چیٹ جی پی ٹی نقل مارنے والوں کا عالمی سہولت کار بن گیا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

نیویارک: (ویب ڈیسک) امریکی ہارورڈ یونیورسٹی کے محققوں کی تحقیق سے بڑا انکشاف سامنے آیا ہے۔

یونیورسٹی کے محققین کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں محقق اور طلبا و طالبات اپنے مقالہ جات اور امتحانی پیپروں کی تیاری میں chatgpt اور مصنوعی ذہانت کے دیگر سافٹ وئیرز سے بہت زیادہ مدد لینے لگے ہیں۔

پروف ریڈنگ تک تو معاملہ ٹھیک تھا مگر اب مقالوں کا بیشتر حصہ اے آئی تیار کرنے لگی۔

اس ابھرتے چلن کا اہم ترین منفی روپ یہ کہ نیٹ پر موجود جھوٹا، پست، غیر معیاری، جعلی اور شر انگیز مواد بھی مقالات اور امتحانی تیاری کا حصہ بننے لگا، اس لئے سائنس وٹکنالوجی کی دنیا میں سامنے آتے تحقیقی مقالوں میں غیر مستند مواد کثیر تعداد میں شامل ہو چکا ہے۔

سائنس دانوں نے اس رجحان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ chatgpt وغیرہ کی مدد سے تیارکردہ مقالہ جات مستند اور ٹھوس نہیں کہلائے جا سکتے۔

یہ عیاں ہے کہ chatgpt اور دیگر اے آئی پروگرام دنیا میں نقل مارنے والوں کیلئے سہولت کار بن چکے۔

ان کی وجہ سے محققوں اور طلبا وطالبات میں محنت و تحقیق کرنے کے بجائے نقل کرنے کا چلن بڑھے گا، ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیتیں کند ہوں گی اور کاہلی و تن آسانی غالب آئے گی، یہ بنی انسان کے مستقبل کیلئے اچھی خبر نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں