خیبر پختونخوا میں کورونا بے قابو

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا میں کورونا بے قابو ہوگیا ہے، بڑے تو بڑے ،بچے بھی متاثر ہورہے ہیں ۔کورونا کی پہلی اور دوسری لہر میں بچے قدرے محفوظ رہے تھے لیکن تیسری لہر نے پرانی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ 16 اضلاع میں کورونا کے پھیلائو کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ پشاور میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے جو24 ہے یہ شرح نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ ملک کے کئی شہروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

 صوابی میں 20 ،بونیر میں 18،مردان اور باجوڑ میں 13 ، ایبٹ میں7 ،نوشہرہ، ہری پوراور خیبرمیں6،6 ،اپردیر میں 8،کوہاٹ میں 9فیصد ہے ۔اس تشویشناک صورتحال کا ادراک صوبائی حکومت کو تاخیر سے ہوا ۔صوبائی حکومت سینیٹ انتخابات جیتنے کے بعد ’’ہنی مون‘‘ منانے میں مصروف تھی ،صوبائی وزراء جن کا کام حکومتی امور کو دیکھنا ہے وہ ویسے بھی پشاور سے زیادہ اسلام آباد میں پائے جاتے ہیں ۔یہ انتظامی غفلت ہی ہے جس کی وجہ سے کیسز کی مثبت شرح اس حد تک بڑھ گئی ہے ،بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر دیر آید درست آید کے پیش نظر زیادہ متاثرہ اضلاع میں سکول اور شادی ہالزبند کر دیئے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ چند ہفتے قبل کیاجاتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی ، پشاور کے تمام ہسپتال کورونا کے مریضوں سے بھر گئے ہیں اور بیڈز کم پڑ گئے ہیں ۔ صوبائی حکومت اب ان ہسپتالوں کی استعداد کار بڑھانے پر غور کررہی ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور دیگر بڑے ہسپتالوں میں بیڈز بڑھائے جارہے ہیں ،پشاور میں دفعہ 144نافذ کردی گئی ہے جس کے تحت کورونا ایس پیز پر عملدرآمد اور ماسک نہ پہننے والے افراد کو پولیس گرفتار کرسکے گی ۔مختلف تقریبات کا انعقاد اب بھی ہورہا ہے ڈی آئی خان میں بڑے پیمانے پر جیپ ریلی منعقد کی گئی جس میں صوبائی وزیرکی موجودگی میں کورونا ایس او پیز روند ڈالے گئے۔ تقاریب میں بعض وزیریا مشیر بمشکل ہی ماسک پہنے نظر آتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کی دیکھا دیکھی عوام بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ انتظامیہ بھی حکومتی احکامات پر تاحال عملدرآمد کروانے میں ناکام نظر آرہی ہے ۔ اپوزیشن نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جن کے جلسے جلوس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ۔پاکستان میں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آرہی ،ہر کوئی اپنی بولی بول رہا ہے مذہبی سیاسی جماعتیں جو اس موقع پر عوام کا ذہن اچھے طریقے سے بدل سکتی ہیں وہ خود بھی جلسے جلوس کررہی ہیں۔ اس وقت عوامی نمائندوں کو فرنٹ فٹ پر آنا ہوگا شہریوں میں ماسک سمیت دیگر حفاظتی تدابیر سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہوگا ۔کورونا ویکسین کی افادیت بیان کرنی ہوگی کورونا ویکسین بزرگ افراد کو لگانے کا عمل جاری ہے لیکن یہ سست روی کا شکار ہے۔

 خیبرٹیچنگ ہسپتال جیسے سانحہ سے بچنے کیلئے بھی محکمہ صحت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ بعض ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کی اطلاع ہے جس کو فوری طورپر پورا کرناہوگا ۔وزیراعلیٰ محمود خان کو اپنی ٹیم کو اس وقت متحرک کرنے کی ضرورت ہے یہی وقت ہے کہ عوامی نمائندے عوام سے لئے گئے ووٹ کا حق ادا کریں ،دوسری جانب وزیراعلیٰ محمود خان پر کابینہ میں توسیع کا دبائو بھی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ دو وفاقی وزراء اپنے پیاروں کو کابینہ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں لیکن گزشتہ روزدنیا نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ محمود خان نے ان افواہوں کی تردید کی ہے ۔ ذرائع کاکہناہے کہ وزیراعلیٰ پر یہ دبائو کافی عرصے سے موجود ہے ۔سابق سینئر وزیر عاطف خان کی کابینہ میں واپسی کا فیصلہ بھی نہیں ہوسکا ،عاطف خان واپس اپنے سٹیٹس اور قلمدان کی بحالی چاہتے ہیں۔

حالیہ چند سالوں میں خیبرپختونخوا کی معیشت کا کافی انحصار سیاحت سے ہونے والی آمدنی پر بھی رہا ہے، اگرچہ کورونا نے اس شعبے کو بھی کافی نقصان پہنچایاہے لیکن اب بھی شمالی علاقہ جات میں کورونا کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ سیاحوں کی آمدورفت جاری ہے تاہم ان کیلئے جو ایس او پیز بنائے گئے ہیں ان پر عملدرآمد ضروری ہے ،موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی ان علاقوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد پہنچ جاتی ہے، خوش قسمتی سے شمالی علاقہ جات میں کورونا کیسز کی مثبت شرح بھی کم ہے اگرسیاحوں نے حفاظت تدابیر پر عملدرآمد کیا تو نہ صرف ان علاقوں میں سیاحت برقرار رہے گی بلکہ اس مشکل وقت میں صوبائی حکومت کو اچھی خاصی آمدنی بھی ہوسکتی ہے ۔

بنوں میں چار نوجوانوں کی ہلاکت کا معاملہ بھی صوبائی حکومت نے برے طریقے سے ہینڈل کیا، جانی خیل قبیلے کے یہ چار نوجوان ایک ماہ قبل اغواء ہوئے تھے ،گزشتہ دنوں ان کی لاشیں ملی تھیں۔ جانی خیل شورش زدہ علاقہ ہے جہاں عسکریت پسندی کی وجہ سے آپریشن بھی ہو چکا ہے ،مقامی لوگوں کی جانب سے لاشوں کو سڑک پر رکھ کر احتجاج کیاگیا تاہم پانچ دن تک ضلعی انتظامیہ سمیت صوبائی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی ۔کسی بھی حکومتی نمائندے نے ورثاء سے بات چیت کرنے یا ان کا غم بانٹنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے یہ معاملہ بگڑ گیا۔ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ اس وقت کابینہ میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے وزیر اور مشیر بھی شامل ہیں جبکہ ان اضلاع سے کئی ارکان اسمبلی بھی ایوان کا حصہ ہیں ۔ لیکن ان میں سے کسی بھی وزیر یا مشیر نے متاثرین سے رابطہ نہیں کیا ۔اس آسان سے معاملے کو اتنا لٹکایاگیا کہ بعد میں سمیٹنا مشکل ہوگیا اور وزیر اعلیٰ محمود خان کو خود بنوں پہنچ کر جرگے سے بات چیت کرنا پڑی، اور ان کے تمام مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ متاثرین کا قاتلوں کی گرفتاری کے علاوہ ان کے مطالبات میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور روزگار کی فراہمی کے بھی ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