ٹک ٹاک:ایپ بری نہیں،استعمال درست کریں
دنیا فورم
شرکاء:ڈاکٹرمریم حنیف غازی، چیئرپرسن شعبہ نفسیات محمد علی جناح یونیورسٹی۔ڈاکٹر سعدیہ معین،ٹی وی میزبان مذہبی پروگرام اور رائٹر۔ملکہ خان ،صوبائی پروگرام منیجر عورت فائونڈیشن۔ڈاکٹر سعیدہ خان ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ اینڈ کمیونیکیشن سپورٹ آفیسر اور طلبہ وطالبات کی کثیر تعداد
لڑکے اور لڑکیاں ٹک ٹاک پرناچ گانے کی ویڈیوز ڈال رہے ہیں جو غلط ہے ، ڈاکٹر سعدیہ معین
معاشرے میں ٹک ٹاک کا 10فیصد مثبت اور 90فیصد منفی استعمال ہورہاہے ،ڈاکٹر مریم حنیف غازی
ٹک ٹاک کی مخالف نہیں ، معاشرے میں صحیح استعمال کیا جائے تو فا ئدے ہوں گے ،ڈاکٹر سعیدہ خان
تعلیمی اداروں میں انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے آگہی دینے کی ضرورت ہے ،ملکہ خان
موضوع:‘‘ٹک ٹاک کے معاشرے پر مثبت اور منفی اثرات؟’’
یہ دور سوشل میڈیا کا کہلاتا ہے ،یوٹیوب ،ٹک ٹاک ،فیس بک اور انسٹاگرام سمیت دیگر ایپس نوجوانوں پر خصوصاً اور دیگر پر عموماً اپنا سحر طاری کرچکی ہیں تاہم معاشرے کے سنجیدہ گروہوں کو یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اسی لئے دنیا فورم اکثر ایسے موضوعات کو زیربحث لاتا ہے جو عموماً میڈیا کی توجہ کا مرکز نہیں ہوتے ،ہم نے اس مرتبہ اپنی روایات کے مطابق ٹک ٹاک کے معاشرے پر پڑنے والے مثبت اور منفی پہلوئوں پر فورم کیا ،شرکاء میں جہاں دیگر شعبہ جات کی ماہرین موجود تھیں وہیں طلبہ وطالبات بھی اظہار خیال کرنے والوں میں شامل تھے ،فورم کا خلاصہ یہی رہا کہ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس کا استعمال اس کے اچھے یا برے ہونے کا تعین کرتا ہے ،ٹک ٹاک سے نوجوان اکثر وقت ضائع کررہے ہیں جبکہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ نے انہیں نفسیاتی امراض کا بھی شکار کردیا ہے ،حد تو یہ ہے کہ ادھیڑ عمر اور بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے افراد بھی عجیب وغریب حرکتیں کرتے نظر آرہے ہیں جس کا بنیادی مقصد محض خودنمائی ہے اور ماہرین نفسیات اسے ایک بیماری کہتے ہیں۔دنیا فورم کی مکمل رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش ہے ،قارئین اسے پڑھ کر فیصلہ کریں کہ ٹک ٹاک کتنا مفید اور کتنا نقصان دہ ہے ساتھ ہی ہمیں بھی اس فورم کے حوالے سے اپنی رائے سے آگاہ کریں جبکہ اگر آپ کے ذہنوں میں کوئی ایسا موضوع ہے جو دنیا فورم میں زیربحث آنا چاہیے تو ضرورت ہمیں بتائیں۔شکریہ(مصطفی حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم )
دنیا فورم میں شریک طلبہ وطالبات کے تاثرات
ہم لوگ پڑھ پڑھ کر تھک جاتے ہیں اس لئے ہمار ا گروپ ذاتی طورپر تفریح کیلئے ٹک ٹاک بنا تاہے ،ملیحہ اعجاز
ٹک ٹاک کے مثبت پہلو بھی ہیں،کور ونا میں ٹک ٹاک کے ذریعے بہت سی آگہی ویڈیوز بھی بنائی گئیں، ماہین صدیقی
