طلباء کو محبت کے پیکر استاد کی طلب ، استاد کو احترام کرنے والاطالب علم مطلوب

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : سید عمران علی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:ڈاکٹر سلیم مغل،ماہر تعلیم ۔ڈاکٹر سیماناز صدیقی ،چیئرپرسن شعبہ جیالوجی وفاقی اردو یونیورسٹی ۔ڈاکٹر معروف بن رؤف،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تعلیم جامعہ کراچی ۔ڈاکٹر حناخان ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچی ۔ پروفیسر مہوش طیبہ ، سربراہ شعبہ جیالوجی ڈی جے سائنس کالج۔ پرو فیسر وجیہ احمد،ڈی جے سائنس کالج،ڈاکٹر سلمیٰ حمزہ ،پروفیسر شعبہ ارتھ اینڈ انوائرمینٹل سائنس بحریہ یونیورسٹی، طارق رحمن، ڈائریکٹرپسٹن گروپ آف ایجوکیشن ۔سیدہ فاطمہ ، پرنسپل دی انسپائریشن ماڈل اسکول کیمپس 13 ۔محمد عمر،اکیڈمک کوآرڈینیٹر پسٹن کالج سائٹ۔ مس صدف سنبل ،رانا محضر،سرمحمد رضوان ، مس ندا شیخ دی اسمارٹ اسکول اور طلبہ وطالبات کی کثیر تعداد

ملکی پالیسیوں میں استاد کی عزت نہیں:  ڈاکٹرسلیم مغل،یورپ میں اساتذہ کا بھی لائسنس ہوتا ہے :  طارق رحمٰن

بچوں کی اچھی اور خراب پوزیشن کا ذمہ دار استاد ہوتاہے :  ڈاکٹر سیما، اب ٹیچرز بائی چانس آتے ہیں:  ڈاکٹر معروف 

حکومت اور ایچ ای سی کی نظر میں استاد کی اہمیت نہیں:  ڈاکٹر حنا، طلباء سوشل میڈیا کو زیادہ وقت دیتے ہیں:  پروفیسر مہوش

طلبا ء اساتذہ کوعزت دیں گے تب ہی ان کی عزت ہوگی:  ڈاکٹر سلمیٰ، والدین ٹیچر کی بے عزتی کرتے ہیں:   مس صدف سنبل 

 

 موضوع:‘‘طلباء کیسے اساتذہ چاہتے ہیں؟’’

 

 

نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں،ان کے ذہنوں میں بہت سوالات ہیں اور یقیناً سوال کرنے والا ذہن ہی زندہ ہوتا ہے۔دنیا فورم ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہے کہ معاشرے میں سوچ بچارکرنے والے ذہنوں کو جمع کرے او ر ان کے سامنے کوئی سماجی سوال رکھ کر اس کا جواب حاصل کرے۔دی انسپائریشن اسکول کیمپس 13کے تعاون سے ہونے والے دنیا فورم میں ہمارا سوال تھا کہ ’’طلباء کیسے استاد چاہتے ہیں؟‘‘ دنیا فورم میں محترم اساتذہ اور طلبہ وطالبات نے بھرپور شرکت کی ۔طلباء نے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا جس کا نہایت تحمل اور شفقت کیساتھ اساتذہ نے جواب دیا۔ ہم سے کچھ لوگوں نے شکوہ کیا کہ اس طرح کے موضوعات پر میڈیا آواز نہیں اٹھاتا دنیا فورم نے بہت اہم ذمہ داری اٹھائی ہے تاہم اس کیلئے وقت بڑھایا جائے۔ہم اپنے چاہنے والوں کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ دنیا فورم کو مزید بہتر کرینگے۔ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن پر بحث کے بعد ان کا حاصل بھی بتایاجانا چاہیے یہ بھی وقت کی کمی کا شکار ہوگیا ۔ بہرحال مذکورہ دنیا فورم میں طلباء کی شکایت کا یقیناً کسی حد تک ازالہ ہوگیا ہوگا۔ہم مکمل رپورٹ شائع کررہے ہیں لیکن آپ کی رائے سے ہمیں معلوم ہوگا کہ ہماری کاوش کس حد تک کامیاب رہی۔ہمیشہ کی طرح آپ کے ای میل اور واٹس ایپ کا انتظار رہے گا۔شکریہ

