’’نیلی معیشت‘‘۔۔۔۔۔پاکستان پر اللہ کا کرم

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء ڈاکٹر نزہت خان، سابق ڈائریکٹر جنرل نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنوگرافی ۔کمانڈرمحمد اختر ،پاکستان نیوی اور ڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز۔پروفیسر کمانڈر(ر) محمدکامران لیکچرار بحریہ یونیورسٹی۔ نغمانہ ظفر، سینئرلیکچراراورآبی ماہر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز انچارج بلیو اکانومی ڈیسک۔خرم مرزا،ایگزیکٹو ڈائریکٹر پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (پی این ایس سی) ۔ (وڈیو لنک ) ۔ طلباء وطالبات۔اسلام آباد سے بذریعہ ویڈیو لنک کموڈور (ر) علی عباس،ڈائریکٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئر ز۔ کموڈور (ر) محمد عبیداللہ۔ ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان ،ریسرچ ایسوسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسسٹنٹ پروفیسر بین الاقوامی تعلقات نمل یونیورسٹی ۔ نوفل شاہ رخ،جنرل منیجر آپریشن انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور جنرل سیکریٹری میری ٹائم اسٹڈیز فورم ۔اکرام الحق ،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ۔طلباء وطالبات۔ وائس ایڈمرل (ر) افتخار کورونا کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے ،فون پر بلیواکانومی پر گفتگو کی

 کراچی میں3بندرگاہیں بنادی گئیں جبکہ گوادر پورٹ آپریشنل کی جاسکتی تھی :  وائس ایڈمرل افتخار رائو

بلیو اکانومی کے لئے معاشی سرگرمیاں ماحول دوست ہو نی چاہئیں:  کموڈور علی عباس

گوادر میں شپ یارڈ کیلئے ترکی کی شپ یارڈ سے معاہدہ ہوگیا :   کموڈورعبیداللہ 

 سمندر صرف سندھ اور بلوچستان کا نہیں، پاکستان بھر میں میری ٹائم کی آگہی دی جائے:   ڈاکٹر نزہت

 دنیا بھر میں آف شور کمپنیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے پاکستانی معیشت بہتر ہوگی:  کمانڈر محمد کامران

واٹر اسپورٹس پر بھی کام کیا جائے، کوشش ہے نیما سے کورسز کرائے جائیں:  کمانڈر محمد اختر

غیرقانونی ماہی گیری نیلی معیشت کیلئے رکاو‎ٹ ،نوفل ،ماہی گیربچوں کو جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دی جائے:   نغمانہ ظفر

بلیو اکانومی کیلئے نیا دارہ بنانے کے بجائے موجودہ اداروں پر کام کیا جائے:   ڈاکٹر ملیحہ زیباخان 

 

موضوع:’’ بلیو اکانومی : پاکستان کا تابناک معاشی مستقبل ‘‘

 

بلیو اکانومی:ایک ایسا موضوع جس پر اس کی اہمیت کے مطابق بات نہیں ہورہی ،دنیا فورم نے اس موضوع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آبی ماہرین کو زحمت دی ۔معلوم ہوا کہ یہ وہ موضوع ہے جس پر پاکستان کا معاشی مستقبل کھڑا ہے۔سمندری خوراک کی بہتر انداز میں تلاش،تجارتی سرگرمیاں ،سیکورٹی میں بہتری اور سب سے اہم گوادر پورٹ کو آپریشنل کرنے سے روزگار کے وسیع مواقع ہمارے منتظر ہیں ۔دنیا کے70فیصد حصے پر پانی اور30فیصد پر خشکی ہے ،پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جس کے پاس سمندر ،پہاڑ اور میدان سب ہے محض مخلص قیادت کا انتظار ہے ،ایسے منصوبہ ساز جو حقیقی معنوں میں ملک کے ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں۔ہمارے بحری امور کے ماہرین ،دفاعی صلاحیتوں سے لبریز قیادت اور محنتی قوم کو محض بہتر منصوبہ سازوں کی تلاش ہے،جو محض اپنی حکومت کے لئے نہیں بلکہ ملک کے طویل مدتی منصوبہ بندی کریں ،جس طرح ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں ،

