بااختیار میئر اور اداروں میں تعاون،کراچی کے مسائل کا حل

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :ماجد حسین لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء:انجینئر نجیب ہارون،چیئرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل اورایم این اے۔ انجینئر مختار اے شیخ ،وائس چیئرمین پی ای سی۔انجینئرمحمد آصف صدیقی،سابق چیئرمین انسٹیٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرز پاکستان۔انجینئر عبدالرحمن شیخ،سابق ڈائریکٹر پی ٹی سی ایل اوررکن گورننگ باڈی پی ای سی۔اعجاز الحق ،سابق جنرل منیجر کے الیکٹرک۔ایس ایم فرحان نعیم خان،رکن پی ای سی انرولمنٹ سب کمیٹی سندھ۔انجینئر ایم ایم طاہر مسعود،پی ای سی۔انجینئرسید راغب عباس شاہ،رکن گورننگ باڈی پی ای سی سندھ۔انجینئرمحسن علی خان،رکن گورننگ باڈی پی ای سی سندھ۔ محمد سلیم ،رکن گورننگ باڈی پی ای سی سندھ۔

 ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہے،انجینئرنجیب ہارون،اداروں میں ہم آہنگی کیلئے میئر کی زیرقیادت نگراں کمیٹی بنا ئیں،انجینئر مختار شیخ

اداروں میں کوئی رابطہ نہیں،ہر ادارہ اپنا کام چاہتا ہے،انجینئرعبدالرحمٰن،دنیا بھر میں شہرکے تمام ادارے میئر کے ماتحت ہوتے ہیں، انجینئرمحمد آصف صدیقی

 

 ترقیاتی کام کیلئے جدید سافٹ ویئر استعمال کیاجائے،اعجازالحق،بااختیار میئرہونے تک شہر کے مسائل حل نہیں ہوسکتے،انجینئرطاہر مسعود

 

موضوع: ’’کراچی کے انفرااسٹرکچر کیلئے اداروں کے درمیان تعاون کس طرح ممکن؟‘‘ 

 

دنیا: حکومتیں او ر سیاستدان تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن کراچی بہتر نہیں ہورہا کیوں؟

 انجینئر نجیب ہارون :کراچی انجن ہے جو پورے ملک کے ڈبوں او رمعیشت کو چلاتاہے۔شہر میں قدرتی طورپر بندرگار ہے، تمام صوبوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی میں آتے ہیں ۔لوگوں کو اپنے صوبے میں روزگار اور سہولتیں ملیں تو اپنا صوبہ کیوں چھوڑیں۔ سہولتیں فراہم کرنا سرکار کی ذمہ دار ی ہے،بدقسمتی سے کراچی کی آبادی کا صحیح تعین ہی نہیں ہورہا۔بنیاد ی مسئلہ مردم شماری کا صحیح نہ ہونا ہے،صحیح ہوگی تو سہولتیں اور حقوق ملیں گے۔ مسئلے کا ادراک ہونا اور حل نکالنے سے ہی مسائل حل ہوں گے۔ملک میں جی ڈی پی کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔بجٹ عوام کا پیسہ ہوتاہے جو سرکار اور ادارے صحیح استعمال نہیں کرتے۔پوری دنیا میں ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز بلدیاتی نظام کے تحت آتے ہیں۔ہم نے آنے والی نسلوں کیلئے نظام بہتر کرنا ہے اورریورس انجینئرنگ پرکام کرنا ہوگا۔

دنیا: آپکے خیال میں کراچی کی بہتری کیلئے کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں یا کیا کمی ہورہی ہے؟

