پاکستان !معدنی وسائل اور قدرتی حسن سے مالامال،مگر قدردانوں سے محروم
دنیا فورم
شرکاء: پروفیسر سیماناز صدیقی، سربراہ شعبہ ارضیات وفاقی اردو یونیورسٹی۔ڈاکٹر ایس نیر احسن ،ریٹائرڈ ڈائریکٹر جیولوجیکل سروے آف پاکستان۔پروفیسر ڈاکٹر اقبال محسن ،سابق وائس چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی ۔پروفیسر افضال احمد،مشیر امور طلباء جامعہ اردو ۔پروفیسر ایاز،ماہر ارضیات ۔مس مہوش ، سربراہ ڈی جے سائنس کالج شعبہ ارضیات ۔اساتذہ مس طاہرہ اور مس ر یحانہ راہی طلبہ اور طالبات سمیت اساتذہ کی بڑی تعداد۔ بذریعہ وڈیویو لنک: محمد یعقوب شاہ،پرنسپل جیالوجسٹ گلوبل مائننگ کمپنی اسلام آباد۔ ڈاکٹر رفیق احمدلاشاری،ڈائریکٹر سینٹرآف پیور اور اپلائیڈ جیولوجی سندھ یونیورسٹی جامشورو۔
حکومت نے معدنی وسائل پر تھنک ٹینک بنایاجس کی رپورٹ سرد خانے کی نذر ہوگئی: محمد یعقوب شاہ
آسٹریلوی کمپنی نے چاغی کے پہاڑوں سے تانبہ اور سونا نکالاجو کینیڈااور چین کو فروخت کیاگیا: ڈاکٹر اقبال
سندھ میں معدنیات کے چھوٹے چھوٹے بہت ذخائر ہیں،حکومت توجہ دے: نیر احسن
حکومت معدنیات کی فروخت کانظام بنائے ، نجی ادارے کام کرسکتے ہیں تو حکومت کیوں نہیں کرسکتی؟ ڈاکٹر رفیق
بچوں کو اسکول اور کالج میں زندگی کے بنیادی اصولوں کے علاوہ جیولوجی کی تعلیم ضرور دینی چاہیے: پروفیسر سیما ناز
موضوع: ’’ پاکستان میں معدنیات اور ان کی اہمیت‘‘
جب بھی پاکستان کے معدنی وسائل کی بات کی جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ ملک بہت امیر ہے،قدرت نے بے بہا نعمتیں دی ہیں ،وغیرہ وغیرہ،یہ گھسے پٹے جملے میں دہرانا نہیں چاہتا اسی لئے جب بھی دنیا فورم کرتا ہوں کوشش کرتا ہوں کہ حاصل پر بات کروں،جو کرسکتے ہیں اس پر بات کروں،جو ہے اسے اجاگر کروں،امید دلائوں ،مایوسی سے باہر نکلوں اور نکالوں،بس اسی روایتی سوچ کے ساتھ پاکستان کے معدنی وسائل پر نہایت اہم دنیا فورم سجایا،وفاقی اردو یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ ارضیات کی چیئرپرسن پروفیسر سیماناز صدیقی کے تعاون سے جامعہ کے آڈیٹوریم میں ہونے والے دنیا فورم میں کراچی سے نہایت اہم ماہرین کے علاوہ کے پی کے اور سندھ سے بھی ماہرین نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی جس کیلئے ہم جامعہ کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر کامران کے مشکور ہیں۔ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں سونے ،چاندی ،تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے خزانے دبے پڑے ہیں،قیمتی پتھر ایسے جو دنیا بھر میں نایاب ہیں،پہاڑوں کے نیچے دفن جواہرات ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں ،تیل اور گیس کی پیداوار کے علاوہ کوئلے کی بڑی کھیپ سے توانائی کی کمی دورکرکے روشنی پھیلائی جاسکتی ہے۔ہم قدرتی گیس کو سی این جی کی صورت میں گاڑیوں میں استعمال کرکے ضائع کررہے ہیں۔
سوال یہی تھا کہ سب کچھ ہے تو پھر کمی کیا ہے؟جوا ب بہت سادہ۔۔۔ارادے،یقین اور ایمانداری کی کمی۔ملک میں سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنے کی کمی،بیرونی دنیا کو احساس تحفظ نہ دلاسکنے کی کمی۔۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان میں 20سال سے نئے افراد کو بھرتی نہ کرنے کی کمی،او جی ڈی سی کو ترقی نہ دینے کی کمی،کس کس بات کا ذکر کروں،دنیا فورم میں پاکستان کے خزانوں کا سن کر تو جیسے دل مزید دکھی ہوگیا کہ ہم کب تک اللہ کے خزانوں کی بے قدری کرتے رہیں گے،کب ہمارے قائدین ،حکمراں اور سیاسی رہنمائوں کو سمجھ آئے گی۔طلبہ وطالبات نے بھی سوالات اور تجاویز میں اس مطالبے کا اظہار کیا کہ ملک کے سیاسی رہنما ذاتی مفادات سے باہر نکل کر ملک کیلئے کچھ کریں۔ہمیشہ کی طرح اس دنیا فورم کا مقصد بھی ملک وقوم کیلئے کچھ کرنا ہے ،امید ہے کہ حکومت ہماری باتوں پر توجہ دیگی۔آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔شکریہ
(مصطفی حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا )اپنی رائے او ر تجاویز کیلئے رابطہ کریں۔
واٹس ایپ: 0092-3444473215۔
ای میل: mustafa.habib@dunya.com.pk
ابتدائیہ :دنیا فورم میں ماہرین معدنیات وارضیات نے کہا ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل اور معدنیات کے لحاظ سے مالامال ہے،ملک میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر ہیں،قیمتی دھاتوں ،پتھراور جواہرات کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں انفرادیت رکھتا ہے۔وفاقی اردو یونیورسٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی (گلشن اقبال ) کے آڈیٹوریم میں شعبہ ارضیات کے تعاون سے دنیا فورم کا انعقاد کیا گیا۔
دنیا: پاکستان میں کون سی قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں؟
ڈاکٹر اقبال محسن : پورے پاکستان کا احاطہ کرنامشکل ہے۔مجموعی طور پر پاکستان کی قومی آمدنی میں معدنیات کا حصہ بہت کم ہے۔معدنیات کا ذکر بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ذخیرہ درست انداز میں نہیں ہوتا اور نہ ہی سائنسی بنیادوں پر مائننگ ہوتی ہے۔کچھ کوئلے کی کانیں او ر نمک کے پہاڑ ہیں جس پر محدود تجربات کرتے رہتے ہیں ۔ہم نے اپنی معدنیات کا اندازہ بھی درست نہیں لگایا۔سیندک ہمیں1967ء میں معلوم ہوا لیکن سن 2000ء یعنی 30سال تک ہم اس کی صحیح معنوں میں فزیبلٹی بھی نہیں بناسکے۔چین نے آخر کار خود ہاتھ بڑھایا اور پاکستان سے کہا کہ یہ ہمیں دے دیں ۔یہ کمرشل بنیادوں پر نہیں دیاگیا بلکہ چین سے دوستی کی بنیاد پر دیاگیا ۔وہ اسے کامیابی سے چلارہے ہیں،20سال سے ان کی پیداوار میں کمی نہیں آرہی بلکہ ہرسال اضافہ ہورہا ہے، بلوچستان کو معدنیات سے مالا مال سمجھا جاتاہے۔جب تانبے(copper) کی دریافت اور مائننگ شروع ہوئی تو اس کے بعدایک اور ذخیر ہ ریکوڈ ک دریافت ہوا۔
لیکن ریکوڈیک کا معاملہ سیاسی ہونے کی وجہ سے عدم اعتماد کا شکار ہوگیا۔1990ء سے آسٹریلوی کمپنی نے 5سال تک چاغی کے پہاڑوں کاسروے کیا جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس میں تانبااور سونا موجود ہے۔اس کے بعد کینڈا اور چین کی کمپنی سے معاہد ہ کرکے ان کو فروخت کردیا گیا ۔دونوں کمپنیاں دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں ہیں ان کا ان پہاڑیوں کا خریدنا اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ بڑا ذخیرہ ہے جس پر کافی عرصے تک مائننگ کی جاسکتی ہے۔جب انہوں نے بلوچستان حکومت سے مائننگ لیز کیلئے درخواست دی اور پیشکش کی کہ تمام افرادی قوت ، مشینری اور انتظامیہ ہماری ،ہم پہاڑکا چورا کریں گے،اس کے بات ریت کی سلیری بنائیں گے اس کے بعد 400میل لمبی پائپ لائن چاغی سے گوادر پورٹ پہنچائیں گے،گوادر پورٹ پر اس سلیری کو سکھائیں گے اور ریت کو الگ کرکے تانبے اور سونے کے ذرات کو بوریوں میں بھر کر چین لے جائیں گے۔سارے کام میں پاکستان کو ایک روپیہ بھی نہیں لگانا ہوگا۔فائدہ شروع ہونے کے بعد25فیصد پاکستان اور75فیصد ہمارا ہوگا۔25فیصد سن کر پاکستانی سیاستدانوں اور قوم پرستوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے،پہاڑ ہمارا اور صرف 25فیصد ۔انہوں نے یہ نہیں سوچا یہ پہاڑ تو صدیوں سے ہے اور آج بھی 10سال ہوگئے ہیں ہم نے کیا کرلیا۔یہ کمپنی سپریم کورٹ تک گئی جہاں انکارکردیا گیا ۔اس کے بعد بین الاقوامی عدالت گئی وہاں مقدمہ جیتی اور پاکستان پر 6ارب ڈالر کا ہرجانہ آیا۔
آج پاکستان ایک ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کی شرط مانتا ہے،آج وہ پہاڑ ایسے ہی کھڑا ہے او ر پاکستان 6ار ب ڈالر کا مقروض ہوگیا۔کمپنی کو معلوم تھا پاکستان اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتا ہے اس نے کوشش کی پاکستان کا نیویارک میں روزویلٹ ہوٹل کو فروخت کرکے رقم وصول کی جائے، پاکستان نے مقدمہ لڑا تو پاکستان جیت گیا جس سے ہوٹل بچ گیا۔اس کے بعد یہ کمپنی دوبارہ مذاکرات کیلئے آئی او ر پہلے سے بہتر پیشکش کی۔ امید ہے یہ پروجیکٹ شروع ہوجائے گا۔یہ پروجیکٹ 5سال بعد مکمل ہوگا اور پھر فائدہ آئے گا،جب پرافٹ آئے گا تو کمپنی اپنا ہرجانہ پورا کرے گی ۔ہرجانہ پورا ہونے کے بعد پاکستان کو رقم ملنا شروع ہوگی۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی تیل کی دریافت بہت پرانی ہے۔ملک میں معدنیات تو بہت ہیں لیکن جدید ٹیکنالوجی کی شدید کمی ہے ۔وسائل فراہم ہوجائیں تو تیل او رگیس میں کے وسیع ذخائر مل سکتے ہیں۔
دنیا: کے پی کے معدنی وسائل سے بھرا ہوا ہے، بیرون ملک کمپنیوں کو بلانے کی کیا وجوہات ہیں؟
محمد یعقوب شاہ : 2016سے2018ء کے درمیان حکومت نے معدنی وسائل کے حوالے سے تھنک ٹینک بنایاتھا اس میں پاکستان بھر سے 25 ماہرین بلائے گئے تھے جسے معدنیات کے سیکٹر کو ترقی دینے کیلئے وزیراعظم کو سفارشات بھیجنی تھی ، اس کیلئے خاصہ بجٹ بھی خرچ کیاگیا میں بھی اس کا رکن تھا ۔ہم نے اس کی رپورٹ حکومت کو پیش کی لیکن وہ بھی سرد خانے کی نذر ہوگئی ۔ کے پی کے اور گلگت بلتستان میں معدنیات کی تلاش کیلئے بیرونی سرمایہ کا رکمپنی اپنے کارکنوں اور سرمایہ کا تحفظ مانگتی ہیں۔ہم انہیں قوانین کے بارے میں بتاتے ہیں وہ کہتے یہ قوانین پہلے تھے لیکن آپ کے ماتھے پر ریکوڈیک کے حوالے سے ایک بد نما داغ ہے۔ہمارے پاس کوئی مائننگ لاء نہیں جس کی وجہ سے اس سیکٹر میں کرپشن عام ہوگئی ہے ، ہمارے پاس معلوم معدنیات کے حوالے سے بھی فہرست نہیں۔1995 میں پہلی مرتبہ معدنیات کے حوالے سے پالیسی آئی جس کوآج تک قانون کا درجہ نہیں دیا گیا۔ صوبے میں معدنیات ریگولیٹری کے حوالے قانون ہے لیکن متحدہ مائننگ کا قانون نہیں جس طرح دیگر ممالک میں ہوتاہے۔ یہ قانون وفاقی سطح پر ہوتا تو ریکوڈ ک کا واقعہ نہیں ہوتا۔
تحقیق کے دوران پتہ چلا گلگت بلتستان میں 22 علاقے ہیں جہاں سے 4ہزار نمونے تجزیئے کیلئے لیے تھے اس پر آسٹریلیا سے با ت چیت بھی شروع ہوئی لیکن آخر میں سیکیورٹی نہ ملنے کی وجہ معاہد ہ نہ ہوسکا۔جب تک ان چیزوں کو بہتر نہیں کریں گے ہم قدرت کے تحفوں سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے ۔1992 میں کے پی کے اور گلگت بلتستان سے آسٹریلیا کی حکومت نے ہمار ے25افراد کو بلا کر تربیت کی اور ایک پروگرام شروع کیا جو 10سال تک چلتا رہا،اس میں سونے کے 108 ،چاندی کے64، تانبے کے 295،لیڈ کے 227،زنک کے 102،کوبالٹ کے 136،نکل کے 204 اور بسمتھ کے 60 نمونے دریافت کیے۔ان نتائج کو آگے بھیجنے کی سفارش کی گئی لیکن بیورو کریسی نے فنڈکو جواز بناتے ہوئے معاہدے کوختم کرادیا جس سے ہماری 10 سال کی محنت ضائع ہوگئی ۔بیورکریسی کی رکاوٹوں کی وجہ سے پروجیکٹ ادھورے رہ جاتے ہیں۔یہ پروجیکٹ طویل مدتی پالیسی پر ہونے چاہییں،ملک میں دو ادارے جیولوجیکل سروے آف پاکستان اور پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن اب صرف نمک کی دکان بن گئے ہیں۔پوری دنیا میں ہر سال اہم معدنیات کے بارے میں معلومات ہوتی ہے ،ہمارے پاس بھی فہرست ہونی چاہیے ،
مخصوص ضوابط ہونے چاہئیں ،ان معدنیا ت کو ترجیح دیتے ہوئے ان پرکام ہونا چاہیے،پی ایم ڈی سی کوئلے کی دکان بن کر رہ گئی ہے جس میں 2جیولوجسٹ رہ گئے پہلے 29 تھے۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے موجود ہ اورریٹائرڈ ممبران میں 20برس کا فاصلہ ہے جب تک اداروں میں فاصلہ ختم نہیں ہوگا معدنیات پر جدید کام نہیں ہوسکتا،پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تمام معدنیات کیلئے سارے ماحول موجود ہیں جو ثابت بھی ہو چکے ۔سندھ میں دریافت کوئلے کے ذخائر 100سال تک کیلئے کافی ہیں جن کا معیار بھی بہترین ہے۔جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے تو یہ ذخائر 200سال تک استعمال ہوسکتے ہیں۔