چین، کوریا اور جاپان کی مثالیں اٹھائیں ۔ہم کوشش کرتے ہیں کہ دنیا فورم کے ذریعے حکام اور فیصلہ سازوںتک تجاویز پہنچاسکیں تاکہ وہ ملک وقوم کیلئے سنجیدگی سے غورکریں۔ہمیں امید ہے کہ ہماری کوششیں رنگ لائیں گی۔انشاء اللہ۔ہم بحریہ یونیورسٹی میں دنیا فورم کے انعقاد کیلئے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میری ٹائم افیرز کراچی اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے شکرگزار ہیں۔ہمیشہ کی طرح آپ کی رائے کا انتظار رہے گا ، اپنی تجاویز اور کمنٹس ہمیں واٹس اپ کریں یا میل کریں ۔ 

۔mustafa.habib@dunya.com.pk

0092-3444473215

شکریہ:مصطفیٰ حبیب صدیقی (ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا) 

 

 دنیا: بلیو اکانومی کیا ہے ،معیشت میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟

 کموڈور(ر) عبید اللہ : اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت نعمتوں سے نوازاہے۔جو چیزیں بلیو ا کانومی میں آتی ہیں وہ سب پاکستان میں موجود ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے ہم نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس سے نکال کر تازہ گوشت کھاؤ،

اور خزانے نکالو،اللہ نے سمندر کے خزانے بنی نوع انسان کیلئے رکھے ہیں،یہ خزانے بلیو اکانومی میں اہم کردار اد کرتے ہیں ۔پاکستان کے پاس ایک ہزار کلو میٹرسے زائد ساحل ہے،جو علاقے سمند ر کے ساتھ ہوتے ہیں وہ Exclussive Economic Zone کہلاتے ہیں۔پانی کا علاقہ تقریبا 2 لاکھ 90 ہزار اسکوائر کلو میٹر بنتا ہے،جو بلوچستان کے رقبے کے برابر ہے۔ پاکستان کی 98 فیصد تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے،پاکستان کے پاس سمندر نہ ہوتا توافغانستان یا اور دیگر ممالک کی طرح دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا۔پاکستا ن کی سالا نہ 105ملین درآمد اور برآمد ہیں۔ بندر گاہیں بلیو اکانومی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تجارت کے حجم کو دیکھتے ہوئے بندرگاہیں بنائی جاتی ہیں۔گزشتہ 12سال کے دوران 200 تجارتی جہاز آئے ہیں، گوادر بندر گاہ پر بڑ ے جہازتیار اور مرمت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں پبلک سیکٹر کا ادارہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن مسلسل 20سال سے منافع میں جارہا ہے،دنیا فورم کے توسط سے وزارت بحری امور کو خط لکھاجائے کہ میری ٹائم یا اس سے متعلقہ لوگوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس موقع پر انہوں نے انکشاف کیا کہ وائس ایڈمرل (ر) افتخار راؤکی کوششوں سے گوادر میں شپ یارڈ کی تعمیر کیلئے ترکی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے۔

دنیا: معاشی زون میں سیکیورٹی کی کیا صورت حال ہے؟

کموڈور (ر)علی عباس : دنیا فورم کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز کیساتھ مل کر بلیو اکانومی کو پروموٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے،بلیو اکانومی میں پاکستان کا مستقبل چھپا ہوا ہے صرف عیاں کرنے کی ضرورت ہے،میری ٹائم اکانومی اور میر ی ٹائم سیکیورٹی ساتھ جڑی ہوئی ہیں، سیکیورٹی ہوگی تو بلیو ا کانومی مستحکم ہوگی ،میری ٹائم اکانومی وہ انڈسٹری ہے جو سمندر اور ساحل سمندر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، بلیو اکانومی کیلئے معاشی سرگرمیاں ماحول دوست ہو نی چاہییں ،کسی بھی جگہ اچھی اور موئثر معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے محفوظ ماحول کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔تمام محرکات جو سمندری تجارت کو نقصان دیتے ہیں پاکستان کی سمندری سیکیورٹی ایجنسیاں ان کے خلاف اقدامات کرتی ہیں تاکہ بلیوا کانومی کو فروغ حاصل ہو۔ 

دنیا: مستقبل میں سمندری تجارت کے کیا فائدے ہوسکتے ہیں؟

ڈاکٹر نزہت خان : سمندر کے ذریعے معاشی ترقی کو استحکام دینے کیلئے ضروری ہے ملازمت کے مواقع اور تجارت کو بڑھانے کیلئے پائیدار ماحول (Sustainable enviroment)فراہم کیا جائے ،یورپی ممالک میں بلیو اکانومی کو سپورٹ کرنے کیلئے سہولتیں دی جاتی ہیں۔بنی نوع انسان صدیوں سے سمندر پر انحصار کرتا آیاہے، سمندر کے ذریعے دنیا کے کئی ممالک اور براعظم جڑتے ہیں،سمندر کے بغیر تجارت اور زندگی کا تصور ناممکن ہے ،دنیا میں 1.5بلین لوگ بلیو اکانومی سے جڑ ے ہوئے ہیں،فشریز سیکٹرسے 350ملین سے زائد لوگ وابستہ ہیں، ہمار ے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم 78سالوں سے مسائل پر بحث کرتے آرہے ہیں حل نہیں نکال رہے،مسائل کے حل کے لئے اس طرح کے فورم ہونے چاہییں اور دیگر اداروں کو بھی کوشش کرنی چاہیے ، سمندر کی اہمیت کے پیش نظرلوگوں میں آگہی دی جائے کہ اس کو جاننا اور تحقیق کرنا بہت ضروری ہے،جب سمندر ہمارا روزگار ہے تو اس پر بات کرنا اورخیال رکھنا ہمار ی ذمہ داری ہے، فورم کے توسط سے کہنا چاہوںگی کہ بلیو اکانومی کو بزنس فورم پر لایا جائے او ر پروموشن کی جائے، ہم اس کیلئے پروگرام بھی کرتے ہیں ،طلباء مستقبل کے معمار ہیں سمندری تجارت کو فروغ دینے کیلئے طلباء کو آگے لایا جائے او ر ان کے آئیڈیاز پر کام کیا جائے،ہمیں نئے کاروبار پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے،معیشت کو پروان چڑھانے اور اکانومی کو مستحکم کرنے کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے،نوجوانوں میں کاروبا ر کی آگہی ہونی چاہیے تاکہ چھوٹے چھوٹے پروگرام سامنے لائیں جسے یونیورسٹیاں اور ادارے سپورٹ کریں،کئی ادارے بلیو اکانومی کو فروغ دینے کیلئے بہت کوششیں کر رہے ہیں، دنیا اس پر کام کر رہی ہے، ہمیں بھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ جب تک سمندر کے فائدے اور تجارت عام آدمی کی پہنچ میں نہیں آئیں گے بلیوا کانومی کو استحکام نہیں ملے گا۔سمندر یا مچھلی سے متعلق سرگرمیوں کو پروموٹ کرنا چا ہیے،سمندر میں صرف مچھلی ہی نہیں لا تعداد ایسی چیزیں ہیں جن پر کام کیاجاسکتاہے، ملک میں بلیو اکانومی کو نظر انداز کیا جا رہاہے۔ NIMAسے کہا ہے کہ بلیو اکانومی پر ایک دستاویز تیار کرے، حکومت سے کہا ہے کہ سمندر صرف سندھ اور بلوچستان کا نہیں پورے پاکستان کا ہے،میر ی ٹائم سیکٹر کو پورے پاکستان میں آگہی دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ماہی گیر عام لوگوں سے دو ر ہے اسے کیسے ملا یا جائے اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 کموڈور (ر) محمد عبیداللہ : فشریز انڈسٹری پرائیویٹ انڈسٹری ہے،حکومت صرف پالیسی دیتی ہے،اگر پالیسی پر عمل در آمد نہیں کیا جائے گا تو وہی ہوگا جو گزشتہ 50 سال سے ہوتا آرہا ہے،2012ء سے 2021ء آگیا ہے ہم 6لاکھ ٹن مچھلی تک نہیں پکڑ سکے،1970 میں نیوی میں تھا اس وقت کورین ، روسی اور جاپانی ٹرالر یہاں آکر مچھلی پکڑا کرتے تھے،ہم گن بوٹ کے کمانڈنگ آفیسر تھے ان کو پکڑتے تھے ۔ کراچی سے جوٹرالر آتے ہیں وہ 3 میل تک فشنگ کرتے ہیں ان کو بھی پکڑتے تھے ،ماہی گیر فشنگ میں پکڑی جانی والی اشیاء میں سے 70فیصد چھوٹی مچھلیاں او ر انڈے کچرے میں پھینک دیتے ہیں جو فیڈمیں استعمال ہوتا ہے ،چھوٹی مچھلیاں نہ پکڑی جائیں ان میں 70فیصد پھینک دی جاتی ہیں،حکومت کو چاہیے ان چیزوں کو کنٹرول کرے۔