انجینئر نجیب ہارون:دیکھیں !میں ایک مثال سے جواب دیتا ہوں ۔

دنیا بھر میں ہی بچوں کی پیدائش کا قدرتی عمل جاری ہے ان میں سے بہت سے بچے مر بھی جاتے ہیں لیکن سنگار پورمیں پیدائش کے بعد مرنے والے بچوں کی تعداد ہزار میں سے 2 ہے۔امریکا میں 6،یورپ میں 8سے 12 ہے جبکہ ہمارے ملک میں پیدائش کے بعد مرنے والے بچوں کی تعداد 66 ہے۔ان بچوں کو ہمارے سسٹم نے مار ا ہے جو غذااور سہولتیں نہ ملنے سے انتقال کرگئے۔ہمیں ذمہ دار ی لینی پڑے گی کہ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے بچے مررہے ہیں ۔ہمار ا نظام ان کو قتل کر دیتا ہے ۔ پوری دنیا میں پروجیکٹ بنتے ہیں،ہر پروجیکٹ کا کوئی وارث یا ذمہ دار ہوتاہے۔ ہمارے ہاں عوامی پیسوں سے بننے والے پراجیکٹس کا حال یتیموں کی طرح ہوتا ہے۔ ہمارے کئی پروجیکٹ غلطیوں کی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں ،آج جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پروجیکٹ میں جہاں بھی غلطی ہو فوری معلوم کی جاسکتی ہے۔بڑھتی کرپشن منصوبے تباہ کررہی ہے۔ دنیا بھرمیں جہاں بھی انفرااسٹرکچر بنتے ہیں اس کا پیسہ میونسپل بانڈ کی صورت میں بلدیات کے نظام سے آتاہے۔کوئی چیز کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، گوگل پر سرچ کریں اس نظام کے متعلق سب معلوم ہوجائیگا ۔دنیا بھرمیں بڑے بڑے پروجیکٹ کی فنڈنگ عوامی پیسے سے ہوتی ہے۔کسی بھی حکومت کے پاس انفرااسٹرکچر کھڑا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے سب پیسہ عوام سے ہی نکالا جاتاہے۔کراچی ایئر پورٹ کیسے بنا،حکومت کے پاس اس کیلئے پیسے نہیں تھے،باہر ممالک میں بہت پیسہ ہے جو آنے کیلئے تیار ہے وہ باہر سے پروپوزل اور ڈیزائن کے ساتھ فنڈز بھی لائے۔ایئر پورٹ بن گیا لیکن اس کی قیمت ٹیکس کی مد میں جو بھی سفر کرے گا وہ ادا کرے گا اور یہ ٹیکس ہماری نسلیں ادا کرتی رہیں گی ۔دیگرممالک میں ٹھیکیدار ایمانداری سے کام کرتا ہے اس کو معلوم ہے اگر غلط کام کیا تو جیل جاؤں گا۔ ہمارے ہاں ترقیاتی پروجیکٹس میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہے،جس کا دل چاہتا ہے وہ کام کرتا ہے،وائٹ کالر کرائم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے ا س میں کوئی نہیں پکڑا جاتا۔ہمیں اپنی نسلوں کیلئے درمندی سے چیزوں کو درست کر ناہے او ر ایک نظام بنانا ہے، ایٹم بم بنایا جس طرح بھی بنایا لیکن بنایا ہمارے پاس صلاحیتیں ہیں۔3 سال 8 مہینے اسمبلی میں رہا ،اب گیار ہ ماہ سے باہر ہوں،اسمبلی میں کبھی اپنا مائک نہیں کھولا ،22سال کی جدوجہد کے بعد اسمبلی پہنچا تھا، جب دیکھا یہاں کہنے سے کچھ نہیں ہورہا باہر آگیا۔ایک مرتبہ گیارہ منٹ تک پاکستانی انجینئرز کے کردار پر تقریر کی تھی۔آنے والے وقتوں میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کا کردار اہم ہوگا۔1976 کے ایکٹ میں یہ بات موجو د ہے کہ پی ای سی وفاقی حکومت کی تھنک ٹھنک ہے۔پی ای سی کو وفاقی حکومت کا دماغ بننا تھا،وفاقی وزراء سے کہتے ہیں پی ای سی کواہم مشاورت میں شامل کریں ۔ جدید ا تعلیم او ر جدید ٹیکنالوجی میں پی ای سی کو شامل کیا جائے اس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد قابل اور ذہین انجینئرز ہیں ۔یہ پاکستان کا پاور ہاؤس ہے،ان انجینئرز کو استعمال کیاجائے تو پاکستان غیر ترقیافتہ سے ترقی پذیر بنے گا اورترقی کی منازل طے کرتاہوا ترقی یافتہ بنے گا۔آ ج پاکستان کو فکرلاحق ہے کہ پاکستان کے لائق نوجوان نے انجینئر بننا بند کردیا ہے ،اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے تعلیمی اداروں میں جاکر آگہی اور اچھی ملازمت کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے، میڈیا بھی اہم کردار ادا کرسکتاہے،اس وقت پاکستان میں معاشی کورونا آیا ہوا ہے،اس کا حل انجینئرنگ ہے۔

