معاشی بہتری کیلئے بڑے فیصلے کئے جائیں،ماہرین کا مشورہ

دنیا فورم

تحریر : میزبان :مصطفی حبیب صدیقی ،ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی ، ماجد حسین ،لے آئوٹ: سید ندیم الحسن


شرکاء:مسعود نقی ، سابق چیئرمین کاٹی ۔دانش خان، سابق چیئرمین پاکستان لیدر گارمنٹس مینوفیکچر زاینڈ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن۔ماہین سلمان، سابق سینئر نائب صدر کاٹی ۔ستائش عاصم ، جوائنٹ ڈائریکٹر پلیسمنٹ اینڈ انڈسٹریل لنکیج آئی سی ایم اے ، پاکستان ۔علی ارش خان ،جنرل سیکریٹری پاکستان بزنس گروپ ۔ سمیر یعقوب عباسی ،سی ای اودی ریسورسز ایکسپرٹ اور چیئرمین ایچ آر کمیٹی پاکستان بزنس گروپ ۔ طلبہ وطالبات کی بڑی تعداد شریک تھی ۔

ڈالرز نہیں ،کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں بندہوگئیں،آمدنی کے مطابق اخراجات کریں:   مسعود نقی

عام آدمی مشکل میں ہے،ٹیکس کلچر بڑھا یا اوردرآمد میں کمی کی جائے:  دانش خان

مقامی صنعت کو فروغ دیں ،درآمدی اشیاء کا بائیکاٹ کیاجائے:  ماہین سلمان

 شراکت داروں کیساتھ میثاق معیشت کرایا جائے:  ارش خان 

طلباء ملکی حالات پربھی نظررکھیں،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں:  سمیر عباسی

بیرون ملک جانے سے زرمبادلہ آتا ہے ،اسے مثبت لیا جانا چاہیے:  ستائش عاصم

 

موضوع:’’معاشی صورتحال کیسے بہترہوسکتی ہے؟‘‘

 

پاکستان میں کافی عرصے سے سنا جارہا ہے کہ معاشی طور پر ملک ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے،حالات بہت زیادہ خراب ہیں،اب کچھ نہیں بچاایسی خبروں اور افواہوںسے عوام میں سخت مایوسی پھیل رہی ہے،ہم نے ان ہی خبروں کے بعد معروف صنعتکاروں اور ماہرین معیشت کے ساتھ اہم دنیا فورم کیا۔پاکستان بزنس گروپ کے تعاون سے آئی سی ایم اے پاکستان نے اپنے گلشن اقبال کیمپس میں دنیا فورم کیلئے تمام سہولتیں فراہم کیں جبکہ انسٹیٹیوٹ کے طلبہ طالبات نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔دنیا فورم میں ہمارا سوال تھا کہ پاکستانی معیشت کیسے بہتر کی جاسکتی ہے؟یقینا شرکاء نے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کا احاطہ کیا،یہ بھی بتایا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں،آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تاہم یہ یقین دلایا کہ ان مشکل حالات کے باوجود ملک ڈیفالٹ نہیں ہونے جارہاکیونکہ پاکستان خطے کا اہم ترین ملک ہے،امریکہ،چین اور سعودی عرب سمیت بڑی عالمی طاقتوں کو پاکستان سے بہت سے فوائد حاصل ہیں،

ان کی ترجیحات میں پاکستان شامل ہے اس لئے ملک کو بہت زیادہ خدشات کے باوجود ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں۔ماہرین نے اس موقع پر مختلف تجاویز دیں کہ ملکی پیداوار پر انحصار بڑھایاجائے،آمدنی کے مطابق اخراجات کئے جائیں،ٹیکس کلچر کو عام کیاجائے۔ مخلص قیادت لائی جائے جو ملک کو بہتر سمت میں لے جاسکے۔طلبہ وطالبات نے بھی سوالات کے ساتھ ملکی معاشی استحکام کیلئے تجاویز دیں۔دنیا فورم کی کوشش رہتی ہے کہ قارئین کو ملکی وبین الاقوامی حالات سے نہ صرف باخبر رکھے بلکہ ان کا حل بھی پیش کرے۔ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اسی عزم کیساتھ یہ فورم کیاگیا۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔شکریہ(مصطفی حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم دنیا اخبار کراچی)