نیئر احسن : ہمارا نظام بہتر نہیں ،بیوروکریسی آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے۔اندرون سندھ چھوٹے چھوٹے معدنیات کے بہت ذخائر موجود ہیں ، حکومت توجہ دے تو فائد ہوسکتاہے اور معیشت کو مدد مل سکتی ہے ،ہمارے نظام میں خرابی ہے،20سال میں جو خلاء پیدا ہوگیا ہے اسے بھرا نہیں جارہا ۔بہت سی وجوہات سیاسی ہیں جن کا ذکر نہیں کرنا چاہتا،جیولوجیکل سروے آف پاکستان کا کام صرف تیل کا معلوم کرنا ہے نکالنا نہیں ، حکومت مطلوبہ وسائل بھی فراہم نہیں کرتی جب تک سنجیدہ نہیں ہوں گے بہتری ممکن نہیں،آج گلیوں میں سی این جی اسٹیشن کھلے ہوئے ہیں، قدرتی گیس کا ستعمال صحیح نہیں ہو رہا۔ گاڑیاں چلانے کیلئے سلینڈروں میں گیس بھری جارہی ہے دنیا میں کہیں بھی اس طرح نہیں ہوتا جو ہم کررہے ہیں،ہماری منصوبہ بندیوں میں کمی ہے۔
پروفیسر اقبال محسن : ہمیں گیس کے معاملے میں فخر ہے۔ پاکستان کی زمین میں 96ہزار کلومیٹر کی پائپ لائنیں بچھی ہوئی ہیں جس سے گھر وں میں گیس فراہم کیا جاتاہے ۔ حقیقت ہے گیس صرف گھروں کے علاوہ کہیں بھی جلانا مناسب نہیں،یہ ایک کیمیائی خام مال ہے اس سے جو پروڈکٹ بنانا چاہیں بنالیں،سوئی گیس نے پاکستان کو 50 سال گیس فراہم کی اب ختم یا کم ہورہی ہے تو 50سال کی خدمات کوفراموش نہ کیاجائے۔
دنیا :سندھ میں قدرتی گیس کے ذخائر بہت ہیں پھر بھی کمی کا سامنا ہے کیا وجوہات ہیں،تلاش کا طریقہ کا کیا ہوتاہے؟
ڈاکٹر رفیق لاشاری: دنیا بھر میں92اقسام کی معدنیات کو اہمیت دی جاتی ہے جن میں 52اقسام کی معدنیات پاکستان میں بھی نکالی جاتی ہیں ۔پاکستان میں معدنیات نکالنے کے طریقے سادہ اور پرانے ہیں ۔ دنیا بھر میں معدنیات جدید طریقوں سے نکالے جاتے ہیں۔ دنیا بھرمیں کسی بھی ملک کے پاس اتنی وافر مقدار میں معدنیات نہیں ، پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں معدنیات سب سے زیادہ ہیں۔ سندھ میں کوئلہ وافر مقدار میں نکلتا ہے ،ڈائی مینشن اسٹون،آئرن ،سالٹ،کروڈ آئل ا ور بھی معدنیات ہیں،پنجاب ، بلوچستان اور شمالی علاقوں میں معدنیات بھری ہوئی ہیں۔
پاکستان میں معدنیات کے حوالے وہ کام نہیں ہورہا جو ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں صرف تھیوری اور پریکٹیکل کرائے جاتے ہیں ،فیلڈ میں کام نہ ہونے کے برابر ہے۔حکومت معدنیات کوفروخت کرنے کا باقاعدہ نظام بنائے جب نجی ادارے یہ کام کرسکتے ہیں تو حکومت کیوں نہیں کرسکتی ؟۔ہم صرف پابندیاں لگاتے ہیں،معیشت کی بہتری کیلئے سنجید گی کا مظاہر نہیں کرتے، ریسورس میپ،انفرااسٹرکچر اورجدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔دنیا کی بڑی طاقتیں چین ،روس جو ہمار ے ساتھ ہاتھ بڑھا رہے ہیں ،دنیا میں معدنیات کے حوالے سے ان کا نام ہے،ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے مقامی لوگوں کا آگے لایا جائے ، معدنیات ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور حکومت زرمبادلہ کما سکتی ہے۔