دنیا:شہر ی اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے کیا وجہ ہے ؟

انجینئر مختار احمد شیخ : شہری اداروں کے درمیان کو آرڈی نیشن نہیں ہے۔کے الیکٹرک یا کوئی دوسراادارہ سڑک پرکام کررہاہوتاہے تو واٹربورڈ یادیگر اداروں کو معلوم نہیں ہوتا جس سے ان کا نظام تباہ ہوجاتاہے۔ادارے ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرتے جب تک سارے ادارے مل کر کام نہیں کریں گے شہر کی حالت بہتر نہیں ہوگی ۔دیگر ممالک میں ادارے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے کام کرتے ہیں یہاں لگتاہے شہر میں کوئی نظام نہیں ہم آہنگی نہ ہونے سے ترقیاتی کاموں میں منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ہر ادارہ اپنی مرضی سے کام کررہاہے۔کچھ عرصے قبل حیدرآباد کے ڈی سی او نے حکم جاری کیا جو ادارہ بھی کام کرے گاوہ سب اداروں کو آگاہ کرے پھرکام کرے ،اس روابط یا ہم آہنگی سے حیدرآباد میں باقاعدہ ایک نظا م سے کام ہوا۔ ترقیاتی کاموں کیلئے اسٹیرنگ کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام شعبوں کو نمائندوں کو شامل کیا جائے تاکہ ترقیاتی کام کے دوران شہریوں کو کم مشکلات ہوں اور سرکاری خزا نہ ضائع نہ ہو ۔ اسٹیرنگ کمیٹی کا سربراہ ضلع یا شہر کا میئر ہو جو چیزوں کو مانیٹر کرے۔ اس وقت سب سے زیادہ انڈس لنک پر کا م ہوا اوروقت پر ہواہے جس کی وجہ اسٹیرنگ کمیٹی کا سربراہ خود صدرتھے جو ذمہ داروں سے رابطے میں رہتے تھے۔اسٹیرنگ کمیٹی بنے اور ذمہ داری سے کام کرے توکوئی وجہ نہیں کہ مسائل حل نہ ہوں۔ وقت پر اورپورا بجٹ نہ ملنے سے بھی پروجیکٹ ادھورے رہ جاتے ہیں جس سے منصوبہ طویل اور لاگت میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوتاجاتاہے ، جب تک ہم ان چیزوں کو کنٹرول نہیں کریں گے شہر کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ 

دنیا: پی ای سی حکومتی سطح پر کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟

انجینئر مختار احمدشیخ: پاکستان انجینئرنگ کونسل حکومت پاکستان کا تھنک ٹھنک ہے۔جو تجاویز متعلقہ وزارت اور وزیراعظم پاکستان کو بھیجتے ہیں،کچھ عرصے قبل سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور حل کیلئے بھی تجاویز دی تھیں۔زمین میں پانی کی لائنوں پر پروپوزل دیا۔آج کل واٹر کنزرویشن پر کا م کررہے ہیں جس میں بارش کا پانی دیہات اور شہری علاقوں میں کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے اس پرکام کررہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی پر بھی کام ہورہاہے ۔کئی منصوبوں کی تجاویز دے رہے ہیں، اس کے بعد چیک اینڈبیلینس بھی کرتے ہیں۔ایسا نہیں ساری تجاویز ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جائیں کچھ تجاویز پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ ایک اور تجویز تھی کہ بارش کی صورت حال میں سیلاب کو اس علاقے میں موڑ دیا جائے جہاںپانی کی کمی ہے اس پر حکومت نے عمل بھی کیا تھا۔ حکومت ٹیکنیکل تجاویز کی نسبت سیاسی ترجیحات کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔حکومت کچھ منصوبوں میں پی ای سی سے مشاورت کرتی ہے، سڑکوں کی بہتری کے حوالے سے رپورٹ بھیج رہے ہیں ۔ پی ای سی باقاعدہ از خود ایکشن لیتے ہوئے حکومت کوتجاویز بھیجتی ہے۔

دنیا: شہر میں کئی ادارے اپنی مرضی سے کام کررہے ہیں کسی کے ماتحت نہیں کیا یہ صحیح ہے؟

انجینئر عبدالرحمٰن :شہر میں ہر ادارہ اپنا کام کرکے چلا جاتاہے کسی ادارے کو نہیں بتاتا، ان لوگوں کو پاکستان اور نہ ہی شہر کا مفاد عزیز ہوتاہے، انہیں کسی ادارے کے کام کی پرواہ نہیں ہوتی ۔اپنا پروجیکٹ جلد از جلد مکمل کرنا ہوتا ہے تاکہ سارافنڈز جلدی مل جائے۔مشرف کے دور میں کراچی کو دوبارہ بنانے کیلئے اچھا خاصہ فنڈ ملا تھا، اس وقت میں پی ٹی سی ایل میں ڈائریکٹر تھا،شہر میں بے تحاشہ کام ہوا تھا ۔ ترقیاتی کاموں میں بڑی پانی کی لائنیں ڈالی جارہی تھیں۔ ترقیاتی کاموں میں اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے سے زمین میں بچھے پی ٹی سی ایل کے ہزاروں کیبلز تباہ ہو گئے تھے ۔ 1200 لائنوں کے تانبے کے کیبلز تھے جس سے ہزاروں نمبرز چلتے تھے وہ سب تباہ ہوگئے ،صرف چند روز پہلے ایک خط آتاہے کہ اپنے کیبلز کو سنبھالو ہم یہ کام کرنے جا رہے ہیں۔کھدائی کے دوران کئی میلوں پر لمبے کیبلز نکالے اور چوری کیئے گئے جس سے پی ٹی سی ایل کو بہت نقصان ہوا۔ عوام کے ٹیلی فون نمبرز خراب ہوگئے فون نہیں کرپارہے تھے ۔جب سڑکیں بن گئی توہمارے پاس بھی فون کھولنے کا دباؤ ہوا، کیبلز ڈالنے کیلئے سڑکوں کی کٹائی کرنی تھی لیکن اجازت نہیں مل رہی تھی ۔پھر اداروں کے لوگوں کے سامنے روڈ کٹنگ کرکے کروڑوں روپے کے کیبلز دوبارہ ڈالے گئے او ر جو سڑک ایک ماہ پہلے تیار ہوئی تھی وہ بھی کٹنگ کی گئی ۔اداروں کی کو آرڈی نیشن نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے تباہ اور پریشانیوں کا سامنا ہوا۔دنیا فورم کے پلیٹ فارم سے بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل ریگولیٹری اتھارٹی ہے جو حکومت کو منصوبہ بندی میں مدد کر تی ہے ،پی ای سی کی میٹنگز میں ملک کی ترقی کیلئے کئی تجاویز بھی سامنے آتی ہیں جو حکومت کو بھی بھیجی جاتی ہیں ،حکومت کو چاہیے ادارے سے بھیجی گئی تجاویز پر عمل کرے۔ملک میں ون ونڈو آپریشن ہونا چاہیے،پی ای سی اس کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہے۔ حکومت میں بیٹھے فیصلے کرنے والوں میں انجینئرز نہ ہونے کے برابر ہیں۔

 انجینئر سید راغب عباس : اداروں میں بدا نتظامی اوروقت پرفنڈزنہ ملنے سے پراجیکٹس طویل ہو جاتے ہیں جس سے وقت اور لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اداروں کے ایک دوسرے سے عدم تعاون سے خامیاں بھی رہ جاتی ہیں۔ان کاموں کیلئے باقاعدہ اسٹیرنگ کمیٹی بنائی جائے جوتما م کام کی نگرانی کرے۔ پی ای سی نے پانی اور ماحولیات کی بہتری کیلئے حکومت کو تجاویز دیں ہیں اور اس پر کام کررہے ہیں۔

دنیا:جو نجی ادارے شہر کی ترقی میں کام کررہے ہیں حکومت ان کو شامل کیوں نہیں کرتی ؟

 انجینئر محمد آصف صدیقی : دنیاکے کئی ممالک میں جانے کا موقع ملا ،دنیابھر میں ہر شہر میں ایک میئر ہوتاہے جس میں تمام ادارے ا س کے ماتحت ہوتے ہیں ،سب ادارے میئر کو اعتماد میں لے کر کام کرتے ہیں ،کوئی ادارہ میئر کی اجازت کے بغیر کام نہیں کر سکتا،کسی ادارے کو کام کرناہوتا ہے تو میئر کو بتاتا ہے،میئر سب اداروں کے ساتھ مل کر میٹنگ کرتا ہے اس کے بعد منصوبہ بندی ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اداروں کوایک دوسرے کے کاموں کا علم تک نہیں ہوتا، منصوبے کی ڈرائنگ تک نہیں ہوتی جس سے اداروں کو معلوم ہوتا کہ کون سی کیبل کہاں ہے ،جس کے سبب لائنیں تباہ کردی جاتی ہیں پھر دوبارہ فنڈز لگا کر بنایا جاتاہے ۔دنیا بھر میں ترقیاتی کاموں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن بھی نقشوں کامعلوم ہوجاتاہے اور ہم ایک ایک لائن کامعلوم کرنے کیلئے پوری سڑک اورزمین میں بڑے بڑے گڑھے کھود دیتے ہیں۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا، یہاں سب کچھ تقسیم ہے ایک دوسرے سے کچھ نہیں کہہ سکتے ، کوئی پروجیکٹ شروع ہوتاہے تو ٹھیکیداروں سے کہا جاتاہے بغیر کچھ دیئے ٹینڈر نہیں ملے گا، حکومت منصوبوں پرپی ای سی سے مشاورت کرے ہم مدد کریں گے۔

دنیا: کے الیکٹرک کراچی کے مسائل حل کیوں نہیں کرپارہی کیا فنڈز کے مسائل ہیں؟

اعجاز الحق : مسائل وہیں آتے ہیں جہاں چیزیں زمین میں چھپی ہوتی ہیں،ہم آہنگی نہ ہونے سے ادارے اپنے پراجیکٹ کو مکمل کرنے کیلئے دوسرے ادارے کے کاموں کو تباہ کردیتے ہیں۔زمین کی کھدائی میں مشین کو اس طرح استعمال کیا جاتاہے جیسے موٹر سائیکل چلارہے ہوں ۔یہ کھدائی کے دوران سب چیزوں کو نکال دیتی ہے ،جس سے کیبلز کا نظام تباہ ہوجاتاہے،ادارے پہلے سے ہوم ورک نہیں کرتے ہیں جس کے نقصانات سامنے آرہے ہیں ،بعد میں یہی کام دوبارہ کرنا پڑتاہے ، فنڈ ز کے ساتھ وقت اور عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے،ان چیزوں کو بہتر کرنے کیلئے سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی،کسی بھی نظام کو چلانے کیلئے کوآرڈی نیشن کمیٹی کے ساتھ سینٹرل کمانڈ بھی ہونی چاہیے ۔ ترقیاتی کاموں کومکمل کرنے اور دیکھنے کیلئے جدید سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے اسکرین پر بھی کام کو مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔ پروجیکٹ میں تبدیلی بھی کرنی ہے تو سوفٹ ویئرکے ذریعے سب اداروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پروجیکٹ اس وقت کسی حالت میں ہے تاکہ بہتر حکمت کے تحت دیگر پروجیکٹ کو بھی مکمل کیا جائے،ان چیزوں پر عمل ہوجائے تو شہرکی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔

ایس ایم فرحان نعیم : ترقیاتی کام سے پہلے باقاعدہ خط کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے پھر بھی ادارے ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرتے اور نہ ہی اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں، ادارے غیر سنجیدہ ہیں ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیتے۔ کمپنی یا کنٹریکٹر کام شروع کرتاہے وہ تمام اداروں کو لیٹر جاری کردیتا ہے ، 52 سے زائد شعبوں کو اطلاع دی جاتی ہے ،پروجیکٹ شروع ہونے سے پہلے میٹنگ بھی کی جاتی ہے۔ایک پروجیکٹ میں سائٹ پر میٹنگ کی گئی ،تمام شعبوں کو اطلاع بھی دی گئی لیکن میٹنگ میں صرف دو شعبوں کے افراد شریک ہوئے، یہ سب کچھ بد انتظامی اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہورہاہے۔کو آرڈی نیشن کو بہتر کرنے کیلئے ہر ادارے کواپنے اندرانتظامی معاملات کو درست کرنے ہوں گے تب ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ بعض مرتبہ میٹنگز میں سرکاری اداروں کے ذمہ دار کسی کی پرواہ نہیں کرتے صرف خانہ پری کرتے ہیں۔ انہیں وہی کرنا ہوتاہے جو وہ چاہتے ہیں،جب تک ادارے اپنے اندر انتظامی معاملات درست نہیں کرینگے اداروں میں تعاون ممکن نہیں۔

دنیا:شہر کی ترقی میں کے ڈی اے او ر دیگراداروں نے بہت کام کئے اب وہ کردار نظر نہیں آرہا کیا وجہ ہے؟

انجینئر ایم طاہر مسعود: سینئربتاتے ہیں کے ڈی اے کے چیف انجینئر قاضی صاحب ہوتے تھے،اس وقت نارتھ ناظم آباد بن رہا تھا وہ خود سائٹ پرجاکر کام کو مانیٹرکرتے تھے۔اسی طرح قائد آباد پل بناتے وقت بھی سائٹ پرکھڑے ہوکر کام کرایا۔پہلے کورآرڈی نیشن او ر کمٹ منٹ پر بات ہوتی تھی، مشرف دورمیں ترقیاتی کاموں کو بہتر طریقے سے کرنے کیلئے باقاعدہ کوآرڈی نیشن سیل بنا یاگیا تھا جہاں اداروں کے درمیان تعاون ہوتا تھا او رکام صحیح سمت میں ہورہے تھے۔ا س کے بعد کام تو ہو الیکن ہر کام چار دن میں چاہیے اس پالیسی پر کام چلتا رہا ۔اس روش نے شہر کا بیڑا غرق کردیا۔اس وقت کراچی یونیورسٹی کی پوری سڑک کھدی ہوئی ہے،وہاں سے گزرنے میں تین سے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں،شہری ازیت کا شکار ہیں،کوئی کارروائی نہیں ہورہی ،لگتاہے شہر میں کوئی ادارہ موجود نہیں ،مسائل کے حل کیلئے کراچی کا میئر یا ایڈمنسٹریٹر ایک باڈی بنائے جو اختیار ات کے ساتھ کام کرے،فاروق ستار جب میئر تھے انہوں نے سڑک بنائی تھی جسے کے ڈی اے نے کام کی وجہ سے کھود دی تھی ،فاروق ستار نے سڑک کھودنے والوں کو جیل میں ڈلوادیا تھا کیوں کہ ان کے پاس اختیارات تھے۔جب تک اداروں میں کوآرڈی نیشن اور میئر کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے کراچی شہر کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مسائل کے حل کیلئے اسٹیئرنگ کمیٹی بنائی جائے جو میئر کی زیرنگرانی ہو۔

