یہاں بھی سیاحوں کی اکثریت آتی ہے۔ پہاڑیوں کی دلکشی اور لہروں کی تیزی ایسی ہے کہ جب لہریں ساحل سے ٹکراتی ہیں تو پانی بہہ کر 20،25 فٹ تک پھیل جاتا ہے اور اسی تیزی سے وہ پانی سمندر کی جانب واپس پلٹتا ہے۔ ان لہروں کی کشش سیاحوں کو پانی میں بھیگنے کیلئے اکساتی ہے۔ ایسے ساحلوں پر حفاظتی انتظامات ضروری ہیں ، سیاحوں کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے پُر خطر حصوں میں مہم جوئی میں احتیاط سے کام لیں۔گڈانی کے ساحلی حصوں میں پوشیدہ ایک ایسا ساحل بھی ہے جو چٹانی ہے اور ایڈونچر پسند سیاح ان چٹانوں میں اتر کر انہیں عبور کرکے ساحل کی لہروں کو چھو سکتے ہیں یوں یہ غار نما پہاڑی راستہ ساحل کے کنارے پہنچاتا ہے ۔یہ غار اس قدر ٹھنڈک فراہم کرتی ہے کہ تھکان کو دور کر دیتی ہے۔ اس مقام کی دلکشی ناقابلِ فراموش ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار آنے کی دعوتِ نظارہ بھی دیتی ہیں۔ موسمِ سرما میں آنے والے سیاح گڈانی کو مختلف انداز میں پاتے ہیں۔ اس وقت سمندر ان چٹانوں سے دوری اختیار کر لیتا ہے اور سمندر اور چٹانوں کے درمیان ساحل کی ریت آجاتی ہے جو آنے والے موسمِ گرما تک حدود قائم رکھتی ہے۔سفر کے آخر میں گڈانی کے اُس روپ کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور وہ ہے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں جہاز کٹنے کیلئے آیا کرتے تھے، اب وہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے، اس کمی کو دور کرنے کیلئے بین الاقوامی ماحولیاتی اور حفاظتی معیارات کو اپنایا جارہا ہے تاکہ گڈانی شپ یارڈ آنے والے وقتوں میں گرین یارڈ میں منتقل ہوسکے ان اقدامات سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی اور مزدوروں کی صحت کو بھی تحفظ ملے گا۔گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کا شمار دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس کا شمار دنیا میں پہلے نمبر پر ہے 132 یارڈز پر مشتمل گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سالانہ لاکھوں ٹن سٹیل فراہم کرتا ہے۔یوں گڈانی اپنی ان گنت خوبیوں کے باعث ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔اس کے باوجود گڈانی ایک تنہائی پسند ساحل ہے جو صرف موسم گرما میں سیاحوں کے ساتھ گھل مل کر اپنی تنہائی دور کرتا ہے۔