(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم )

 

دنیا: ایک استاد کا طلباء کے ساتھ رویہ کیسا ہونا چاہیے ؟

 ڈاکٹرسلیم مغل : استاد اور طالب علم میں روحانی تعلق اچھا طالب علم پیدا کرتا ہے ۔آج استادکی عزت نہ ہونے کی وجہ روحانی تعلق نہ ہونا ہے ،ٹیچر اپنے علم ، مشاہدے اور تربیت سے کتابوں میں موجود علم کو مثالیں دے دے کر سمجھا تا ہے ،ورنہ کتابیں تو گھروں میں بھی ہوتی ہیں پھر ہم اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کیوں جاتے ہیں؟اچھا استادوہ ہوتاہے جو طلباء کی حوصلہ افزائی کرے ۔ استادطالب علم تک اپنی بات بہتر انداز میں منتقل نہیں کرپارہا تو بہت قابلیت کے باوجود بھی اچھا استاد نہیں۔ استاد میں اچھی سمجھ بوجھ نہیں ہے تو وہ کہیں نہ کہیں استاد کاتاثر مجروح کردیگا۔ تدریس کے روحانی پہلواور پیشہ وارانہ مہارت میں توازن نہیں ہوگا معاشرے میں نقائص رہیں گے ۔بہت سے استاد اس شعبے میں خودکو فنا کرکے نام پیداکرتے ہیں۔

 طارق رحمٰن :تعلیم اور صحت پرجو پیسہ لگتا ہے وہ خرچے میں شمار کیا جاتاہے جبکہ دنیا میں ایسا نہیں، یورپ میں ٹیچرز کا لائنس ہوتاہے ،جس کی اہمیت ڈرائیونگ اور اسلحہ لائسنس سے زیادہ ہوتی ہے ۔ استاد اپنی اہمیت سمجھے ۔ٹیچر کے لائنس کی ہرسال تجدید ہوتی ہے ،جس میں ٹیچر کو ٹیسٹ دینے ہوتے ہیں ،ٹیسٹ میں اپنے مضمون کی معلومات، کمیونیکیشن، سماجی مہارت ،پروگریسو اپروچ اور حوصلہ افزائی کرنے کا جائزہ لیاجاتا ہے ۔ جو استاد یہ ٹیسٹ پاس کرلیتا ہے وہی لائسنس کا حقدار ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔

ڈاکٹر سیما ناز صدیقی : پہلے تعلیمی اداروں میں کمزور بچہ بھی تعلیم اور تربیت سے قابل ہوجاتا تھا ۔بچوں کی اچھی اور خراب پوزیشن کا ذمہ دار استاد ہوتاہے ۔ہم بہت بہتر نہ صحیح لیکن کچھ بہتر استاد ثابت ہوئے اس لیے کہ ہمیں بہت اچھے استاد ملے جنہوں نے تعلیم کے ساتھ ہماری تربیت بھی کی ۔آج اردور یونیورسٹی میں بے شمار ٹیچر کتابوں کے مصنف ہیں ، پہلے اساتذہ کلاس میں پڑھائی کے ساتھ اپنے گھر کا نمبر بھی دیتے تھے کہ کوئی بات اگر معلوم کرنی ہوتوپوچھ لینا ،ٹیچر کہتے تھے کلاس کے با ہر کوریڈور ،سیڑھیوں پر یا کہیں باتیں کرتے دیکھیں تو آ جانا ور پوچھ لیناان کا شفقت والا رویہ ہوتا تھا۔مجھے جیولوجی کا شعبہ اچھا نہیں لگتا تھا لیکن استادوں کی شفقت سے میں نے اعلیٰ نمبرز حاصل کئے ۔ طلباء آپس میں محبت اور انسانیت کا جذبہ بیدار کریں۔اردو یونیورسٹی سے نکلنے والے طلباء آج بڑے بڑے اداروں میں ہیں، یونیورسٹی آج بھی قومی زبان میں تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ کمزور بچوں کو بھی پڑھا کر قابل بنا رہی ہے اس میں اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے ۔