ڈاکٹر محسن اقبال :ملک میں معدنی وسائل موجود ہیں بڑے ذخیروں کی کمی ہے،جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے سے بھی مسائل کا سامناہے،آئل اینڈ گیس ایسا شعبہ ہے جس میں تیزی سے تبدیلی آسکتی ہے۔
پروفیسر سیماناز صدیقی :بچوں کو اسکول اور کالجز میں زندگی کے بنیادی اصولوں کے علاوہ جیولوجی کی تعلیم ضرور دینی چاہیے تاکہ وہ آگے بڑھ کر پاکستان میں موجود معدنیات کو نہ صرف تلاش کرسکیں بلکہ ان کو ملکی سطح پر ہی لاکر زرمبادلہ کما سکیں جیسا کہ ہمارے یہاں سے ماضی میں کھیوڑہ کا نمک انتہائی سستے داموں خام شکل میں بھارت کوفروخت کردیا جاتا تھا اور بھارت اسے پروسز کرکے ہمالین سالٹ اور پنک سالٹ کے نام سے خوبصورت پیکنگ میں دیگر ممالک کو فروخت کرکے زرمبادلہ کما رہا تھابالکل یہی صورتحال قیمتی پتھروں کے حوالے سے بھی ہے ہمارے جواہر بھارت خام شکل میں سستے داموں خرید کر ان کی کٹنگ اور پالشنگ کے بعد ساری دنیا میں فروخت کرکے پیسے کمارہا ہے۔
فورم کے توسط سے کہنا چاہوں گی کہ وزیراعظم عمران خان جو سیاحت کے فروغ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ا نہیں چاہیے کہ وہ ٹورسٹ گائیڈ کے طور پر جیولوجسٹ کو نوکریاں دیں تاکہ وہ ہر جگہ کے بارے میں درست معلومات فراہم کرسکیں اور بتا سکتے ہیں کہ پہاڑ ،دریا، سمندر، جھیلیں وادیاں کس طرح اورکب تشکیل پائیں اوران پہاڑوں میں کون سی معدنیات پوشیدہ ہیں پچھلے دنوں میراکمراٹ کی وادی میں جانا ہوا تھا اتفاق سے چودھویں کی رات تھی چاند چمک رہا تھا اس کی روشنی میں وہاں کے پہاڑ بھی چمک رہے تھے میرے پوچھنے پر ایک مقامی ان پڑھ گائیڈ نے بتایا کہ آج کی رات یہاں پریاں اترتی اور چراغاں کرتی ہیں جبکہ میں ایک جیولوجسٹ کے طور پرجانتی ہوں کہ وہاں پہاڑوں میں ایک چمکدار معدنی مائیکا موجود ہے جو چاند کی کرنوں میں بہت نمایاں طور پر چمک رہا تھا گائیڈ اگر جیولوجسٹ ہوگا تو وہ صحیح بتا سکے گا اور نوکریوں کے مسائل بھی حل ہوں گے۔
پروفیسر ایاز :مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تجربہ کار لوگوں سے فائدہ اٹھانے کی روایت نہیں،وفاقی اردو یونیورسٹی میں نہایت قابل اساتذہ موجود ہیں،حکومت ان سے فائدہ اٹھاسکتی ہے،میں خود کینیڈا امریکہ میں کام کرچکا ہوں ،ارضیات کی جدید ٹیکنالوجی سے واقف ہوں ،ملک کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔
پروفیسرافضال احمد: پاکستانی کی معدنی دولت کو انسانی فلاح بہبود کیلئے کار آمد کرنے کی ضرورت ہے،اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت کارآمد معدنیات سے مالا ما ل کیا ہے،ہر صوبے میں یہ دولت ہمیں پکارتی ہے ، بدقسمتی سے ہم معدنیات کو تلاش کرکے اس کی کان کنی اور درست استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔معاشی طور پر ملک کو مستحکم کرنے کیلئے حکومت کو ارضیات کے ماہرین کی رائے لینی چاہیے ،آ ج سندھ میں کوئلے کے ذخائر ہمیں دعوت د ے رہے ہیں کہ ہم اس کی درست کان کنی کریں اور اس کی مدد سے ملک کے وسائل میں اضافہ کریں،بلوچستان میں دھاتی معدنی دولت کو بھی درست انداز میں استعمال نہیں کیا جارہا ہے، خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان میں بھی قیمتی پتھروں کا ذخیر ہ ملکی دولت میں اضافہ نہ کرنے پر افسوس ہے،ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی رائے سے حکومت کو بہتر حکمت عملی پر مجبو ر کیا جاسکتاہے۔
