فٹ بال ہیروز کی دنیا

بلند حوصلے ، پھرتیلے جسم، مضبوط اعصاب اور ناٹے قد کے مالک محمد یونس چنگیزی عرف ٹارزن کا نام آج نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے ہر زی شعور فٹبالر کے ذہنوں میں ان کی برق رفتاری و ربر کی سی لچک اور گول کرنے کی قدرتی صلاحیت کی وجہ سے نقش ہے۔
کراچی (امتیاز نارنجا) کوئٹہ کے مشہور ومعروف ہزارہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے علی جمعہ کے گھر4 نومبر 1944 میں آنکھ کھولی۔ اسکول کی زندگی سے قیوم چنگیزی جیسے استاد کی شاگردی میں فٹبال کھیل میں قدم رکھنے والے اس کھلاڑی نے 1960 میں ینگ افغان کلب کوئٹہ سے ماسٹر جان کی سرپرستی میں بلندی کا سفر شروع کیا۔ انہوں نے بلوچستان کے مشہور و معروف کلبوں ینگ افغان کلب کوئٹہ، پریذیڈنٹ کلب کوئٹہ اور ہزارہ کلب کوئٹہ کی نمائندگی کی۔ محمد یونس ٹارزن کو 1965میں جب پاکستان یوتھ کی نمائندگی کا موقع میسر آیا تو ان کا دیرینہ خواب پورا ہوا۔ لیفٹ آؤٹ پوزیشن پر کھیلتے ہوئے پاکستان یوتھ کی جانب سے روس کا دورہ کیا۔ 1970میں ایران اور ترکی کیخلاف آر سی ڈی کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔آرڈیننس ڈپو کوئٹہ کی نمائندگی اور کپتانی کے بعد پاکستان آرمی سے منسلک ہوگئے جہاں انہوں نے نہ صرف پاکستان آرمی کی جانب سے قومی ٹیم کا سفر شروع کیا بلکہ اس کے کپتان بھی رہے۔ دوسرے محب وطن نوجوانوں کی طرح لیفٹیننٹ کرنل (ر) یونس چنگیزی نے بھی 1971کی جنگ کے نتیجے میں جنگی قیدی کی حیثیت سے چار سال تک دشمن کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یونس ٹارزن نے ڈھاکہ میں وکٹوریہ کلب کی جانب سے پروفیشنل لیگ میں حصہ لیا اور کیپٹن عمر، عباس، شنتو، عابد غازی، موسیٰ غازی، غلام ربانی، ایوب ڈار، تراب علی اور یوسف سینئر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خوب نام کمایا۔ یونس چنگیزی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ انٹرنیشنل کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ کوچ اور چیف سلیکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ 1985-86میں منیجر کم کوچ کی حیثیت سے ایران اور بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے ہیں۔ 1988میں قومی ٹیم کے چیف سلیکٹر تھے۔ان کی منتخب کردہ ٹیم نے 1989میں پہلا سیف گیمز گولڈ میڈل جیتا۔ 1995میں 30غیر ملکی کوچز کے ہمراہ برازیل میںکوچنگ کورس میں شرکت کی اور اے کلاس کوچنگ کی سند حاصل کی۔