’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘مگر عوام خوف زدہ کیوں؟
شرکاء:انسپکٹر ضیاء اللہ، انچارج پولیس ٹریننگ اسکول گارڈن۔انسپکٹر لبنیٰ ٹوانہ،انچارج وومن اینڈ چائلڈ پروٹیکشن کراچی۔سب انسپکٹر شبانہ جیلانی۔انسپکٹر غزالہ پروین۔انسپکٹرشجاعت حسین ۔ انسپکٹر سرور۔انسپکٹر فصیح اللہ ۔انسپکٹر خالد مصطفی ۔محمد علی جناح یونیورسٹی شعبہ نفسیات کی لیکچرار مریم فردوس طلباء وطالبات کی کثیر تعداد
پولیس میں تعلیم یافتہ لوگ آرہے ہیں،میڈیا مثبت تاثر پیش کرے: انسپکٹر ضیاء اللہ،پولیس اہلکار عوام کی خاطر سخت گرمی میں کھڑا ہوتا ہے: انسپکٹر لبنیٰ ٹوانہ
تالی دونوں ہاتھو ں سے بجتی ہے عوام بھی خود کو ٹھیک کریں: انسپکٹر شجاعت،ٹریننگ میں مرد ،عورت کا فرق نہیں ہوتا، دہشتگردوں سے مقابلے بھی ہوئے: انسپکٹر غزالہ
شوہردہشتگردوں سے مقابلے میں شہید ہوئے،فخر ہے شہید کی بیوہ ہوں: سب انسپکٹر شبانہ،پولیس فورس میں خواتین کیلئے بہت مواقع ہیں،ماحول بھی اچھا ہے: انسپکٹر سرور
موضوع: ’’پولیس اور عوام میں دوریاں کیوں؟‘‘
پولیس!یہ نام سنتے ہی نجانے کیوں کپکی طاری ہوجاتی ہے،عمومی خیال ہے کہ ایک شریف آدمی تھانے نہیں جاسکتا،وہ اگر کسی جرم کا شکار بھی ہوجائے تو مجرم کے بارے میں پولیس کو بتانے سے ڈرتا ہے۔۔آخرایسا کیوں ہے؟بس یہی سوال لیا اور ڈی آئی جی جنوبی جاوید اکبر ریاض کے پاس پہنچا،موضوع بتایا کہ چاہتا ہوں لوگوں کو بتاسکوں کہ پولیس محض خوف کا نام نہیں ،آپ کی مدد کا ادارہ ہے،ڈی آ ئی جی جاوید اکبر کو موضوع پسند آیا،پولیس ٹریننگ اسکول کے انچارج ضیاء اللہ سے مل کر پروگرام کرنے کا مشورہ دیا،اور پھر انسپکٹر ضیاء اللہ کے بھرپور تعاون سے پولیس ٹریننگ اسکول گارڈن میں دنیا فورم کیا۔انسپکٹر ظہیراور انسپکٹر شجاعت نے سہولتیں فراہم کیں۔
پولیس ٹریننگ اسکول میں خوبصورت فرنیچر ،بہترین عمارت اور جدید سائونڈ سسٹم انسپکٹر ضیاء اللہ کی کاوشوں کا بھرپور ثبوت ہیں۔دنیا فورم میں محمد علی جناح یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے طلبہ وطالبات اپنی لیکچرار مریم فردوس کے ساتھ شریک ہوئے۔طلباء کیلئے پولیس کا ایسا رویہ انوکھا تجربہ تھا۔بات سے بات نکلتی چلی گئی ،اور یہاں مکمل ہوئی کہ ’’تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘‘ ،پولیس کے بارے میں محض منفی خبریں دینے کے بجائے ان کے مسائل پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔معاشرے مثبت سوچوں سے تواناہوتے ہیں اگر ہر وقت منفی سوچ کو ہی پھیلایا جائے تو معاشرے تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں،دنیا فورم کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں مسائل کا ذکرہو وہیں معاشرے کے حسن کو بھی پیش کیاجائے تاکہ لوگوں کو مایوسی سے نکالا جائے۔ پولیس سے ہزار شکایت کے باوجود اس حقیقت سے کیسے انکار کیاجائے کہ امن وامان برقرار رکھنے کیلئے کتنے ہی پولیس کے جوان جام شہادت نوش کرچکے۔ہم ایسے ہی مخلص ،فرض شناس اور عوام کے لئے ڈیوٹی دینے والے پولیس افسرا ن کو سلام پیش کرتے ہیں۔
(مصطفیٰ حبیب صدیقی
ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)
دنیا: کیا ہماری پولیس دیگر ممالک میں بھی کام کررہی ہے ؟
انسپکٹرضیاء اللہ : دنیا فور م کو خوش آمدید کہتا ہوں جنہوں نے عوام او ر پولیس میں دوری کے موضوع پر بات کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اقوام متحدہ کے تحت مختلف ممالک میں 5سال گزار چکا ہوں وہاں کے پولیس اسٹیشنوں میں پولیس والوں کو ٹریننگ بھی دی ۔2001میں2سال کیلئے کوسووو گیا جو یورپ کے جنوبی مشرق میں ہے جہاں پولیس سروس فراہم کیں ۔ بہت کچھ سیکھاا و ر ملک کا نام روشن کیا۔وہاں 92 قومیت کے لوگوں کے ساتھ کا م کیا۔اللہ کا فضل ہے پاکستانی پولیس دو سرے یا تیسرے نمبر پرتھی ۔امریکی،جرمن اور فرانسیسی پولیس کے بعد لوگ پاکستانی پولیس پر اعتماد کرتے تھے۔ پاکستانی بہت ذہین ہوتے ہیں ۔ہماری پولیس بہت اچھی ہے۔تسلیم کرتاہوں کبھی کبھار ہماری پولیس سے کچھ مسائل بھی ہوجاتے ہیں لیکن پوری کوشش ہوتی ہے اپنی خدمات عوام کو فراہم کریں ۔
دنیا:ایس ایچ او کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟
انسپکٹر ضیاء اللہ :کئی تھانوں میں ایس ایچ او کے فرائض انجام دے چکا ہوں، ایس ایچ او تھانے کا بادشا ہ کا تصور پہلے ہوتا تھا ، اب ایسا نہیں ۔ایس ایچ او پر علاقے کی بہت ذمہ دار ی ہوتی ہے۔ باہر ممالک میں جس علاقے میں ڈیوٹی ہوتی تھی
وہ کہتے تھے Area of Responsibility ،ہماری ذمہ داری ہے ۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں جرائم سے متعلق مسائل معاشرے سے کس طرح پاک کرناہے۔ علاقے کی تمام ذمہ داری ایس ایچ او پر عائد ہوتی ہے کہ علاقے میں کسی کے ساتھ ناانصافی او ر زیادتی نہ ہو ۔کوئی بھی جرم ہوگا تو ایس ایچ او ذمہ دا ر ہوگا۔مسائل ہیں تاہم میڈیا مثبت خبریں کم دیتا ہے۔پولیس میں جدت آرہی ہے۔ میں نے خود کراچی یونیورسٹی سے 2003 ء میں کرمنا لوجی سائنسز میں ماسٹر کیا۔
ہمارے پاس کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی لوگ بھی آرہے ہیں۔ایم فل بہت زیادہ ہیں،نئی بھرتیوں میں 350 انویسٹی گیشن افسران کا تقرر ہوچکا جن میں زیادہ تر ایم فل ہیں۔اب پڑھی لکھی پولیس ہے جو بڑے اچھے انداز میں کام کررہی ہے ۔خواتین پولیس افسران میں کام کا بہت جذبہ ہے مردوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ پہلے میڈیا پر پولیس کی رپورٹنگ منفی انداز میں کی جاتی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں وہی بیٹھاہوا ہے اب پولیس پہلے والی نہیں بہتری کی طرف جارہی ہے ۔میڈیا کو پولیس کا بہتر تاثر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا: پولیس او ر عوام میں خوف کیوں ہے کیاوجوہا ت ہیں؟،ہمارے رویئے کیسے ہونے چاہییں؟
انسپکٹر لبنیٰ ٹوانہ :پولیس میں آنے کا مقصد لوگوں کی مددکرنا تھا۔مجھے معلوم تھا یہاں قانون نے براہ راست اختیارات دیئے ہیں جسے استعمال کرتے ہوئے بے سہارا ور غریب لوگوں کی مدد کرسکتی ہوں ۔ڈسٹرکٹ ملیر میں پہلی مرتبہ لیڈیز سیل بنا تھاا س میں پہلا کیس ایک لڑکی کاآیا جو سہراب گوٹھ میں خود کشی کرنے جارہی تھی ۔وہاں کی پولیس ہمارے تھانے میں لائی ۔اس سے بات کی اس کا پتہ معلوم کروایا اور والدین کو بلوانے کا کہا اس نے کہا میں گھر نہیں جاؤں گی ۔مجھے اس بات پر حیرت ہوئی اس سے شفقت کے ساتھ بات کی اس نے وجوہات بتائیں ،اس نے کہا میری عمر18 سال ہے اور میرا شوہر20 سال کا ہے جبکہ میرا سسر مجھے غلط کاموں میں استعمال کرتاہے ،میں ڈی ایس پی کے پاس گئی کہا مجھے اس کیس میں کارروائی کرکے اس کے سسر کو پکڑنا ہے۔
انہوں نے کہا ان کی کہانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں یہ الزام لگارہی ہوگی ۔لیکن مجھے تسلی نہیں ہوئی کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر کٹوائی ۔اس کے سسر کو بلوایا،پورا کیس تیار کیا،آخر میں اس کے سسر نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا۔اس لڑکی کی دعائیں آج بھی مجھے لگ رہی ہیں یہی ہماری کامیابی ہے۔پولیس او رعوام میں دوریوں کی وجہ ہمارے رویئے ہیں،اگر وہ ڈی ایس پی صاحب اس لڑکی کی بات مان لیتے تو وہ دوریاں اسی وقت ختم ہوجاتی ۔ پولیس کے شعبے میں خواتین بہت سرگرم اور بہادری سے کام کررہی ہیں، ایف آئی اے میں جانے والی سب سے پہلی خاتون پولیس افسر تھی لیکن مجھے کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔2000ء سے پہلے وہاں کوئی خاتون پولیس افسر نہیں تھی۔ جب تعیناتی ہوئی تو اسٹاف نے خاتون کے احترام میں کہا آپ ایک طرف بیٹھ جائیں،میں نے کہا پولیس افسر ہوں کام کرنے آئی ہوں ایک طرف کیوں بیٹھ جاؤں۔