ڈاکٹر معروف بن رؤف :پہلے اساتذہ بائی چوائس آتے تھے اب بائی چانس آتے ہیں جسکے باعث تعلیمی اداروں کا معیار گرتا جارہا ہے ۔ اگر میں کہوں کہ پاکستان میں استاد کا پیشہ سارے پیشوں کی ماں ہے توغلط نہ ہوگا۔ اسی شعبہ سے سارے شعبے پیدا ہوتے ہیں۔بنیادی طورپر طالب علم اپنے استاد سے وہی سیکھ رہا ہوتا ہے جو اس استاد نے اپنے استادسے سیکھا ہوتا ہے ،ہم نے بعض اساتذہ سے بہت کچھ سیکھا میں انہیں دن کی طرح تعبیر کرتاہوں، ان سے یہ سیکھا کہ مجھے ان کو فالو کرنا ہے ،ان کے ایک ایک لمحے کو کاپی کرتا ہوں اور بعض اساتذہ کے رویوں کو رات سے تعبیر کرتاہوں ان سے یہ سیکھا مجھے ایسا استاد نہیں بننا۔طالب علم کو استاد کے ساتھ تعظیم ،عزت ،اطاعت ،خلوص ،محبت ساری چیزیں انجام دینی چاہیے ،آج کے طالب علم نے اپنی ذمہ داری کا احساس ختم کردیا ہے ،بدقسمتی سے آج تعلیم کو کاروبار بنا لیا گیا ہے ۔استاد وہاں پڑھاتا ہے جہاں اسے پیسے زیادہ ملتے ہیں ،اساتذہ کو طالب علموں کو اپنے بچوں کی طرح پڑھانا چاہیے ،ٹیچنگ ایک پروفیشن ہے اس کو سیکھنا ہے ۔

دنیا: ٹیچر کا کلاس میں طلباء کے ساتھ رابطہ کیسا ہوناچاہیے ؟

اسسٹنٹ پروفیسر حنا خان: اسکول ،کالج اور یونیورسٹی میں پڑھانے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں ۔ اسکول میں طالب علم کو ہاتھ پکڑ کر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔کالج میں عموماً ایسا نہیں ہوتا جبکہ یونیورسٹی میں طالب علم اور اساتذہ میں بہت قریبی تعلق ہوتاہے ۔طلباء کی شکایت درست ہے کہ اساتذہ کالج اور یونیورسٹی میں بچوں کو وقت نہیں دیتے جبکہ باہر کوچنگ میں وقت دے رہے ہوتے ہیں۔کچھ طالب علم شوقیا پیچھے کی سیٹ پر بیٹھتے ہیں ۔طلباء سے کہتی ہوں خودکو بچہ سمجھنا چھوڑ دو تم ہمارے لیے بچے ہو لیکن پاکستان کے ہونہار طالب علم ہو بچے نہ بنو آگے بڑھو۔اس وقت یونیورسٹی سطح کا ٹیچر پڑھانے کے ساتھ اپنا مستقبل بچانے کیلئے بھی ایڑیاں رگڑ رہا ہے ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت پاکستان ،وفاقی حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نظر میں ٹیچنگ کی کوئی اہمیت نہیں ،ہر استاد جو ٹیچر تعینات ہوتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ پروفیسر بن کر ریٹائر ہو لیکن پروفیسر بننے کیلئے اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کتنی کلاسیں لیں یاکتنا اچھا پڑھایا،بلکہ اس سے ریسرچ اور پرچہ شائع ہونے کا پوچھا جاتا ہے ،ہائرایجوکیشن کمیشن کے طریقہ کارمیں اساتذہ کو ترقی دینے کا معیار صحیح نہیں۔طالب علم اساتذہ کی عزت کریں،طالب علم سے جذباتی تعلق ہی اصل استاد کی ذمہ داری ہے ۔

