سوشل میڈیا لائکس بھی بے وفائی قرار: ترک عدالت کا شوہر کو علیحدگی کاخرچ ادا کرنے کا حکم
اسپیشل فیچر
ڈیجیٹل دور میں جہاں سوشل میڈیا انسانی زندگی کا لازمی حصہ بنتا جا رہا ہے، وہیں اس کے سماجی اور خاندانی اثرات بھی تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں۔ ترکی کی ایک عدالت نے حال ہی میں ایسا فیصلہ سنایا ہے جس نے ازدواجی رشتوں اور آن لائن رویّوں کے درمیان نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ عدالت نے سوشل میڈیا پر دوسری خواتین کی تصاویر بار بار لائک کرنے اور مبہم و اشتعال انگیز تبصرے کرنے کو ازدواجی وفاداری کے فرائض کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شوہر کو علیحدگی کا خرچ اور معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہ غیر معمولی مقدمہ نہ صرف ترکی بلکہ دنیا بھر میں اس سوال کو اجاگر کرتا ہے کہ کیا ڈیجیٹل دنیا میں کیے گئے اعمال بھی حقیقی زندگی کے رشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
اس کیس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک شوہر جس نے بار بار دوسری خواتین کی تصاویر سوشل میڈیا پر لائک کیں کو ترکی کی اعلیٰ عدالت نے حکم دیا ہے کہ وہ علیحدگی کا خرچ اور معاوضہ ادا کرے، کیونکہ عدالت نے اس کے آن لائن رویے کو ازدواجی وفاداری کے فرائض کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ غیر معمولی کیس ترکی کے وسطی شہر کیسری میں دائر کیا گیا، جہاں ایک خاتون جن کا صرف نام HB بتایا گیا ہے، نے اپنے شوہر پر الزام لگایا ہے کہ اس کا شوہر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارتا ہے، دوسری خواتین کی تصاویر لائک کرتا ہے اور مبہم و اشتعال انگیز کمنٹس چھوڑتا ہے۔
ان کے وکیلوں کا کہنا تھا کہ یہ رویہ ازدواجی وفاداری کے قانونی فرائض کی خلاف ورزی ہے، جو ترکی کے سول قوانین میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔انہوں نے اس کیلئے شوہر سے معاوضہ طلب کیا۔شوہر، جس کی شناخت SB کے طور پر کی گئی نے الزامات سے انکار کیا اور جواب میں طلاق کیلئے درخواست دی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس کی بیوی نے اس کے والد کی توہین کی اور اس کی حسد نے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد، مقامی فیملی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ شوہر زیادہ قصوروار ہے کیونکہ اس کا سوشل میڈیا رویہ مسلسل اور عوامی تھا نہ کہ صرف ایک وقتی غلطی۔عدالت نے حکم دیا کہ شوہر ماہانہ ایک ہزار ترکی لیرا (تقریباً 25پائونڈ) نفقہ ادا کرے اور 60ہزار لیرا (تقریباً 1,500پائونڈ) معاوضہ بھی دے۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ آن لائن رویے کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ بظاہر بے ضرر آن لائن تعاملات دراصل جذباتی عدم تحفظ کو بڑھا سکتے ہیں اور تعلقات کے توازن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ شوہر SB نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ معاوضہ بہت زیادہ ہے۔ تاہم یارگیٹے (Yargitay) جو ترکی میں سول مقدمات میں سپریم کورٹ کے مساوی ہے، نے یہ فیصلہ برقرار رکھا۔یارگیٹے نے نچلی عدالت کے نتائج کی توثیق کرتے ہوئے واضح کیا کہ سوشل میڈیا پر بار بار دوسری خواتین کی تصاویر لائک کرنا ترکی کے قانون کے تحت ازدواجی وفاداری کی خلاف ورزی تصور کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ اس کیس نے آن لائن مذاق کو جنم دیا ہے، وکلاء کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی حقیقت میں بڑی اہمیت ہے کیونکہ اسے اعلیٰ عدالتی سطح پر منظور کیا گیا۔ کچھ وکلاء نے خبردار کیا ہے کہ اسکرین شاٹس، پیغامات اور دیگر ڈیجیٹل ریکارڈز طلاق کے مقدمات میں قصور کا تعین کرنے کیلئے بڑھتی ہوئی اہمیت اختیار کر سکتے ہیں۔
ترکی کے اخبار Haberler سے بات کرتے ہوئے ایک وکیل نے کہا کہ اب اسکرین شاٹس، پیغامات اور تمام ڈیجیٹل تعاملات کو ہر فریق کے قصور کے تعین میں مدنظر رکھا جائے گا۔ میں شہریوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھیں۔عدالت کا یہ فیصلہ اس بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی کرتا ہے جو ماہرین نفسیات اور رشتہ مشیر 'مائیکرو چیٹنگ‘ کے بارے میں ظاہر کر رہے ہیں۔
اس فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ آن لائن سرگرمیاں محض ذاتی مشغلہ نہیں رہیں بلکہ ان کے اخلاقی اور قانونی نتائج بھی ہو سکتے ہیں، خصوصاً جب وہ ازدواجی اعتماد اور باہمی احترام کو مجروح کریں۔
رشتہ مشیر کہتے ہیں کہ اس کے اشارے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ فون کے گرد بڑھتی ہوئی خفیہ پن، سوال کرنے پر دفاعی رویہ، پیغامات حذف کرنا یا پارٹنر کی توجہ کے بجائے آن لائن توجہ کو ترجیح دینا۔اگرچہ یہ رویہ خیانت کے مترادف نہیں،مگر یہ جذباتی تحفظ کو آہستہ آہستہ کمزور کر سکتا ہے اور رنجش پیدا کر سکتا ہے۔ماہرین یہ بھی خبردار کرتے ہیں کہ تہوار کا موسم رشتوں میں موجود کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ پارٹیوں اور سوشل میڈیا کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے حدود پر دباؤ آتا ہے۔ رشتہ قائم رکھنے والی فلاحی تنظیمیں کہتی ہیں کہ کرسمس اکثر فون، پیغامات اور آن لائن رویے کے تنازعات کا عام وقت ہوتا ہے، خاص طور پر جہاں اعتماد پہلے ہی کمزور ہو۔
یہ کیس ایسے وقت سامنے آیا ہے جب رشتہ مشیر خبردار کر رہے ہیں کہ کرسمس اور نیا سال عموماً رشتوں میں مسائل بڑھا دیتے ہیں اور جنوری میں جوڑوں کی طلاق کے کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔برطانیہ میں، خاندانی وکلاء اکثر جنوری میں طلاق کی درخواستوں میں اضافہ رپورٹ کرتے ہیں، خاص طور پر نئے سال کے پہلے کام کے ہفتے میں، جسے کبھی کبھار''ڈائیوورس ڈے‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جب جوڑے کرسمس کے دباؤ کے بعد اپنے تعلقات کا دوبارہ جائزہ لیتے ہیں۔سرکاری عدالتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رسمی طلاق کی درخواستیں اکثر بہار میں آتی ہیں، جب یہ فیصلے قانونی کارروائی میں بدل جاتے ہیں۔