مہوش طیبہ ڈی جے سائنس کالج:ہمیں سب سے پہلے ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کی ضرورت ہے،خواہ وہ ماہرین ارضیات ہوں یا سیاستدان ہوں یا مقامی جب تک ان میں اعتماد اور رابطہ نہیں ہوں گے پاکستان کے حالات بہتر نہیں ہوں گے،دنیا نے آج دوسرے ریسورسز حاصل کرلیے ہیں،معدنیات کے حوالے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ریحانہ راہی ڈی جے سائنس : مقامی طور پر لوگ معدنیات نکال کر فروخت کررہے ہیں،آن لائن بھی کاروبار ہورہاہے،جو کہیں بھی رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی کسی کے پاس لائنسز ہے،کے پی کے یا اور کوئی مقام معدنیات بوری بھر کے فروخت کئے جارہے ہیں،ان چیزوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے ،رجسٹریشن کیلئے قانون ہونا چاہیے۔
٭٭٭٭
طلبہ وطالبات کے سوالات اور تجاویز
دنیا فورم کے دوران طلبہ و طالبات نے شرکاء سے سوالات بھی کیئے ۔شعبہ ارضیات کی طالبہ ناہید نے سوال کیا کہ موجودہ ملکی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور معدنیا ت پر کام کرنے کیلئے وسائل بھی نہیں ،اس صورت حال میں فیلڈ میں کیسے کام کرسکتے ہیں؟۔پروفیسر سیما ناز صدیقی نے اس شعر سے جواب دیا ’’ اپنی دنیا آپ پیداکر اگر زندوں میں ہے‘‘ہم بھی اسی ماحول سے نکل کر آئے ہیں او ر کسی حد تک اپنی منزل حاصل کرلی ہے،طلباء پڑھائی پر توجہ دیں ، نقل سے دور رہیں اور سنجید ہ ہو کر ارضیات کو پڑھیں اور سمجھیں اللہ نے چاہا تومستقبل میں بہت آسامیاں نظر آئیں گی ، گیس او ر تیل کے ذخائر ختم ہورہے ہیں تو حکومت جدید ٹیکنالوجی اور آلات کو استعمال کرتے ہوئے ان ذخائر کو مزید بڑھائے ۔ڈاکٹر رفیق لاشاری نے کہا حکومتی سیکٹر میں نوکری کے مواقع نہیں مل رہے تو چھوٹی صنعت یا گھریلو صنعت کے ذریعے بھی کام کرسکتے ہیں،خاص طورپر ارضیات کی طالبات گھروں میں معدنیات سے چیزیں بنا نا شروع کریں ان چیزوں کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہے۔
طالب علم ذوہیب نے کہا کیا تعلیمی اداروں میں اچھے ماہرین ارضیات بن رہے ہیں جو باہر ممالک میں جگہ بناسکیں؟۔ڈاکٹر رفیق لاشاری نے کہا بالکل ہماری یونیورسٹیاں ماہر ارضیات پیدا کرسکتی ہیں جو دنیا میں اپنا نام بنا سکتے ہیں،بدقسمتی ہمار ے ملک میں تعلیم کے نام پر نہ ہونے کے برابر خرچہ کیاجاتاہے۔پورے پاکستان میں 13 یونیورسٹیاں ہیں جہاںارضیات پڑھائی جاتی ہے ان کیلئے فنڈز بہت کم ہوتے ہیں۔پروفیسر محسن اقبال نے کہا یونیورسٹیاں پڑھا تورہی ہیں لیکن مہارت پیدا نہیں کرتیں جس کی بنیاد پر طالب علم اپنی جگہ بنا سکے ، تجویز ہے تعلیمی اداروں میں سیمینار اور پروگرام منعقد کیے جس سے طالب علموں کو روزگار اور مستقبل کے متعلق آگہی ہو آج کا فورم بھی بہت کا ر آمد ثابت ہوگا ۔یونیورسٹیاں انڈسٹری سے ماہرین کو بلائیں تاکہ طلباء کو عملی طورپرکام کرنے کی آگہی اور تجربہ ملے ۔