برائے رابطہ:0092-3444473215،0092-3212699629ای میل:mustafa.habib@dunya.com.pk

دنیا:کیا پاکستان ڈیفالٹ ہونے جارہاہے؟

 مسعود نقی : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہورہا۔ جب کوئی ملک ڈیفالٹ ہوتاہے توآہستہ آہستہ اس سمت میں چلاجاتاہے جہاں آمدنی کم اور اخراجات بڑھتے جاتے ہیں۔ہمیں آمدنی کو سامنے رکھتے ہوئے اخراجات کرنے ہونگے اس کی ابتداء گھر سے کرنی ہوگی۔ یہ توازن برقرار رکھیں گے تو گھر اور ملک معاشی طور پر مستحکم رہے گا۔ اخراجات آمدنی سے بڑھ گئے تو قرض بڑھے گا اور مالی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ ہمیں ان چیزوں کو سمجھتے ہوئے فیصلے کرنے ہیں۔کاروباری برادری کا پاکستان کی وزارت مالیات اور متعلقہ شعبو ں سے واسطہ رہتا ہے۔ملک کی ٹریڈ باڈی کا کام ہوتاہے کہ وہ حکومت ،سیاسی لوگ،یوٹیلیٹی اداروں کے ساتھ مل کر ملکی معاشی صورت حال بہتر کرنے میں کردار ادا کر ے ۔ پاکستان نے ہی 2010ء میں آئی ایم ایف کا قرض صفر کردیا تھا۔اس و قت کوئی قرضہ نہیں تھا صرف دوست ممالک کے قرضے تھے جن پر سود بہت کم ہوتا ہے اور مدد کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔کوئی ملک ڈیفالٹ ہوتاہے تواس کا سربراہ تبدیل ہوجاتاہے۔

پالیسیاں تبدیل ہوجاتی ہیںاور ملک گروی ہوجاتاہے۔ہمارے اثاثے 64 فیصدہیں۔جب اثاثے گروی ہوجائیں تو کنٹرول آپ نہیں کوئی اور کرتا ہے۔امریکا کا چیپٹر11ہے جس کی تعریف ہے وہ کمپنیاں یا ادارے جو ڈیفالٹ ہونے جارہے ہوں اس کے تمام معاملات کوئی مالیاتی ادارہ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے(یہ امریکہ میں بینک کرپسی کورٹ میں استعمال ہوا جس کا حوالہ دیاگیا ) ۔ہمارے فیصلے ہمارے نہیں ہوتے۔آئی ایم ایف کہتا ہے ڈالر کو فری پورٹ کردو جس کامطلب ہے ڈالر کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔اسے اسٹیٹ بینک ریگولیٹ نہ کرے۔اس صورت حال میں ڈالر بڑھتا جائے گا کنٹرول نہیں کر سکتے ۔چیزیں مہنگی ہوتی ہیں اور مہنگائی بڑھتی چلی جاتی ہے اور ملک معاشی طورپر غیر مستحکم ہوتا چلا جاتاہے۔ ہمارے پاس ڈالر ز نہیں ہیں ،کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں جارہی ہیں،کوریا کی ایک بڑی کمپنی اپنے شیئرز پاکستانی کمپنی کو دے کر منتقل ہوگئی ۔دو تین ایئر لائنز بھی جانے کی تیاری کررہی ہیں،ٹیلی کام کمپنیاں مشکلات میں ہیں، نوجوان لیڈر بنیں اور آئیڈیاز شیئر کریں۔

دنیا: آمدنی وہی اخراجات بڑھ رہے ہیں کس طرح کنڑول کریں ؟

دانش خان : اطمینان دلاتاہوں انشاء اللہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا۔ پاکستان کی آبادی 23کروڑ ہے ۔سالانہ ساڑھے 4 سے 5 لاکھ گریجویٹ نکلتے ہیں ۔ یہ ملک جوہری ریاست ہے۔کئی ممالک کے پاکستان سے اچھے تعلقات اور مفادات ہیں وہ اسے ڈیفالٹ نہیں ہونے دیںگے،ہمار ا خطہ دنیا کیلئے بہت اہم ہے۔پاکستان کے ڈیفالٹ کی بات اس لیے کی جارہی ہے کہ ہمارے پاس ڈالر کی کمی ہورہی ہے۔ہم زیادہ تر چیزیں درآمد کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ تیل درآمد کیاجاتا ہے۔جس سے معیشت چلتی ہے۔ پاکستان سے گیس بھی ختم ہورہی ہے۔موضوع بہت اچھا اور وسیع ہے جتنی بات کی جائے کم ہے ۔جب کوئی صنعت بند ہوتی ہے تو صرف اس میں کام کرنے والے بیروزگار نہیں ہوتے بلکہ اس صنعت سے وابستہ دیگر صنعتوںکے لوگ بھی پریشان ہوجاتے ہیں ۔ امن و امان کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔حکومت کا کا م روزگار دینا نہیں ہوتا۔ہم لوگ نوکریوںکو حکومت سے مشروط کردیتے ہیں کہ حکومت ملازمت دے ۔

صنعتوں کا کام لوگوںکیلئے روزگار پیدا کرنا ہے جبکہ حکومت کا کام ہے کہ انڈسٹری لگانے کیلئے مطلوبہ سہولتیں ، حالات اور وسائل فراہم کرے اسی طرح ملک میں صنعتیں بڑھیں گی ۔بیروزگار ختم ہوگی او ر ہم معاشی طور پر مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔آئی ایم ایف ریگولیٹری ادارہ ہے جو بتاتا ہے کہ ہم معاشی طور پر کہاں کھڑے ہیں اور چیزوں کو کنٹرول کریں۔سعودی عرب ،چین ،قطر ،یواے ای اور دیگر ممالک کہہ رہے ہیں آئی ایم ایف سے ڈیل کریں ہم قرضہ دے دیں گے۔ہمارے لیے شرم کی بات ہے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے دنیا کے سامنے کشکول پھیلارہے ہیں۔افسوس ہے قرضہ لینے کے بعد مبارک باد دیتے ہیں کہ ہمیں قرضہ مل گیا۔یہ قرضہ ہمیں اور نسلوں کو ادا کرنا ہوگا، ملک میں استحکام لانے اور قرضوں کا بوجھ کم کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ صنعتیں لگائی جائیں۔پاکستان زرعی ملک ہے۔ برآمد بہت کم ہے،سیلاب کی وجہ سے روئی بھی درآمد کررہے ہیں ، مسعود نقی کی کمپنی نے 3 بلین ڈالر کی کاٹن ا مپورٹ کی ۔گندم اور دالیں بھی باہر سے آرہی ہیں،ادویات کا خام مال بھی امپورٹ ہورہا ہے،ان چیزوں کو بہترکرنے کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہوںگے ،محنت سے زیادہ کام کرنا ہوگا،آج تنخواہوں میں گزارہ نہیں ہوتا،مزدور کی تنخواہ 25ہزار اور اخراجات کئی گنا زیادہ ہیں گھر کیسے چلے گا۔ہمیں آمدنی کے ذرائع بڑھانے ہوں گے۔