ایک وقت ایسا آیا کہ ایف آئی اے کے سینئر افراد کہا کرتے تھے 100مرد افسر اورایک لبنیٰ ٹوانہ برابر ہیں۔میں نے خاتون ہوتے ہوئے مردوں سے زیادہ کام کیئے ۔میں چیزوں کو سیکھتی او رسمجھتی تھی اور اپنے اختیارا ت کا معلوم تھا یہی میری کامیابی کار از تھا۔ہم اختیارات کا استعمال اور رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے میں تمام سرکل میں کام کیا۔ایف آئی اے میں جاکر معلوم ہو ا وائٹ کالر کرائم کیا ہوتا ہے ۔اصل میں چور ڈاکو تو یہ بڑے بڑے کاروباری،سماجی اور سیاسی لوگ ہوتے ہیں جو شریفانہ انداز میں کرائم کرتے ہیں۔یہ وہ کرائم کرتے ہیں جو ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔
دنیا: پولیس کاتفتیش کا طریقہ کار کیا ہوتاہے؟
انسپکٹر ضیاء اللہ :سول نوعیت کے کیسوں کو روزنامچے میں درج کرنے کے بعد متعلقہ عدالت کیلئے رہنمائی کر دیتے ہیں، جبکہ جرائم کے کیسوں میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے جس کے بعد پولیس کی پور ی مشینری حرکت میں آجاتی ہے اور تفتیش کے مراحل شروع ہوجاتے ہیں جس میں ملزم اور گواہوں کے بیانات لینے ہوتے ہیں اور ثبوت جمع کرنے ہوتے ہیں تاکہ عدالت میں تیار ی کے ساتھ کیس کو پیش کرسکیں۔
دنیا: ایک خاتون ہونے کے ناطے تھانوں اور معاشرے میں لوگوں کے رویئے کیسے محسوس کئے ؟
انسپکٹر غزالہ پروین : پولیس میں آنے سے پہلے ٹیچر تھی ۔2014 میں شوہر کا انتقال ہوگیا ۔ پولیس میں انسپکٹر لبنیٰ ٹوانہ کو دیکھ کر کافی حوصلہ ملا ۔ان کے کام کو دیکھ کر متاثرہوئی یہ بچوں کی طرح تربیت کرتی ہیں۔ خواہش تھی کہ ان جیسا بنیں اور نظر آئیں ۔خاندان میں زیادہ تر ٹیچر یا ڈاکٹر ز ہیں سب کا یہی سوال تھا پولیس میں کیوں جارہی ہو؟ایک مرتبہ شوہر سے پوچھا کہ پولیس والے کیسے ہوتے ہیں جواب دیا اچھے نہیں ہوتے ،پوچھا اور پولیس والیاں کیسی ہوتی ہیں انہوں نے کہا کبھی دیکھا نہیں ۔انہوں نے کہا تم پاگل ہو پولیس میں مرد بھی جانا پسند نہیں کرتے تم خاتو ن ہوکر جانا چاہتی ہو، تمہاری ٹیچنگ کا کیا ہوگا جب میں نے بہت ضد کی تو ساس اور سسر نے کہا اس کو پولیس میں جانے کا شوق ہے تو اسے جانے دو۔ا سکے بعد پولیس میں شمولیت اختیار کی۔
فورس کی ٹریننگ میں مرد اور عورت کا فرق نہیں ہوتا، تھانوں میں مردوں کے ساتھ اسی طرح کارویہ رکھتے ہیں جو ایک مرد پولیس افسر رکھتاہے، ہم خواتین افسران کے دہشت گردوں سے مقابلے بھی ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی پہلی خاتون ایس ایچ او ہونے کا اعزاز بھی میرے پاس ہے۔مرد پولیس اہلکاروں نے ہمیشہ تعاون کیا۔
سب انسپکٹر شبانہ جیلانی: ویمن پروٹیکشن سیل میں خدمات انجام دے رہی ہوں ۔ عوام اپنے ذہنوں میں اپنی فورسز کیلئے نرم گوشہ رکھیں،عزت اور احترام سے دیکھیں ۔ آج پولیس وہ نہیں جو پہلے تھی ،پولیس میں بہت تبدیلی آچکی ۔پولیس اسٹیشنز جدید ٹیکنالوجی کیساتھ کام کررہے ہیں ۔ انسپکٹر غزالہ پروین پولیس اسٹیشن میں بہت محنت اور بہادری سے کام کررہی ہیں جو ہماری لیے رول ماڈل ہیں۔ہمارے سینئرز نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ۔والدہ ڈاکٹر تھیں، خاندا ن میں مرد یاعورت کو ئی بھی پولیس میں نہیں تھا۔میرا پولیس میں آنے کا شوق اور لوگوں کی خدمت کا جذبہ تھاکہ اتنی خدمت کروں کہ جان بھی چلی جائے تو فخر محسوس ہو۔ میرے شوہر ڈی ایس پی تھے جو 2008 میں دہشت گردوںسے مقابلے میں شہید ہوگئے ،اس وقت میں صرف24سال کی تھی۔ بچے چھوٹے تھے،جنہوں نے اپنے والد کی شہادت دیکھی جن کے جسم میں گولیاں لگی تھیں اور خون میں لہولہان تھے ۔
جس وقت میں پولیس میں گئی بچوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ امی جان آ پ پولیس میں کیوں جارہی ہیں ،ان سے کہاکرتی ہوں موت برحق ہے۔ہم پر پولیس کی وردی کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،شہر کے کئی تھانوں میں ایس ایچ او رہی۔بعض مرتبہ اچھے رویوں سے جرائم پیشہ افراد بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ہمیں اپنا رویہ اچھا رکھنا چاہیے۔ جرم سے نفرت کریں مجرم سے نہیں ،آپ کے اچھے الفاظ کسی کے زخموں پر مرہم رکھیں گے اور ہمت بھی بڑھائیں گے جس کی دعاؤں سے آپ کی بھی پریشانیاں دور ہوں گی ہوسکتا ہے آپ کے اچھے رویئے کی وجہ سے وہ ایک اچھا شہری بن جائے ۔ایک مسکراہٹ بھی صدقہ جاریہ ہے۔شعبہ کوئی بھی ہو اچھا انسان ہونا ضروری ہے۔
دنیا:بھرتیوں کا معیارکیا ہے؟ پولیس میں تعلیم یافتہ لوگ آرہے ہیں؟
انسپکٹر سرور:عوام میں پولیس کا روایتی تصور ہے کہ ظلم ،تشد اور ماردھاڑ کرے گی اب ایسا نہیں ہے۔ پولیس میں اب روایتی طریقے نہیں ہیں ۔تبدیلی آرہی ہے او رمزید بہتری آئے گی۔رویئے تبدیل ہونا ہی اصل تبدیلی ہے۔حضرت علیؓ کا قول ہے انسان اپنی ز بان کی نیچے چھپا ہوا ہے۔بعض مرتبہ اچھے رویوں کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں،اس وقت پولیس کا ماحول اچھا ہے، پڑھے لکھے لوگ آرہے ہیں۔ میں پولیس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے چار پانچ مرتبہ اقوام متحدہ کے تحت مختلف ممالک میں اچھی پوزیشنز پر خدمات انجام د ے چکا ہوں اور پاکستان کا نا م روشن کیا ہے۔پولیس فورس میں خواتین کیلئے بہت مواقع اور ماحول بھی اچھا ہے۔
دنیا: عوام کا پولیس کے بارے میں منفی تاثر کیسے تبدیل ہوگا؟ شہر میں کن جرائم کا سامناہوتا ہے؟
انسپکٹر شجاعت حسین : تالی دونوں ہاتھو ں سے بجتی ہے ۔عوام اپنی چیزوں کو پوری اور صحیح رکھیں تو پولیس والوں کو موقع ملے گا نہ تنگ نہیں کریں گے۔ سوشل میڈیاکاد ورہے ،عوام فوری پویس کے حوالے سے شکا یت کی وڈیو وائرل کردیتے ہیں ۔ہماراسوشل میڈیا کا سیل بنا ہوا ہے جو فوری طور پرکارروائی کرتاہے،شہر میں اسٹریٹ کرائم زیادہ ہیں جسے کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چیک پوسٹیں بنی ہوئی ہیں،پولیس پٹرولنگ سخت کررہے ہیں۔لوگ بھی تعاون کرتے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان مجرم بن رہے ہیں اور جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔جرم کرناآسان ہوتاہے ،سڑک پر موبائل اور دیگر قیمتی چیزیں آسانی سے چھین لی جاتی ہیں،کراچی میں مختلف قسم کے کرائم ہورہے ہیں، مختلف گینگز موجود ہیں،کمیونٹی پولیسنگ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔
دنیا: ٹریننگ کیسے ہوتی ہے تھانوں میں رویہ کیسا ہوتا ہے؟
انسپکٹر فصیح اللہ :شہزاد پور سانگھڑ کے ٹریننگ سینٹر میں پولیس والوں کو ٹریننگ دی اور کراچی میں دے رہا ہوں۔دوقسم کی ٹریننگ ہوتی ہے ایک فیلڈ کی جس میں ہتھیاروں کا استعمال اوردیگر چیزیں سکھائی جاتی ہیں۔دوسرا کلاسوں میں باقاعدہ قانون اور دیگر چیزوں کے بارے میں پڑھایا جاتاہے،اس کا عملی طریقہ بھی کرایا جاتاہے۔ جس طرح اسکول اور کالجوں میں پڑھایا جاتاہے ۔