 پروفیسرمہوش طیبہ : طلبہ و طالبات،اساتذہ اورخاص طورپروالدین سوشل میڈیا کو زیادہ وقت دے رہے ہیں ۔ہمارے پاس ایک دوسرے کیلئے بھی وقت نہیں ہم کیسے گھر اور معاشر ہ درسست کریں گے ؟بد قسمتی سے طلباء نوٹس کیلئے کالج جاتے اور ٹیچر سے رابطے میں رہتے ہیں ۔طالب علموں کو جن مسائل کاسامناہوتا ہے وہ ہمیں بھی رہا ہے ،سونابھٹی میں جلنے کے بعد ہی کندن بنتاہے اور سونے کو کندن بنانے والے ٹیچرز ہوتے ہیں ،طلباء ان کی نہیں سمجھیں گے تو سونا نہیں بن سکتے ۔ تعلیمی نظام میں اساتذہ کے سلیکشن کا معیار مضبوط اور سخت ہونا چاہیے جو نہیں ہے ۔استادپوری نسل کو بناتاہے جوآگے چل کر معاشرے کو بناتی ہے ،جب یہی چیزیں نسل در نسل گرتی چلی جائیں گی تو معاشرہ تباہ ہوجاتاہے ،ہمارا معاشرہ بھی تباہی کی طرف جا رہا ہے ۔

 سیدہ فاطمہ :اچھا ٹیچر وہی ہوتا ہے جو طلباء کو کلاس میں پورا وقت دے ۔ طالب علموں کے رویوں کو دیکھتے ہو ئے تربیت کرنی چاہیے ،اساتذہ کو بچوں کی صلاحیت ا جاگر کرنی چاہیے ۔گھریلو مسائل کی وجہ سے بچے کئی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں ہمیں ان کوسمجھنا اور حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،ٹیچر کو بچوں کی نفسیات کو دیکھتے ہوئے لرننگ پروجیکٹ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،اساتذہ اپنے ٹیسٹ کے ذریعے بچوں کی صلاحیت اجاگر کریں او ر دیکھیں کہ بچے کی دلچسپی کس چیز میں ہے اسے ستعمال کریں۔بد قسمتی سے ملک میں کئی سال سے تعلیمی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا ۔استاد گھر میں ایک باپ بھی تو ہے اس کو گھر چلانے کیلئے اپنی فیملی کو سپورٹ کرنا ہے جب اس کا گزارا نہیں ہوگا تو مجبوراً اس کو مزید پیسے کے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے تاکہ فیملی پریشان نہ ہو،حکومت اس طرف توجہ دے ۔

ڈاکٹر سلیم مغل: مملکت چلانے والے جب تک بنیادی پالیسیاں بہتر نہیں کریں گے ادارے اور استاد سب برباد ہوں گے جس کے نقصانات بہت دور تک جائیں گے ۔جاپان میں ایک اسٹیشن سے ٹرین چلتی تھی جس میں صرف ایک بچی بیٹھتی تھی ،ریلوے حکام نے ہیڈکوارٹر کو لکھا صرف ایک بچی کی وجہ سے ٹرین چلتی ہے جس کی وجہ سے ادارے کو مالی نقصان ہورہا ہے ،ٹیم آئی اس نے اس اسٹیشن کا جائزہ لیا کہ ایک بچی ٹرین میں بیٹھ کر اسکول جاتی اور آتی ہے ،اگر ٹرین نہ چلے تو بچی اسکول نہیں جاسکتی ،ٹیم نے رپورٹ ہیڈ کوارٹر پیش کردی ،ہیڈ کوارٹر سے جواب آیا جب تک یہ بچی اسکول جاتی رہے گی ٹرین چلتی رہے گی۔بدقسمتی ہمار ے حکمراں صرف نان ایشوز میں گھرے رہتے ہیں یہ تعلیم پر توجہ دیں تو ملک کہاں سے کہاںپہنچ جائے ۔ملک میں تعلیم کے نام پر کئی پروگرام آئے لیکن بات نہیں بنی ہم آج بھی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں ، سیاستداں اور پالیسی بنانے والے ٹھیک ہوں گے تو ملک بہتری کی طرف جائے گا۔ ہماری پالیسیوں میں استاد کی عزت و تکریم نہیں۔