ڈاکٹر رفیق لاشاری نے کہا فورم کے توسط سے کہنا چاہوں گا حکومت تعلیمی اداروں کو پابند کرے کہ طلباء کوپڑھائی کے ساتھ انڈسٹری میں 6ماہ کی انٹرن شپ کرائی جائے تاکہ بچے عملی میدان میں اچھا کام کرسکیں اور روزگار کے مواقع میسر آسکیں۔ڈی جی سائنس کی مہوش طیبہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے 2008 میں پروگرام شروع کیا تھا جو3 سال چلا پھر حکومت تبدیل ہونے کے بعد پروگرام تعطل کا شکار ہوگیا،اس وقت پورے پاکستان سے جتنے بھی ماسٹر فارغ ہوئے تھے ان کو ایک سال کی انٹرنشپ دی گئی تھی جس میں 10ہزار روپے وظیفہ بھی دیا گیا تھا ،میں بھی شامل تھی ۔طالب علم کامران نے کہاکہ فیلڈ میں کام زیادہ ہوتاہے تھیوری سے زیادہ پریکٹیکل پر توجہ دی جائے تاکہ طلباء چیلنجز کا سامنا کرسکیں ۔ ٹیچر ایاز نے کہا عام طورپر طلباء کو شکایت ہوتی ہے کہ انہیں فیلڈ کے حوالے سکھایا نہیں جاتا،تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی سیاست کی وجہ سے طلباء وہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے جو ان کا حق ہے۔
ڈی جے سائنس کالج کی ٹیچر طاہرہ نے کہا کہ حقیقت ہے زولوجی کے طالب علم کا فیلڈ ورک کے بغیر کورس مکمل نہیں ہوسکتا، ہر ادارے میں فنڈز کے ایشوز ہوتے ہیں،ہم بچوں کو ایسے مقامات پر بھیجتے ہیں جہاں تعمیراتی کام ہورہے ہوتے ہیں او ر ہم بھی پہنچ جاتے ہیں اور عملی طورپر کام کے بارے میں سمجھاتے ہیں اس سے بچوں کو کم از کم کچھ توعملی کا م کا تجربہ ملے گا۔طالبہ سیدہ نزہت زہر ہ نے سوال کیا کہ ہم لوگ مسلمان ممالک کی صلاحیتوں سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟۔ڈاکٹر رفیق لاشاری نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں فیصلے کرنے کے اختیارات جن کے پاس ہیں ان کی دلچسپی نہیں تو ایسے لوگ دوسروں کا سہار ا لیتے ہیں، ایسے حالات میں ہم نیوکلیئر پاور بن سکتے ہیں تودنیا کی ہرچیز بنا اور پیدا کرسکتے ہیں۔ طالب علم اعجاز مخدوم نے سوال کیاکہ دنیا میں پاکستانی معدنیات سرفہرست ہیں۔ہمارے پا س جتنے معدنیات ہیں ان کی دنیا میں رسائی نہیں ہورہی اس کی کیا وجوہات ہیں؟۔ ایڈیٹرفورم نے جواب دیا کہ مختلف وجوہات ہیں ایک وجہ سیاسی ایشوز بھی ہے جس کا ذکر ہوچکا ہے،طالبہ سیدہ طاہر ہ نے سوال کیا کہ تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کے درمیان فاصلوں کو کس طرح دور کیا جاسکتاہے؟۔یعقوب شاہ نے کہا کہ تعلیمی اداروں اور ارضیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اداروں میں رابط بڑھانے ہوں گے تب ہی فاصلے کم ہوں گے۔
