ہر چنداس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے...

تحریر : مہروز علی خان


گزشتہ ماہ بھارتی فوج نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروف روزنامے ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے مختلف دفاتر پر چھاپے مارے اور ملازمین کو تفتیش کے نام پر کئی گھنٹے تک یرغمال رکھا اور حراساں کرتے رہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے ، اسی ماہ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے سری نگر میں نمائندے پرویز بخاری کے گھر پر بھارتی فوج نے دھاوا بول دیا اور انھیں ان کے اہل خانہ کے ساتھ کئی گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔یہ بس دو واقعات نہیں ہیں ، جب سے مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ہے کشمیری صحافی روز ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔

 

 

 

مودی جانتا تھا کہ اس کے ’’ہندتوا پریوار‘‘ کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے اور اس کے مظالم کی داستانیں اب آشکار ہونے کو ہیں۔ اس لیے بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد جب مقبوضہ جموں و کشمیر کو فوجی چھائونی میں تبدیل کیا تو سب سے پہلے اس نے کشمیری قلمکاروں کو اپنا ہدف بنایا تاکہ اس کی جرائم کے حوالے سے عالمی دنیا آگاہ نہ ہوسکے۔جب کشمیری میڈیا مودی مافیا کی زد پہ آیا تو جہاں بھارتی حکومت نے اہل قلم پر درندگی و ظلم کی انتہا کی وہیں کشمیری صحافیوں نے عزم و استقامت کی ایسی مثال پیش کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔  5اگست 2019 کو بھارت نے مخصوصی ہندو انتہاپسندی سوچ کے مطابق  مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ بند کیا تاکہ بین الاقوامی برادری سے ہر طرح کا رابطہ منقطع ہوجائے ۔ اس قدم سے بھارت کو ابتدائی طور پر یہ کامیابی ملی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھارتی مظالم دنیا کو فوری طور پر معلوم نہ ہوسکے۔ مگر بھارتی صحافیوں نے اس کا بھی حل نکالا ۔ ائیرپورٹس، سرکاری عمارتیں،ہسپتالوں اور دیگر ایسے مقامات جہاں انٹرنیٹ کو آن رکھنا بھارتی حکومت کی مجبوری تھی، ان مقامات سے سوشل میڈیا ہینڈل کیا گیاجس سے دنیا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی درندگی کے حوالے سے اطلاعات ملیں۔ اگرچہ بعد ازاں ہر مقام پر بھارت کی جانب سے انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کردیا گیا تھا مگر اس وقت صحافی برادری خبریں اور اطلاعات دینے کے حوالے سے مختلف طریقے اختیار کرچکی تھی۔ 

