سویلنز کا فوجی ٹرائل کیس : دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام عدالت کا نہیں : سپریم کورٹ

سویلنز کا فوجی ٹرائل کیس : دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام عدالت کا نہیں : سپریم کورٹ

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال پر مشتمل سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت کی ۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب میں دلائل جاری رکھے اور مؤقف اپنایا کہ کچھ عدالتی فیصلوں پر دلائل دینا چاہتا ہوں، سابق جج سعید الزماں صدیقی اور دیگر کے کچھ فیصلے ہیں۔ اگر کوئی سویلین کسی فوجی تنصیب کو نقصان پہنچائے ، ٹینک چوری کرے تو اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ کسی مجرمانہ عمل پر ایف آئی آر کٹتی ہے ، سوال ٹرائل کا ہے ،وکیل وزارت دفاع نے مؤقف اپنایا کہ قانون بنانے والوں نے طے کرنا ہے ٹرائل کہاں ہوگا،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ایف آئی آر کیسے کٹتی ہے ، تفتیش کون کرتا ہے ، طریقہ کار کیا ہوگا، یہ جاننا چاہتے ہیں۔وکیل وزارت دفاع نے کہا آرمی ایکٹ کے تحت آرمڈ فورسز خود بھی سویلین کی گرفتاری کر سکتی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ گرفتاری سے قبل ایف آئی آر کا ہونا ضروری ہے ،جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جب کسی کو گرفتار کریں گے تو متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے ، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی کے تحت ملزم تب بنتا ہے جب فرد جرم عائد ہو۔

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آئین پاکستان نے بذات خود کورٹ مارشل کیلئے یونیک اختیار سماعت دے رکھا ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے مطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتیں، فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کے تحت ہیں، پھر یہ بتا دیں، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث آج بھی جواب الجواب جاری رکھیں گے ۔ دریں اثنا آئینی بینچ نے سپر ٹیکس نفاذ کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین نے کہا ہے کہ سپر ٹیکس کے نفاذ کے خلاف کیس کی سماعت 15 اپریل سے روزانہ کی بنیاد پر کریں گے ، اگر ہائی کورٹس سے کیسز غلط ٹرانسفر ہوئے تو لسٹ بنا کر جمع کرا دیں، کیسز واپس بھجوا دیں گے ۔بعدازاں سینئر وکیل مخدوم علی خان کی عدم دستیابی کے سبب عدالت نے سماعت 15 اپریل تک ملتوی کردی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں