سہولت کی قربانی ضروری, سرکاری طور پر مقررہ مقامات پر جانور ذبح کریں

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:طارق علی نظامانی ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر آپریشن سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ۔مفتی احمدعفنان ، ڈائریکٹر کلیۃ الشریعہ جامعتہ الرشید ۔ مولانا فیاض حسین مطاہری،رکن شیعہ علماء کونسل و زہرہ اکیڈمی۔ ڈاکٹر مریم حنیف غازی،ماہر نفسیات سربراہ شعبہ نفسیات محمد علی جناح یونیورسٹی۔ڈاکٹر سکینہ ریاض ، ماہر سماجیات اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سوشل ورک، جامعہ کراچی۔بینش ضیاء کلینیکل سائیکالوجسٹ اورٹریننگ کنسلٹنٹ ۔ مریم فردوس لیکچرارشعبہ سائیکالوجی محمدعلی جناح یونیورسٹی ۔

 شکایتی سیل قائم کردیا،شہر ی پریشانی پر شکایت کرسکتے ہیں،ایگزیکٹوڈائریکٹر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ، قربانی کا اصل مقصد سمجھیں،لوگوں کو تکلیف دینا اصل مقصد سے دوری ہے:   ڈائریکٹر کلیۃ الشریعہ جامعتہ الرشید 

واہ واہ کیلئے مہنگا جانور خریدا جائے تو اللہ کو ایسی قربانی کی ضرورت نہیں،رکن الزہرہ اکیڈمی ،رکن شیعہ علماء کونسل،جانور کیساتھ سیلفیاں لینا ،دکھاوا اور نفسیاتی مسئلہ ہے، سادگی اپنائی جائے:   سربراہ شعبہ نفسیات محمد علی جناح یونیورسٹی

گلیاں بند کرنے سے لوگ خاص طور پر خواتین کو آنے جانے میں دشواری ہوتی ہے،ماہر سماجیات ،جامعہ کراچی،دکھاوا نفسیاتی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ شخصیت میں کمی کا شکار لوگ دکھاوا کرتے ہیں:    ٹریننگ کنسلٹنٹ 

 

 موضوع:’’ قربانی اور بدلتے سماجی رویئے ذمہ دار کون ؟‘‘

 

 

 

 عید الاضحی!یعنی سنت ابراہیمی کی ادائیگی کا دن،جب ایک باپ نے اللہ کے حکم کی خاطر کئی برس کی دعائوں کے بعد پیدا ہونے والے اپنے جگر گوشے کو چھری کے نیچے لٹادیا اور پھر رب کائنات نے بچے کی جگہ دنبہ رکھ دیا،بس حکم رب ہوا اور بندہ تعمیل کیلئے تیار۔۔قربانی کا اصل پیغام یہی ہے کہ رب کا حکم مانا جائے اور رب کا ایک حکم یہ ہے کہ اس کے بندوں کو تکلیف نہ دو ،پریشان نہ کرو،راستے سے کانٹا ہٹائو بچھائو نہیں،دنیا فورم نے رب کے اسی مقصد کو جاننے کی کوشش کی،سوال اٹھایا علماء دین کے سامنے اور ساتھ ہی ماہرین نفسیات سے بھی بات کی ،کہ دکھاوا کیوں کیاجاتا ہے،قربانی کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرکے بھی کیا وجہ ہے کہ اخلاص نہیں ہوتا،جواب ایک ہی تھا کہ مقابلے کی اس دوڑ نے ہمیں جانور بنادیا ہے اور قربانی کیلئے لایا گیا جانور بھی اب ہم کو دیکھ کر شرماجاتا ہے،گھر وں کے سامنے ہجوم لگاکر قربانی کرنا،جانور کیساتھ سیلفیاں لینا اور پھر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا ،

یہ سب دکھاوا نہیں تو کیا،اللہ کو سخت نا پسند اور ایک نفسیاتی بیماری بھی۔محمد علی جناح یونیورسٹی کے تعاون سے ان کے کانفرنس ہال میں دنیا فورم سے امید ہے کہ کچھ افراد تو اس بیماری اور اللہ کی نافرمانی سے بچیں گے۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔

شکریہ:مصطفی حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم ،روزنامہ دنیا کراچی

 دنیا: کیا حکومت قربانی کے حوالے سے میڈیا پر تشہیری مہم چلاتی ہے؟

طارق علی نظامانی :عام حالات میں جانوروں کو سڑکوں اور گلیوں میں ذبح کرنا قانونی جر م ہے صرف مذبحہ خانوں میں ذبح ہوسکتے ہیں،لیکن عید قرباں پر حکومت کی طرف سے قربانی کرنے کی رعایت مل جاتی ہے ۔کوشش یہی ہونی چاہیے کہ سنت ابراہیمی کو ادا کرتے ہوئے کسی کو بھی تکلیف نہ ہو، دین بھی کسی کی حق تلفی کی اجازت نہیں دیتا ،کوئی ایسا عمل نہیں کیا جائے جس سے پڑوسی اور اہل محلہ پریشان ہوں۔کوشش کی جائے جانور عید سے ایک دو دن پہلے لے آئیں ،حکومت نے علاقوں میں قربانی کرنے اور الائشیں جمع کرنے کیلئے کلیکشن پوائٹس بنائے ہیں ،شہری گلی محلوں میں قربانی کرنے کے بجائے ان پوائنٹس پر قربانی کریں تاکہ الائشیں اٹھانے میں سہولت ہواور گندگی و تعفن بھی نہ پھیلے۔ گزشتہ سال بھی لوکل حکومت کی طرف سے پیغام نشر کیا گیا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے لوگوں نے کئی مقامات پر اجتماعی قربانیاں کیں۔اس سال بھی الائشیں او ر کچرا اٹھانے کے خصوصی اقدامات کیئے جارہے ہیں ،ڈپارٹمنٹ میں شکایتی سیل قائم کردیاگیا ،شہریوں کوپریشانی ہو تو شکایت کرسکتے ہیں۔ ہمارا میڈیا سیل شہریوں کو آگہی کیلئے پروگرام اور اشتہاری مہم چلاتا ہے۔ کوشش کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچے۔شہر کراچی میں روزانہ 10سے 12ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتاہے،عید کے چار دنوں میں 48ہزار ٹن الائشیں او ر کچرا اٹھایا جاتاہے، عیدقرباں سے ایک ماہ قبل منصوبہ بندی شروع ہوجاتی ہے، ڈپارٹمنٹ میں ایمرجنسی لگادی جاتی ہے،گزشتہ سال عید پر ساری ذمہ داری ہمارے شعبے پر تھی جتنا ممکن ہوسکا کام کیا جس پر لوکل اور صوبائی حکومت نے حوصلہ افزائی کی تھی ۔

دنیا: کیاآپ کے پاس گلی اور سڑکوں پر جانور ذبح کو روکنے یا شکایت پر کارروائی کا اختیار ہے؟

 طارق علی نظامانی: مقامی پولیس یا مقامی انتظامیہ نوٹس لے سکتی ہے ،عوام کی شکایت پر ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے کارروائی کرا سکتے ہیں۔

دنیا : قربانی کیلئے کیا مقصدہونا چاہیے ، دین کیاکہتاہے؟

مولانافیاض حسین مطہری : اسلامی تعلیمات سے دور ی کے باعث مسلمانوں کے رویئے بدل جاتے ہیں۔ اللہ کے حکم کی پیروی کریں گے تو رویئے بہتر ہوں گے۔آج معاشرے میں قربانی کے پیچھے اللہ کی راہ میں قربانی کا جذبہ نہیں بلکہ نمودو نمائش ہے ،سوشل میڈیا پر قربانی کے جانور کی بھاری قیمت بتاکر شیئر کیا جارہاہے یہ سب کیا ہے جذبہ اللہ کو راضی کرنے کا ہونا چاہیے ، لوگوں میں قربانی کا جذبہ بہت ہوتا ہے سمجھانے اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، اللہ کیلئے کام کریں تومعاشر ے کی فکر نہیں ہونی چاہیے، قربانی میں مہنگا جانور اس لیے لاتے ہیں کہ ہماری واہ واہ ہو کہ موصوف نے سب سے مہنگا جانور خریدا ہے ،یہ جانور خریدنے میں دنیا کی شہرت تھی اللہ کی رضا نہیں تھی اللہ کو ایسی قربانی کی ضرورت نہیں،جس شخص کا آخرت اور اللہ پر ایمان ہوگا وہ دکھاوا نہیں کرے گا۔ میں 50ہزار روپے کا جانور لاسکتاہوں تو صفائی کیلئے ہزار روپے بھی نکال سکتا ہوں حکومت پر بوجھ کیوں بنوں ان چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے،قربانی بہترین عمل ہے اس کو بہتر انداز میں کریں دکھاوا نہ ہو۔

دنیا:جمعہ میں خطبات میں بھی سمجھایا جاتا ہے ا سکے باوجود لوگوں میں تبدیلی نہیں آرہی کیا وجہ ہے؟

مفتی احمد عفنان : قوموں کے رویئے تعلیم سے نہیں تربیت سے بدلتے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو صرف کاروبار بنا رکھا ہے ،اللہ کے نبی ﷺ نے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ادب کا بھی ذکر کیا، اللہ نے انسان کو جس فطرت پر بنایا ہے اس کو اس طرف لانا ہے،گاؤں دیہات میں بھی دینی تعلیم ہے لیکن وہاں بھی زیادہ تر تربیت نہیں ہوتی ۔حقیقت میں تعلیم وہی ہے جو رویوں کو تبدیل کردے،ترقی یافتہ ممالک میں 8سال تک بچوں کو تعلیم نہیں رویوں پر تربیت کی جاتی ہے۔قربانی خود ایک تربیت ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اسلام ہر کام میں مہارت کا درس دیتا ہے۔اسلام کہتا ہے جب جانور ذبح کرو توخوبصورتی سے کرو اس سے مراد قربانی کے سار ے تقاضے پورے کرتے ہوئے قربانی کرنی ہے، قربانی اس طرح کی جائے کہ جانور کو بھی تکلیف نہ ہو،چوراہوں پر الائشیں پھیکنا اور گلیوں میں خون بہانے سے لوگوں کو آمدورفت میں پریشانی ہوتی ہے ۔دین میں صفائی کو مقدم رکھا گیا ہے ا س کو ترجیح دینی ہوگی ۔

حدیث کا مفہوم ہے ایمان کے 72 درجات ہیں پہلا درجہ ایمان ہے آپ ﷺ نے فرمایا آخر ی درجہ راستے سے تکلیف کی چیز کو ہٹانا ہے جو ایمان کا حصہ ہے،ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا کہ ہم گلیوں میں خون اور گندگی پھیلا کر لوگوں کو پریشان تو نہیں کررہے ؟جب تک اپنے رویوں کو نہیں بدلیں گے بہتری نہیں آئے گی،جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا اچھا عمل ہے لیکن فرض یا واجب نہیں، اچھے عمل کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہورہی ہو یا گناہ کے کام ہورہے ہوں اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے،دنیا کے مسلم ترقیاتی ممالک میں فارم ہاؤس یا میدانوں میں قربانی کیلئے جگہ دی جاتی ہے ، جہاں منظم طریقے سے قربانیاں ہوتی ہیں شہری علاقوں میں کہیں بھی گندگی یا صفائی کے مسائل نہیں ہوتے ، ہمارے ملک میں تو لڑائیاں ہوتی ہیں کہ قربانی گھر کے سامنے ہی کرنی ہے۔

دنیا:گلیاں بند کردی جاتی ہیں یہ رویہ تبدیل کیوں نہیں ہورہا؟۔ کیا اس کے نفسیاتی مسائل بھی ہیں؟

ڈاکٹر مریم حنیف غازی : قربانی کے وقت جب خون بہتا ہے تو کچھ گھرانوں میں لوگ پاؤں خون میں ڈالتے ہیں جن کا خیال ہوتاہے اس سے بیماریاں نہیں ہوتی او ر اس کی کیا وجوہات ہیں مجھے اس کا علم نہیں لیکن معاشرے میں یہ سب کچھ بھی ہورہا ہے۔یہ رویہ ان علاقوں میں نظر آتا ہے جہاں علم کی کمی ہے،اس عمل کا طبی اور مذہبی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں ، ہمارے تعلیمی نظام میں صرف تعلیم دی جاتی ہے تربیت نہیں ہوتی جب تک خود نہیں بدلیں گے بہتری نہیں آئے گی۔جانور سب سے بڑا اور مہنگا ہو سیلفیاں لی جاتی ہیں ہم کس طرف جارہے ہیں ،یہ چیزیں ہماری روایات نہیں اور نہ دین ا س کی تعلیم دیتا ہے، یہ نفسیاتی مسئلہ بھی ہے ۔اس کلچر کو ختم اور سادگی لائی جائے۔ ایڈیٹر فورم نے کہا کیا یہ ممکن نہیں کہ تعلیمی اداروں میں تہواروں خاص طور پر قربانی کے حوالے سے طلباء کو آگہی دی جائے جس کا معاشرے پر کہیں تو اثر ہوگا ۔

جس کا جواب دیتے ہوئے مریم غازی نے کہا کہ بالکل ہونا چاہیے اس کا معاشر ے پر مثبت اثر پڑے گا،ہمارے اساتذہ کی اسلامی تعلیمات کے حوالے سے تربیت نہیں انہیں صرف تعلیم کیسے دینی ہے، کورس کیسے بنا نا ہے ہی سکھا یاجاتاہے ، فورم کے توسط سے سندھ سالڈ یسٹ مینجمنٹ بورڈ سے گزارش ہے کہ میڈیا پرآگاہی پروگرامز نشر اور شائع کیئے جائیں تاکہ قربانی اور صفائی کے متعلق لوگوں میں آگہی ہو۔ فور م کی رپورٹ اور وڈیو کو یونیورسٹی اور دیگر پلیٹ فارم پر پوسٹ کریں تو ضرور فرق پڑ ے گا ہمیں ان چیزوں کو سوشل میڈیا پربھی پروموٹ کرنا چاہیے۔قربانی میں یہ چیزیں عام ہوتی جارہی ہیں کہ ہمارا جانور بڑا تھا،گوشت زیادہ تھا،گلی خون سے بھر گئی تاکہ لوگوں میں ہماری قربانی کا احساس ہو یہ چیزیں دکھاوے میں آتی ہیں،اس مقصد کیلئے سوشل میڈیا کو بھی استعمال کیا جارہا ہے تاکہ لوگ دیکھیں ہماری واہ واہ ہو ۔ سب کو مل کر اس رویئے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

مفتی احمد عفنان: پاکستان میں لوگو میں دین کا جذبہ بہت زیادہ لیکن علم بہت کم ہے،قربانی کے اصل مقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے،لوگوں کو تکلیف دینا اصل مقصد سے دوری ہے۔دکھاوے کا عنصر بڑھنا معاشرے کیلئے تباہی کا باعث ہے۔منبر ومحراب کیساتھ تعلیمی ادارے بھی تربیت کریں،میڈیا اپنا مثبت رول ادا کرے۔

دنیا: ہمارے رویئے تبدیل ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جارہے ہیں کیا وجوہات ہیں ؟

ڈاکٹر سکینہ ریاض : ہر مذہب میں قربانی کا تصور رہا ہے،اسلام میں قربانی اہل ثروت لوگوں پر فرض ہوتی ہے،معاشرے میں تزکیہ نفس اور ایثار کی بات نہیں کی جاتی ،ہم قربانی میں دوسروں کی مدد کے بجائے ایک دوسرے سے برتری لیجانے کو ترجیح دیتے ہیں ،مقابلے کی فضامیں ہر چیزکا مقابلہ کیا جارہا ہے حتیٰ کے قربانی میں بھی مقابلے کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔قربانی ضرور کریں لیکن اس میں دکھاوا نہ ہو۔قربانی کااصل مقصد ایسے گھرانوں تک گوشت پہنچایا جا ئے جنہیں پوراسال گوشت نصیب نہیں ہوتا۔

 بینش ضیا ء : دکھاوا نفسیاتی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ نفسیاتی طورپر لوگ شخصیت میں کمی کی وجہ سے دکھاوا کرتے ہیں تاکہ لوگ متوجہ ہوں اور حوصلہ افزائی ملے، ایسے لوگوں کی تعلیم و تربیت نہیں ہوتی جو ادھوری چیزوں کا سہار ا تلاش کررہے ہوتے ہیں،ہم اپنی خوشی اور دکھاوے کی خاطر رویوں کو تبدیل کررہے ہیں اگر نہیں سنبھلے تو گرتے چلے جائیں گے،بچپن سے ہی تربیت ضروری ہے مگر افسوس آج تو ماں کے پاس بھی وقت نہیں ،اسلام میں بچے کے شروع کے 7 سال تربیت کو ترجیح دی گئی ہے، سائیکالوجیکل نقطہ نظر سے بچے کا یہ عرصہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں بچے کی شخصیت بن رہی ہوتی ہے،بچوں کی تربیت میں والدین خاص طور پر ماؤں کو اپنی اور بچوں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے، ہمارے تعلیمی نظام میں بھی اس چیز کی کمی ہے۔

ڈاکٹر سکینہ ریاض : علاقوں میں گلیاں بند کر دی جاتی ہیں جس سے لوگ خاص طور پر خواتین کو آنے جانے میں دشواری ہوتی ہے۔ پورے شہر کا یہی حال ہے ۔قربانی کے حوالے سے شہر میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ہم ہر سال پریشانیوں کے ساتھ عید گزارتے ہیں۔ہمارے سماجی رویئے تبدیل ہورہے ہیں اس پرغور اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے ، جانوروں کو مختلف قسم کی ویکسین لگائی جارہی ہیں جو کم عمر میں موٹے اور غیر صحت بخش ہوتے ہیں،اور لوگ رشتے داروں میں ایسے جانوروں کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے ا تنے لاکھ کا خریدا ہے،یہ چیزیں کنٹرول ہونی چاہیے ،ہم قربانی ضرور کریں لیکن دکھاوے کیلئے نہیں۔

 مولانا فیاض حسین : قربانی بہترین عمل ا س کو بہترین انداز میں کیا جائے، قربانی کے پیچھے ایک جذبہ ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے قربانی کی جائے ،اللہ کو قربانی کے گوشت کی ضرورت نہیں ، یہ ہماری ضرورت ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرو جس میں خاص طور پر ایسے رشتے دار جو سارا سال گوشت نہیں کھاتے انہیں دیا جائے۔

دنیا فورم کے دوران ڈاکٹر سکینہ نے عید قرباں کے حوالے سے واقعہ سنایا کہ دو میڈیکل کی طالبہ ٹیوشن پڑھاتی تھیں انہوں نے ایک بچے سے پوچھا آپ کے گھر گائے کی قربانی ہوتی ہے یا بکرے کی ،بچے نے جواب دیا دونوں کی ، ٹیچر نے بچے سے کہا کہ امی سے کہنا اگر بکرے کی قربانی ہوتو ہمیں اچھا گوشت دے ،والدہ نے بیٹے سے پوچھا کیا ٹیچر کے گھر قربانی نہیں ہوتی بیٹے نے جواب دیا ٹیچر نے کہا ہم گائے میں حصہ لیتے ہیں، والدہ نے بچے کے ہاتھ بکرے کا گوشت بھجوا دیا ۔ٹیچر نے بچے کی والدہ کو فون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کافی عرصے بعد بکرے کا گوشت کھایا ہے آپ کا شکریہ ۔ جب یہ بات سنی تو حیرت زدہ رہ گئی کہ واقعی درمیانہ طبقہ کن حالات میں زندگی گزار رہا ہے ، فورم میں تمام شرکاء نے کہا کہ قربانی کا یہی پیغام پھیلانے کی ضرورت ہے ۔ ایڈیٹر فورم نے کہا کہ حیدر ی میں محلہ کمیٹی کی طرز پر کمیونٹی سسٹم بنا یا گیا ہے جہاں پولیس کی شکایات اور دیگر شہری مسا ئل حل کرنے کیلئے محلے کی سطح پر اچھا کام ہورہا ہے اسی طرح قربانی کے دنوں میں بھی ایسا نظام ہونا چاہیے جس سے شہریوں کے مسائل حل ہوں۔پہلے بھی علاقوں میں محلہ کمیٹیاں ہوتی تھیں جس سے لوگوں کے مسائل گھروں کی دہلیز پر حل ہوجایا کرتے تھے۔

مریم فردوس نے کہا دنیا فورم کے توسط سے یہ بات کہنا چاہوں گی کہ محلوں کی سطح پر کمیٹیاں بنا ئی جائیں جوتما م چیزوں کو یقینی بنائے ۔مولانا فیاض حسین نے کہا کہ کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو قربانی کے بعد شکایات کرتے ہیں ہم نے گوشت نہیں کھایا،ہم قربانی کرکے بھی ان لوگوں تک گوشت نہیں پہنچاسکے جو سفید پوش مستحق تھے ۔انہوں نے واقعہ سنایا کہ کورونا صورت حال میں ایک عزیز سے گھر ملنے گیا جو کھاتے پیتے لوگ تھے لیکن ان کی حالت دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ انہیں کوئی مسئلہ ہے لیکن ان کی معاشی صورت حال اچھی تھی اس لیے سوال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہا تھا لیکن ہمت کرکے پوچھا کوئی پریشانی تو نہیں یقین کریں وہ شخص رونے لگ گیا اس وقت دھچکا لگا کہ ہم لوگ اتنے غافل ہیں کہ اطراف کے لوگ بھی نظر نہیں آرہے ،منبرو محرا ب سے آواز بلند ہوتی ہے لیکن کچھ لوگوں تک جاتی ہے۔میڈیا کردار ادا کرے توکروڑوں لوگوں تک آگہی ہوسکتی ہے۔انسان کو تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی ہماری غلط سوچ ہے کہ ہم معاشرہ نہیں بدل سکتے؟۔ہم ایک جملے اور گفتگو سے معاشرے کو بدل سکتے ہیں۔

دنیا: کیا قرض لے کر قربانی ہوجائے گی ؟

مفتی احمد عفنان:قربانی تو ہوجائے گی لیکن معاشرہ تنگ کردے گا،شریعت نے قربانی کے پیمانے رکھے ہیں ،قربانی اس پر فرض ہے جس کے پاس اتنا اتنا مال ہو،جب ہم کوئی کام دکھاوے کی خاطر کرتے ہیں تواس عبادت میں اخلاص نہیں بس رسم رہ جاتی ہے،اسلام میں عبادت ایک روح ہے،جیسا علامہ اقبال نے کہا تھا

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں سوز بلالی نہ رہی

 حقیقت ہے ہمار ے اعمال سے رو ح کھینچ لی گئی ہے جس سے اخلاص ختم ہوگیا ہے۔اس میں ہم سب قصور وار ہیں خاص طورپر معاشرے کے وہ لوگ جو اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن نہیں کرتے۔ان خرابیوں کو دور کرنے کیلئے سب کو آگے آنا ہوگا۔قربانی کا اصل مقصد خود کو پیچھے اور دوسروں کو آگے رکھے،قربانی میں اللہ کے پاس گوشت نہیں تقویٰ جاتاہے۔

 لیکچرار مریم فردوس: ہم لوگ خودغرض ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے قر بانی کی بنیاد سے دور ہوتے جارہے ہیں، جانور قربان کرتے وقت قربانی کا جذبہ نظر نہیں آرہا۔گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے ہم کیا کررہے ہیں ، نظام کو بہتر کرنے کیلئے خود کردار ادا کرنا ہوگا، عیدالضحیٰ پر جانور تو قربان کررہے ہیں لیکن قربانی کا اصل جذبہ ہمارے اندر موجود نہیں ،ہم صرف اپنی آسانی کیلئے جہاں جگہ ملتی ہے گلیوں،سڑکوں اور گھروں کے آگے جانور قربان کردیتے ہیں،اصل قربانی وہ ہے جس کو کرتے ہوئے ہم دوسروں کا خیال رکھیں اور خود غرضی کا مظاہرہ نہ کریں۔

ہمیں اپنی آسانی اور سہولت کی قربانی دے کر پڑوسیوں اور راہگیروں کا خیال رکھنا چاہیے، جگہ جگہ جانور ذبح کرنے کے بجائے کچھ جگہ مخصوص کرلیں ،علاقوں میں کہیں نہ کہیں خالی پلاٹ یا جگہ موجود ہوتی ہیں ا ن مقامات پر قربانی کی جائے تو عوام گلی محلوں میں رکاوٹوں سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