مودی حکومت نے جب دیکھا کہ کشمیری صحافیوں کو گرفتار کرنا ممکن نہیں ہے تو اس نے اپنی فوج کو براہ راست کشمیریوں صحافیوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کردئے ۔ ابتداء میں ہی برقی و اشاعتی میڈیا کے 113صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا جنھیں کچھ عرصے بعد بین الاقوامی دبائو پر رہا کردیا گیا۔ جب کشمیری صحافیوں نے بھارت کے تمام حربوں کو ناکام بنا دیا تو مودی حکومت نے صحافیوں کی زباں بندی کے لیے نئی پالیسی بنانے کا اعلان کردیا۔  بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں اور میڈیا کے لیے 50صفحات پر مبنی دستاویز جاری کی گئی جسے میڈیا کے حوالے سے نئی پالیسی کا نام دیا گیا۔ اس دستاویز کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ایکریڈیشن کارڈ کے لیے بھارتی ایجنسیوں اور سکیورٹی سرکلز سے کلیئرنس لینی ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کے مطابق اس قانون کے تحت حکومت پر تنقید کرنے اور بھارتی فوج کے مظالم کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں کو قابو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح دستاویز میں میڈیا اداروں کے مالکان، ایڈیٹرز اور دیگر ملازمین کے ماضی کے حوالے سے بھی چھان بین کی جائیگی اور اس طرح بھارتی حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو میڈیا میں کام کرنے سے روکنے اور انھیں بے روزگار کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے تاکہ بھارتی تسلط کے خلاف قلم اٹھانے کی سزا دی جاسکے۔ اس  پالیسی کے تحت حکومت اخبار، ٹی وی چینلز یا دیگر میڈیا میں شائع یا نشر ہونے والے مواد کی نگرانی کرے گی اور سرکاری حکام یہ فیصلہ کریں گے کہ فرضی خبر کون سی ہے اور سماج مخالف یا ملک مخالف رپورٹنگ کیا ہے۔ جو میڈیا تنظیمیں فرضی خبریں یا پھر ملک مخالف خبریں شائع کرنے کی مرتکب پائی جائیں گے ان کی رجسٹریشن ختم کر دی جائیگی، حکومت کے اشتہارات بند کر دیے جائیں گے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ پالیسی کے مطابق اگر کسی نے جعلی خبر نشر کی، یا بھارت کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں حکومت سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور ان سے خبروں سے متعلق معلومات شیئر کی جائیگی تاکہ وہ خبروں پر اپنا موقف پیش کرسکے کہ خبر منفی ہے یا مثبت۔صحافیوں کے ایکریڈیشن کے لیے بھی نئی پالیسی مرتب کی گئی ہے جس میں صحافی کا پورا بیک گراؤنڈ اور ماضی کی ان کی سرگرمیاں چیک کرنا شامل ہے۔ 

بین الاقوامی سطح پر ان بھارتی اقدامات کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے میں آیا جبکہ دنیا بھر میں صحافتی تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری ’’صحافی کش ‘‘ بھارتی پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں حقائق سے پردہ اٹھانے والوں صحافیوں پر دہشت گردی و غداری کے مقدمات کا اندراج معمول بن گیا ہے۔  مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کو خاموش رکھنے کے لیے ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کیے جارہے ہیں۔ ان کو معاشی و روزگار کے حوالے سے دھمکایا جارہاہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقامی میڈیا کے مطابق اب تک 17صحافیوں پر ریاست مخالف ہونے کا الزام لگا کر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 500سے زائد صحافیوں کو مختلف مواقع پر تفتیش کے لیے بلایا گیا ہے۔ بھارتی درندگی کے خلاف آواز اٹھانے پر 21 صحافی گزشتہ دو سال سے جیل میں ہیں جبکہ 341 صحافی اس عرصے کے دوران محدود وقت کے لیے گرفتار کرکے جیل بھیجے گئے اور پھر رہا کردئے گئے۔ سو سے زائد ایسے صحافی ہیں جنھیں خاموش نہ ہونے کی بنا پر بھارتی حکومت کی جانب سے اداروں پر دبائو ڈال کر ان کی نوکریوں سے برطرف کرایا گیا ہے۔ صحافیوں سمیت 30ہزار سے زائد نوجوان ایسے ہیں جن کا سوشل میڈیا پر گہرا اثر رسوخ تھا اور وہ مسلسل بھارتی مظالم کا بھانڈہ پھوڑ رہے تھے ، انھیں بھارتی سکیورٹی اداروں کی جانب سے تھانوں میں بلا کر حراساں کیا گیا  اور انھیں بھارت مخالف پروپیگنڈہ کرنے کے الزام میں غداری کے مقدمے میں نامزد کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان ہتھکنڈوں کے باوجود بھارت کی مودی حکومت کشمیری میڈیا کو پابند کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آج کشمیری صحافی بھارتی ہتھکنڈوں کو ناکام بناتے ہوئے ہر ممکن طریقے سے اپنی آواز قومی و بین الاقوامی فورمز پر پہنچا رہے ہیں۔ 