دنیا: کیا پاکستان میں جہاز سازی کی صنعت کی ضرورت نہیں ؟

کموڈور (ر) محمد عبیداللہ :کچھ روز پہلے ترکی کی شپ یارڈ سے ایک معاہدہ ہوگیا ہے جس کے تحت گوادر میں شپ یارڈ بنے گا،جس کا سہرا ایڈمرل (ر)افتخارراؤ کو جاتاہے انہوں نے ا س پر کتاب بھی لکھی ہے، ان کی انتھک کوششوں سے یہ معاہد ہ پایہ تکمیل تک پہنچا،ان کی کوششوں سے حکومت بلوچستان اسٹیک ہولڈر بنی ہوئی ہے۔1953سے آج تک شپ یارڈ میں چھوٹے بڑے 5ہزار جہاز بنائے گئے ہیں،سب سے بڑا جہاز العباس جو 28ہزار ٹن کا تھا اس کا افتتاح اس وقت صدر ایوب خان نے کیا تھا،یہ میری ٹائم کا سب سے بڑا اور کامیاب جہاز تھا ،ہمار ے شپ یارڈ نے بہت جہاز بنائے لیکن اب صرف چھوٹے جہاز بنا سکتاہے،20ہزار ٹن سے زیادہ کا جہاز نہیں بن سکتا،جہاز بنانے کی ضرورت آج سے 20 سال پہلے اور آج بھی ہے،اب گوادر میں شپ یارڈ بنے گا جو جہاز سازی کیلئے بہت اچھی جگہ ہے،گزشتہ دو سال کے دوران میری ٹائم نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔

دنیا: کیا شپ یارڈ بننے سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے ؟

کمانڈر(ر) محمد کامران : دنیا بھر میں حکومتی پالیسوں کی وجہ سے آف شور کمپنیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے، پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک اس صورت حال میں شپنگ انڈسٹری دوبارہ بحال کرلیں گے جس سے سمندری تجارت کو فروغ ملے اور پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی ۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر علی زیدی صاحب نے اعلان کیا ہے کہ شپنگ انڈسٹری کے فروغ کیلئے شپنگ مالکان کو راغب کرنے کیلئے اچھے پیکیج دیئے جائیں گے جو ایک اچھا قدم ہے۔ہمیں تعلیمی اداروں میں اس شعبے سے متعلق طلباء میں آگہی دینے کی ضرورت ہے۔اقتصادی راہداری سے پاکستان معاشی طورپر بہت مضبوط ہوجائے گا۔ 

دنیا:سمندر میں کیا کیا ذرائع ہیں جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ، سیکیورٹی کی کیا صورت حال ہے؟