دنیا: کیا پولیس میں سائیکا لوجی کے حوالے سے تربیت ہوتی ہے؟
انسپکٹر خالد مصطفی : ہر شعبے میں نفسیات کا بڑ ا عمل دخل ہوتاہے، انسا ن کے الفاظ کے پیچھے ایک سوچ ہوتی ہے۔جیسی سوچ ہوگی ویسے الفاظ اور رویہ ہوگا۔بعض مرتبہ ہم اچھا کرنا چاہتے ہیں لیکن کچھ ایسا ہوگیا جس سے مزاج ہی بگڑ گیا اور برے راستے پر چل پڑا۔پولیس والوں کے بھی مسائل ہوتے ہیں ۔بعض مرتبہ پورا دن ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں،لانگ شوز ، بیلٹ،وزنی بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی ہوتی ہے،جس سے بعض مرتبہ پریشانی بھی ہوتی ہے،عوام کے منفی رویو ں کیساتھ افسران کا د باؤ بھی ہوتا ہے جس کے باعث ڈر رہتا ہے کہیں غلطی نہ ہوجائے ،ایسی صورت حال میں ہماری حالت کا عوام کو احساس نہیں ہوتا، ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے صبرو تحمل اور بردباری اور پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن عوام کی خدمت کیلئے پولیس والوں کو اپنے جذبات قابو میں رکھنے چاہیے۔
دنیا:مجرم کو پکڑنے کیلئے کیا طریقہ کار ہوتاہے؟
انسپکٹر لبنیٰ ٹوانہ : مجرم تک پہنچنے کیلئے اہم معلومات جمع کی جاتی ہیں ۔ تربیت یافتہ افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو اکثر حلیہ بدل کر بھی جاتے ہیں۔علاقوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنا انفارمر بناتے ہیں جن سے معلومات جمع کرتے ہیں،انفارمر کا نام کبھی ظاہر نہیں کرتے تاکہ مجرم کی طرف سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔جب صحیح اور قابل بھروسہ معلومات جمع ہوجاتی ہیں توکارروائی کرکے ملزم کو پکڑتے ہیں۔
سب انسپکٹر شبانہ جیلانی : شوہرڈی ایس پی اصغر سی آئی اے میں تھے2008 میں دہشتگردوں سے مقابلے میں شہید ہوئے۔ مجھے فخر ہے میں ایک شہید کی بیوہ ہوں۔ ہمت ہاری نہ ڈری اپنے بچوں کو پڑھا یاآج و ہ سی ایس ایس کررہے ہیں۔بیٹی سی ایس ایس کرکے اے ایس پی بنے گی ۔اللہ کے فضل سے ہمیں یہ خوف نہیں ہے کہ شوہر شہید ہوگئے تو ہمیں کوئی نقصان ہوگا۔شہاد ت ہمارے لیے بہت بڑا رتبہ ہے۔ شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
8ماہ کے بچے کو اپنے گھر لے آ ئی ،انسپکٹر لبنیٰ ٹوانہ
ایف آئی اے میں تعیناتی کے دوران میری ڈیوٹی ایئر پورٹ پر تھی ۔ ایک عورت سعودی عرب سے 8ماہ کا بچہ اسمگل کرکے لائی ۔ عورت نے ہمیں دیکھ کر بچے کو دودھ پلانے کی کوشش کی ہمیں شک ہوا یہ اس کی ماں نہیں ہے،کیونکہ بچہ گورا چٹا تھا جبکہ عورت کا رنگ گندمی تھا۔ ہم نے اسے روک لیا۔اسکا پاسپورٹ جعلی نکلا۔تفتیش سے شک یقین میں بدلا اس کو سیل میں بھیجا دو تین دن اس کو ’’خورا ک‘‘ دی تو اس نے بتایا کہ بچہ سعودی عرب سے اسمگل کرکے لائی ہے۔ بچے کو عدالت میں پیش کیا،یہ میرا کیس نہیں تھا لیکن ساتھ گئی ،عدالت میں 4 ،5 خاندان نے بچے کا نگراں’’Custodian‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا، کوئی کہتا میں دادا ہوں، کوئی چاچا کہتا ۔میں نے جج صاحب سے درخواست کی کہ بچہ شیلٹر ہوم سمیت کسی کو نہ دیں۔ایف آئی اے کو دیدیں جب تک والدین نہیں ملتے ہم یہ بچہ کسی کو نہیں دینا چاہتے۔ جج صاحب نے ہماری بات مانی ،بچہ ایف آئی اے کی نگرانی میں دیدیا۔
میں بچہ لے کردفتر آگئی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی اجازت ایک ماہ وہ بچہ میرے گھر رہا ۔ا س کیلئے خوب شاپنگ کی جبکہ بچے کے والدین کو ڈھونڈتے رہے۔اس کے والد سعودی عرب سے آئے ،ہم نے ڈی این اے کرایا پھر اس بچے کو ان کے حوالے کیا اس وقت مجھ سمیت ایف آئی اے افسران سب کی آنکھوں سے آنسو ں رواں تھا جبکہ باپ کی بھی آنکھیں نم تھیں مگر وہ خوشی کے آ نسوں تھے جبکہ ہم بچے کے والدین کے ملنے پر تو خوش تھے مگر بچے سے ایک ماہ میں انسیت ہوگئی تھی اس لیے ہماری آ نکھیں نم تھیں کہ بچہ اب ہم سے جدا ہوجائے گا۔یہ وہ کام ہیں جو ہمیں کرنے چا ہئیں یہ تجربے مجھے ہر جگہ کام آتے ہیں۔
دنیا فورم کے دوران محمد علی جناح یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کے سوالات
دنیافورم کے دوران محمد علی جناح یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی ٹیچر اور طلبہ و طالبات نے پولیس افسران سے سوالات کیے اور تجاویز بھی دیں۔ شعبہ نفسیات کی لکچرار مریم فردوس نے کہا کہ یہاں پولیس افسران کی گفتگو سننے اور پولیس ٹریننگ اسکول دیکھنے کے بعد پولیس کے بارے میں رائے تبدیل ہوئی ۔عمومی حالا ت میں عوام کو پولیس سے مسائل حل کرانے کے طریقوں کا علم نہیں ہوتا اس کے متعلق بھی آگہی دینے کی ضرورت ہے۔تھوڑی خامیوں کی وجہ سے پورے پولیس ڈپارٹمنٹ کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔میرا سوال ہے دیگر ممالک میں پولیسنگ کے تجربے اور پاکستان میں پولیسنگ میں کیا فرق ہے کیا وہ تجربے پاکستان میں نہیں ہوسکتے ؟۔
انسپکٹر ضیاء اللہ نے کہا کہ 2001میں بوسنیا گیاتھا ۔یورپی ممالک بہت امیر ہیں ،وہاں کے پولیس اسٹیشن کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ہماری پولیس کا جتنا بجٹ ہے اس سے زیادہ وہ لوگ اپنے ٹوائلیٹ میں ٹشو پیپر پر استعمال کرتے ہیں۔امیر لوگ ہیں پیسے کی فراوانی ہے ،ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے۔اسی لحاظ سے ان کا معیار ہے۔ہمار ا ملک غریب اور محدود وسائل ہیں۔ان وسائل میں رہتے ہوئے ہم ان کے معیار پر کیسے پورا اترسکتے ہیں۔جب تک ہم معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوجاتے یہ فرق باقی رہے گا۔13ماہ قبل جب ٹریننگ اسکول کا چارج سنبھالا توکھنڈر تھا۔اپنے کمرے میں گیا تو ڈر گیا کہ کیسے رہوں گا پھر آہستہ آہستہ ڈونرز کو بلوایا ،سول سوسائٹی سے بات کی۔پاکستانی بہت اچھے ، بہت جذبہ اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔آج آپ جو جدید اور خوبصورت پولیس ٹریننگ اسکول کی عمارت دیکھ رہے ہیں ۔ کمیونٹی نے 63 لاکھ روپے لگا کر اس کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ،اس میں حکومت کا ایک روپیہ بھی نہیں لگا ۔یہ ہال جس میں فورم ہورہا ہے روٹری کلب نے 17لاکھ روپے لگا کر بنایا ۔ یہ سب کچھ آپ لوگوں کے تعاون سے ہوا ،ہمارے لوگوں میں جذبہ بہت ہے لیکن ہمارے ملکی وسائل یورپ کے برابر نہیں اس لیے ہماری اور ان کی پولیسنگ میں بہت فرق ہے۔ مریم فردوس نے کہا کہ آپ لوگ شخصیت کی بہتری کیلئے بھی کورسز کراتے ہیں کیاان کے لیے ماہر نفسیات کو مدعوکرتے ہیں ۔
انسپکٹر ضیا ء اللہ نے کہا ہمار ے پاس خصوصی ٹرینر ہیں جن چارٹڈ اکاؤنٹنٹ،بڑے اسپتالوں اور اداروں کے ماہر نفسیات ہیں۔ ٹریننگ کیلئے مزید ماہر نفسیات کی ضرورت ہے ،محمد علی جناح یونیورسٹی سے رابطہ کرینگے اور ماہرین نفسیات بلائیں گے۔پولیس میں ماہرین نفسیات کیلئے بہت مواقع ہیں۔اس وقت ٹرینر زکی بہت کمی ہے ۔ہمارے پاس مینٹل ہیلتھ میں ذہنی دباؤ کم کرنے کیلئے ملازمت ہوتی ہے۔ Attitude Management کے حوالے سے ٹریننگ بھی کراتے ہیں ۔ ہمار ے پاس انٹر ن شپ کیلئے بھی سائیکالوجسٹ کے طلباء آتے ہیں۔ محمد علی جناح یونیورسٹی اپنے طلباء انٹرنشپ کیلئے بھیج سکتی ہے۔