میں نے بھی ٹیوشن پڑھا کر تعلیم کو جاری رکھا،آج عام آدمی مشکل میں ہے ۔گھر کے تمام افرادکو کام کرنا ہوگا تب ہی گھر کے اخراجات پورے ہوںگے۔پاکستان کا ہر بچہ کمائے توکوئی بھوکا نہیں مرے گا گھر خوشحال ہوگا۔ڈالر کے بڑھتے ہی اشیاء مزیدمہنگی ہونا شروع ہوجائیںگی۔ پاکستان کی ریونیو ٹارگٹ 7.1ٹریلین ہے جبکہ خرچے کئی گنازیادہ ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں ٹیکس کلچر نہیں۔صرف 32 لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔امریکا میں ہر شخص ٹیکس دیتا ہے،ٹیکس کی مد میںپاکستان کا جی ڈی پی صرف9 فیصد ہے،اس شرح سے ملک نہیںچل سکتا،سیلز ٹیکس پوری دنیا میں ہوتاہے ۔جب تک ملک کا جی ڈی پی 17فیصد نہیں ہوگا پاکستان اسی طرح قرضوں پر چلتا رہے گا،بھارت آئی ٹی سیکٹرمیں 170 بلین ڈالر کی برآمد کرتا ہے جبکہ ہم صرف 3 سے 4 بلین ڈالر کی برآمد کرتے ہیں۔کینیڈا میں زیادہ تر ٹیکنکل اسکلز پرکام ہوتا ہے،انہوں نے ٹیکنیکل افراد کیلئے امیگریشن اوپن رکھا ہواہے،کمپنی میں ایم بی اے پاس لوگ آتے ہیں ، اسکلز نہیں ہوتی جو کم تنخواہ پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں،پاکستان سے ایم ایس کرکے جانے والے بھی باہر ریسٹورنٹ یا چھوٹے سے آفس میں کام کررہے ہوتے ہیں ،پڑھائی کے ساتھ ٹیکنیکل مہارت بھی حاصل کریں۔جب تک آمدنی میں اضافہ اور اخراجات کنٹرول نہیں کریںگے تو چیزیں قرضوں پر چلتی رہیں گی،پاکستان بہت مضبوط ہے بہتر کرنے میں کردار ادا کرناہوگا۔

دنیا: جنیوا کانفرنس میں امداد ملنے کی باتیں ہورہی ہیں کیا ہم دوبارہ قرضوںمیںنہیں پھنس رہے ؟

 ماہین سلمان : دنیا اس و قت تک کچھ نہیں کرسکتی جب تک ہم نہ چاہیں۔آج طلباء او رنوجوانوں میں بہت آگہی ہے جو حوصلہ افزاء بات ہے۔ 

دنیا میں کہیں سے بھی امداد آجائے عوام پر خرچ نہیں ہوگی۔ حکومت ایسے منصوبے بناکر دے گی جس کی ابھی ضرورت نہ ہو۔ ہمیں تعلیمی سیکٹرمیں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ہمارے بچے تعلیم خاص طورپر ٹیکنیکل ایجوکیشن سے دور ہورہے ہیں۔انجینئرنگ کے طلباء میں بہت فاصلہ آرہا ہے جو ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔ پاکستان سے 8لاکھ ذہین طلباء جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے تھے معاشی حالات کی وجہ سے باہر لیبر کوٹے پر پلمبر اور کارپینٹر کیلئے چلے گئے جو ہماری قوم کے ساتھ بڑا المیہ ہے۔یہ بچے جو ملک میں ٹیکنالوجی اور ریسرچ پر کام کرسکتے تھے وہ باہرچلے گئے ۔معاہدوں کی پاسداری کی وجہ سے ہم باہر سے ٹیکنالوجی نہیں منگوا سکتے ۔فورم کے توسط سے آواز پہنچانا چاہوں گی کہ قوم فری ٹریڈ ایگری منٹ کے خلاف کھڑی ہوجائے ۔ مقامی ٹیکنالوجی اور پیداوارکو استعمال کریں، مقامی صنعت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔اس سے ملکی معیشت مضبو ط اور بے روزگاری ختم ہوگی۔اس کیلئے قوم اور تاجر کمیونٹی کو قربانی دینی ہوگی۔ درآمدی اشیاء کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔

جب تک ایسا نہیں کریںگے معیشت مستحکم نہیں ہوگی۔ہمارے پاس ٹیلنٹ اور ٹیکنالوجی کی کمی نہیں،جرمنی سے اچھا پرزہ بناسکتے ہیں لیکن پابندیوںکا سامنا ہے۔ اپنی گاڑی بھی نہیں بناسکتے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر چلانے کیلئے تعلیم اور ٹیکنیکل اسکلز کی ضرورت ہوتی ہے۔بھارت بائیلوجیکل پیسٹی سائڈ بنارہاہے ہم بھی بناسکتے ہیں لیکن پابندیوں کی وجہ سے نہیں بناسکتے ۔آگے بڑھنے کیلئے یہ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی۔ Be Pakistani By Pakistani۔جب اس جملے کو دل سے تسلیم کرلیںگے توہمارے کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔انجینئرنگ کے طلباء کال سینٹر میں کام کرتے ہیں جس سے دوسرے مایوس ہوتے ہیں ، طلباء اچھی ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے مختلف شعبوں میں کم تنخواہوں پر ملازمت کررہے ہیں ۔اس شعبے میں بہت فاصلہ آرہاہے ۔ روز بروزطلباء میں داخلوں کا رجحان کم ہوتاجارہا ہے۔تعلیمی اداروں کو انڈسٹری کے ساتھ لنکیج کرناہوگا، تاکہ انڈسٹری کی ضرورت کے مطابق قابل اور ہنر مند نوجوان دستیاب ہوں ۔انڈسٹری تعلیمی اداروں میں نہیں آئے گی ،تعلیمی اداروں میں جس پر ریسرچ ہورہی اس کے لیے متعلقہ انڈسٹری سے رابطہ کرکے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔تعلیمی ادارے انڈسٹری کی ضرورت بن جائیں ۔

دنیا: معیشت کی بہتری میں مقامی صنعت کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟

علی ارش خان :معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کیلئے بزنس کمیونٹی کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔کاروباری طبقے کو مضبوط ہونا ہوگا اور اداروں کو ساتھ بٹھا کر بات کرنی ہوگی۔ پاکستان ڈیفالٹ ہونے نہیں جارہا اس کو کیاجارہا ہے۔ ملک میں بد نیت لوگ قابض ہیں جو نوجوانوں کو بے وقوف بنارہے ہیں ۔سنجیدہ قیادت کا فقدان ہے۔سیاسی عدم استحکا م کی وجہ سے ملک غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار ہے۔ایک ٹیم میں اگر چار کیپٹن ہوں گے تو ٹیم کیسے چلے گی۔سب اپنے مفاد کی بات کرتے ہیں پاکستان کی کوئی بات نہیں کرتا،جب تک ان چیزوں کو اندر سے نہیں نکالیں گے ترقی نہیں کرسکتے۔ نوجوانوں کو خود کھڑا ہونا ہوگااور جدوجہد کرنی ہوگی ۔معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کیلئے متعلقہ ادارے تاجر برادری کے ساتھ بیٹھیں اور مسائل حل کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔فورم کے توسط سے تجاویز دینا چاہوں گا،تمام اسٹیک ہولڈرز کوملک کے سب سے مضبوط ادارے کے ساتھ بیٹھ کر چارٹر آف اکانومی پر دستخط کرائے جائیں۔حکومت آئے یا جائے معاہدے چلنے چا ہئیں۔ طویل مدتی پالیسی ہونی چاہیے،تیری اور میری باری کی ڈرامہ بازی ختم ہونی چاہیے،ہمارا مقصد ہے پاکستان کو ایک ہونا ہے۔ لسانیت سے نکلنا ہے ،سیاسی عدم استحکام کو ختم کرناہے۔

دنیا: معیشت کیسے مضبوط ہوسکتی ہے؟

سمیر یعقوب عباسی : دنیافورم کے پلیٹ فارم سے طلباء کو پیغام دینا چاہوں گا کہ اپنے مقاصد کو سامنے رکھیں۔پڑھائی کے ساتھ ملکی حالات پر بھی نظر رکھیں،ایسا نہ پڑھنا کہ کرنا کچھ ہے اور ہونا کچھ اور ہو۔ہر حال میں اپنی سمت کو ترجیح دینی ہے،عام طور پر طلباء کے ذہنوں میں ہوتا ہے کہ اچھی ملازمت کرنی ہے۔سوچیں لیکن ہمیں نوکری ڈھونڈنے والا نہیں، نوکری دینے والا بنناہوگا تو آگے بڑھ سکتے ہیں۔ہمیں ان حالات میں حل نکالناہے گھبرانا نہیں ہے،ہمیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوناہے۔ملک میں بہت کچھ ہے ،بس بہتر استعمال کی ضرورت ہے۔