کشمیری کارٹونسٹ بھارتی فوج کے نرغے میں:23 سالہ کشمیری کارٹونسٹ انیس والا کے مطابق انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد پہلا خاکہ 15 اگست کو کشمیر والا اخبار میں اس وقت شائع کیا جب بھارت میں یوم آزادی منائی جا رہی تھی۔ ان کے مطابق ان کے اس اقدام پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں ملیں تاہم انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ مقبوضہ کشمیر میں صحافی پہلے ہی مشکلات سے دوچار تھے تاہم اب حکومت کی دھمکیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مقامی حکومت کی جانب سے اشتہارات ملنا بھی بند ہو گئے ہیں، جبکہ متعد صحافیوں کو دہشتگردی قانون کے تحت بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ بھارتی حکومت کی جانب سے مئی 2020 میں متعارف کرائے جانے والی نئی میڈیا پالیسی کے تحت کشمیر میں صحافیوں کی آزادی کو مزید دبانے کی کوشش کی گئی۔عالمی اداروں کے مطابق نئی میڈیا پالیسی کا مقصد بھارتی حکومت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں سنسر شپ اور صحافیوں پر ظلم و ستم کی اجازت دیتا ہے۔ اس دفعہ بھارتی حکومت جعلی خبروں اور ملک دشمن نظریے کو سامنے لائی ہے ، جس کے تحت کسی بھی کشمیری صحافی کی آسانی سے گرفتاری اوران کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ موجودہ وقت میں مقبوضہ کشمیر میں خاکہ نگاروں نے لاک ڈاؤن کے باعث انٹرنٹ سروس کی بندش کے باعث ڈاکٹروں کو ہسپتالوں میں پیش آنے والی مشکلات اور بھارتی حکومت کے کورونا وباء  کے دوران جاری ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے۔ رافیا رسول جو مقبوضہ کشمیر میں درجن بھر خاکہ نگاروں میں سے واحد خاتون خاکہ نگار ہیں نے اپنے خاکوں میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے وادی میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث ہونے والے سماجی اثرات کی اعکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ رافیا رسول نے دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں سکولوں کی بندش، ہسپتالوں کی حالتِ زار اور پھلوں کی صنعت کی تباہ کاری کو اپنے خاکوں کی مدد سے اگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کی نظربندی کرتے ہوئے ان کے راستوں میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں،جس کی سب سے بڑی مثال کشمیر میں انٹرنیٹ سروسز کی بندش شامل ہے، جس کے سبب مقبوضہ جموں و کشمیر کے صحافیوں کو اپنی آواز دنیا تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صحافیوں کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں رپورٹنگ کا کام قسطوں میں ہوتا ہے کیونکہ ذرائع مواصلات کی مکمل بندش ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے فوجیوں کے کریک ڈاؤن اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کے پیش نظر صحافی اکثر اوقات یو ایس بی ڈرائیو کے ذریعے معلومات کی ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقلی کر رہے ہیں جس کے باعث مقبوضہ وادی کے حقائق دنیا کے سامنے آنے میں ہفتے لگ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ صحافیوں کو کشمیر میں رپورٹنگ کرنے کیلئے ایک جگہ سے دوسرے جگہ جانا پرتا ہے جس میں ان کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھارتی فوج اکثر راستوں پر رکاٹیں لگا کر صحافیوں کو کشیدہ علاقوں میں جانے سے روکتی ہے جبکہ اکثر اوقات کوئی چیز فلم بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ اسی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کے کئی صحافی عالمی دنیا میں بیٹھے ہوئے یا پھر بھارت میں بیٹھ کر دنیا تک کشمیروں کی آواز پہنچانے میں مصروف ہیں۔گزشتہ سال اگست میں وادی کشمیر کی بہادر فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے مظالم پوری دنیا کو دکھانے پر اعلیٰ ترین صحافتی ایوارڈ پیٹر میکلر سے نوازا گیا۔26سالہ مسرت زہرا اس وقت بھی بھارتی قابض افواج کی جانب سے ریاست مخالفت سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ سب وہ حقائق ہیں جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے اظہارِ رائے پر رکاوٹیں لگنے کی نشاندہی کرتے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میںصحافیوں کے ساتھ ہونے والے حالیہ واقعات اور ماضی میں ہونے والے ظلم و ستم اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے، جس کے سبب وادی میں وقت کے ساتھ آزاد صحافت مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