طالب علم حفیظ الرحمن نے کہا میڈیا پولیس کے رویئے کو زیادہ ترمنفی انداز میں پیش کررہا ہوتا ہے اس کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتاہے ۔ انسپکٹر ضیاء اللہ نے کہا کہ یقیناً میڈیا پولیس کے بارے میں رائے تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔پولیس کا میڈیا ڈپارٹمنٹ عوام میں آگہی کیلئے مختلف پروگرام اور سیمینار کراتا رہتا ہے۔ ایکٹیو یٹی بھی شیئر کرتے رہتے ہیں۔ آج کا فورم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اب منفی تاثر تیزی سے ختم ہورہاہے۔انسپکٹر سرور نے کہا کہ پولیس،کمیونٹی اور میڈیا تینوں کو تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔میڈیا پر خبر چلتی ہے کہ آرمی کا جوان شہید ہوگیا اور پولیس کانسٹیبل ہلاک ہوگیا ، پولیس والا بھی شہید ہوا ہے اس مائنڈ سیٹ کو بدلنے کے ساتھ پولیس کو اپنے رویئے بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔کمیونٹی پولیسنگ عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے کم کرنے میں مدد کرتی ہے اس کوزیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
پولیس علاقوں میں عوام ،دکانداروں اور ٹھیلوں والوں سے ملاقات کرے اور مسائل معلوم کرے اس سے پولیس او ر عوام میں رابطہ ہوگا تو تعلقات بہتر ہوں گے۔ طالبہ سنجنا نے کہا کہ تجویز ہے کہ پولیس اپنے سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ میں بلاگر اور پروموشن کرنے والے افراد کو شامل کرے تاکہ پولیس کا مثبت چہرہ بھی لوگوں کے سامنے آئے۔انسپکٹر ضیاء اللہ نے کہا بہت اچھی تجویز ہے اس پر کام کررہے ہیں ،کوشش کررہے ہیں سیمینار اور جدید ٹریننگ کو بھی پولیس ٹریننگ اسکول کے صفحے پر ڈالیں ۔یو ٹیوب چینل بھی بننے جارہا ہے۔طالبہ عنزیلہ ممتاز نے سوال کیا کہ رینجرز اور پولیس کی ٹریننگ میں کیا فرق ہے ،لوگ پولیس سے زیادہ رینجرز پر اعتماد کیوں کرتے ہیں؟،انسپکٹر ضیاء اللہ نے کہا کہ ہرفورس کا اپنا اپنامینڈیٹ ہوتا ہے ،رینجرز کامینڈیٹ تھوڑا پولیس سے مختلف ہے۔پولیس قانون اور ایکٹ کے تحت کام کرتی ہے۔ہم نے یورپ جاکر بھی پولیسنگ کی ہے ۔
پولیس کا کردار پولیس سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ کہتے ہیں’’جس کا کام اسی کو ساجھے ‘‘ پولیس اپناکام بہتر انداز میں کررہی ہے جو ہماری مدد کیلئے آئے ہیں ان کی بہت عز ت کرتے ہیں ان کی ہمیں ضرورت بھی ہے،وہ لوگ بھی اپنا کام کررہے ہیں ان کابھی مینڈیٹ ہے۔ہم ساتھ مل کر کام کرتے ہیں،مقصد ہمارا یک ہی ہے عوام کی خدمت۔ ۔انسپکٹر لبنیٰ ٹوانہ نے کہا کہ لو گ پولیس سے اس لیئے نہیں ڈرتے ہیں کہ ان کا واسطہ امن و امان کی صورت حال ،تفتیش ،کرمنل کیسز سے پڑتا ہے جبکہ رینجرز اورجب کبھی فوج بھی آتی ہے ان کا م صر ف حکم پر عمل درآمد کرانا ہوتا ہے۔ پولیس اور عوام کا براہ راست تعلق ہوتا ہے۔عوام تعاون کریں تو پولیس والے سختی نہ کریں۔بعض مرتبہ عوام کو نرمی ہضم نہیں ہوتی مجبورا سختی کرنی پڑتی ہے۔عموماً جرائم پیشہ افراد پولیس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں۔پولیس اہلکار عوام کی خاطر سخت گرمی اور سردی میں ڈیوٹی انجام دیتا ہے لیکن عوام سراہنے کے بجائے ان سے بدتمیزی کرتے ہیں۔پولیس اور عوام میں دوری کی وجہ رویہ بھی ہے ،دونوں جانب سے رویے کوبدلنے کی ضرورت ہے۔