دنیا: 7 لاکھ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان یورپ لیبر کوٹے پر گئے کیا ہمارا یہ اقدام صحیح ہے؟

 ستائش عاصم :ملک میں اچھی ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر طلباء دیگر ممالک میں مزدور کے کوٹے پر نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔حالات کے پیش نظر بچے یورپ جاتے ہیں تاکہ ان کے معاشی حالات بہتر ہوجائیں۔انجینئرنگ کے طلباء روزگارنہ ملنیء پر اپنے شعبے سے الگ ملازمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آئی سی ایم اے پاکستان میں بچوں کو پڑھائی کے ساتھ باصلاحیت اور مہارت بھی دیتا ہے تاکہ باہر جاکر روزگار میں آسانی ہو اور ملک میں زرمبادلہ بھی آئے گا۔ ادارے سے اسی ماہ 5 بچے سعودیہ ،2 دبئی ،2 جنوبی افریقہ اور ایک اومان گئے ہیں۔ہم ان چیزوں کو مثبت بھی لے سکتے ہیں۔ ادارے کا سلوگن ہے کہ کوئی بھی بچہ آئی سی ایم اے سے دو تین پارٹ کلیئر کرلیتاہے تو اسے ایک ہفتے میں کہیں نہ کہیں ملازمت دلائیں ۔طلبا ء پڑھائی کے ساتھ سوفٹ اسکلز پر بھی توجہ دیں۔طلباء سے کہنا چاہوں گی کہ پڑھائی کے ساتھ اپنے وقت کو بامقصد ہنر اور اپنی صلاحیت بڑھانے پر لگائیں۔ملکی حالات بدلتے رہتے ہیں ،امید ہے حالات بہتری کی طرف جائیںگے،طلباء اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے کوشش کرتے رہیں 

طلبہ وطالبات کے سوالات اور تجاویز

دنیافورم میں سوال و جوابات کے سیشن میں ایڈیٹر فورم نے طلباء سے کہا کہ معیشت کی بہتری کیلئے کیا تجاویز ہوسکتیں ہیں ؟۔طالب علم محمد ذیشان نے کہا کہ حکومت کا دیگر شعبوں کی نسبت تعلیم پر بجٹ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جس سے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرنے کیلئے حکومت کو تعلیم کو ترجیح اول بناناہوگا تب ہی ہم معاشی استحکام لاسکتے ہیں۔طالب علم حذیفہ نے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام واقعی اچھا ہے تو ہمارے لیڈر اچھے کیوں نہیں آرہے ؟۔رجبی انڈسٹری کے ڈائریکٹر مسعود نقی نے کہا کہ بغیر سوچے سمجھے کسی ایک جھنڈے کو ووٹ دے دینا ملک سے محبت نہیں۔ملک کے ساتھ کیا کرنا اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔میرے زما نہ طالب علمی میں شہر میں پانی بجلی اور دیگر مسائل نہیں تھے جو آج ہیں۔جتنی آمدنی تھی اس میں گزارا ہوجاتا تھا۔لیکن آج مشکل نظر آرہا ہے۔ موجودہ حالات میں طلباء کو پڑھنے اور آگے نکلنے کیلئے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ملکی حالات بہتر کرنے کیلئے طلباء تجاویز دیں ہوسکتا آپ کی تجاویز سے ہم کسی بہتر حل کی طرف جاسکیں۔ایک شعر ہے ’’زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘،یہ بہت اہم بات ہے آپ لوگ تجاویز تو دیں۔