کمانڈر محمد اختر : دنیا اخبار کا شکریہ جنہوں نے آج اہم موضوع پر فورم کا انعقاد کیا،بلیو اکانومی میں فشریز،سیاحت،شپنگ اور بہت سے سیکٹرز ہیں ۔سمندری تجارت میں سیاحت ایک اہم سیکٹرہے،دنیا میں 50 فیصد سے زائد سیاحت سمندر اور اس کے ارد گر د ہوتی ہے، جبکہ ہمارے معاملات برعکس ہیں، دنیا بھر میں 10فیصد جی ڈی پی سیاحت سے آتا ہے ، 300 ملین نوکریاں سمندری سفر اور سیاحت سے ملتی ہیں، دنیا میں 10 نوکریوں میں ایک سیاحت کے ذریعے مل رہی ہے،پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاس اچھے سمندر ہیں۔ بلوچستان اس میں سرفہرست ہے۔ بلوچستان میں سمندر.5 734کلومیٹر اور سندھ میں .5 266کلومیٹر ہے،اٹھارویں ترمیم کے بعد سیاحت بھی صوبوں کے ماتحت آگئی ہے ، صوبائی حکومت سیاحت کو فروغ دے تاکہ معیشت بہتر ہو سکے ،موجودہ سندھ حکومت نے سیاحت پر کام کیا ہے ، سمندر اور ساحلی علاقوں میں سیاحت میں سیکیورٹی کے مسائل ہیں جس کے باعث سیاحت کے فروغ میں مشکلات ہیں،گزشتہ دوسالوں میں وفاقی اور صوبائی سطح پر کوششیں کررہے ہیں ،

لیکن وہ کام نہیں ہو رہا جو ہونا چاہیے ،بلیو اکنامی میں سیاحت کے سیکٹر پرزیاد ہ توجہ دینے سے معیشت مضبوط ہوسکتی ہے۔ ملک میں اس شعبے پر آگہی کا فقدان ہے۔ NIMA نے سیاحت کے فروغ کیلئے گزشتہ دو سال میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کیاہے۔ بلیواکانومی کے حوالے سے واٹر اسپورٹس پر بھی کام ہوسکتاہے، کوشش کر رہے ہیں نیما سے کورسز کرائے جائیں، اس کا بل اسمبلی میں منظوری کیلئے بھیجا ہوا ہے۔ اس پر حکومت سندھ اور بلوچستان کام کر سکتی ہے۔

دنیا: وسیع ساحلی پٹی ہونے کے باوجود ماہی گیر وں کی حالت بہتر کیوں نہیں ہورہی؟

نوفل شارخ :صورت حال ایسی نہیں کہ ہر ماہی گیر ہی غریب ہو، ان کا طرز زندگی ہی ایسا ہوتا ہے جس سے غریب نظر آتے ہیں۔ملک میں میری ٹائم اکانومی کیلئے سب سے بڑا علاقہ بلوچستان اور سندھ کی ساحلی پٹی ہے ، 2005 سے پہلے سومیانی سے آگے سڑک بھی نہیں تھی ،کنڈ ملیر میں بہت ترقیاتی کام ہوئے ہیں ،کراچی سے لوگ جاتے ہیں کنڈملیر کے ساحل پر ماہی گیر صدیوں سے ساحلوں پر ہی رہتے ہیں اور سمندر ہی ان کے روزگار کا ذریعہ ہوتا ہے ، ان کے پاس زمین کی ملکیت بھی نہیں ہے، بلوچستان کے قبائلی سربراہ ان علاقوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ بااثر افراد مقامی لوگوں سے کم اجرت پر کام لیتے اور کم داموں میں مچھلی خرید کر شہر میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، مقامی وڈیرے اور جاگیر دار ان کا حق نہیں دیتے،حکومت کو قانون پر عمل کرانے کی ضرورت ہے۔بلوچستان میں مقامی ماہی گیر کسمپرسی سے دوچار ہیں، ساحلی پٹی کے ماہی گیروں کی ملکیت صرف ان کی کشتی ہوتی ہے ،

جو مچھلی بلوچستان کے ساحلوں پر 250روپے کلو ملتی ہے وہ کراچی میں 2500 روپے کلو میں فروخت ہوتی ہے۔جو منافع کمارہا ہے وہ مچھلی نہیں پکڑ رہا اور جو مچھلی پکڑ رہا ہے وہ مجبور ہے سے کسی کو بھی مچھلی فروخت کرنی ہے،سی پیک کی وجہ سے جہاں چائنیز ہیں مارکیٹ تھوڑی بہتر ہو ئی ہے،کراچی کے ساحلی علاقوں میں کام کرنے والے مالکان فشرمین نہیں بلکہ باہر کے لوگ ہیں جو مقامی لوگوں کو کم دہاڑی پر رکھتے ہیں،غیرقانونی فشنگ کی وجہ سے سندھ کے ساحلی علاقوں میں آبی حیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے جو بلیو اکانومی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 