طالب علم محمد حسان نے کہا کہ عام آدمی کو اعتماد نہیں ہوتا کہ ایف آئی آر کٹوانے کے بعد بھی اس کی چیز واپس ملے گی ،ایسا کیوں ہے؟دوسرا سوال ہے کہ افسران کے بچے والد کی گاڑی پروٹوکول کے ساتھ گھومتے ہیں اور دوسرے بچوں کو پریشان کرتے ہیں کہ میرے ابو کی گاڑ ی ہے مجھے کوئی روکنے والا نہیں ،ایسا کیوں ہے؟۔انسپکٹر ضیا ء اللہ نے کہا کہ اے سی ایل سی میں جاکر دیکھیں پولیس نے کتنی گاڑیاں بازیاب کرائی ہیں۔15 روز قبل 350گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں لوگوں کو واپس کیں جس کی باقاعدہ تقریب کی گئی تھی ۔کئی مرتبہ اپنے ہاتھوں سے زیورات ،نقدی اور پراپرٹی کے کاغذات لوگوں کو واپس کئے۔انسپکٹر لبنیٰ ٹوانہ نے کہا کہ بعض بچے پروٹوکو ل کا فائدہ اٹھاتے ہوں گے لیکن سب پولیس والوں کے بچے نہیں کرتے ،پولیس والے کو گاڑی سرکاری کام کیلئے ملتی ہے اس کا غلط استعمال کرے تو شکایت کرسکتے ہیں۔ طالب علم رضا نے کہا کہ میرا موبائل چوری ہوکر مل گیا تھا جو پولیس کے پاس ہے لیکن مجھے ان کو پیسے دے کر لینا پڑا۔
انسپکٹر ضیاء اللہ نے کہا کہ جب کوئی چیز چوری ہوجا ئے اور ایف آئی آر کٹ جائے تو پولیس کے پاس واپس کرنے کا اختیار نہیں عدالت کے حکم سے واپس کی جاتی ہے۔عوام قانونی معاملات کو نہیں سمجھتے او ر فوری پولیس پر الزا م تراشی شروع کردیتے ہیں۔طالبہ حرا آصف نے کہا کہ میرے ابو پولیس میں سب انسپکٹر ہیں لیکن ہم بہن بھا ئیوں نے کبھی بھی ابو کی گاڑی کا غلط استعمال نہیں کیا۔انسپکٹر ضیا ء اللہ نے کہا عوام میں جرائم ختم کرنے کی جستجو نہیں ہوتی بس چاہتے ہیں کہ میری چیز واپس مل جائے نظام تباہ ہوجائے یہ سوچ ختم کی جائے۔طالبہ عنیکہ نے کہا پہلے پولیس ے بہت سے ڈر لگتا تھا یہاں آکر اب ایسا نہیں لگ رہا ۔پولیس کا نیا اور مثبت چہرہ سامنے آیا ۔ تجویز ہے اسی طرح کے فورم یونیورسٹی اور کالجوں میں بھی رکھے جائیں تاکہ طلباء اور پولیس میں اچھے تعلقات قائم ہوں اور نئی نسل کی رائے تبدیل ہو۔طالبہ عروبہ نے کہا کہ پولیس میں بھرتی ہونے کا معیار کیا ہے؟۔انسپکٹر ضیا ء اللہ نے کہا پولیس میں مختلف رینکس پر اسامیوں کا اعلان ہوتارہتا ہے،کانسٹیبل کیلئے بھی اعلان ہوتاہے۔اے ایس آئی کی بھرتی
براہ راست ہوتی ہے۔ انویسٹی گیشن انسپکٹر بھی براہ راست آرہے ہیں۔سی ایس ایس کرنے کے بعد براہ راست ڈی ایس پی بھی آسکتے ہیں۔ہر بھرتی کا معیار الگ ہے،پاکستان ٹیسٹنگ سسٹم (PTS) کی ویب سائٹ پر بھرتیوں کی تفصیلات موجود ہیں۔طالبہ عنیکہ نے کہا جو لوگ پولیس میں ذ ہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اس کیلئے پولیس ڈپارٹمنٹ کیا کوششیں کررہا ہے؟۔انسپکٹر ضیا ء اللہ نے کہا ہمارے پاس ماہر نفسیات کی پوری ٹیم موجود ہے،حال ہی میں اسٹریس منیجمنٹ کے حوالے سے کورس کرایا ہے۔طالبہ حفیظہ نے کہا کہ ایف آئی اے اور پولیس میں کیا فرق ہے؟۔انسپکٹر ضیاء اللہ نے کہا ایف آئی اے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کا مخفف ہے جس کا تفتیش کا خاص دائرہ کار ہوتا ہے، جبکہ پولیس کاکام امن و امان برقرار رکھنا اور ریاستی قوانین پر عمل در آمد کرانا ہوتاہے۔
انسپکٹر شبانہ جیلانی نے کہا پولیس کی بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔کورونا کی صورت حال میں آپ لو گ تو گھروں میں ہوتے ہیں ہم لوگ فرنٹ پر تھے تاکہ عوام کو اس مصیبت سے بچایا جاسکے۔تیز دھوپ اور گرمی میں ایک ٹریفک اہلکار کس طرح سار ا دن سڑک پر کھڑا ہوتا ہے ۔اسی طرح سردیوں میں بھی پولیس والے سڑکوں پر کھڑے نظر آئیں گے۔پولیس والا بھی ہماری طرح انسان ہے،ہمیں پولیس کے حوالے سے نرم رویہ رکھنا چاہیے ۔عوا م کا تعاون پولیس کی کامیابی ہے۔ ۔فورم ختم ہونے کے بعد پولیس کے افسران نے دنیا فورم کی ٹیم کے ساتھ محمدعلی جناح یونیورسٹی کی ٹیچر اور طلباء کو پاکستان ٹریننگ سینٹر (PTS)کے مختلف شعبوں کا بھی دورہ کرایا ۔