ملک میں تجارتی سرگرمیاں ختم ہوتی جارہی ہیں جو سوالیہ نشان ہے۔ اتنی کم ہوگئی ہیں کہ ایف بی آر کو ایڈوانس ٹیکسز کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ صنعتی انڈسٹری نے جنوری کے پیسے فروری میں دینے تھے وہ ایف بی آر نے دسمبر میںلے لئے۔حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر سے بھی قرضہ لے لیا۔کہنے کا مقصد ہے ہمار اکنٹرول اخرجات پر ختم ہوگیا ہے۔ ای سی سی او ر کابینہ کے فیصلے مسترد ہورہے ہیں۔پالیسیاں بنانے والوں کے فیصلے مسترد ہونے لگیں تو فیصلہ کہاں ہوگا؟ سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار ہے۔سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔ووٹ ڈالتے وقت سوچو تو صحیح کہ کیا کرنے جارہے ہو۔جذبات اور حقیقت دونوںکو الگ کرکے سوچو۔شروعات یہیں سے ہوگی ،کہنا بہت آسان ہے کہ ہمارے حکمران صحیح نہیں ہیں ،تبدیلی لانے کیلئے آپ کو شروعات اچھی کرنی ہوگی تب ہی ملک کے حالات بہتر ہوں گے، تعلیمی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔جن لوگوں کی غلامی توڑی تھی وہ ساری زندگی کیلئے اپنے نظام سے ہمیں غلام بناکر چلے گئے ہیں۔اس نظام سے باہر نہیںنکل سکتے۔ہمارے ذہنوں میں یہی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ،انجینئر بننا ہے ،ٹیکنیکل مہارت کی طرف نہیں جاتے۔

میری کمپنی میں خاتون ملازمت کیلئے آئی تھیں جنہوں نے بزنس منجمنٹ میں ماسٹرزکیا تھا لیکن وہی اس وقت کمپنی میں سب سے اچھی ڈیزائنر ہیں۔کچھ بننا ہے او ر معاشرے میں مقام بنا ناہے تو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے خود کو منوانا ہوگا۔پاکستان میں ٹیکسٹائل کے بعدانفارمیشن ٹیکنالوجی کاسیکٹر دوسرا بڑا سیکٹربننے جارہاہے،ہمیں اپنا دیکھنے کا انداز درست کرنا ہوگا تو خود اچھے لیڈر بن سکتے ہیں۔نظام میں تبدیلی بٹن دباکر نہیںہوگی ،تبدیلی آئے گی وقت لگے گا۔کاٹی کی سابق سینئر نائب صدر ماہین سلمان نے کہاکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن انسٹی ٹیوٹ سے وہ نصاب منظور کرائے جس میں مختلف کونسلز اور انسٹی ٹیوٹ کافیڈ بیک ہو،انجینئرنگ کورسز میں پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی ) کی تجاویز شامل نہ ہوں تو ایچ ای سی منظور نہ کرے ۔تعلیمی اداروں میں کورسز کو انڈسٹری کی ضرورت کے مطابق ایڈوانس کرنے ہوں گے،آج بچوں میں یہ سوال عام ہے کہ جو پڑھ کرنکلتے ہیں وہ کسی کام کا نہیں،ہمیں اس سوچ کوختم کرنے کی ضرورت ہے،ان چیزوں پرعمل کریںگے تو یہ منفی تاثر بھی ختم ہوجائے گا۔

معاشرے کو تبدیل کرنے کیلئے ملازمت لینے کی بجائے دینے کی طرف آؤ،دین اسلام میں بھی کاروبار کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے ،طلباء اور نوجوان کاروبار کی طرف آئیں،یہ نہ سوچین موقع ملے گاتوکاروبارکروں گا،مواقع خود نکالیں، موبائل کی صورت میں پوری گلوبل مارکیٹ آپ کے سامنے ہے۔کاٹی کے سابق چیئرمین دانش خان نے کہا کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا نوجوان ہمارے مستقبل ہیں،موبائل کو کام کی چیزوں کیلئے استعمال کریں ،آج پوری دنیا اس میں ہے،آپ اس کے مثبت استعمال سے بہت کچھ کرسکتے ہیں،زندگی میں سیرو تفریح بھی ضروری ہے لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے چیزوں کا مثبت استعمال کریں۔پاکستان زندہ باد۔پاکستان بزنس گروپ ایچ آرکمیٹی کے چیئرمین سمیریعقوب نے کہا کہ یونیورسٹی میں نوجوانوں اور طلباء کے لئے پروگرام بنارہے ہیں جس میں بتایا جائے گا کہ ان حالات میں کرناکیاہے؟،نوکری تلاش کرنے کے طریقے بتائے جائیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