سب لوگ یہی دیکھ رہے ہیں کس کس کو روکیں گے ، اس لیے نوجوان اس طر ف راغب ہورہے ہیں،ایمن
ٹک ٹاک اسلام اور ہماری ثقافت ختم کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کررہا ہے جو ہماری حیا ء کو بھی ختم کررہا ہے ، عماد صدیقی
ہماری نسل فحاشی کی طرف بڑھ رہی ہے ،اس کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے ،محمد سفیان
دنیا: نوجوانوں خاص طورپر طالب علموں پر ٹک ٹاک کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
ڈاکٹر سعدیہ معین :اللہ تعالی ٰ نے قرآن پاک میں ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں ڈالنے کا واقعہ ذکر کیا ،جس وقت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جارہا تھا اس وقت ایک چھوٹی سی چڑیا نے پانی لیا اور آگ میں ڈالا کہ یہ بجھ جائے ،حالانکہ اس کے قطروں سے وہ آگ نہیں بجھ سکتی تھی لیکن اسے معلوم تھا جب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ جب میرے خلیل کو آگ میں ڈالا جارہا تھا تو تم نے کیا کردار ادا کیا،میں کہوں گی یارب مجھے معلو م تھا ان قطروں سے آگ نہیں بجھ سکتی لیکن میں نے کوشش ضرور کی اور اپنا کردار ادا کیا،ہم اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے کوشش توکرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج یہاں جمع ہیں۔ ٹک ٹاک بنا نا غلط نہیں اس کو غلط انداز میں بنا نا غلط ہے ۔ جس طرح آج کل لڑکے اور لڑکیاں ٹک ٹاک پرناچ گانے کرتے ہوئے ویڈیوز ڈال رہے ہیں غلط ہے اس سے بے حیائی بڑھ رہی ہے ۔ معاشرہ اچھا ئی نہیں برائی کی طرف جارہا ہے ۔ جوکچھ نوجوان بنارہے ہیں اس میں اکثر ہمارے مذہب اور پاکستانی معاشرے کیخلاف ہے ،یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے کیا ہمارا مذہب ،شرم و حیا ء اس چیز کی اجازت دیتا ہے ؟ اگر چہ ہم اس کو ختم نہیں کرسکتے کم از کم اس کے خلاف مل کر آواز تو بلند کر سکتے ہیں ۔ٹک ٹاک بنانے والی کچھ لڑکیاں ماڈل بن چکی ہیں۔ایک لڑکی جو 8جماعت پاس ہے لیکن شہرت کی وجہ سے ٹک ٹاک بنارہی ہے ،پارک میں خاتون اپنی 14 سالہ لڑکی جو باقاعدہ رقص کررہی تھی اس کی ٹک ٹاک بنارہی تھی ، وہ ماں اپنی بچی کو کہاں لے جارہی ہے ، کیا ہمارا دین ،معاشرہ اس چیز کی اجازت دیتاہے ۔کیا ایسے والدین اپنی اولاد کی صحیح تربیت کررہے ہیں؟ کیا یہ پیسہ حلال میں آتاہے ،ہم برائیوں کو روک نہیں سکتے کمی تو لاسکتے ہیں۔ہم اچھائیوں کو بہت مشکل ا ور برائیوں کو آسانی سے قبول کرلیتے ہیں،ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس میں اللہ نے ہمیں ہر اچھی اور بری چیزوں کا بتادیاہے ،ہمارا انجام کیا ہے یہ بھی معلوم ہے ۔انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں چین پوری دنیا میں پانچوے نمبر پرہے وہاں یہ ایپ شروع ہوئی،ترقی یافتہ ممالک ایسے ایپس صرف بناتے ہیں استعمال ہم کرتے ہیں، ان باتوں سے متعلق ایک واقعہ بتانا چاہوں گی کہ بنی اسرائیل اور حضرت داؤد علیہ سلام کی قوم پر اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن مچھلیوں کے شکار پر پابندی لگائی تھی ،ان کامقدس دن ہفتہ تھا جیسے ہمار ا جمعہ ہے ۔اس قوم نے اس تالاب یا جھیل کے اطراف کچھ نالیاں نکالیں اور محلے میں لے آئی اور ہفتے کے دن اس نالے سے مچھلیاں پکڑتے ، پکاتے اور فروخت بھی کرتے تھے ۔ کچھ لوگ روکتے اور کچھ لوگوں نے اس کے ساتھ دیوار بنالی کہ اللہ کا عذاب آئے گا تو ان ہی لوگوں پر آئے گا اور خاموش رہے ۔جب اللہ نے جبرائیل علیہ اسلام کو حکم دیا کہ اس قوم پر عذاب نازل کرو ،جبرائیل علیہ اسلام نے عرض کی یااللہ اس دیوار کے پیچھے تیرے نیک بندے بھی رہتے ہیں ،اللہ نے حکم دیا پہلے انہیں عذاب دو کیوں کہ یہ میرے حکم کی نافرمانی ہوتے دیکھ رہے تھے انہیں روکا نہیں ،اگر ہم برائی کو روک نہیں سکتے تو کم از کم اس کیخلاف بول تو سکتے ہیں،ٹک ٹاک بنانے والوں کی اکثریت کو اس ایپ کو بنانے اور اس کے مقصد کا معلوم ہی نہیں ہوتا،ٹک ٹاک جہاںسے آیا وہاں استعمال اتنا نہیں جتنا ہمارے یہاں ہورہاہے ۔ بعض جگہ ٹک ٹاک ایسے مقامات پر بنائے جار ہے ہوتے ہیں جو حادثات کا باعث بنتے ہیں۔
ڈاکٹرمریم غازی : پاکستان ٹک ٹاک کی ویڈیوز اور پیغامات میں سر فہرست ہے ، والدین غور کریں کہ بچوں کو جو انٹرنیٹ کی سہولت دی ہوئی ہے کیا وہ اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں یا کسی اور طرف جارہے ہیں، ایپس کو کنٹرول کرنے کی بہت ساری ایپلی کیشنز ہیں ،پیرینٹس کنٹرول ایپ،فیملی لنک اور بھی کئی ایپس ہیں جس کی مدد سے والدین ان چیزوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔سرگرمیوں کے ساتھ مثبت چیزیں بھی ہیں لیکن کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ،ٹک ٹاک کتنا وقت استعمال کرنا ہے اس کی بھی ایپلی کیشن ہے ، والدین کے موبائل میں وہ ایپ ہونے چا ہییں کہ بچہ اپنے موبائل میں جو ایپ استعمال کررہا ہے اس سے والدین آگاہ رہیں۔
ملکہ خان : نفسیاتی طور پر اس وقت اس کے اثرات کا اندازہ نہیں ہورہا،جو لوگ موبائل کا استعمال بہت زیادہ کررہے ہیں وہ 50یا 60 سال کی عمر کو جائیں گے توان کو شارٹ میموری کا مسئلہ درپیش ہوسکتاہے ۔
دنیا: بچے فارغ وقت والدین کے بجائے ٹک ٹاک اور موبائل کو دے رہے ہیں کیا معاشرے پراثرات نہیں پڑرہے ؟
ڈاکٹر سعیدہ خان : اسلامی معاشرے میں یہ چیزیں قابل قبول نہیں، ٹک ٹاک میں نوجوانوں کے ساتھ 40 سال سے زائد عمر کے لوگ بھی ویڈیوز بنارہے ہوتے ہیں جو حیرت کی بات ہے ،معاشرہ کس طرف جارہاہے ،ہم کن چیزو ں کو فالو کررہے ہیں،ہم ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر بری ہوجاتے ہیں، ہم خود ہر فرد کی اصلاح کی کوشش کریں تو معاشرہ بہتری کی طر ف جاسکتاہے ،ہمیں ان چیزوں پر غور اور عمل کرنے کی ضرورت ہے ،حکومت کی کیا بات کریں ابھی تو ہماری سڑکیں بھی صحیح نہیں ہوئیں نوجوان نسل تو دور کی بات ہے ،ایک اچھے شہری کی حیثیت سے میری بھی ذمہ داری ہے لوگوں میں اچھے کاموں کی آگہی دوں۔