دنیا: پڑوسی ملک کی نسبت ہمارے پاس بندرگاہیں کم ہیں کیا وجہ ہے؟

نغمانہ ظفر:1982 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مچھلی کی کھپت ایک فرد کیلئے 1.5کلو تھی جو آج بھی وہی ہے،پاکستان میں ایک شخص پورے سال میں دو سے تین کلو تک مچھلی استعمال نہیں کرتا،بحری ٹائم سیکٹر میں پاکستان کابھارت کے ساتھ موازنہ مناسب نہیں ۔

بھارت کی کوسٹل لائن بہت بڑی ہے، جس کے باعث بندرگاہیں بھی زیادہ ہیں، ہمیں ان سے تقابل نہیں کرنا چاہیے،ہمیں موازنہ ان ممالک کے ساتھ کرنا چاہیے جن کے ساتھ ہمارے Dynamicsملتے ہیں جیسے ایران اور سری لنکا ،بندگاہوں کی ضرورت در آمد اور برآمد پر منحصر ہوتی ہے ، تاریخ سے معلوم ہوتاہے جہاں نئی بندر گاہیں بنتی ہیں وہاں شہر آباد ہو جاتا ہے ، جس سے مقامی لوگوں کوروزگار کے مواقع میسر آتے ہیں، میری ٹائم انفرااسٹرکچر کو بڑھا یا جائے ، چھوٹی بندرگاہیں اور جیٹی بنانے کی ضرورت ہے، جس سے شہر اور دیہات کو فائدہ ہوتاہے،سی پیک میں بندرگاہیں بھی بنائی جائیں گی ، وفاقی اور صوبائی حکومت عملی اقدامات اٹھائے سی پیک پر بہت کام کی ضرورت ہے ، آبادی بلیو اکانومی کے ڈرائیورز ہیں ، آبادی بڑھنے کے ساتھ ترجیحات اور تجارت کی ضرورتیں بڑھتی جائیں گی۔

بلیو اکانومی کے فروغ کیلئے تعلیم،تحقیق اور جدت اہم ہے۔ بحریہ یونیورسٹی میری ٹائم سیکٹر پر بہت کام کر رہی ہے، حکومت کو سپورٹ اور ٹریننگ بیس پر بہت کام کی ضرورت ہے، اس کے بغیر معیشت بہتر نہیں ہو سکتی، ڈی فشنگ نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ دیگر ممالک میں مقابلے ہوتے ہیں، سمیڈا حکومتی پروجیکٹ ہے، جس میں کئی لوگ کام کر رہے ہیں، میرین پر سمیڈا کام نہیں کر ہا۔ فشرکمیونٹی ،بوٹ بلڈنگ ،میرین کے ہینڈی کرافٹ اور دیگر شعبوں میں مختصر کورسز کرائے جائیں،کورسز میں ایجوکیشن کے ساتھ عملی تربیت بھی کی جائے ،ہمیں ہر بچے کو نیوی کا کیپٹن نہیں بنانا۔ مقابلے کی فضا ہے ہمیں ماہی گیرو ں کے بچوںکو ان ہی کے میدان میں جدید ٹیکنالوجی کیلئے تربیت کرنی ہوگی،دنیافورم کی کاوشوں سے ہم حل کی طرف جارہے ہیں ،میری ٹائم سیکٹرکو متحریک ہو ناپڑے گا،ٹریننگ اور ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کو ترجیح بنیادوں پر عملی جامع پہناناہوگا۔