ڈاکٹرسلمیٰ حمزہ :طلباء اور ٹیچر میں پیری، مریدی والا روحانی تعلق ہونا چاہیے ۔ جب تک طلباء آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے کچھ حاصل نہیں کر سکتے ۔ ٹیچر نے واقعی ہمیں انگلی پکڑکر چلنا سکھایا، اتنا عرصہ گزرنے کے بعد ہم اس دورکو یاد کرتے ہیں ، پہلے طلباء اساتذہ کا خیال رکھتے تھے آج کے طلباء اس چیز کو بیوقوفی سمجھتے ہیں،طلباء کو اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی،اساتذہ کو والدین کی طرح عزت دینا ہوگی تب ہی معاشرے میں عزت ہوگی۔جو طلباء گھروں میں والدین کے ساتھ اچھا رویہ رکھتے ہوں گے وہ ٹیچر کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ رکھیں گے ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ایک فارم بنایا ہے جس میں طلباء کی معلومات بھی شیئر کی جاتی ہیں،آج کل طالب علم اساتذہ کی عزت نہیں کرتے والدین کو تربیت کرنی چاہیے ۔شعبہ جیولوجی میں99فیصد ٹیچرز بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کرتے ہیں جس کے باعث کمزور بچہ بھی اچھی پوزیشن حاصل کرلیتاہے ۔طلباء ٹیچرز سے اپنے مسائل پر بات کرتے ہیں جس کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 سرمحمد عمر : مشاہدے میں آیاہے کہ بعض ٹیچر ز زیادہ تر وقت گفتگو کرنے اور چائے پینے میں ضائع کردیتے ہیں،طالب علم گھر جاکر سیلف اسٹڈی نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں جو یونیورسٹی میں پڑھ لیا بس کافی ہے ،ایسا نہیں ہوتا جب تک محنت نہیں کریں گے کامیاب نہیں ہوسکتے ،تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ،ٹیچر اور طالب علموں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے ۔ 

مس صدف سنبل: اساتذہ کے ساتھ والدین کو بھی بچوں کو وقت اور تربیت کرنی چاہیے ۔والدین بچوں کو صبح 8بجے اسکول بھیج کر بھول جاتے ہیں کہ بچوں کو چیک بھی کرنا ہے ،ایک مرتبہ والدین نے اسکول آکر ٹیچر کو بے عزت کیا ،کیا کل یہ طالب علم ٹیچر کی عزت کرے گا؟،ہم ایسے بچے کو کس طرح آگے لیکر چل سکتے ہیں۔ والدین کو اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

دنیا: اسکولوں میں نصاب پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ اس کے سو ا کچھ نہیں پڑھانا ، ٹیچرتربیت کیسے کریگا؟ 

مس نداشیخ :والدین ،ٹیچر اور طلباء تکون ہوتا ہے ،والدین سمجھتے ہیں ایک اچھے پرائیویٹ اسکول میں بچے کو داخل کرادیاہے ،اچھی فیس بھی دے رہے ہیں اب ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی،ایسا نہیں ،والدین کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے ۔نویں اور دسویں جماعت کے طالب علم یہ سمجھتے ہیں ہم بہت بڑے ہوگئے ہیں ، ٹیچر ہمارے سامنے کچھ بھی نہیں بول سکتیں، ٹیچر ز کی عزت نہیں کی جاتی ،اس خرابی کو دورکرنے کی ضرورت ہے ، طالب علم کو نمبر یا دوڑ کیلئے نہیں بلکہ معلومات حاصل کرنے کیلئے پڑھنا چاہیے ا س میں ٹیچر اور طلباء دونوں کی ذ مہ داری ہے ۔

 سر وجیہ احمد: بہترین استاد وہ ہے جو اپنے شعبے میں دیانت داری اور ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے ، مضمون پر مکمل عبور رکھتاہو،اپنے طلباء کے ساتھ اولاد کی طرح پیش آئے ،وقت کا پابند ہو،کسی بھی قسم کے تعصب پسندی سے خود کو محفوظ رکھے اور اپنے طلباء کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے ،مضمون کو پڑھاتے وقت طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سمجھائے اور سبق کو اردوزبان میں پڑھا کر قومی زبان کو فروغ دے ۔

 سر محمد رضوان : مسائل اسکول کی سطح پر ہی حل ہوجائیں تو یونیورسٹی تک نہیں جائیں گے ،طلباء اور اساتذہ اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ 

