پاکستان نے بھی چین کو فالو کرنا شروع کر دیا
صدر وزیر خارجہ کے دورہ چین کو اس حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے چین کی اعلیٰ ظرفی ہے اس نے الزامات بھلا کر امریکہ کو مثبت جواب دیا
(تجزیہ: سلمان غنی) کورونا وائرس کے رجحان اور اسکے نتیجہ میں ہونیوالی تباہ کاریوں میں یہ اعزاز چین کو رہا ہے کہ اس نے نہ صرف اپنے ہاں کورونا وائرس کے سدباب کو بہت حد تک یقینی بنایا بلکہ اب وہ اپنے ہمسایہ ملک پاکستان میں اس وبا اوربلا پر قابو پانے کیلئے کٹس ، ماسک اورماہرین سمیت ضروری طبی اشیا کی فراہمی کیلئے سرگرم عمل ہے اور اس کی جانب سے اپنے تجربات کو پاکستان میں بروئے کار لا کر پاکستان سے بھی اس موذی وبا کے خاتمہ اور سدباب کیلئے سرگرم عمل ہے جس کے باعث حکومت اپوزیشن سمیت معاشرے کے عام طبقات چین کے اس جذبہ اور مشکل صورتحال میں اس کی مدد کو سراہتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا پاکستان چین کے تجربات پر گامزن ہو کر اس وبا پر قابو پا سکتا ہے ؟۔ چینی عوام کی طرح کیا پاکستانی قوم کے اندر وہ تحریک موجود ہے جو اس موذی وبا سے نجات پانے کیلئے ضروری ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ جیسی سپرپاور بھی چین کے حوالہ سے تمام تر تحفظات سے بالاتر ہو کر اس سے رابطہ اور تعاون کیلئے مجبور ہوگئی۔ اس حوالہ سے دو آرا نہیں کہ کورونا وائرس کا آغاز بھی چین کے صوبہ ووہان سے ہوا اور اس نے جلد چین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یہ اعزاز بھی چین کو حاصل ہے کہ اس نے کورونا وائرس کے حملہ کے جواب میں پسپائی اختیار کرنے کے بجائے اس کو پچھاڑنے کا عزم کیا اور چینی عوام میں جذبہ پیدا کر کے اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ چینی حکومت ،ریاست ،ماہرین اور عوام اس کیخلاف سرگرم ہوئے اور اب چین میں متاثرین کی تعداد بہت حد تک کم ہو گئی اور یہی طریقہ اس کی ہمسائیگی میں جنوبی کوریا نے اختیار کیا اور ٹیسٹ کی رفتار تیز کرتے ہوئے اس حوالہ سے نمایاں نتائج فراہم کئے ۔ ہانگ کانگ، سنگاپور میں بھی اب اس رجحان میں کمی آئی ہے لہٰذا چین نے اپنے ہاں ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد یہاں موجود پاکستانی سٹوڈنٹس کو یہاں زبردستی بھجوانے کے بجائے پاکستانی اپیل کو قبول کرتے ہوئے نہ صرف انہیں اپنے پاس رکھا بلکہ بارڈرز کی بندش کے باعث آج پاکستانی وزیراعظم عمران خان بڑے فخر سے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرین میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو چین سے آیا ہو۔ چین نے نہ صرف اپنے ہاں وائرس کے سدباب میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اسے پاکستان کی بھی فکر پڑ گئی اور پاکستان نے بھی چین کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کیلئے اسے فالو کرنا شروع کردیا۔ صدر عارف علوی’ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ چین کو اس حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ چین نے پاکستان میں کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے اپنے تجربات کی بنا پر پاکستان کیلئے عملاً اقدامات شروع کردیئے ، یہاں پہلے مرحلہ میں پچاس ہزار کٹس ،این 95ماسک کی بڑی کھیپ سمیت دیگر طبی سازوسامان 25 مارچ کو پاکستان کے سپرد کیا گیا اور اب جمعہ کے روز 56 ہزار کٹس اور این 95 ماسک سمیت دیگر سامان پھر کراچی پہنچ گیا۔ چین کے کورونا پر دسترس رکھنے والے ماہرین کی ٹیم بھی اسلام آباد پہنچ چکی ہے اور چینی سفارتخانہ یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی اس حوالہ سے ممکنہ مدد کریں گے ۔ مدد کا یہ سلسلہ خنجراب پاس کے ذریعہ بھی جاری ہے ۔ چین اس حوالہ سے کسی احساس کا ذکر کرنے کے بجائے مشکل کی اس صورتحال میں اپنی مدد کو اظہار یکجہتی کا ذریعہ قرار دے رہا ہے ۔ سازوسامان کے ساتھ ماہرین کی یہاں آمد اور یہاں کورونا سے نمٹنے کیلئے پاکستانی ڈاکٹرز کی تربیت اور معاونت کا عمل دورس نتائج کا حامل ہوگا کیونکہ یہ ماہرین خود اعلیٰ معیار کے تربیت یافتہ ہیں اور پاکستانی ماہرین کیلئے ان کی یہ تربیت بھی اسی معیار کی ہو گی ،لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں چین کا پاکستان کے حوالہ سے فراخدلی کا مظاہرہ اس کی پاکستان سے عظیم دوستی کا ثبوت ہے اور وہ جو کہا جاتا ہے کہ محبت اور نفرت دو طرفہ عمل ہوتا ہے اس بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس انداز میں چین ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو کر اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے تو اسی طرح پاکستانی قوم بھی چین اور چینی قوم کو اپنا دوست سمجھتی ہے اور اس بنیاد پر ایک چینی وزیراعظم نے پاکستانی پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ دور کے رشتہ دار سے قریب کا ہمسایہ بہتر ہوتا ہے اس لئے کہ ہمسایہ مشکل صورتحال میں پہلے مدد کیلئے پہنچتا ہے اور چین نے ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم ہمسایہ ہی نہیں بلکہ دل و جان سے پاکستان کا دوست ہے اور پاکستان کی حکومتیں ،ادارے اور سیاسی جماعتیں بھی ہمیشہ دوستی کے ناطے چین اور چینی قیادت کے کردار کو سراہتی نظر آتی ہیں اور آج کورونا سے نمٹنے کیلئے چین کے ماڈل کو ہی فالو کیا جا رہا ہے ۔ خصوصاً ان کی جانب سے چین میں ہونے والے لاک ڈاؤن اور اس دوران لوگوں کیلئے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے عمل کو اپنی مہم کی بنیاد بنایا گیا ہے اور اب اس مقصد کیلئے نوجوانوں کی ریلیف ٹائیگر فورس کے قیام کی بات کی گئی ہے ۔ نوجوانوں کی اہمیت و حیثیت اپنی جگہ، اگر اس حوالہ سے بلدیاتی اراکین کا کردار بحال کر کے انہیں یہ ذمہ داری سونپی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ متاثرین کا پتا زیادہ بہتر انداز میں لگا سکتے ہیں، لیکن اس میں ضروری ہوگا کہ اسی سپرٹ کو بروئے کار لایا جائے جس کی بنیاد پر چین نے کورونا کیخلاف کامیابی کے مراحل طے کئے مگر ایک وقت میں چین کے اندر کورونا وائرس کے انکشاف اور تباہ کاری پر دنیا کی سپرپاور امریکہ کورونا کو چائنہ وائرس قرار دیکر اس پر الزام تراشی کرتی نظر آ رہی تھی لیکن کورونا وائرس کی ابتدا کی جگہ پر ہی اس کے اختتام اور انجام کے عمل نے خود چین کے عالمی کردار کو بڑھایا ہے اور دنیا بھی اس حوالہ سے چین کی جانب دیکھ رہی ہے ۔ صدر ٹرمپ نے بالآخر چین کے تجربہ سے ہی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور چین کے صدر سے رابطہ کر کے ان سے مدد کی درخواست کی اور یہ چین کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ اس نے الزامات کو بھلا کر امریکہ کو مثبت جواب دیتے ہوئے مدد اور معاونت کا یقین دلایا اور مذکورہ ٹیلیفون گفتگو کو بھی بین الاقوامی سطح پر وائرس کے اثرات کے تدارک کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ چین کے ایک اور کردار کو بھی سراہا جانا ضروری ہے کہ جب چین کے اندر یہ وائرس اور اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوئے تو چین نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے موثر رابطہ کر کے انہیں بتایا کہ یہ وائرس سرگرم ہے ۔ اس کے اندر کی ساخت کیا ہے اس کی تباہ کاری سے بچنے کیلئے ابھی سے اس پر تحقیق شروع ہونی چاہئے ۔یہ جنوری کی ابتدا تھی جب عالمی ادارے صحت کو آگاہ کیا گیا تھا اور اب اس تحریک کی بنا پر دنیا بھر میں اس پر کام ہوا ہے ۔ تحقیقات ہو رہی ہیں اور اس کے سدباب کیلئے ویکسین کے تجربات سمیت دیگر ادویات پر کام شروع ہے ،لہٰذا یہ کریڈٹ چین کو جاتا ہے کہ اس نے اپنے ہاں جنم لینے والے اس وائرس کے سدباب کیلئے کردار ادا کیا اور کر رہا ہے ۔