کموڈور (ر)علی عباس :گوادر پورٹ مستقبل میں پاکستان کیلئے سود مندہوگی ، پورٹ کا بنیادی مقصد تجارتی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے،گوادر پورٹ پر چین اور وسطی ایشیا کی تجارت ہوگی جس سے خطے میں ٹرانشپمنٹ ہوگی جس سے بڑے جہاز بھی لنگر انداز ہوسکتے ہیں اور چھوٹے فیڈر شپز بھی دیگر خطے کو سہولتیں فراہم کریں گے ۔ گوادر پورٹ پر پاکستان کی تجارت کو مدنظر ر کھتے ہوئے کام ہو رہاہے، جس سے درآمد اور برآمد میں اضافہ ہو گا۔ غیر تربیت یافتہ ماہی گیری سے ہماری آبی حیات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔جب تک ماہی گیروں کی تربیت اور جدید ٹیکنالوجی استعمال نہیں کریں گے بلیو اکانومی کو استحکام نہیں ملے گا۔ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مچھلیوں کی کھپت زیادہ ہو۔

دنیا: تعلیمی اداروں میں بلیو اکانومی سے متعلق طلباء کوآگہی دی جارہی ہے ؟ 

ڈاکٹر ملیحہ زیبا۔ پاکستان میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں طلبا ء میری ٹائم سے متعلق شعبوں میں دلچسپی لے رہے ہیں، نیشنل یونیورسٹی آف فارن لینگویجزاسلام آباد پہلی یونیورسٹی ہے جس نے میری ٹائم سے متعلق کورسز متعارف کرائے اب دیگر ادارے پیروی کررہے ہیں۔ بی ایس او ر ایم فل کی سطح پر بھی کورسز کرارہے ہیں،طلباء اس طرف خوشی سے نہ صرف آرہے ہیں بلکہ سمجھنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، لیکن طلباء کو مستقبل میں ملازمت نہ ملنے کا خدشہ رہتا ہے ، میری ٹائم کی سطح پر پروگرام شروع کرنے سے پہلے طلباء کو روزگار کے مواقع بتانا ہوں گے۔

 بین الاقوامی تعلقات میں اس کی بہت اہمیت ہے ۔ مقامی لوگوں کو آگہی دی جائے۔ان علاقوں سے طالب علموں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں زیادہ سے زیادہ آگہی ہو، میدانی علاقے میں رہنے والوں کو سمندری خطوں کی اہمیت کا علم نہیں ہوتا،انہیں بلیو اکانومی سے متعلق آگہی دینے کی ضرورت ہے۔ تجارت میں Capicity building کو فوکس کردیں تو بہتر نتائج آسکتے ہیں،بلیو اکانومی کیلئے کوئی نیا دارہ قائم کرنے کے بجائے پہلے سے جو موجود ہیں ان پر کام کیا جائے۔

فورم کے دوران طالب علموں نے شرکاء سے سوالا ت کیئے ، طالب علم فراز اسلم نے کہا کہ بلوچستان میں وڈیرہ شاہی نظام ہے وہاں بچوں کو کیسے تعلیم دیں گے ؟ جس کا جواب دیتے ہوئے ایڈیٹر فورم نے کہا کہ جب قانون نافذہوگا تو یہ نظام بھی ختم ہوجائے گا۔طالب علم امیرفیروزنے کہا کہ میری ٹائم کے شعبے میں پڑھ تو رہے ہیں لیکن اس میں روزگارکے مواقع نظر نہیں آتے ،جس کا جواب دیتے ہوئے نغمانہ ظفر نے کہا کہ ایک وقت تھا پاکستان کے پاس 70جہاز تھے اب صرف 11 ہیں،جہاز سازی کی صنعت کوفروغ ہوجائے تو روزگا ر کے بہت مواقع ہوں گے۔بد قسمتی سے ملکی معاشی حالات کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر اس صنعت میں سرمایہ کاری نہیں کررہا۔