 

 نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے فرانسیسی صدر کے خلاف قرارداد

اس مرتبہ دنیا فورم ایک ایسے وقت ہورہا تھا جب ہم سب کے دل بہت دکھی ہیں ،فرانسیسی صدر کی جانب سے نبی آخرالزماں ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اسی لئے فورم کا آغاز روایت سے ہٹ کر گستاخ رسول ﷺ کیخلاف قرارداد پیش کرکے کیاگیا۔ ڈائریکٹر پسٹن گروپ آف ایجوکیشن طارق رحمٰن نے حضور ﷺ کی شان میں قرار داد پیش کی ۔ اس موقع پر شرکاء نے محمد ﷺ سے عشق کے اظہار کیلئے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھارکھے تھے ۔طارق رحمٰن نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ دنیا فورم میں یونیورسٹیوں ،کالجوں اور اسکولز کے اساتذہ، طلباء اور ماہرین تعلیم فورم کے توسط سے نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہا رکرتے ہیں ،اس قسم کی کوششیں نا صرف دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں بلکہ خود دہشت گردی ہے ، ہم گستاخانہ خاکوں کی شدید مذمت کرتے ہیں ،نبی اکرم ﷺ محسن انسانیت ہیں، ہماری جان ،مال ،عزت آپ ﷺ پر قربان ہے ۔او آئی سی فرانس کے صدر کے خلاف ہنگامی اجلاس طلب کرے اور اقوام متحدہ بھی کارروائی کرے ۔ حکومت پاکستان اور ترکی کی جانب سے سخت ردعمل کا خیرمقدم کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ فرانسیسی اشیاء کا مکمل بائیکاٹ کیاجائے ۔ عالمی ادارے گستاخ رسول ﷺ کے خلاف کارروائی کریں ۔دنیا فورم میں شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر مکمل اتفاق رائے سے قرارداد منظور کی۔

 

 طلبہ و طالبات کے اساتذہ سے سوالات اور تجاویز 

اس مرتبہ دنیا فورم کا آغاز اساتذہ کے بجائے طلبہ و طالبات کے سوالات اور تجاویز سے کیاگیا تھا۔ایڈیٹر فور م نے طلباء سے سوال کیا کہ طالب علموں کوکیسے اساتذہ چاہئیں ؟جامعہ کراچی میں شعبہ تعلیم کے طالب علم شہزاد امین نے کہا کہ کلاس میں جو طلباء پہلی نشست میں ہوتے ہیں ان کا قبضہ ہوتا ہے ،ٹیچر ان ہی کو عزت او ر ان ہی کوسنتے ہیں،کچھ طالب علم ایسے ہیں جو پیچھے بیٹھتے تھے انہوں نے اس رویے کی وجہ سے کلاس لیناچھوڑ دی اور چلے گئے ۔کلاس میں 45طالب علم تھے اب 17رہ گئے ۔میرا اساتذہ سے سوال ہے باقی طلباء کہاں گئے ؟ میری جانے والے کچھ طلباء سے بات ہوئی تو ان کا شکوہ تھا کہ استاد سب کو ساتھ لے کر نہیں چلتے نہ ہی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اسلئے کلاس لینے کا دل نہیں کرتا۔استاد ہمیں صرف تعلیم دیتے ہیں تربیت اور حوصلہ افزائی نہیں کرتے جس سے طلباء آگے نہیں بڑھ پاتے ۔اساتذہ کو اپنے رویوں پرغور کرنا چاہیے ۔ کلاس میں مقابلے کی فضا ختم ہونی چاہیے اس کے نتیجے میں پڑھنے والے بچے دیگر طلباء کو نیچے دکھانے کیلئے گروپنگ کرتے ہیں جس سے ماحول خراب ہوجاتا ہے اس کو کنٹرول ہونا چاہیے ۔

جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ کے طالب علم رحمٰن علی نے کہا کہ بعض اساتذہ اپنے شعبے اور تعلیم سے مخلص نہیں ، ٹیچر یونیورسٹی میں طالب علموں کو باہر کی کلاس کا وقت بتاتے ہیں، ان کے پاس طلباء کو پڑھانے کیلئے اضافی وقت نہیں ہوتا ،اساتذہ طلباء کو کلاس میں پڑھانے کی ذمہ داری پوری طرح ادا نہیں کرتے ہیں،اساتذہ پیسے کمانے کیلئے ایک وقت میں دو دو کلاسیں لے رہے ہیں اور طلباء کو سمجھانے کیلئے وقت نہیں ہوتا۔ جس کے باعث تعلیم خراب ہوتی جارہی ہے ،بدقسمتی سے 20سال ے وہی پرانا تعلیمی نظام چلتا آرہا ہے ۔ہمارے نظام تعلیم میں آگے بڑھنے اور حوصلہ افزائی کا کوئی نظام نہیں۔ایک طالبہ نے کہا کہ اچھا ٹیچر وہ ہوتا ہے جو کلاس کے بعد بھی طلباء کو سمجھائے اوروقت دے اور تمام طلباء کے ساتھ ایک جیسا رویہ رکھے ،استاد کو ا پنے شعبے سے سنجیدہ ہونا چاہیے ۔ایک طالبہ نے کہا کہ کورونا کے باعث آن لائن تعلیم پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے ،ٹیچر ز کو طلباء کی سہولتوں کو دیکھتے ہوئے آن لائن کلاسوں کا شیڈول بنانا چاہیے بس کہہ دیا جاتا ہے آن لائن کلاسیں ہوں گی ،جن طلبا ء کے پاس آن لائن کلاسیں لینے کی سہولت نہیں وہ کیسے لیں گے ،ٹیچرز کو طلباء کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہییں۔کراچی یونیورسٹی میں بھی ایسے طلباء ہیں جن کے پاس آن لائن کلاسز کی سہولتیں دستیاب نہیں ،ٹیچر ز کو ایسا ہونا چاہیے جو طلباء کی پریشانیوں کوسامنے رکھتے ہوئے آگے بات صحیح انداز میں پیش کرسکے ۔ ٹیچر کا طلباء کے ساتھ رویہ دوستانہ ہونا چاہے تاکہ طلباء اپنی پریشانی شیئر کرسکیں۔ طالبہ ماہرہ نے کہا کہ اساتذہ کو طلباء کی رائے اور مسائل کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہیے ۔

ڈی جے سائنس کالج کے طالب علم محمد عثمان نے کہا اچھا استاد وہی ہوتاہے جو تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کرے ۔ کچھ اساتذہ خود تاخیر سے آتے ہیں اور طلباء سے کہتے ہیں وقت پر آئیں ،قول وعمل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے بلکہ رول ماڈل ہونا چاہیے ،جامعہ کراچی کے طالب علم علی رضا عباسی نے کہا کہ عام طورپر ٹیچر کلاس میں لیکچر دے کر چلے جاتے ہیں تربیت نہیں کرتے ،،بعض مرتبہ طلباء کو لیکچرسمجھ میں نہیں آتے جس کے باعث پریشانی ہوتی ہے ،اساتذہ کو طلباء کی ذہنی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے پڑھائی اور تر بیت کرنی چاہیے ،بعض اساتذہ نے تعلیم کو کاروبار بنا لیا ہے ،ایک ایک لمحے کی گنتی کرتے ہیں طلباء کو سمجھانے کا وقت نہیں ہوتا ۔استاد کو طالب علموں کو اپنے بچوں کی طرح پڑھانا چاہیے ،استاد بھی روحانی باپ ہوتاہے جس کا کام صرف پڑھا نا ہی نہیں تربیت بھی کرنا ہوتاہے ۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کی طالبہ نمرہ ایاز نے کہا کہ طالب علم کو تعلیم کے ساتھ ووکیشنل ٹریننگ بھی حاصل کرنی چاہیے ،علامہ اقبال کہتے ہیں

 افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تدبیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ 