ملکہ خان : ایپ بری نہیں استعمال غلط ہورہا ہے ۔بدقسمتی سے ملک میں کوئی بھی چیز آتی ہے ا س سے آگہی نہیں ہوتی جس کے منفی اثرات آنا شروع ہوجاتے ہیں،2 او ر6 ماہ کے بچوں کو بھی موبائل سے کچھ نہ کچھ سنایا اور دکھایا جارہا ہوتاہے ،جو بچہ ماں کی پیٹ میں ہوتا ہے وہ بھی سن رہا ہوتا ہے ، جب تک کسی بھی چیز کو لانے سے قبل آگہی نہیں ہوگی ا س کے منفی اثرات آئیں گے ۔پہلے خط و کتابت میں کئی دن لگا کرتے تھے اب ای میل کے ذریعے سیکنڈوں میں پیغام پہنچ جاتا ہے ،یہ انٹرنیٹ کا مثبت استعمال ہے اسی طرح انٹرنیٹ پر فحاشی پر مبنی پروگرام بھی دیکھے جاتے ہیں ،ہمیں کن چیزوں کا استعمال کرنا اور کن کا نہیں کرنا اس کی تربیت ہونی چاہیے ، کچھ ٹک ٹاک سے نوجوان اور بچوں کو تباہ کیا جارہا ہے ۔بچے ٹک ٹاک اپنی فیملی کو نہیں صرف گروپ کے لوگوں کو دکھاتے ہیں ۔ والدین کو علم ہو تو اجازت نہیں دینگے ۔ والدین کو نظر رکھنے اور تربیت کرنے کی ضرورت ہے ۔ 2016میں یہ ایپ آیا، نوجوانوں کو اس کے مثبت پہلوؤں کے متعلق بتایا جاتا ، تعلیمی مواد پھیلایاجاتا تو اچھا تھا مگر طالب علموں نے اپنی مہارت گانوں اور ویڈیوز کے شکل میں ٹک ٹاک پر ڈالی جو دوسرو ں تک پہنچ گئی ،بدقسمتی سے اس حوالے سے آگہی ہی نہیں دی گئی ،ان چیزوں کے متعلق معلومات یونیورسٹی اور کالجوں میں دینے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کی رہنمائی ہوسکے ،بچوں کی آگہی کیلئے گھر او ر اسکول پہلی تربیت گاہ ہے ۔
ڈاکٹر سعیدہ خان : تعلیم اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے مثبت چیزیں بھی منفی ہوجاتی ہیں،ٹک ٹاک کا استعمال او ر سوفٹ ویئر بنانے کے پیچھے ایک بڑا مقصد ہے جسے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ، ٹک ٹاک کی مخالف نہیں ، معاشرے میں صحیح استعمال کیا جائے تو فا ئدے ہوں گے ۔بدقسمتی سے پروپیگنڈا زیادہ اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ نوجوانوں کے پاس سیکھنے اور مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے اچھا ماحول نہیں ہے جس کی وجہ سے نئی نسل ان چیزوں میں لگ جاتی ہے ،ٹک ٹاک میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سستی شہرت کی وجہ سے بہت آگے نکل رہے ہیں۔بچے اپنے آپ کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں جس کے باعث اس طرف جارہے ہیں، ماضی میں بچوں میں تقریری مقابلے ، کھیل اور مثبت سرگرمیاں ہوتی تھیں جو اب نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے سماجی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور نوجوان سستی شہرت کیلئے ٹک ٹاک کو استعمال کر رہے ہیں ، ایک نوجوان کے ٹک ٹاک کے معاشرے پر مثبت اثرات بھی دیکھے لیکن اسے بند کردیا گیا جس سے اندازہ ہوتاہے ٹک ٹاک ایک خاص مقصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔
دنیا : طالب علموں کا رویہ کیا ہوتاہے ،کیا تعلیمی نظام بچوں کی آگہی اور تربیت نہیں کرسکتا؟
مریم حنیف غازی : ٹک ٹاک سے نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں،نوجوان ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں عجیب وغریب حرکتیں بھی کررہے ہیں،اعدادو شمار کے مطابق 16سے 24سال کی عمر کے نوجوان اوسطاً یومیہ54منٹ ٹک ٹاک پر لگاتے ہیں،کلاس میں ایک طالبہ کی پڑھائی میں پوزیشن گرنے لگی ،اسائمنٹ جمع نہیں ہورہے تھے ،معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ روزانہ رات کو 3 بجے تک ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھتی تھی جس کے باعث اس کے مارکس کم آرہے تھے ،اسی طرح کئی طالب علموں کا یہ معمول ہے ،یہ پلیٹ فارم معلومات کے مقصد کیلئے صحیح نہیں ہے ، معاشرے میں ٹک ٹاک کا 10فیصد مثبت اور 90فیصد منفی استعمال ہو رہا ہے ، نوجوان جب ٹک ٹاک بنانا شروع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں میرے کتنے فالوورز اور ویوورز ہیں ا س سے ان میں فالورز بڑھانے کا نفسیاتی دباؤ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے فالوورز کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے ، یوٹیوبرز ،ٹک ٹاک یا بلاگ بنا نے والوں میں ذہنی دباؤ بڑھنے کی علامات آرہی ہیں اور جنریشن گیپ آرہا ہے ،اس ایپ سے معلومات نہیں ملتیں بلکہ ذہنی دبائو بڑھ رہا ہے ، والدین ایک ایپ کے ذریعے ٹک ٹاک اور دیگر پروگرام کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔بدقسمتی سے والدین بھی حد سے تجاوز کرجاتے ہیں تو بچوں سے کیا توقع کرسکتے ہیں۔
دنیا: ٹک ٹاک بناتے ہوئے کئی لوگ موت کا شکار بھی ہوئے ،معاشرہ کس طرف جارہاہے ؟
مریم غازی : ٹک ٹاک بھی ایک بیماری ہے جو اگر خرابی کی شکل اختیار کرلے توایسے واقعات بھی ہوجاتے ہیں،جب توقعات پوری نہیں ہوں تو انسان ذہنی دباؤ میں چلا جاتاہے جو خود کشی کا سبب بھی بن جاتاہے ، ٹک ٹاک پر مقابلے کی فضا بن رہی ہے جس کے باعث لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہورہے ہیں،یہ چیزیں معاشرے میں منفی رویوں کو جنم دے رہی ہیں۔
دنیا: ٹک ٹاک معاشرے میں مثبت رویے کو بڑھنے کیوں نہیں دے رہا؟
ڈاکٹر سعیدہ خان :ٹک ٹاک پر مثبت پیغا م یا ویڈیوز بھی ڈالی جاسکتی ہیں،ایک نوجوان ٹک ٹاک پر بہت اچھے مذہبی پیغام اور ویڈیوز ڈال رہا ہے جس کے فالورز بہت زیادہ اور بڑھتے جارہے تھے جس کے بعد ٹک ٹاک کی طرف سے ہی ا س کو بلاک کردیا گیا۔