دنیا فورم میں وائس ایڈمرل (ر) افتخار راؤکو بھی شریک ہونا تھا، تاہم ایک دن پہلے ہی انہیں کورونا ہوگیا جس کی وجہ سے انہوں نے شرکت سے معذرت کر لی بعدازاںایڈیٹرفورم مصطفیٰ حبیب صدیقی نے ان سے فون پر گفتگو کی ) انہوں نے بتایا کہ 2007میں میری تجویز پر ترکی کی شپ یارڈ کے ساتھ بات ہوگئی تھی جسے گوادر میں شپ یارڈ بنانا تھا ہر حکومت میں اس پر کام ہوا کچھ رفتار کم ہے حال میں بھی کام جاری ہے ،اب وزارت دفاع اسے دیکھ رہی ہے۔بلیو اکانومی پر میری کتاب Elements of Blue Economy شائع ہوچکی ہے میرے ایک دوست نے کتاب پڑھی تو انہوں نے کہا کہ یہ کتاب پانچویں کلاس سے پڑھائی جانی چاہیے۔ اس سے کافی رہنمائی مل جائے گی۔ وائس ایڈمرل افتخار راؤ نے کہا کہ بلیو اکانومی سے متعلق لوگوں میں آگہی نہیں ہے میڈیا پر اس کی تشہیر کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو اہمیت کا اندازہ ہو جبکہ تعلیمی نصاب میں بھی شامل کیاجائے بہر حال خوش آ ئند بات یہ ہے کہ اس پر کم ازکم گفتگو شروع ہوگئی ہے۔

حکومت کے طویل منصوبوں سے ہی بہتر نتائج سامنے آئیں گے،پوری دنیا میں طویل منصوبوں پر کام ہوتاہے ،چین،جاپان اور جنوبی کوریا شپ بلڈنگ میں پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔پوری دنیا کی 90فیصد سے زیادہ شپ بلڈنگ ان ممالک میں ہیں۔ساحلی سیاحت اور فشریز میں کم سرمایہ لگتا ہے اس پر فوری طور پر کام ہو سکتا ہے ، ہم لوگ چھوٹی چھوٹی سوچوں میں تقسیم ہوگئے ہیں پاکستانی ہوکر نہیں سوچتے ۔70ء میں کراچی پورٹ کے بعد پورٹ قاسم بھی کراچی میں ہی بنائی گئیں جبکہ گوادر پورٹ کو آپریشنل کیاجاسکتا تھا۔جب تک ہم پاکستانی بن کر نہیں سوچیں گے ترقی نہیں کرسکتے۔کراچی کے اطراف ہی تینوں بندرگاہیں کیا فائدہ پہنچائیں گی؟پاکستانی حکومت کو طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ہر حکومت چاہتی ہے کہ 5سال میں ایشین ٹائیگر بن جائے جبکہ قومیں طویل مدتی منصوبہ بندی سے ترقی کرتی ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں شپ یارڈ پر بریفنگ دی تو پرویز مشرف نے پوچھا کہ یہ کتنے عرصے میں بن جائے گا ،میں نے جواب دیا کہ 5سال۔مشرف نے فوری کہا نہیں ۔۔ایک سال میں مکمل کرو۔ایسا نہیں ہوسکتا تھا ،ہم ہر کام میں جلد بازی کرتے ہیں۔کوسٹل سیاحت ،فشنگ پر فوری کام کیاجاسکتا ہے جبکہ بعض کام ایسے ہیں جن کیلئے طویل مدتی منصوبے بنائے جائیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بندرگاہوںکا انحصار تجارت پر ہوتا ہے ،جتنی زیادہ تجارت ہوگی اتنی بندرگاہ ہونا مناسب ہوگا،اس وقت ہمارے لیے 3بندر گاہیں کافی ہیں،ا ن بندرگاہوں سے 60فیصد بھی تجارت نہیں ہے زیادہ تر حصہ خالی رہتاہے،گوادر بندرگاہ بن چکی تھی اس کو ہم نے ترقی نہیں دی۔ایڈیٹر فورم نے سوال کیا کہ شپ یارڈ کے حوالے سے ہمارے اداروں میں رابطوں کیلئے تھنک ٹینک موجود ہے؟،اور نوجوانوں میں بلیو اکانومی کے حوالے سے کوئی امید ہے ؟ افتخار راؤ نے کہا کہ صرف کاغذوں میں سب کچھ ہے، نوجوانوں میں آہستہ آہستہ تبدیلی آئے گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