میری نظر میں استاد وہ افراد ہیں جن کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیریں ہیں ، انہیں تعلیم کے ساتھ ترتیب یافتہ بھی ہونا چاہیے ، معاشرے میں کچھ ٹیچر ز تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن با ادب نہیں ،جب استاد ہی باادب نہیں ہوگا ایک طالب علم جو آگے ایک ڈاکٹر اور انجینئر بنے گا وہ کیسے باادب ہوگا۔ڈی جے سائنس کالج کی طالبہ رانیہ نے کہا کہ اچھا استاد طلباء کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی اور برے کاموں پر سمجھائے گا۔ طالب علم کو لیکچر سمجھ نہیں آئے تو ٹیچر کو اچھی طرح سمجھانا چاہیے ا س کو چھوڑ کے آگے نہیں جانا چاہیے ۔اسماٹ اسکول کے طالب علم محمد حنظلہ خان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا اور پہلا عالم ہے جو سمندوں سے بھی زیادہ علم رکھتاہے ،اس کے بعد انبیاء علیہ السلام کو علم دیا ، انبیاء میں سب سے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا،اساتذہ انبیا ئے کرام کے نائب ہیں،کچھ طلباء استاد سے سوال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ڈانٹیں گے ،استاد کو محبت کرنے والا اور اپنی اولاد کی طرح برتاؤ کرنا چاہیے ،اس طرح استاد اور شاگرد کے درمیان ایک اچھا تعلق پیدا ہوتاہے ۔

ا س کے ساتھ ساتھ طالب علم کی بھی ذمہ داری ہے وہ اساتذہ کی عزت کرے ،انسان کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ بن جائے اس میں ادب نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ کہتے ہیں باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب۔کراچی یونیورسٹی میں ماسٹر کی طالبہ فرح شاہ نے کہا کہ استاد والدین کی طرح ہوتے ہیں،طالب علموں کو انہیں بھی ماں باپ کی طرح عزت دینی چاہیے ،بہت سے طلباء اساتذ ہ کا مذاق اڑاتے ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے ،جب تک ہم ٹیچر کی عزت نہیں کریں گے کچھ حاصل نہیں کرسکتے ۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے طالب علم اویس صدیقی نے کہا کہ اچھے استاد کو اپنے شعبے پر اچھی طرح گرفت ہونی چاہیے جو بچوں کو اچھی طرح اپنی بات سمجھا سکے ،استاد کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے جس کا شعبے سے کوئی تعلق نہ ہو۔بحریہ یونیورسٹی کی طالبہ ایمن رضوان نے کہا کہ کوئی بھی انسان کبھی مکمل نہیں ہوتا اگر کسی استاد سے شکایات ہیں تو ان سے بات کی جائے کہ آپ کا لیکچر سمجھ نہیں آرہا اس کو بہتر کریں،مجھے بھی پہلے ٹیچر سے مسائل تھے لیکن اب ایسی ٹیچرز ملیں ہیں جو بہت اچھی طرح تعلیم اور تربیت کرتی ہیں جس سے مسائل ختم ہوگئے ہیں ۔

 

 طلبہ وطالبات کی رائے

 ٭اساتذہ انبیا ئے کرام کے نائب ہیں،انکا رویہ شفقت کا ہونا چاہیے :  حنظلہ

٭استادحوصلہ افزائی کریں، کلاس میں مقابلے کی فضا ختم ہونی چاہیے :  شہزاد امین

٭ اساتذہ کو طلباء کی رائے اور مسائل کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں:  ماہرہ

٭قول وعمل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے بلکہ رول ماڈل ہونا چاہیے :   محمد عثمان

٭بعض اساتذہ نے تعلیم کو کاروبار بنا لیا ،طلباء کو سمجھانے کا وقت نہیں :  علی عباس

٭کچھ ٹیچر ز تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن مہذب نہیں ،پھر طلباء کیسے باادب ہوں گے :  نمرہ ایاز

٭طالب علم کو لیکچر سمجھ نہیں آئے تو ٹیچر کو اچھی طرح سمجھانا چاہیے :  رانیہ

٭بہت سے طلباء اساتذ ہ کا مذاق اڑاتے ہیں ،یہ غلط ہے :  فرح شاہ

٭اچھا استاد اپنے شعبہ پر گرفت رکھتا ہے :  اویس صدیقی

استاد کا لیکچر سمجھ نہ آئے تو ان سے بات کریں:  ایمن رضوان

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