ملکہ خان :مغربی طاقتیں چاہتی ہیں مسلم ممالک کے نوجوانوں کو کسی بھی طر ح تباہی کی طرف لگادیں ،ہمارے ڈاکٹر زاو ر انجینئرز بیرون ممالک اپنا نام بنارہے ہیں یہ لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے او ر آگے بڑھے یہ چا ہتے ہیں کہ ان کے نوجوان اور طالب علموں کو ان کاموں میں لگادیا جائے تاکہ یہ ترقی نہ کریں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ چھٹی اور ساتویں کلاس کے بچے رات کو تین ،چار بجے تک پب جی ،ٹک ٹاک اور دیگر گیمز میں لگے رہتے ہیں،یہ نوجوان جو ہمارا مستقبل ہیں یہ کس طرف جارہے ہیں۔سوشل میڈیا پر مثبت ٹک ٹاک اور دیگر ایپس چلانے والوں کو بلاک کردیا جاتاہے ،جن لوگوں نے اس ایپ کو نکالا ہے وہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ ہمارے معاشر ے میں مثبت چیزیں سامنے آئیں ،ہماری حکومت یا وزارت اطلاعات ان چیزوں کو کنٹرول کیوں نہیں کرتی ؟پب جی کے معاملے پر حکومت نے کس طرح پابندی ہٹائی سب کو معلوم ہے ،کچھ روز قبل کسی نے فیس بک پر ایک تصویر شیئر کی کہ ‘‘ آج دادی کا دن ’’ ہے ،ایک کرسی پر دادی بیٹھی ہوئی تھیں اور تقریبا 35کے قریب بیٹے ،بیٹیاں ،بہو ،داماد ،پوتے ،پوتیاں ،نواسے ،نواسیاں اور اور دیگرلوگ قریب بیٹھے ہوئے تھے اور سار ے لوگ اپنے اپنے موبائل پر لگے ہوئے تھے ،تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا سب دادی سے ملنے گئے لیکن کوئی دادی سے بات نہیں کررہا سب موبائل پر مصروف ہیں۔امریکا اور بھارت میں تعلیم کی بات کیا کریں، صرف ہمارے پنجاب سے موازنہ کر لیں، پنجاب میں کالجوں میں سمسٹر سسٹم ہے جبکہ سندھ میں یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم ہے ،اس نظام میں رٹہ نہیں مہارت سامنے آتی ہیں ۔
دنیا فورم کے دورران ایڈیٹر فورم نے طلبہ و طالبات سے پوچھا کہ ٹک ٹاک کیسے اور کیوں بناتے ہیں ؟ جس کا جواب دیتے ہوئے بحریہ یونیورسٹی کی طالبہ ملیحہ اعجاز نے کہا کہ ہمار ا گروپ ذاتی طورپر تفریح کیلئے ٹک ٹاک بناتا ہے ۔ ہم ٹک ٹاک پر مکالمے اور تاثرات دیکھ کر خود بنانے کی کوشش کرتے ہیں،ہم لوگ پڑھ پڑھ کر تھک جاتے ہیں اس لیے کوشش کرتے ہیں کچھ تفریح کرکے سکون مل جائے ،ایڈیٹر فورم کے استفسار پرکہ یہ ٹک ٹاک والدین کو دکھائیں تو رد عمل کیا ہوگا ،طالبہ نے کہا والدین ناراض ہوں گے پسند نہیں کریں گے اگر قائل کرلیں تو شاید مان جائیں ، جب تک کسی بھی چیز کے قوائد و ضوابط نہیں ہوں تو منفی اثرات آنا شروع ہوجاتے ہیں،ہم اس کور و ک نہیں سکتے ، حکومت اس طرف توجہ دے ،شہرت او رخود پسندی کی وجہ سے لوگ انتہا کو چلے جاتے ہیں۔بچوں کی بھی ایسی تربیت ہو کہ انہیں خود احساس ہو کہ ہمیں اچھے کام کرنے او ر فضول اور برے کاموں سے دور رہنا ہے ، معاشر ے میں پڑھا لکھا طبقہ کم ہے جو ان چیزوں کو بہت انجوائے کرتاہے ،جب تک حکومت سختی نہیں کرے گی معاملات بہتر نہیں ہوسکتے ،حکومت چیزو ں کو کنٹرول کرے گی تو ملک ترقی کرے گا۔ بحریہ یونیورسٹی کی طالبہ ماہین صدیقی نے کہا کہ ٹک ٹاک کے منفی کے ساتھ مثبت پہلو بھی ہیں،کور ونا کی صورت حال میں ٹک ٹاک کے ذریعے بہت سے آگہی ویڈیوز بھی بنائی گئی تاکہ لوگ احتیاطی تدابیرکے ساتھ معمولات زندگی جاری رکھ سکیں، ہمیں اپنے رویوں پرغور کرنے کی ضرورت ہے ،چیزوں کا صحیح استعما ل کیا جائے تو بہتر نتائج ملتے ہیں ۔ٹی وی چینل کو ٹک ٹاک کو پروموٹ کرنے کے بجائے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر مبنی پروگرام دکھانے چاہئیں تاکہ حوصلہ افزائی ہو۔ رپورٹ کے مطابق اس ایپ کو 800ملین لوگ استعمال کررہے ہیں جس سے پوری دنیا کے والدین پریشان ہیں ۔طالبہ ایمن نے کہا کہ معاشرے میں سب لوگ یہی دیکھ رہے ہیں کس کس کو روکیں گے اس لیے نوجوان اس طر ف راغب ہورہے ہیں ۔طالب علم عماد صدیقی نے کہا کہ میڈیا جب منفی رویوں کو ترویج دے گا تو معاشرہ بہتری کی طرف کیسے جائے گا؟،تعلیمی نظام بھی اتنا اچھا نہیں جو ان حوالوں سے آگہی دے ۔90فیصد طلباء کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ میں نے کیا کرنا ہے ؟اس کے تصور ہی واضح نہیں ہوتے وہ مستقبل کے حوالے سے کیا فیصلے کرے گا؟۔ پاکستان کا نظریہ اسلام پر مبنی ہے اور اسلام کی خوبصورتی شرم و حیا میں موجود ہے ، بدقسمتی سے ٹک ٹاک اسلام اور ہماری ثقافت کو ختم کرنے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کررہا ہے جو ہماری حیا کو ختم کررہا ہے ،جس نے یہ ایپ بنائی وہ مسلمان نہیں اور ان کے مذہب میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے لیکن ہمارے لئے یہ ضروری ہے کیوں کہ حیا اسلام کی خوبصورتی ہے اور اسی وجہ سے اسلام ایک مختلف مذہب ہے اگر ہم نے اپنے رویوں کو نہ بدلا توآگے چل کر ہمیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔طالب علم محمدسفیان نے کہا کہ اس وقت نوجوانوں خاص طورپر طلبہ و طالبات میں برداشت کم ہوتی جارہی ہے ان کی تربیت کون کررہاہے ۔ ملک میں شرح خواندگی کم ہے ، ان کے پاس معلومات کا فقدان ہے وہ نہیں جانتے کہ یہ ایپ کیا ہے اور وہ اس ایپلی کیشن کو غلط انداز میں استعمال کررہے ہیں، مسلمانوں کے نقطہ نظر سے ان کا مواد قابل قبول نہیں ہے ، ہماری نسل فحاشی کی طرف بڑھ رہی ہے وہ نہیں جانتی کیا کررہی ہے اس کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔دنیا فورم کے پلیٹ فارم سے درخواست ہے کہ دیگر چینل بھی دنیافور م کی طرح سیمینارز اور عوامی مشاورت یا بیداری کے پروگراموں کا اہتمام کریں تاکہ معاشرے میں بہتری اور اسلام کے بارے میں لوگوں کو صحیح معلومات فراہم ہوسکے ۔شرکاء نے کہا کہ ایک نجی چینل باقاعدہ ٹک ٹاک پر پروگرام کرکے اسے پروموٹ کررہاہے جو غلط ہے ۔