انجینئر محسن علی خان :اہم مسئلہ کراچی کوئی اپنا نہیں سمجھتا،جو سمجھے گا وہی کام کرائے گا۔شہرکے 40فیصد علاقے کنٹونمنٹ بورڈ کے پاس ہیں جو میئر کے اختیارمیںنہیں آتے، کراچی میں ترقیاتی کام بہترانداز میں کرنے کیلئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے،شہر کو ایک باڈی چلائے جو کمشنر یا میئر کے ماتحت ہو۔جب تک سارے ادارے ایک اتھارٹی کی چھت کے نیچے کام نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

انجینئرمحمد سلیم : مسائل حل نہ ہونے کی ایک وجہ اپنے شہر سے سنجیدہ او رمخلص نہ ہونا بھی ہے۔ہما رے پا س نظام موجود ہے،سمت بھی متعین ہے، بد قسمتی سے شہر کی ترقی کیلئے سنجیدگی او ر کمٹ منٹ کوئی نہیں کرتا،حیدر آباد واپڈامیں کافی عرصے خدمات انجام دیں ،اس وقت کمشنرآصف علی شاہ کے ساتھ کام کا موقع ملا ۔حیدر آبادمیں سڑکوں پر تجاوزات کی بھرمار اوز مین کے اندر لائنوں کاجنجال پورا تھا جہاں کام کرنا آسان نہیں تھا،انہوں نے اداروں کے ساتھ میٹنگ کی اور مشاورت سے کام شروع کئے او رذمہ داروں کو کام کیلئے پابند کیا۔اس وقت بجٹ پر باقاعدہ کام ہوتا نظر آیا ان کے دور میں کئی ترقیاتی کام ہوئے۔اس وقت چیک اینڈ بیلنس تھا۔انہوں نے ہرادارے کو ساتھ ملایا اور بہت اچھاکام ہوا۔کسی بھی شہر کی اتھارٹی کمشنر کے پاس ہوتو وہ اس کو بااختیار بناتاہے۔

کراچی شہرکی حالت ہر گزرتے دن بد سے بدتر ہو تی جارہی ہے،پانی ،بجلی اور گیس کے مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،سڑکیں تباہ حال ہیں،عوام کیلئے ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں،ترقیاتی کام کے نام پر سڑکیں مہینوں سے کھودکے رکھ دی گئی ہیں،ہر ادارہ اپنی ہی چوہدراہٹ میں مگن ہے،کسی کو کسی کے سامنے جواب دہی کا احساس نہیں،ہم نے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے دفتر میں پی ای سی کے تعاون سے دنیا فورم کا اہتمام کیاجس میں مختلف اداروں کے انجینئرز کے سامنے یہی سوال رکھا کہ آخر یہ شہر کیسے اور کب بہتر ہوگا؟دنیا فورم میں شریک پاکستانی انجینئرز اور سرکاری اداروں کے سابق عہدیداروں نے تجویز دی کہ تمام اداروں کے نمائندوں پر مشتمل کوآرڈی نیشن کمیٹی بنائی جائے تاکہ ترقیاتی کام کے دوران شہریوں کو کم مشکلات ہوں اور سرکاری خزا نہ ضائع نہ ہو۔پی ای سی کو تھینک ٹینک کی شکل دیتے ہوئے تجاویز پر عمل کیاجائے، جبکہ سب سے زیادہ زور شہر قائد کے بااختیار میئر پر دیاگیا۔شرکاء کا کہنا تھا کہ پورے شہر کا کنٹرول مختلف اداروں کے پاس ہونے سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پا رہا ، میئر بااختیار ہوگا تو وہ تمام اداروں کو دیکھ سکے گا جبکہ شہر 6 کنٹونمنٹ بورڈز میں بھی تقسیم ہے اس کو بھی ایک چھتری تلے لانے کی ضرورت ہے ۔ بہرحال ہم تو کوشش کررہے ہیں کہ دنیا فورم کے ذریعے ارباب اختیار تک تجاویز پہنچادیں ،ممکن ہے کبھی حکومت کو ہمارے بات پسند آجائے۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ شکریہ

مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی

برائے رابطہ: 

0092-3212699629،0092-3444473215

ای میل:

 mustafa.habib@dunya.com.pk

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